بسم الله الرحمن الرحیم
تقلید کی تعریف کے سلسلے میں غیرمقلدین حضرات کا نہایت ہی احمقانہ مطالبہ اور اس کا مدلل جواب
تقلید کی تعریف میں موجودہ دور کے نہایت ہی احمق اورجاہل غیرمقلدین عوام ایک نیاءمطالبہ پیش کرتی ہے کہ ’’تقلید کی تعریف امام ابوحنیفہ رحمہ اﷲسے پیش کرو‘‘۔
تقلید کی تعریف امام ابوحنیفہ رحمہ اﷲسے ثابت کرنے کامطالبہ بالکل ایساہے جیسے کوئی منکرینِ حدیث (نام نہاد اہل قرآن) کسی منکرینِ فقہ(نام نہاد اہلحدیث) سے مطالبہ کرے کہ ’’حدیث کی تعریف رسول اﷲﷺ سے پیش کرو‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ ہم انہیں سب سے پہلے الزامی جواب دینگے تاکہ ناقص العقل اوراحمق لوگوں کا منہ بند ہوسکے، اس کے بعد تحقیقی جواب پیش کیاجائے گا، تاکہ سمجھدار اورصاحب فہم لوگ اس سے فائدہ اٹھاسکیں۔
الزامی جواب:
غیرمقلدین حضرات صبح شام بس ایک ہی نعرہ لگاتے ہیں کہ ہم صرف اﷲاوراس کے رسولﷺ کی اطاعت کرتےاورکسی کی تقلید نہیں کرتے۔ غیرمقلدین حضرات کے اس دعوے اور اصول کے تحت ہم ان سے چندمطالبات کرتے ہیں کہ:
کوئی غیرمقلد حدیث اورصحیح وضعیف حدیث کی تعریف رسول اﷲﷺسے تو کیاامام بخاریؒ اورامام مسلمؒ سے بھی ثابت نہیں کرسکتاجبکہ یہ سب کے سب امام بخاریؒ اورامام مسلمؒ کو علم حدیث میں امام مانتے ہیں توپھر ہم سےامام ابوحنیفہؒ کی بیان کردہ تقلید کی تعریف کا مطالبہ کیوں؟
اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ ’’جیسی دلیل کا تقاضہ تم ہم سے کرتے ہو، ویسی ہی دلیل تم ہمیں پیش کردو‘‘۔اوراگرویسی دلیل تم پیش نہیں کرسکتے توپھرہم سے ایسی دلیل کا تقاضہ کیوں کرتے ہو؟
یہ توتھاالزامی جواب جو ان لوگوں کے لئے ہے جن کے پاس نہ علم ہے اور نہ ہی عقل و شعور۔ اس کے بعد میں تحقیقی جواب پیش کرتاہوں تاکہ ہرعاقل وباشعورمسلمان جو تھوڑی بہت بھی سمجھ بوجھ رکھتاہے، وہ بآسانی میری اس بات کوسمجھ سکے۔
تحقیقی جواب:
دنیامیں ہرفن وشعبے کے ماہرین ہوتےہیں، جیساکہ علم طب (یعنی میڈیکل )کے ماہرین کوڈاکٹرکہاجاتاہے، علم طبیعات (یعنی فزکس)اورعلم کیمیا(یعنی کیمسٹری)کے ماہرین کوانجنیئراورسائنسدان کہاجاتاہے۔ اب اگرکوئی احمق شخص یہ مطالبہ کرے کہ کسی انجنیئروسائنسدان سے یااس کی کتاب سے طب کی تعریف بیان کرو، یاپھریہ کہے کہ کسی ڈاکٹر یااس کی کتاب سےطبیعات اورکیمیاکی تعریفات ثابت کروتوایساشخص دنیاکا احمق اوربے وقوف ترین شخص کہلائےگا۔ اس لئے کے طب کی تعریف ڈاکٹرہی بتاسکتاہے انجنیئراورسائنسدان نہیں کیونکہ وہ علم طب کے ماہرین نہیں ہیں، باکل ایسے ہی طبیعات اورکیمیاکی تعریفات انجنیئراورسائنسدان ہی بتاسکتے ہیں ڈاکٹرنہیں کیونکہ ڈاکٹراس شعبے کا ماہرنہیں ہے۔
بالکل ایسے ہی علم دین میں بھی مختلف شعبہ جات ہیں، جیساکہ علم تفسیر، علم حدیث، علم فقہ، علم اسماءالرجال، علم صرف ونحو، علم لغت۔ اب اگرکوئی احمق شخص یہ کہے کہ تفسیرکی تعریف امام بخاریؒ سے ثابت کرو، یاحدیث کی تعریف امام ابن کثیرؒ سے ثابت کرو، یاعلم فقہ کی تعریف امام یحییٰ ابن معینؒ سے پیش کرو، یاپھرعلم صرف ونحوکی تعریف امام ابوحنیفہؒ سے ثابت کرو، توایسا شخص بھی دنیاکااحمق اوربے وقوف ترین شخص ہی کہلائےگا۔ کیونکہ امام بخاریؒ علم حدیث کے امام ہیں علم تفسیرکے نہیں، امام ابن کثیرؒ علم تفسیرکے امام ہیں علم حدیث کے نہیں، امام یحییٰ ابن معینؒ علم اسماءالرجال میں امام ہیں علم فقہ میں نہیں، اسی طرح مشہورقول کے مطابق معاذبن مسلم الہراویؒ علم صرف ونحوکے امام ہیں علم لغت کےنہیں، لہٰذااگرکسی شخص کوتقلید کی تعریف معلوم کرنی ہوتواسے لغت کےاماموں کی طرف متوجہ ہونا پڑےگا۔
عہد نبوتﷺ اورخلافت راشدہ میں قرآنی الفاظ کی تفسیر اورغریب الحدیث کی شرح اورتوضیح کی بہت ضرورت تھی، لہٰذا ان میں ایسے عربی لغت دان موجود تھےجن سے یہ ضرورت پوری ہوجاتی تھی مثلاً: خلفاءاربعہ، حضرت زید بن ثابت، حضرت اُبی بن کعب، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابوالدرداء، اورنامور اسلامی شعراء مثلاً: حسان بن ثابت، عبداللہ بن رواحہ، کعب بن زہیروغیرھم رضی اللہ عنہم اجمعین۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲعنہ سےمروی ہے: ’’وأخرج أبو بكر بن الأنباري في كتاب الوقف عن طريق عِكْرِمة عن ابن عباس قال: إذا سألتم عن شيء من غريب القرآن فالتمسوه في الشعر، فإن الشعر ديوان العرب‘‘۔ ’’شعر عربوں کادیوان ہے۔ جب قرآن کےکسی لفظ کامفہوم ہمیں معلوم نہ ہوتاہم اشعار کی طرف رجوع کرتے، جب قرآن کی کوئی بات سمجھ نہ آئے توشعروں میں تلاش کیجئے، کیونکہ اشعار عربی زبان میں ہیں‘‘۔ (اعراب القرآن الکریم وبیانہ: ج۴، ص۲۵۰، سورۃ النحل [۴۷-۴۳])
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲعنہ لغت میں بہت مہارت رکھتےتھے۔ وہ عربی نوادرات ومفرادات اور امثال وغیرہ سےبخوبی واقف تھےاوراسی مہارت کی بنیاد پرو ہ کلمات کی لغوی تشرح کرتے، ایک مرتبہ نافع بن ازرق اورنجدہ بن عویمر نےحضرت ابن عباس رضی اﷲعنہ سےتفسیری مسائل دریافت کرنےکےلئےیہ شرط لگائی کہ ہرکلمہ کامفہوم عربی اشعارکی مدد سے واضح کریں توآپ نے یہ شرط پوری کردی۔گویا ابن عباس رضی اﷲعنہ اپنے عہد کی چلتی پھرتی کتاب لغت تھے تاہم لغت نگاری کےبانی مبانی حضرت ابن عباس رضی اﷲعنہ ہی ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اﷲعنہ کےبعد ابان بن تغلب نےعربی لغت نویسی کی طرف خصوصی توجہ کی اور پھر ابوعبدالرحمٰن البصری الفراہیدیؒ(المتوفی ۱۷۰ھ)نےفن لغت میں پہلی شہر ہ آفاق کتاب’’کتاب العین‘‘کےنام سے لکھی جوکہ ایسی مایہ ناز تصنیف ہےجسے اصطلاحاً ’’عربی ڈکشنری‘‘کہا جاتا ہے۔ وہ اپنے اسلوب میں پہلےشخص تھےجس نےبغیر کسی کی تقلید کیئے اس فن کاآغاز کیا۔ اسی لئے انہیں عربی لغت کاپہلاامام کہاجاتاہے، آپ ابوعمروبن العلاء کےشاگرد اورمشہور نحوی سیبویہ کےاستاد تھے، انتہائی ذہین، فطین، عابد،مجاہد تھے۔ ان کے بعد خلف الاحمر(المتوفی ۱۸۰ھ)، الکسائی (المتوفی ۱۸۹ھ)، ابن درید (المتوفی ۳۲۱ھ) جیسے لوگ شامل اس فن میں شامل ہوئے۔
ابونصر اسماعیل بن حماد الجوہریؒ (المتوفی۴۰۰ھ) جوکہ ترکستان کے باشندے تھے۔ انہوں نے فن لغت میں ’’الصحاح فی اللغۃ‘‘ نامی کتاب لکھ کرایسا کارنامہ انجام دیاجسے علماء کرام نے بہت پسند کیا۔ چنانچہ ثعلبیؒ کہتے ہیں: ’’الصحا ح، ابن درید کی الجمہرۃ فی اللغۃ اورابن فارس کی المجمل سےزیادہ بہترہے‘‘۔
علامہ جلال الدین سیوطی کہتےہیں: ’’اولین لغت نویس جس نے لغت کی کتاب میں صحت کا التزام کیاوہ الجوہری ہے۔صحاح کولغتت کتب میں وہی درجہ حاصل ہےجوصحیح بخاری کوکتب حدیث میں ہے‘‘۔
ابونصر اسماعیل بن حماد الجوہری ؒکی اس کتاب کوعلماء نےہرزمانہ میں پسند کیا کیونکہ موصوف نےاس کتاب کو جدید اورآسان اسلوب میں مرتب کیا، اس کےقبول عام کی سب سےبڑی دلیل یہ ہےکہ کتب لغت میں جتنا اس کےساتھ اعتناء کیاگیا، شاید اتنا کسی اور کےساتھ نہیں کیاگیا مثلاً محمدبن ابی بکر بن عبادالقادرالرازیؒ (المتوفی ۶۶۰ھ) نے مختارالصحاح کےنام سے اس کاخلاصہ تیار کیا۔
اس کے بعد علامہ مجدالدین ابوطاہر محمدبن یعقوب الفیروز آبادیؒ (المتوفی۸۱۶ھ) نے القاموس کے نام سے ایک اورعظیم الشان کتاب لکھی جس نےلغت نویسی کی تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی، ا س کی مقبولیت کااندازہ اس بات سےلگایا جاسکتاہےکہ مشہور عالم مرتضیٰ حسین الزبیدیؒ نے’’تاج العروس من جواہرالقاموس‘‘کےنام سے اس کی شرح لکھ کرکتب لغت میں ایک غظیم اضافہ کیا، یہ بھی مکمل طورپرچھپ چکی ہے، اورالقاموس الجدیدکےنام سے اردو تراجم بھی کئے جاچکے ہیں۔
ذیل میں ہم تقلیدکے معنیٰ ومفہوم اورتعریف کوثابت کرنے کے لئے ان ہی کتابوں سے دلائل اورحوالہ جات پیش کریں گے، جن کو علماءوصلحا میں مقبولیت اورمقام حاصل ہے اورائمہ کرام ہردورمیں ان ہی کتب لغت سے استفادہ حاصل کرتے رہے ہیں۔
تقلید کا مادہ "قلادہ" ہے، باب تفعیل سے "قلد قلادۃ" کے معنیٰ ہار پہننے کے ہیں۔ حضرت امام محمدبن اسمٰعیل البخاریؒ (متوفی ۲۵۶ھ) نے صحیح بخاری میں القلائداوراستعارۃ القلائدکے مستقل ابواب قائم کیئے ہیں جن میں ہارپہنے اورضرورت کے وقت عورتوں کاایک دوسرے سے ہار مانگنے کاتذکرہ ہے؛ چنانچہ خود حدیث میں بھی "قلادہ" کا لفظ "ہار" کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔
’’حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ أَنَّهَا اسْتَعَارَتْ مِنْ أَسْمَاءَ قِلاَدَةً، فَهَلَكَتْ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَاسًا مِنْ أَصْحَابِهِ فِي طَلَبِهَا، فَأَدْرَكَتْهُمُ الصَّلاَةُ فَصَلَّوْا بِغَيْرِ وُضُوءٍ، فَلَمَّا أَتَوُا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم شَكَوْا ذَلِكَ إِلَيْهِ، فَنَزَلَتْ آيَةُ التَّيَمُّمِ. فَقَالَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ جَزَاكِ اللَّهُ خَيْرًا، فَوَاللَّهِ مَا نَزَلَ بِكِ أَمْرٌ قَطُّ، إِلاَّ جَعَلَ لَكِ مِنْهُ مَخْرَجًا، وَجُعِلَ لِلْمُسْلِمِينَ فِيهِ بَرَكَةٌ‘‘۔ ’’مجھ سے عبید بن اسمعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہانہوں نے (اپنی بہن) حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے ایک ہار عاریۃ ًلے لیا تھا، راستے میں وہ گم ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ میں سے کچھ آدمیوں کو اسے تلاش کرنے کے لئے بھیجا۔ تلاش کرتے ہوئے نماز کا وقت ہو گیا (اور پانی نہیں تھا) اس لئے انہوں نے وضو کے بغیر نماز پڑھی۔ پھر جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس ہوئے تو آپ کے سامنے یہ شکوہ کیا۔ اس پر تیمم کی آیت نازل ہوئی۔ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے عائشہ ! اللہ تمہیں بہتر بدلہ دے، واللہ ! جب بھی آپ پر کوئی مشکل آن پڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے تم سے اسے دور کیا اور مزید برآ ں یہ کہ مسلمانوں کے لئے برکت اور بھلائی ہوئی‘‘۔ (صحیح البخاری: كِتَاب النِّكَاحِ، بَاب اِسْتِعَارَةِ الثِّيَابِ لِلْعَرُوسِ وَغَيْرِهَا، رقم الحدیث ۴۷۶۶، شامله، موقع الإسلام)
’’حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ شِنْظِيرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ "طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ وَوَاضِعُ الْعِلْمِ عِنْدَ غَيْرِ أَهْلِهِ كَمُقَلِّدِ الْخَنَازِيرِ الْجَوْهَرَ وَاللُّؤْلُؤَ وَالذَّهَبَ"‘‘۔ ’’حضرت انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علم حاصل کرنا ہر مسلمان مردو عورت پر فرض ہے؛ اور نااہل (بےقدر) لوگوں کے سامنے علم پیش کرنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے جوسؤر کے گلے میں جواہرات، موتی اورسونےکےہار ڈالے‘‘۔ (سنن ابن ماجه: ج۱، کتاب السنۃ، أَبْوَابُ فِی فَضَائِلِ أَصَحَابِ رَسُولِ اللَّهِ، رقم الحدیث۲۲۴)
مندرجہ بالا حدیث سے اس بات کی دلیل ملتی ہے کہ ’’مقلد‘‘ کے معنیٰ ہار پہننے والے کے ہیں اور ساتھ ہی یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتاہے کہ یہ ہار خنزیروں کےگلے میں ڈالنے لائق نہیں ہوتا کیونکہ خنزیروں کو اس کی قدروقیمت معلوم نہیں ہوتی۔ ہم تو الحمداﷲخنزیرنہیں ہیں کیونکہ ہم نے تو یہ ہار خوشی سے پہنا ہواہے، لیکن جولوگ اس ہار کے پہننے کا انکار کرتے ہیں، ان بے قدرلوگوں کواس کی قدرمعلوم نہیں۔
۵۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ بھی فضائل وغیرہ میں ضعیف احادیث پر عمل کے مسئلہ میں فرماتے ہیں: ’’قال شيخ الإسلام رحمه الله: قول أحمد بن حنبل: إذا جاء الحلال والحرام شددنا في الأسانيد، وإذا جاء الترغيب والترهيب تساهلنا في الأسانيد، وكذلك ما عليه العلماء من العمل بالحديث الضعيف في فضائل الأعمال‘‘۔ ’’شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ، امام احمدؒ کا قول نقل کرتے فرماتے ہیں کہ: جب حلال و حرام کی بات آئےگی تو اسانید (سندوں) کی جانچ پرکھ میں سختی سے کام لیں گے، اور جب ترغیب (نیکی کا شوق دلانے) اور ترہیب (برائی کا خوف دلانے) کی بات آئےگی تو ہم اسانید میں تساہل (نرمی) برتینگے، اسی طرح فضائل اعمال میں جس ضعیف حدیث کے عمل کرنے پر علماء ہیں‘‘۔ (مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ: ج۱۸، ص۶۵)
۱۲۔ مزید دلائل اور حوالہ جات کے لئے غیرمقلدعالم ابومحمد بدیع الدین شاہ راشدی کی کتاب مقالات راشدہ جلد نمبر۲کے صفحہ نمبر۳۴۸ سے ۳۵۵ تک کامطالعہ فرمائیں۔
اس طرح فرقہ غیرمقلدین کے مترجم جناب وحیدالزمان صدیقی اپنی حدیث کی لغت کی کتاب میں لکھتے ہیں: ’’اَیُّمَا اِمْرَأۃء تَقَلَّدَتْ قَلَادَۃً‘‘۔ ’’جوعورت سونے کاہارپہنے‘‘۔ (لغات الحدیث: ج۲، ص۳۶)
علم لغت کے مشہورشیخ الامام علامہ محمد بن أبی بكر بن عبد القادر الرازی (متوفی ۶۶۰ھ) لکھتے ہیں: ’’(الْقِلَادَةُ) الَّتِي فِي الْعُنُقِ وَ (قَلَّدَهُ فَتَقَلَّدَ) وَمِنْهُ (التَّقْلِيدُ) فِي الدِّينِ وَتَقْلِيدُ الْوُلَاةِ الْأَعْمَالَ‘‘۔ ’’(الْقِلَادَةُ) ہار۔ جوگلے میں پہناجاتاہے۔ (قَلَّدَهُ فَتَقَلَّدَ): اس نے اسے ہار پہنایاتو اس نے پہن لیا۔ اسی سے لفظ تَّقْلِيدُ مشتق ہے۔ یعنی التَّقْلِيدُ فِي الدِّينِ: دین میں کسی شخص کی پیروی‘‘۔ (مختارالصحاح: ص ۴۸۲عربی؛ص ۷۵۸ اردو)
غیرمقلدین کے ہاں ’’قلاوۃ‘‘ کےمعنیٰ صرف پٹا ہی ہوگا۔ معاذ اللہ کیونکہ ان کے ہاں تقلید کا بس یہی ایک معنیٰ ہے۔
یہ عبارت تقلیداور اتّباع کے ایک ہونے پرصراحت سے دال ہےاور اس میں لفظ الدلیل پرلام عہد کے لئے ہے یعنی وہ خاص دلیل جس کو مجتہد نے پیش نظر رکھ کراجتہاد کیاہےاور ’’من غیرنظرالیٰ الدلیل‘‘ اور ’’من غیرتامل فی الدلیل‘‘ اور ’’من غیرمطالبۃ الدلیل‘‘ میں اسی خاص دلیل کی طرف اشارہ ہے اس دلیل سے وہ دلیل مراد نہیں جو مقلد اپنی طرف سے کبھی پیش کردیتا ہے۔
۴۔ حضرت مولانارشیداحمد گنگوہیؒ فرماتے ہیں: ’’اوراتباع وتقلیدکے معنیٰ واحد ہیں‘‘۔ (سبیل الرشاد: ص۳۲)
تقلید کی تعریف میں اہل لغت نے لفظ اتّباعِ غیربلادلیل ہی بیان کیا ہے جیسا کہ تعریفات سے ظاہر ہے ، اگر تقلیداور اتباع میں فرق ہوتا تو اہل لغت تقلید کی تعریف اتباع سے کبھی نہ کرتے۔
آگے لکھتے ہیں: ’’امام الحرمین نے کہاہے کہ اسی قول مشہورپربڑےبڑےاصولی ہیں اورغزالی اورآمدی اورابن حاجب نے کہاکہ رجوع کرناآنحضرتﷺاوراجماع اورمفتی اورگواہوں کی طرف اگرتقلیدقراردیاجائے توکچھ ہرج نہیں۔ پس ثابت ہواکہ آنحضرتﷺکی پیروی کواورمجتہدین کی اتباع کوتقلید کہناجائزہے‘‘۔ (معیار الحق: ص ۷۳)
غیرمقلد عالم کی زبانی اس مفصل عبارت سے چند اہم نکات واضح ہوتے ہیں جن سے درج ذیل فوائد ثابت ہوتے ہیں:
امام ابن القیم الجوزیؒ لکھتے ہیں: ’’قال الشافعی فی مواضع من الحجج قلتہ تقلید لعطاء‘‘۔ ’’حضرت امام شافعی نے بہت سے مقامات پرکہاہے کہ میں نے حضرت عطاء کی تقلید میں ایساکہاہے‘‘۔ (عصرہ ومنہجہ وآراؤہ فی الفقہ والعقائدوالتصوف: ص۱۰۷)
امام شعبیؒ، امام محمد بن سیرینؒ، امام ابوحنیفہؒ، امام شافعیؒ، اورامام احمدبن حنبلؒ وغیرہ تمام مجتہدہیں مگرحسن ظنی کایہ عالم ہے کہ امام احمدبن حنبلؒ امام شافعیؒ کے قول کو ایک مستقل حجت سمجھتے ہیں۔ اورامام شافعیؒ نے تو صاف کہہ دیا کہ ’’میں نے حضرت عطاء کی تقلید میں ایساکہاہے‘‘۔
اسکا مطلب یہ تمام مجتہدین حضرات تقلیدکاارتکاب کرتےہیں تواس سے معلوم ہواکہ مجتہدکوبھی بعض مسائل میں اپنے بڑوں اورپچھلوں کی تقلیدمضرنہیں۔ توپھرغیرعالم اورغیرمجتہدکے لئے تقلیدمضرکیسے ہوسکتی ہے۔
اب ہم ایک اوردلیل مخالفین کے گھر سے بھی دیئے دیتے ہیں تاکہ انہیں سمجھنے میں کسی قسم کا شبہ باقی نہ رہے۔
مشہورغیرمقلد عالم نواب صدیق حسن خان صاحبؒ نے تویہاں تک معاملہ صاف کردیاکہ لکھتے ہیں: ’’فلا تجد احد امّن الا ئمۃ اِلّا و ھو مُقلد من ھو اعلم منہ فی بعض الاحکام‘‘۔ ’’تم حضرات ائمہ کرامؒ میں سےکسی ایک کوبھی نہیں پاسکتے کہ وہ بعض مسائل میں اپنے سےکسی بڑے عالم کی تقلیدنہ کرتاہو‘‘۔ (الجنۃ: ص۶۸)
حضرت شاہ ولی اﷲمحدث دہلویؒ لکھتے ہیں کہ: ’’هذا ما وفقني ﷲ له من تدوين مذهب الخليفة الاواب الناطق بالصدق والصواب أمير الـمؤمنين عمر بن الخطاب رضیﷲ تعالى عنه وأرضاه والـمذاهب الأربعة منه بمنزلة الشروح من الـمتون والـمجتهدين الـمنتسبين من الـمجتهد الـمستقل والله هو الـمؤفق والـمعين‘‘۔ ’’امیرالمومنین عمربن الخطاب رضی اﷲعنہ وارضاءکے مذاہب کی تدوین کے بارے میں ہے اورچاروں مذہب (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) اس کے مقابلہ پرمتون کی شروح کے مرتبہ میں ہیں‘‘۔ (إزالة الخفاء عن خلافة الخلفاء: ج۳، ص۳۰۸)
قارئین کرام کوان حوالوں سے اچھی طرح معلوم ہوچکاہوگاکہ ان ائمہ مجتہدین وبزرگان دین نے جن میں جلیل القدرحضرات صحابہ کرامؓ، تابعینؒ اورائمہ مجتہدین بھی شامل ہیں، محض عقیدت اورحسن ظنی کی بناءپردوسروں پراعتماداوربھروسہ کرتےہوئےان کی تقلیدکی۔ اوریہی تقلیدکااصل معنیٰ ہےکہ کسی کی ذات اورہستی پرحسن ظنی کرتے ہوئے اسی کے قول کوتسلیم کرلیاجائےاوردلیل طلب نہ کی جائے۔ گونفس الامرمیں دلیل موجودبھی ہومگرظاہری طورپران کی شخصیت کے بغیرکوئی اوردلیل موجودنہ ہو۔
مندرجہ بالا حدیث مبارکہ سے اس بات کی وضاحت ملتی ہے کہ محض قرآن مجیدپڑھ لینے سے یا اس کے معنیٰ کا علم رکھنے سے دین کی سمجھ عطا نہیں ہوجاتی بلکہ دین کی سمجھ تفقہ وبصیرت اور مہارت سے حاصل ہوتی ہے جوہرکسیکے بس کاکام نہیں، جیساکہ رسول اﷲﷺکے ارشادات سے پتہ چلتاہے۔
لیکن عام ارباب اصول کے عرف میں مجتہدکے قول کوماننے والا مقلد کہلاتاہےحالانکہ مجتہد کاقول اس کے لئے حجت ہےیہ من غیرحجۃکی مداورزدمیں نہیں ہے اور علماءِ اصول کی اکثریت اسی پرہے، لہٰذا مجتہدکی تقلیدپر من غیرحجۃ کی تعریف کوفٹ کرنااورمجتہدکے قول کوغیرحجت قراردیناارباب اصول کی واضح عبارات سے غفلت پرمبنی ہے کیونکہ عامی جب خودعلم نہیں رکھتا توعلم والوں کی طرف مُراجعت کے بغیراس کے پاس کوئی چارہ ہی نہیں اورایسا کرنے کوبھی نص واجب قراردیتی ہے۔ جیساکہ ارشادباری تعالیٰ ہے کہ: ’’فَاسْاَلُـوٓا اَهْلَ الـذِّكْرِ اِنْ كُنْتُـمْ لَا تَعْلَمُوْنَ‘‘۔’’پس سوال کرو اہل الذکر سے اگر تم کو علم نہیں‘‘۔ [سورۃ النحل: ٤٣]
ثانیاً یہ کہ ہم نے باحوالہ تقلید کی تعریف میں’’من غير مطالبة دليل‘‘ اور ’’من غير تامّل فی الدليل‘‘ اور ’’بلا نظر فی الدليل‘‘ کے الفاظ بھی نقل کیئے ہیں جس کا یہ مطلب ہرگزنہیں ہے کہ مجتہد کے پاس دلیل موجودہی نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مقلد دلیل کاتقاضہ نہیں کرتا اوراس خاص دلیل کافکرمند نہیں ہوتا جوکہ مجتہد نے قائم کی ہے۔ کیونکہ الدلیل میں الف لام عہد کے لئے ہے۔ غرض یہ کہ تقلید کی تعریف صرف یہی نہیں جو مسلم الثبوت کے حوالے سے نقل کی گئی ہے بلکہ وہ بھی ہے جوہم نےباحوالہ نقل کی ہیں۔
غیرمقلدین حضرات کا یہ اعتراض ایک نابالغ بچے کے اعتراض کی طرح ہے جوکہتاہے کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہےکہ ’’وَبِالْوَالِـدَيْنِ اِحْسَانًا ۚ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَـرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّـهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْـهَرْهُمَا وَقُلْ لَّـهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا‘‘۔ ’’اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو، اور اگر تیرے سامنے ان میں سے ایک یادونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف بھی نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو اور ان سے ادب سے بات کرو‘‘۔ [سورۃ الاسراء: ۲۳]
اگر تقلید بلا دلیل بات ماننے کو کہتے ہیں تو اللہ تبارک و تعالیٰ کے پیارے نبیﷺکے پیارے صحابی حضرت عثمان غنی ؓ نے اپنے دور خلافت میں قرآن کے تمام مصحفوں کوختم کرکے پوری امت مسلمہ کو ایک مصحفِ عثمانیؓ پر جمع کیاجس میں قرآن کی سورتوں کی ترتیب بھی ترتیب نزولی پر نہ تھی اور ان کے اس فیصلے پر تمام صحابہؓ میں سے کسی نے بھی ان کی مخالفت نہ کرتے ہوئے ان کی تقلیدکی ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جو کام نبی کریم ﷺ نے نہیں کیا وہ کام ایک غیرنبی صحابی رسولﷺ نے کیاجس کی دلیل نہ قرآن میں موجود ہے اور نہ نبی ﷺ کے فرمان میں موجود ہے۔تو کیا نعوذباﷲ انھوں نے قرآن وحدیث کی مخالفت کی اور باقی تمام صحابہ کرام ؓ نے ان کے اس بلادلیل فیصلے کی پیروی کرتے ہوئے قرآن و حدیث کی مخالف کی۔(معاذ اللہ)
اس کی ایک اور مثال یہ بھی دی جاسکتی ہے کہ لغت میں ’’حدیث‘‘ ہرقسم کے کلام یاخبرکوکہتے ہیں۔ جس کی دلیل قرآن مجید میں موجوداﷲتبارک وتعالیٰ کے ارشادات سے ملتی ہے۔
۱۔ ’’ وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ ‘‘۔ ’’اوراپنے رب کی نعمت کااظہارکیجئے‘‘۔ [سورۃ الضحی: ۹۳]
۲۔ ’’هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَی‘‘۔ ’’کیا موسیٰؑ کی خبرتمہیں پہنچی ہے‘‘۔ [سورۃ النّٰزعٰت: ۱۵]
۳۔ ’’فَمَا لِهَؤُلاء الْقَوْمِ لاَ يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا‘‘۔ ’’ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی‘‘۔ [سورۃ النسآء: ۷۸]
۴۔ ’’أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللّهِ يُكَفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلاَ تَقْعُدُواْ مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُواْ فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ‘‘۔ ’’جب تم الله کی آیتوں پر انکار اور مذاق ہوتا سنو تو ان کے ساتھ نہ بیٹھو‘‘۔ [سورۃ النسآء: ۱۴۰]
مندرجہ بالاآیات میں ’’حدیث‘‘ کے معنیٰ ذکرکرنا، خبراوربات(کلام) کےواردہوئےہیں۔
اس سے پتہ چلتاہے کہ عربی لغت میں ’’حدیث‘‘کے معنیٰ صرف رسول اﷲﷺکے اقوال وافعال اورارشادات کےہی نہیں تھےبلکہ خبراورکلام کے بھی ہیں۔ جیساکہ اﷲتبارک وتعالیٰ نے موسیٰؑ کی خبرکوبھی حدیث ہی بیان فرمایاہے۔ لیکن عہدرسالت میں اس لفظ کو رسول اﷲﷺکے اقوال وافعال اورارشادات وواقعات کے ساتھ خاص کردیاگیااوربعدمیں صحابہ کرامؓ کے اقوال اورواقعات کوبھی حدیث ہی قراردیاجانے لگا۔ بالکل ایساہی معاملہ لفظ ’’اتباع‘‘ کے ساتھ بھی ہواہے۔ جیساکہ اوپربیان کیا جاچکا ہے۔
جس طرح ایک بُت کو سجدہ کرنا یا ایک سے زائد بُتوں کو سجدہ کرنا دونوں ہی شرک وحرام ہیں، بالکل اسی طرح تقلید کسی ایک مجتہد کی کی جائے (یعنی تقلیدشخصی)یا پھر ایک سے زائد مجتہد ین کی (یعنی تقلیدمُطلق) دونوں ہی شرک و حرام ہوئے۔اگرایک سے زائد مجتہدین کی تقلید (یعنی تقلیدمُطلق) شرک و حرام نہیں تو پھر ایک مجتہد کی تقلید(یعنی تقلیدشخصی) کیسے شرک و حرام ہوسکتی ہے؟
مزید فرماتے ہیں کہ: ’’جو شخص قرآن اور حدیث کو نہیں جانتاتو وہ بذات خود جستجو سے مسائل اوراستنباط کی طاقت نہیں رکھتاسو اس کا یہی وظیفہ ہے کہ کسی فقیہ سےپوچھ لےکہ آنحضرت ﷺنے فلانے فلانے مسئلہ میں کیا حکم فرمایا ہےجب فقیہ بتادے تو اس کی پیروی کرےبرابر ہےکہ صریح نص سے لیا ہو یا اس سے استنباط کیا ہویامنصوص پر قیاس کیا ہویہ سب صورتیں حضرت ﷺ کی روایت کی طرف رجوع کرتی ہیں اگرچہ بطور دلالت کے ہی ہوں اور ایسی تقلید کی صحت پر تمام امت کا ہرطبقہ میں اتفاق ہے‘‘۔
تقلید کے وجوب پرقرآن کی پہلی آیت:
اولی الامرسےمراداکثرمفسرین کےنزدیک علماء و مجتہدین ہیں، یہی بات حضرت عبداﷲبن عباسؓ، حضرت جابربن عبداﷲؓ، حضرت حسن بصریؒاورحضرت عطاء ابن ابی رباحؒ جیسےاکابرمفسرین سےمنقول ہے۔
مستدرک علی الصحیحن میں لکھا ہے ”اولی الامر اصحاب فقیہ اور اصحاب الخیر ہیں“ (مستدرک علی الصحیحن: جلد اول، ص۲۱۱) آگے لکھا ہے۔”اولی الامر سے اہل فقہ اور اہل دین مراد ہیں جو لوگوں کو العمل بالمعروف والنهی عن المنكر کراتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی اطاعت واجب کردی ہے“۔ (مستدرک علی الصحیحین: جلد اول، ص۲۱۱)
۲۔ ’’قال حدثنا جابر بن نوح، عن الأعمش، عن مجاهد في قوله: "أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم"، قال: أولي الفقه منكم‘‘۔ ’’حضرت مجاہدفرماتے ہیں: اﷲتعالیٰ کےاس ارشادمیں واولی الامرمنکم سے مرادفقہ والےہیں‘‘۔
۳۔ ’’حدثنا أبو كريب قال، حدثنا ابن إدريس قال، أخبرنا ليث، عن مجاهد في قوله: "أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم"، قال: أولي الفقه والعلم‘‘۔ ’’حضرت مجاہدفرماتے ہیں: اﷲتعالیٰ کےاس ارشادمیں واولی الامرمنکم سے مرادفقہ اورعلم والےہیں‘‘۔
۴۔ ’’حدثني محمد بن عمرو قال، حدثنا أبو عاصم، عن عيسى، عن ابن أبي نجيح:"وأولي الأمر منكم"، قال: أولي الفقه في الدين والعقل‘‘۔ ’’ابن أبی نجیح فرماتے ہیں: واولی الامرمنکم سے مراددین میں سمجھ بوجھ اورعقل والےہیں‘‘۔
۵۔ ’’حدثني المثنى قال، حدثنا عبد الله بن صالح قال، حدثني معاوية بن صالح، عن علي بن أبي طلحة، عن ابن عباس قوله: "أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم"، يعني: أهل الفقه والدين۔ حدثني أحمد بن حازم قال، حدثنا أبو نعيم قال، حدثنا سفيان، عن حصين، عن مجاهد: "وأولي الأمر منكم"، قال: أهل العلم‘‘۔ ’’علی بن ابی طلحہ نے ابن عباسؓ سے روایت کرتے ہوئے کہا: واولی الامر منکم یعنی اہل فقہ و الدین۔ اور مجاہد نے فرمایا ہے: و اولی الامر منکم سے مراداہل علم ہیں‘‘۔
۶۔ ’’حدثني يعقوب بن إبراهيم قال، حدثنا هشيم قال، أخبرنا عبد الملك، عن عطاء بن السائب في قوله: "أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم"، قال: أولي العلم والفقه‘‘۔ ’’حضرت عطاءبن السائب فرماتے ہیں: اﷲتعالیٰ کےاس ارشادمیں واولی الامرمنکم سے مرادعلم اور فقہ والےہیں‘‘۔
۷۔ ’’حدثني المثنى قال، حدثنا عمرو بن عون قال، حدثنا هشيم، عن عبد الملك، عن عطاء: "وأولي الأمر منكم"، قال: الفقهاء والعلماء‘‘۔ ’’حضرت عطاء فرماتے ہیں: واولی الامرمنکم سے مرادفقہاءاور علماءہیں‘‘۔
۸۔ ’’حدثنا الحسن بن يحيى قال، أخبرنا عبد الرزاق قال، أخبرنا معمر، عن الحسن في قوله: "وأولي الأمر منكم"، قال: هم العلماء‘‘۔ ’’حضرت حسن فرماتے ہیں: واولی الامرمنکم سے مرادعلماءہیں‘‘۔
۹۔ ’’قال، وأخبرنا عبد الرزاق، عن الثوري، عن ابن أبي نجيح، عن مجاهد قوله: "وأولي الأمر منكم"، قال: هم أهل الفقه والعلم‘‘۔ ’’حضرت مجاہدفرماتے ہیں: واولی الامرمنکم سے مراداہل فقہ اوراہل علم ہیں‘‘۔
۱۰۔ ’’حدثني المثنى قال، حدثنا إسحاق قال، حدثنا ابن أبي جعفر، عن أبيه، عن الربيع، عن أبي العالية في قوله: "وأولي الأمر منكم"، قال: هم أهل العلم‘‘۔ ’’ابو العالیہ فرماتے ہیں: واولی الامرمنکم سے مراداہل علم ہیں‘‘۔
۱۱۔ ’’حدثني يعقوب بن إبراهيم قال، حدثنا ابن علية قال، حدثنا ابن أبي نجيح، عن مجاهد في قوله: "أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم"، قال: كان مجاهد يقول: أصحاب محمد - قال: وربما قال: أولي العقل والفقه ودين الله‘‘۔ ’’حضرت مجاہدکہتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں صحابی کرامؓ فرماتے ہیں: شاید اس آیت سے مراد عقل والے اوراﷲکے دین کی سمجھ رکھنے والےہیں‘‘۔ (تفسیر طبری: ج۸، تفسیرسورة النسآء:۵۹، ص ۵۰۰-۵۰۱)
۱۲۔ امام ابو بكراحمدبن علی الرازی الجصاص ؒ (متوفی ۳۷۰ھ) فرماتے ہیں: ’’لیکن اس میں کوئی امتناع نہیں کہ اولوالامرکے دونوں طبقوں یعنی فوجی دستوں کے امراءاورعلماءکی اطاعت اورفرمانبرداری کااس آیت میں حکم دیاگیاہے“۔ (أحكام القرآن للجصاص [اردو]: ج۳، ص۵۵۹)
۱۳۔ امام فخرالدین ابوعبداﷲمحمد بن عمرالرازیؒ (المتوفی ۶۰۴ھ) فرماتے ہیں کہ: ’’وَالْجَوَابُ: أَنَّهُ لَا نِزَاعَ أَنَّ جَمَاعَةً مِنَ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ حَمَلُوا قَوْلَهُ: وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ عَلَى الْعُلَمَاءِ۔۔۔ أَنَّ أَعْمَالَ الْأُمَرَاءِ وَالسَّلَاطِينِ مَوْقُوفَةٌ عَلَى فَتَاوَى الْعُلَمَاءِ، وَالْعُلَمَاءُ فِي الْحَقِيقَةِ أُمَرَاءُ الْأُمَرَاءِ، فَكَانَ حَمْلُ لَفْظِ أُولِي الْأَمْرِ عَلَيْهِمْ أَوْلَى‘‘۔ ’’اس میں کوئی نزاع نہیں کہ حضرات صحابہ کرامؓ اورتابعین کی ایک جماعت نے اولی الامرکوعلماءکے معنیٰ پرحمل کیاہے۔۔۔ بلاشک امراءاوربادشاہوں کے اعمال علماءکے فتووں پرموقوف ہیں اورحقیقت میں علماءامراء کے امراء ہیں تولفظ اولی الامرکاعلماءپرحمل کرنازیادہ بہترہے‘‘۔ (تفسیر الفخرالرازی: ج۱۱، سورۃ النسآء ۵۹، ص۱۴۹، ۱۵۰)
۱۴۔ غیرمقلد عالم نواب صدیق حسن خان صاحبؒ بھی یہی لکھتے ہیں کہ: ’’حضرت ابن عباسؓ، حضرت جابرؓ، حضرت حسن بصریؒ، حضرت ابوالعالیہؒ، حضرت عطاءؒ، حضرت ضحاکؒ، حضرت مجاہدؒ اورحضرت امام احمدؒفرماتے ہیں کہ اولی الامرسے مراد علماءہیں۔ تحقیق یہ ہے کہ امراءاورحکام کی اطاعت تب ہی کی جاتی ہے کہ وہ علم (شریعت) کے مطابق فیصلہ کریں توامراء کی اطاعت علماءکی اطاعت کے تابع ہے۔ جیساکہ علماء کی اطاعت جناب رسول اﷲﷺ کی اطاعت کے تابع ہے‘‘۔ (الجنۃ: ص۴)
امام ابو بكراحمدبن علی الرازی الجصاص ؒ فرماتے ہیں: ’’علماء پر واجب ہے کہ ان مسائل کا استنباط کریں اور منصوصات میں غور و خوص کر کے ان کےنظائر تلاش کریں اور ان کا حکم متعین کریں۔ اوریہ پیش آمده مسائل میں غیر مجتہدپر مجتہدین کی تقلید واجب ہے۔ اوردونوں تفسیروں میں کوئی تعارض نہیں، بلکہ دونوں (امراء اورعلماء) مراد ہیں، اور مطلب یہ ہے کہ حکام کی اطاعت سیاسی معاملات میں کی جائے، اور علماء و فقہا کی مسائل شریعت کے باب میں‘‘۔ (أحكام القرآن للجصاص [اردو]: ج۳، ص۵۶۰، باب فی طاعۃ اولی الامر)
اگراولی الامرسے امراء اورعلماء دونوں ہی مراد لیئے جائیں توبھی دونوں کی اطاعت لازم اورواجب ہے۔ جس طرح عوام پرامراءکاقول ماننا (جوموافق شرع ہو) واجب اورلازم ہے بالکل اسی طرح لاعلم لوگوں پرعلماء کی بات جواﷲتعالیٰ کے اوامراورنواہی سے بخوبی آگاہ ہیں تسلیم کرنابھی لازم اورواجب ہے۔ اس لحاظ سے علماءِ حق کی بات ماننابھی عوام پرواجب اورلازم ہے۔
الحاصل یہ کہ حقیقتاًاطاعت توعلماءکی ہی ہونی چاہیئے، کیونکہ حکام کی اطاعت تواس لئے کی جاتی ہے کہ وہ علماءکے تابع اورشریعت اسلامی کے موافق فیصلے صادرکرتے ہیں۔
حضرت مولانا مفتی شفیع صاحبؒ (المتوفی ۱۳۶۹ھ) فرماتے ہیں کہ: ’’اولی الامرکی تفسیرمیں صحابہ کرامؓ تابعین اورتبع تابعینؒ کامؤقف یہ ہے کہ اس سے مرادخلفاء، علماءاورفقہاءہیں‘‘۔ ’’اورغیرمقلدعالم مولانا صدیق حسن خان صاحبؒ بھی اس معنیٰ کواپنی تفسیرمیں قبول کرتے ہیں‘‘۔ (جواہرالفقہ: ج۱، ص۱۲۲)
حافظ ابن کثیرؒ(المتوفی ۷۷۴ھ) تفسیر ابن کثیرکے مقدمہ میں لکھتے ہیں: ’’وحينئذ إذا لم نجد التفسير في القرآن ولا في السنة رجعنا في ذلك إلى أقوال الصحابة فإنهم أدرى بذلك لما شاهدوا من القرائن والأحوال التي اختصوا بها ولما لهم من الفهم التام والعلم الصحيح والعمل الصالح لا سيما علماؤهم وكبراؤهم كالأئمة الأربعة والخلفاء الراشدين والأئمة المهديين وعبد الله بن مسعود رضي الله عنه‘‘۔ ’’اس بنا پرجب کسی آیت کی تفسیرقرآن وحدیث دونوں میں نہ ملے تو اقوال صحابہؓ کی طرف رجوع کرناچاہیئے۔ وہ تفسیرِقرآن کوبہت زیادہ جانتے تھے۔ علاوہ ازین ہم اس تفسیر میں صحیح سمجھ بوجھ، نیک اور با عمل عالم کا قول لینگے۔ بالخصوص ان بزرگوں کاجوان میں بڑے مرتبہ والے اوربزرگ عالم تھے جیسے آئمہ اربعہ (یعنی امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ ) اور خلفاءِ راشدین (یعنی حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ) اورائمہ مہدیین اورعبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ‘‘۔ (تفسیر ابن کثیرمقدمہ المؤلف: ج۱، ص۱۰و۷، دارطیبۃ للنشروالتوزیع المملکۃالعریبۃ السعودیۃ الریاض)
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ (سورۃ النسآء :۵۹)
اےایمان والوں!اﷲاوررسول کی اطاعت کرواوراپنےمیں سےاختیاروالوں کی اطاعت کرو۔
۲۔ اسی طرح امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک ماں کااپنے بچے کو دودھ پلانے کی مدت ۲سال چھے ماہ ہے جبکہ فقہ حنفی کے علماء اس کی حد ۲ سال مقرر کرتے ہیں۔
۳۔ امام ابو حنیفہ ؒ نمازِ استسقاءکو سنت نہیں سمجھتے تھے لیکن جب احادیثِ مبارکہ سے اس کے سنت ہونے کی دلیل مل گئی تو اب حنفی علماء خود نمازِ استسقاء کے قائل ہیں۔
۴۔ اسی طرح امام ابوحنیفہؒاور امام شافعیؒ کا موقف یہ ہے کہ لاپتہ شوہرکی بیوی اس وقت تک عقد نکاح سے فارغ نہیں ہوسکتی جب تک لاپتہ شوہر کی موت کایقینی علم نہ ہوجائے۔ احناف نے یہاں بھی امام ابوحنیفہؒکےمؤقف کو چھوڑکرامام مالکؒکے مؤقف کی طرف رجوع کیا ہےاورلاپتہ ہونے والے شوہرکے لئےہم عمر لوگوں کی موت تک مدت مقرر نہیں کی بلکہ اس کا تعین حاکم کی رائے پرکیا ہے۔
ایسے بہت سے مسائل ہیں جن پرحنفی علماء امام ابوحنیفہؒ کے قول کو چھوڑ کرفتویٰ دیتے ہیں۔ لہٰذا ثابت ہوگیا کہ احناف سورۃ النساءآیت نمبر۵۹ پر بالکل اسی طرح عمل کرتے ہیں جیساکہ اﷲاور اس کے رسولﷺ نے کرنے کا حکم دیا ہےاور تقلید بھی ویسے ہی کرتے ہیں جیساکہ قرآن و حدیث اور اثارصحابہؓ وآئمہ کرامؒ سے ثابت ہے۔
غیرمقلدین کے نزدیک کیا بیک وقت متعدد امراء کی اطاعت جائز ہے؟ یاصرف ایک کی؟ اگرمتعدد کی جائز ہے توحدیث میں ایک امیرکی موجودگی میں دوسرے امیر کوقتل کرنے کاحکم کیوں صادر ہواہے؟ اوراگرایک کی ہے تو پھر جمع کا صیغہ ایک پرفٹ کیسے ہوسکتاہے؟ اس سوال کا جواب بھی اب آپ پر ہی قرض رہا۔
یہ بات عقل سے بالاتر ہے کہ غیرمقلدین حضرات کو ایک مجتہدکی تقلید میں تو عارمحسوس ہوتی ہے لیکن ۱۴۰۰ سالوں میں گزرے تمام مجتہدین کی تقلید کرنے میں کوئی شرم نہیں۔ آخرایسا کیوں؟ اسکامطلب دال میں کچھ کالاہے۔ یعنی غیرمقلدین حضرات کو تقلید کرنے میں کوئی شرم نہیں، بس ائمہ اربعہ (یعنی امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، اورامام احمدبن حنبلؒ) کی تقلید کرنے میں شرم آتی ہے۔
غیرمقلدین حضرات کے اس اعتراض کا دوسرامدلل اورجامع جواب ذیل میں درج صحیح بخاری کی حدیث میں واضح طور پر موجود ہے۔
مندرجہ بالا آیت اورصحیح بخاری کی حدیث سے یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ تقلید واجب ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اطاعت (تقلید)کب کی جائے اور کب نہ کی جائے؟
حضرت ابو العالیه رفیع بن مہران رحمہ اﷲ(المتوفی:۹۰ھ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کےدوسال بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اسلام لائے، حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے قرآن عزیز تین دفعہ پڑھا۔ تفسیر اُبی بن کعب اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پڑھی، اپنے ہم سبق تلامذہ میں ممتاز مقام کے مالک تھے، چنانچہ فرماتے ہیں: ’’مجھے ابن عباس رضی اللہ عنہ اپنے پاس تخت پر بٹھایا کرتے تھے‘‘۔
ابو العالیہ نے اجل صحابہ کرام جیسے حضرت علی، ابن مسعود، ابو موسیٰ اشعری، ابن عباس اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے اکتساب فیض کیا۔ حضرت علی، ابن مسعود، ابن عمر، ابى بن كعب رضی اﷲعنہم اجمعین اور ديگر حضرات صحابہ سے روايات ليں۔ آپ کے شاگردوں میں سے حضرت قتادہؒ جیسے مفسر قرآن پیداہوئے۔
قتادہ ؒ ان سے روایت کرتےہوئےفرماتے ہیں: "قرأت القرآن بعد وفاة نبيكم بعشر سنين"۔ " میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد دس سال قرآن پڑھا" ۔ اورفرماتے ہیں: "قرأت القرآن على عمر ثلاث مرار"۔ "میں نے عمررضی اللہ عنہ كے دور میں تین مرتبہ قرآن پڑھا"۔ ان كے بارے میں ابن ابی دؤاد فرماتے ہیں: "ليس أحد بعد الصحابة أعلم بالقراءة من أبى العالية"۔ ’’صحابہ کرامؓ کے بعد قرآن عزیز کی تفسیر جاننے والا ابو العالیہ سے بہتر کوئی نہیں‘‘۔ (تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، الذهبی:ج۶، ص۵۳۰)
۱۔ حضرت ابو العالیه ؒ (المتوفی:۹۰ھ) فرماتے ہیں: ’’حدثني المثنى قال، حدثنا إسحاق قال، حدثنا ابن أبي جعفر، عن أبيه، عن الربيع، عن أبي العالية في قوله:"وأولي الأمر منكم"، قال: هم أهل العلم، ألا ترى أنه يقول: (وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الأمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ) [سورة النساء:۸۳]‘‘۔ (تفسیر طبری: ج۴، تفسیرسورة النسآء:۸۹، ص ۱۵۲؛ الدر المنثور فی التفسير المأثور: ج۲، ۵۷۵)
۲۔ حضرت مجاہدؒ (المتوفی:۱۰۴ھ) فرماتے ہیں: ’’وَأخرج سعيد بن مَنْصُور وَعبد بن حميد وَابْن جرير وَابْن الْمُنْذر وَابْن أبي حَاتِم عَن مُجَاهِد فيقوله {فَإِن تنازعتم فِي شَيْء} قَالَ: فَإِن تنَازع الْعلمَاء {فَردُّوهُ إِلَى الله وَالرَّسُول} قَالَ: يَقُول: فَردُّوهُ إِلَى كتاب الله وَسنة رَسُوله‘‘۔ (الدر المنثورفی التفسیربالمأثور: ج۴، ص۵۱۴)
۳۔ امام ابو الحسن ماتریدیؒ (المتوفی:۳۳۳ھ) فرماتے ہیں: ’’هذه الآية والتي تليها تدل على أن أولي الأمر هم الفقهاء، وهو قوله - تعالى - (فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ)، والتنازع يكون بين العلماء‘‘۔ (تفسير الماتريدی تأويلات أهل السنة: ج ۱، ص ۴۴۲)۴۔ امام ابو بكراحمدبن علی الرازی الجصاص ؒ (المتوفی: ۳۷۰ھ) فرماتے ہیں: ’’وقَوْله تَعَالَى عَقِيبَ ذَلِكَ: {فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ} يَدُلُّ عَلَى أَنَّ أُولِي الْأَمْرِ هُمْ الْفُقَهَاءُ؛ لِأَنَّهُ أَمَرَ سَائِرَ النَّاسِ بِطَاعَتِهِمْ ثُمَّ قَالَ: {فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ}، فَأَمَرَ أُولِي الْأَمْرِ بِرَدِّ الْمُتَنَازَعِ فِيهِ إلَى كِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةِ نَبِيهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‘‘۔ ”اور اولی الامر کی اطاعت کا حکم دینے کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ اگر کسی معاملے میں اختلاف ہو تو اسے اللہ رسول کی طرف لوٹاؤ اس بات کی دلیل ہے کہ اولی الامر سے مراد فقہاء ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کو ان کی اطاعت کا حکم دیا ہے پھر فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فرما کر " اولی الامر" کو حکم دیا ہے کہ جس معاملے میں ان کے درمیان اختلاف ہو تو اسے اللہ کی کتاب اور نبیﷺ کی سنت کی طرف لوٹا دیں“۔ (أحكام القرآن للجصاص [اردو]: ج۲، ص۵۶۰)
۵۔ امام قرطبیؒ (المتوفی:۶۷۱ھ) فرماتے ہیں: ’’قَوْلُهُ تَعَالَى: (فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ)۔ فَأَمَرَ تَعَالَى بِرَدِّ الْمُتَنَازَعِ فِيهِ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَيْسَ لِغَيْرِ الْعُلَمَاءِ مَعْرِفَةَ كَيْفِيَّةِ الرَّدِّ إِلَى الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ، وَيَدُلُّ هَذَا عَلَى صِحَّةِ كَوْنِ سُؤَالِ الْعُلَمَاءِ وَاجِبًا، وَامْتِثَالِ فَتْوَاهُمْ لَازِمًا‘‘۔ (تفسير القرطبی: ج۵، ص۲۶۰)’’امام شافعی رحمہ اﷲ سے پوچھا گیا کہ مفتی کون ہو سکتا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: اللہ کے دین میں فتویٰ دینا صرف اسی کے لئے جائز ہے جو کتاب اللہ کا ماہر ہو، ناسخ منسوخ، محکم، متشابہ، تاویل، تنزیل، مکی مدنی، مراد ومطلب سے آگاہ ہو؛ پھرساتھ ہی احادیث پر بھی اس کی نظر بالغ ہو، ناسخ منسوخ کوخوب جانتاہو۔ قرآن و حدیث کی وضاحت کے لئے کام آنے والے دیگر فنون یعنی لغت وشعر کا بھی عالم ہو۔ ان فنون کا پھر نہایت انصاف کے ساتھ استعمال کرتاہواورشہریوں کے اختلاف پر بھی اس کی نگاہ ہو اور استنباط کا ملکہ بھی رکھتاہو۔ جس شخص میں یہ اوصاف جمع ہوں وہ شریعت پر گفتگو کرنے اور حلال وحرام کے فتوے دینے کا اہل ہو سکتا ہے ورنہ نہیں‘‘۔ (اعلام الموقعین: ص۴۹)
امام احمد بن حنبل رحمہ اﷲسے دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: ’’جب کوئی شخص مفتی بنناچاہے تواسے قرآن کی تمام وجوہ کاعلم ہوناچاہئے، صحیح سندوں کاعلم ہوناچاہیئے۔ سنت رسولﷺاوراحادیث پیغمبرکاعلم ہوناچاہیئے۔ ورنہ اس شخص کیلئے فتویٰ دینا جائز نہیں۔ فرماتے ہیں اسے اپنے سے پہلے کے علماء کے قول معلوم ہونے چاہیئے ورنہ فتویٰ بازی نہیں کرنی چاہیے۔کسی نے آپؒ سے پوچھاکہ ایک لاکھ حدیثیں یادکرنے کے بعدانسان فقیہ ہوجاتاہے؟ فرمایانہیں۔ پوچھا دولاکھ کے بعد؟ فرمایا نہیں۔ دریافت کیا اچھا تین لاکھ؟ فرمایا نہیں۔ پوچھا چار لاکھ؟ توآپؒ نے اپنے ہاتھ ہلاکراشارہ کردیااورفرمایااب میں توقع کرتاہوں کہ وہ بالکل فتویٰ دے سکے گا۔ خود امام صاحبؒ کو چھ لاکھ حدیثیں حفظ تھیں‘‘۔ (اعلام الموقعین: ص۴۸)
امام احمد رحمہ اﷲسے سوال ہواکہ: ’’اگرکوئی شخص سمجھدار نہ ہووہ حدیث میں جوپائے اس پرفتویٰ دے سکتاہے؟ توآپ نے فرمایاجب کوئی فتویٰ دینے کے عہدے پرآناچاہتاہوتو اس کے لئے حدیثوں کا، قرآن کا، سندحدیث کا عالم ہونا ضروری ہےپھرمندرجہ بالامقولہ بیان فرمایا‘‘۔ (اعلام الموقعین: ص۴۹)
’’امام ابن مبارکؒ سے پوچھا گیاکہ انسان مفتی ہونے کے قابل کب ہوتاہے؟ آپ نے فرمایاجب حدیثوں کا عالم ہو۔ رائے کاحافظ ہو۔ یحییٰ بن اکثم نے اسی سوال کے جواب میں یہی کہاہے۔ یہ یاد رہے کہ رائے سے مرادان دونوں بزرگوں کی صحیح قیاس اورصحیح مطلب اور صحیح علتیں ہیں جن پرشارع ؑنے احکام معلق رکھے ہوں اور انہیں اثرڈالنے والی علتیں بنائی ہوں جوہرطرح حکم میں اثررکھتی ہوں‘‘۔ (اعلام الموقعین: ص۴۹)
آج موجودہ دور کا ہرغیرمقلدشخص جسے قرآن و حدیث سمجھنے کے لیے اردومترجم کی ضرورت پڑتی ہے۔ علماء کی اتباع (تقلید) چھوڑ کرخود مجتہداور مفتی بنابیٹھاہے۔ اور تقلید کے رد میں ائمہ اربعہؒ کے اقوال پیش کرتاہے۔ حالانکہ ائمہ اربعہ ؒ سےمنقول اقوال عامی شخص کے لئے نہیں تھے بلکہ اپنے ان شاگردوں کے لئے تھے جو مجتہدفی المذہب کے منسب پرفائض ہونے کی جدوجہد میں کوشاں تھے۔
’’قَالَ الْغَزالِيّ إِنَّمَا يحصل الإجتهاد فِي زَمَاننَا بممارسة الْفِقْه وَهِي طَرِيق تَحْصِيل الدِّرَايَة فِي هَذَا الزَّمَان وَلم يكن الطَّرِيق فِي زمن الصَّحَابَة رَضِي الله عَنْهُم ذَلِك‘‘۔ ’’امام غزالیؒ فرماتے ہیں: ہمارے زمانے میں اجتہاد، فقہ میں مہارت اورگہرے شغف کے بغیرممکن نہیں‘‘۔ (عقد الجيد فی أحكام الاجتهاد والتقليد شاه ولی اﷲمحدث دہلویؒ: ص۲۱)
’’قَالَ الْبَغَوِيّ والمجتهد من جمع خَمْسَة أَنْوَاع من الْعلم علم كتاب الله عز وَجل وَعلم سنة رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وأقاويل عُلَمَاء السّلف من أجماعهم وَاخْتِلَافهمْ وَعلم اللُّغَة وَعلم الْقيَاس وَهُوَ طَرِيق استنباط الحكم من الْكتاب وَالسّنة إِذا لم يجده صَرِيحًا فِي نَص كتاب أَو سنة أَو إِجْمَاع فَيجب أَن يعلم من علم الْكتاب النَّاسِخ أَو الْمَنْسُوخ والمجمل والمفصل وَالْخَاص وَالْعَام والمحكم والمتشابه وَالْكَرَاهَة وَالتَّحْرِيم وَالْإِبَاحَة وَالنَّدْب وَالْوُجُوب وَيعرف من السّنة هَذِه الْأَشْيَاء وَيعرف مِنْهَا الصَّحِيح والضعيف والمسند والمرسل وَيعرف تَرْتِيب السّنة على الْكتاب وترتيب الْكتاب على السّنة حَتَّى لَو وجد حَدِيثا لَا يُوَافق ظَاهره الْكتاب يَهْتَدِي إِلَى وَجه محمله فَإِن السّنة بَيَان الْكتاب وَلَا تخَالفه وَإِنَّمَا يجب معرفَة مَا ورد مِنْهَا فِي أَحْكَام الشَّرْع دون مَا عَداهَا من الْقَصَص وَالْأَخْبَار والمواعظ وَكَذَلِكَ يجب أَن يعرف من علم اللُّغَة مَا أَتَى فِي كتاب أَو سنة فِي أُمُور الْأَحْكَام دون الْإِحَاطَة بِجَمِيعِ لُغَات الْعَرَب وَيَنْبَغِي أَن يتحرج فِيهَا بِحَيْثُ يقف على مرامي كَلَام الْعَرَب فِيمَا يدل على المُرَاد من اخْتِلَاف الْمحَال وَالْأَحْوَال لِأَن الْخطاب ورد بِلِسَان الْعَرَب فَمن لم يعرفهُ لَا يقف على مُرَاد الشَّارِع وَيعرف أقاويل الصَّحَابَة وَالتَّابِعِينَ فِي الْأَحْكَام ومعظم فتاوي فُقَهَاء الْأمة حَتَّى لَا يَقع حكمه مُخَالفا لأقوالهم فَيكون فِيهِ خرق الْإِجْمَاع وَإِذا عرف من كل من هَذِه الْأَنْوَاع معظمه فَهُوَ حِينَئِذٍ مُجْتَهد وَلَا يشْتَرط معرفَة جَمِيعهَا بِحَيْثُ لَا يشذ عَنهُ شَيْء مِنْهَا وَإِذا لم يعرف نوعا من هَذِه الْأَنْوَاع فسبيله التَّقْلِيد وَإِن كَانَ متبحرا فِي مَذْهَب وَاحِد من آحَاد أَئِمَّة السّلف فَلَا يجوز لَهُ تقلد الْقَضَاء وَلَا الترصد للفتيا وَإِذا جمع هَذِه الْعُلُوم وَكَانَ مجانبا للأهواء والبدع مدرعا بالورع محترزا عَن الكباتر غير مصر على الصَّغَائِر جَازَ لَهُ أَن يتقلد الْقَضَاء ويتصرف فِي الشَّرْع بالإجتهاد وَالْفَتْوَى وَيجب على من لم يجمع هَذِه الشَّرَائِط تَقْلِيده فِيمَا يعن لَهُ من الْحَوَادِث انْتهى كَلَام البغوى‘‘۔ ’’امام بغویؒ فرماتے ہیں: مجتہد وہ ہے جو پانچ علوم کا جامع و ماہرہو۔ ۱- کتاب اﷲکا وسیع علم، ۲- سنت رسولﷺ کا وسیع علم، ۳- علمائے سلف نے جو کچھ لکھا اس سے آگہی۔ جو بخوبی جانتا ہوکہ علماء سلف نے کس مسئلے میں اتفاق کیاہےاور کس مسئلے میں ان کی آراء مختلف ہیں۔ ۴- قیاس کے طریقہ کار کوجانتاہو اور یہ کہ قیاس، قرآن و سنت سے کسی مسئلہ کا حکم معلوم کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ اس صورت میں جب مجتہد کو مطلوبہ حکم نہ قرآن و سنت کے نصوص میں ملے اور نہ اس کے بارے میں کوئی اجماع منعقد ہوا ہو۔ ۵- عربی لغت میں مہارت۔ مجتہد کے لئے قرآن کریم کے علوم میں سے ان علوم کا جاننا بھی ضروری ہے۔ ناسخ و منسوخ، مجمل ومفسر، عام و خاص، محکم ومتشابہ۔ نیز یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ حلال و حرام، واجب، مکروہ، مباح، اور مندوب سے کیا مراد ہے۔سنت میں بھی ان امور کاعلم ضروری ہے۔ مجتہد کے لئے اقسام حدیث کا علم بھی ضروری ہےکہ صحیح و ضعیف، مسند و مرسل کی تعریفات کیا ہیں اور ان کے درمیان کیا فرق ہے؟ حدیث کو قرآن کے ساتھ اور قرآن کو حدیث کے ساتھ تطبیق دینے کی کیا صورت ہے؟ ضروری ہے کہ مجتہدیہ بھی جانتا ہو کہ وہ اگر کوئی ایسی حدیث پائے جس کا ظاہری مفہوم قرآن کے مطابق نہیں ہے تو یہ کھوج لگائے اور اس حقیقت تک پہنچے کہ اس حدیث کی قرآن کے ساتھ مطابقت کس طرح ممکن ہے؟ کیونکہ حدیث قرآن کی توضیح وتشریح ہے، وہ قرآن کے مخالف نہیں ہوسکتی۔ ہاں یہ بات ہے کہ مجتہد کے لئے صرف ان احادیث کا جاننا ضروری ہے جن کا تعلق شرعی احکام سے ہے۔ ان احادیث کا علم ضروری نہیں جو قصص، واقعات اور وعظ و نصیحت پر مشتمل ہیں۔ اسی طرح عربی لغت کا بھی اس حد تک جاننا ضروری ہے جس کے سبب قرآن وسنت میں وارد احکام و مسائل کا علم ہوسکے۔ پورے عربی لغت کا احاطہ ضروری نہیں ہے۔ بہتر یہ ہے کہ عربی زبان میں اتنی مہارت حاصل کر کہ اس کے معانی و مطالب اور مدلول کو بخوبی سمجھ سکے۔ وہ اس بات سے آگاہ ہو کہ سیاق وسباق کی مناسبت سے فلاں لفظ اور جملے کے فلاں مقام پر یہ معنیٰ ہیں۔ عربی زبان پر اس حدتک عبور اس لئے ضروری ہے کہ شریعت عربی زبان میں نازل ہوئی ہے۔ (خواہ وہ قرآن کی صورت میں ہو یا حدیث کی شکل میں) جو شخص عربی زبان سے پوری طرح واقف نہیں ہوگا وہ شارع کے مقصود کو نہیں پہچان سکے گا۔ صحابہؓ اور تابعینؒ کے ان اقوال و آراء کا علم بھی ضروری ہے جو ان سے احکام کے بارے میں منقول ہیں۔ مختلف مسائل کے بارے میں (قدیم) فقہاء نے جو فتوے دیئے ہیں ان کا جاننا بھی بہت ضروری ہے۔ تاکہ اس کی کوئی اور فیصلہ اسلاف کے فتاویٰ اور فیصلوں کے خلاف نہ ہو کیوں کہ اگر ایسا ہوا تو اسلاف کے اجماع کے خلاف ایک نئی رائے دینے کا مرتکب ہوگا۔ جب ان مذکورہ بالاپانچ علوم میں مہارت حاصل کرلے گا تو پھر مجتہد کہلائے گا۔ لیکن ان علوم میں مہارت اس حد تک ضروری نہیں کہ ان کا کوئی جزو اور معمولی حصہ بھی اس کے علم سے خارج نہ ہو۔ البتہ اگر ان پانچ علوم میں سے کسی ایک علم سے کلی طور پر ناواقف ہوتوپھر اس کے لئے تقلید کا راستہ اختیار کرنا ہی بہتر ہے۔ اگرچہ وہ شخص ائمہ سلف میں سے کسی ایک کے فقہی مسلک پر مکمل عبور رکھتا ہو۔ ایسے شخص کے لئے عہدہ قضاکو قبول کرنا اورمفتی کے منصب پر فائز ہونا جائز نہیں ہے۔ جو شخص ان پانچ علوم کا جامع ہو، نفسانی خواہشات اور بدعات سے اپنے آپ کو بچاتا ہو، تقویٰ اور پاکیزگی اس کا شعار ہو۔ کبیرہ گناہوں سے دور رہتا ہو اور صغیرہ گناہوں پراصرار نہ کرتا ہو۔ وہ قاضی بھی نب سکتا ہے اور مسائل شریعت میں اس کے لئے اجتہاد بھی جائز ہوگا۔ اور جو شخص ان شرائط کا جامع نہ ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ پیش آمدہ واقعات و حوادث میں سے کسی ایک امام مجتہد کی تقلید کرے‘‘۔ (عقد الجيد فی أحكام الاجتهاد والتقليد شاه ولی اﷲمحدث دہلویؒ: ص۲۳-۲۱)
مومن باپ دادا کی اتباع (تقلید) کا حکم
اجماع کی اتباع (تقلید) کا حکم
قرآن سےتقلید کےحکم پر غیرمقلدین کے اشکالات کے جوابات
تقلید کے وجوب پرقرآن کی دوسری آیت:
۱۷۔ علامہ آلوسی بغدادی ؒ(المتوفی: ۱۲۷۰ھ) فرماتے ہیں: ’’واستدل بها أيضاً على وجوب المراجعة للعلماء فيما لا يعلم۔ وفي "الإكليل" للجلال السيوطي أنه استدل بها على جواز تقليد العامي في الفروعفإن الظاهر العموم لا سيما إذا قلنا إن المسألة المأمورين بالمراجعة فيها والسؤال عنها من الأصول، ويؤيد ذلك ما نقل عن الجلال المحلي أنه يلزم غير المجتهد عاميا كان أو غيره التقليد للمجتهد لِقَوْلِهِ تَعَالَى: {فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ} [النَّحْلِ: ۴۳] والصحيح أنه لا فرق بين المسائل الاعتقادية وغيرها وبين أن يكون المجتهد حيا أو ميتا اهـ‘‘۔ ”اور اس آیت میں اس بات پر بھی استدلال کیا گیا ہے کہ جس چیز کا علم اسے خود نہ ہو اس میں علماء سے رجوع کرنا واجب ہے۔ اور علامہ جلال الدین السیوطیؒ "الإكليل" میں لکھتے ہیں کہ اس آیت میں اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ عام آدمیوں کے لئے فروعی مسائل میں تقلید جائز ہے‘‘۔ (تفسیر روح المعانی:ج١٤،ص۱۴۸، سورۃ النحل:٤٣)
غیرمقلدین حضرات کا یہ کہنا کہ تقلید اﷲتعالیٰ کے دین میں صحیح نہیں ہے، اگر اس سے مراد عقائد اور اصول دین میں تقلیدہے تو اس بات کوصحیح مان کر ہم قبول کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر نصوص اور احادیث صحیحہ صریحہ غیرمعارض کے مقابلہ میں تقلید مراد ہے تب بھی صحیح ہے کہ یہاں بھی تقلید ممنوع ہے اور یہ بات محل نزاع سے بالکل خارج ہے لیکن اگر جاہل کے لئے لاعلمی کے وقت دینی مسائل میں اہل علم کی طرف رجوع کرکے ان کی بات کو تسلیم کرنا مراد ہے۔ تو اس کو حرام، شرک و ممنوع قرار دینا قرآن و حدیث کی کھلی بغاوت اور صریح جسارت ہے جس کاپچھلے۱۴۰۰سالوں میں اہل اسلام میں کوئی بھی قائل نہیں رہا ہے۔جس دلیل سے اتّباع جائز اور درست ہےبالکل اسی دلیل سے اسلام میں تقلید بھی جائز اور درست ہے کیونکہ تقلید اور اتّباع دونوں ہم معنیٰ ہیں اور دونوں میں کوئی فرق نہیں تو پھر ایک کو جائز قرار دینا اور دوسری کو ناجائز و ممنوع کہنا سراسر باطل ہے لہٰذا جائز اور نائز کو گڈمڈکرکے معجون مرکب تیار کرنا کسی نامحمود اور خطرۂ جان حکیم ہی کا کام ہوسکتا ہے۔
تقلید کے وجوب پرقرآن کی تیسری آیت:
وَقَالُوْا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِىٓ اَصْحَابِ السَّعِيْرِ۔ ’’اور کہیں گے کہ اگر ہم نے سنا یا سمجھا ہوتا تو ہم دوزخیوں میں نہ ہوتے‘‘۔ [سورۃ الملک : ۱۰]
وَفَوقَ كُلِّ ذى عِلمٍ عَليمٌ۔’’اور ہرذی علم پرفوقیت رکھنے والا دوسراذی علم موجودہے‘‘۔ {سورۃ یوسف:۷۶}
’’ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے حماد نے بیان کیا ، ان سے جعد نے بیان کیا اور ان سے ابورجاء نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جس نے اپنے امیر میں کوئی برا کام دیکھا تو اسے صبر کرنا چاہئے کیونکہ کوئی اگر جماعت سے ایک بالشت بھی جدا ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا‘‘۔(صحیح البخاری:جلد نمبر ۸،كتاب الأحكام ، باب السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ لِلإِمَامِ مَا لَمْ تَكُنْ مَعْصِيَةً، رقم الحدیث ۷۱۴۳)
حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کے بارے میں آنحضور ﷺ کی اس وزنی شہادت کے بعد کون شخص ہو گا جو یہ کہےگاکہ ان کی تقلید و اتباع حرام ہے۔
عہد صحابہ رضی الله عنہم اجمعین میں تقلید ِشخصی کی مثال
اگر عالم کے فتوے پر عامی شخص کےلئے دلیل کی تحقیق واجب ہوتی توعالم کے غلط فتوے پر وہ بھی گناہگار ٹھہرتا
صحابہ کرام رضی الله عنھم کاحضرت عمررضی الله عنہ سے مسئلہ پوچھنا اور دلیل کا تقاضہ نہ کرناتقلید ِشخصی کی بہترین مثال ہے
تقلید شخصی کی دلیل حضرت ابن عمررضی اﷲعنہ سے
اسی طرح دوسری میں اﷲتبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ’’حَـمَلَتْهُ اُمُّهٝ وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ وَّفِصَالُـهٝ فِىْ عَامَيْنِ‘‘۔ ’’اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہے ‘‘۔ [سورۃ القمان: ۱۴]
پہلی آیت سے بچے کی مدعت رضاعت ڈھائی سال بنتی ہے، جبکہ دوسری آیت سے مدعت رضاعت دوسال بنتی ہے۔ اب یہاں ایک عام آدمی اس بات کا کیسے فیصلہ کرسکتاہے کہ قرآن کی کونسی آیت قابل عمل واستدلال ہے اور کونسی نہیں؟
شیخ الہند شاہ ولی اﷲمحدث دہلویؒ نے اپنی تالیف ’’الامدادفی مآثرالأجداد‘‘ میں بتایاہےکہ اُن کا نسب حضرت عمربن الخطاب رضی اﷲعنہ تک پہنچتاہے۔ (فقہی اختلافات کی اصلیت اردو ترجمہ الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف: صفحہ ’’م‘‘)
شاہ ولی اﷲمحدث دہلویؒ نےاپنی کتاب عقدالجیدفی أحکام الاجتہادوالتقلید میں نہایت تفصیل کے ساتھ مجتہدین اوران کی تقلید کے مختلف درجات کاجائزہ لیتے ہوئے مجتہدین کے چارمختلف درجات بیان فرمائے ہیں۔
شاہ ولی اﷲمحدث دہلویؒ فرماتے ہیں: ’’معلوم ہونا چاہیئے کہ ان چارفقہی مسالک(حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی) کواختیار کرنے میں لوگوں کے چاردرجے اورمرتبے ہیں اورہرطبقے کے لئے ایک حدمقررہے۔ کسی کے لئے یہ جائزنہیں کہ اس حدسے آگے بڑھے۔
شاہ ولی اﷲمحدث دہلویؒ نےاپنی کتاب الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف میں نہایت تفصیل کے ساتھ مقلدین اوران کی تقلید کے مختلف درجات کاجائزہ لیتے ہوئے ان کےتین مختلف درجات بیان فرمائے ہیں۔
اس اشکال کاجواب دیتے ہوئے حضرت شاہ ولی اﷲؒ فرماتے ہیں کہ: ’’یہ اعتراض کہ مجتہدمستقل کی اقتداءپہلے واجب نہ تھی پھرواجب ہوگئی اس میں تناقص (تضاد) ہے جواپنی نفی خودکرتاہے۔
اس کاجواب یہ ہے کہ امرواجب دراصل یہ ہے کہ امت میں کوئی شخص ایساہوجوفروعی احکامِ شریعت کاعلم اس کے تفصیلی دلائل کے ساتھ رکھتاہواس پرسب اہل حق متفق ہیں۔ اورجس بات پرکوئی امرواجب موقوف ہوتاہے وہ بات بھی واجب ہوتی ہےاورجب ادائے واجب کے متعددطریقے ہوں توان میں سے کسی ایک طریقہ کواختیار کرناواجب ہوگااس کے لئے کسی خاص طریقہ کاتعین لازم نہیں۔ اگراس کا ایک ہی طریقہ ہوتوخاص اس طریقہ کاحصول واجب ہوگا۔
اسی طرح اسلاف کے پاس اس واجب اصلی (یعنی اجتہاد) کوحاصل کرنے کےچند طریقے تھے اوران طریقوں میں سے کسی ایک طریقہ کواختیارکرناواجب تھا، کسی خاص طریقہ کاتعین ضروری نہ تھاپھرجب سوائے ایک طریقے کے باقی طریقے ختم ہوگئے تویہی مخصوص طریقہ واجب رہا۔
مثلاً: سلف میں حدیثیں نہیں لکھی جاتی تھیں لیکن آج احادیث کالکھنا واجب ہے کیونکہ آج ان کتب احادیث کے سوا حدیثوں کی روایت کی اورکوئی صورت نہیں ہے اسی طرح اسلاف حصولِ علم نحو ولغت میں مشغول نہ ہوئے تھے کیونکہ عربی ان کی اپنی زبان تھی اورانہیں ان علوم میں سرکھپانے کی حاجت نہ تھی لیکن آج (ہمارے زمانے میں) عربی زبان کاعلم باقاعدہ حاصل کرنا واجب ہوگیاکیونکہ سابقہ اہل عرب کازمانہ بہت دور چلاگیا۔ ہمارے اس قول کے شواہد بہت ہیں۔
اسی پرایک معین امام کی تقلید کے واجب ہونے کوبھی قیاس کرنا چاہیئے‘‘۔ (فقہی اختلافات کی اصلیت اردو ترجمہ الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف: ص۷۰-۷۲)
یہی وہ بات ہے جس کی طرف حضرت شاہ ولی اﷲؒ نے ان الفاظ میں اشارہ فرمایا کہ تقلید شخصی کاوجوب کوئی شرعی حکم نہیں بلکہ ایک انتظامی فتویٰ ہے۔
اس کی ایک واضح نظیر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد میں جمعِ قرآن کا واقعہ ہے، جب انہوں نے قرآنِ حکیم کا ایک رسم الخط متعین کر دیا تھا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے پہلے قرآنِ حکیم کو کسی بھی رسم الخط کے مطابق لکھا جا سکتا تھا کیونکہ مختلف نسخوں میں سورتوں کی ترتیب بھی مختلف تھی اور اس ترتیب کے مطابق قرآنِ حکیم لکھنا جائز تھا لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ایک شدیدفتنہ کے سدباب کےلئے پوری امت کی اجتماعی مصلحت کے پیشِ نظر اس اجازت کو ختم فرما کر قرآن کریم کے ایک رسم الخط اور ایک ترتِیب کو متعین کر کے امت کو اس پر متفق و متحد کر دیا اور امت میں اسی کی اتباع پر اجماع ہوگیا۔ بالکل یہی معاملہ تقلید شخصی کابھی ہے، کہ ایک عظیم فتنہ کے سدباب کے لئے اس کو واجب قراردیاگیاہے۔
آج کل کے غیرمقلدین حضرات ، درحقیقت تو ان میں کوئی ایک بهی غیرمقلد نہیں ہے بلکہ سب کے سب مقلد ہی ہیں جوآج کل کے چند جہلاء کی تقلید کرتے ہیں اوران جہلاءکو شیخ کےلقب سے پکارتے ہیں۔ کوئی بهی جاہل شخص جوفقہ حنفی یا امام اعظم ابوحنیفہؒ یا کسی اورحنفی عالم کے خلاف کچھ واہیات باتیں بولتا یا لکهتا ہے اورقرآن وحدیث کی غلط تشریحات بیان کرتے ہوئے مقلدین کو ان آیات واحادیث کا مصداق ٹھہرانے کی ناکام کوشش کرتاہے تو وه ان کے نزدیک شیخ بن جاتا ہے۔ لیکن اس پر حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ بالکل اسی طرح صحابہ کرام ؓکے دور میں بھی خوارج کافرقہ وجود میں آیا تھا جوقرآن کی آیات پڑھ کر صحابہ کرامؓ کی نفی کرتا تھا اور حضرت علیؓ کی خلافت کو تسلیم کرنے سے انکا رکرتاتھااور اس کی دلیل قرآنِ کریم کی اس آیت سے دیاکرتا تھا کہ’’إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ‘‘، ’’حکومت صرف اﷲ کی ہے‘‘ یعنی خلافت کسی کی نہیں چلے گی۔ بالکل اسی طرح اسلامی تاریخ کےہر دور میں ایسے فرقے وجودمیں آتے رہے ہیں جوقرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ کو بنیاد بناکر اپنی جہالت کے سبب اہل علم سے اختلاف کرتےرہےہیں۔ ایسے باطل فرقوں کے رد میں شیخ الاسلام ابن تيمية اورابن القیم رحمهما الله تعالیٰ کے شاگردِخاص حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ الله نےساتویں صدی ہجری میں ایک مستقل انتہائی لطیف ومفید رسالہ لکھ کرہردورکےجاہلین خصوصاً آج کے دور کے غیرمقلدین حضرات پرزبردست رد کیا ہے، اس رسالہ کا نام ہے’’الرد علی من اتبع غیر المذاہب الاربعہ‘‘یعنی ان لوگوں پر رد جو مذاہب اربعہ (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کے علاوه کسی اورکی اتباع کرتے ہیں۔
حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ الله(متوفی ۷۹۵)نے’’الرد علی من اتبع غیر المذاہب الاربعہ‘‘ ان لوگوں کی رد وتردید میں لکهی ہے جو فروعی واجتہادی مسائل میں مذاہب اربعہ (حنفی، شافعی، مالکی،حنبلی) کے علاوه کسی اور کی اتباع کرتے ہیں، اورپهر جولوگ صرف یہی نہیں کہ مذاہب اربعہ کی اتباع نہیں کرتے بلکہ ساتھ ہی دن رات ان پرلعن طعن بهی کرتے ہیں توایسے لوگ کتنے خطرے ونقصان میں ہیں وه بالکل واضح ہے۔
حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ: ’’فاقتضت حكمة الله سبحانه أن ضبط الدين وحفظه بأن نصب للناس أئمة مجتمعاً على علمهم ودرايتهم وبلوغهم الغاية المقصودة في مرتبة العلم بالأحكام والفتوى من أهل الرأي والحديث فصار الناس كلهم يعولون في الفتاوى عليهم ويرجعون في معرفة الأحكام إليهم وأقام الله من يضبط مذاهبهم ويحڑ قواعدهم، حتى ضبط مذهب كل إمام منهم وأصوله وقواعده وفصوله حتى ترد إلى ذلك الأحكام ويضبط الكلام في مسائل الحلال والحرام وكان ذلك من لطف الله بعباده المؤمنين ومن جملة عوائده الحسنة في حفظ هذا الدين ولولا ذلك لرأى الناس العجاب مِن كل أحمق متكلف معجبٍ برأيه جريءعلى الناس وثَّاب فيدعي هذا أنه إمام الأئمة ويدعي هذا أنه هادي الأمة وأنه هوالذي ينبغي الرجوع دون الناس إليه والتعويل دون الخلق عليه ولكن بحمد الله ومنته انسد هذا الباب الذي خطره عظيم وأمره جسيم وانحسرت هذه المفاسد العظيمة وكان ذلك من لطف الله تعالى لعباده وجميل عوائده وعواطفه الحميمة ومع هذا فلم يزل يظهر من يدعي بلوغ درجة الاجتهاد ويتكلم في العلم من غير تقليدٍ لأحد من هؤلاء الأئمة ولا انقياد فمنهم من يسوغ له ذلك لظهور صدقه فيما ادعاه ومنهم من رد عليه قوله وكذب في دعواه وأما سائر الناس ممن لم يصل إلى هذه الدرجة فلا يسعه إلا تقليد أولئك الأئمة والدخول فيما دخل فيه سائر الأمة‘‘۔ ’’اللہ تعالی كى حكمت ہے كہ اس كے دين كى حفاظت و ضبط اس طرح ہوئى كہ لوگوں كے ليے آئمہ كرام كھڑے كيے جن كاعلم و فضل اور درايت احكام وفتوىٰ ميں انتہائى درجہ كو پہنچا ہوا ہے وہ آئمہ اہل رائے ميں بھى ہوئے اور اہل حديث یعنی محدثین ميں بھى، اس طرح سب لوگ ان كے فتاویٰ پر چلنے لگے اور احكام معلوم كرنے كے ليے ان آئمہ كرام كى طرف رجوع كرتے ہيں اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے ايسے افراد پيدا كيے جنہوں نے ان كے مذاہب كواحاطہ تحريرميں لايا اور ان كے قواعد لكھے حتیٰ كہ ہر ايک امام كا مسلک اور اس كے اصول و قواعد اور فصول مقرر كرديئےكہ احكام معلوم ہوں اورحلال وحرام كے مسائل معلوم وضبط كيے جاسكيں يہ اللہ تعالى كى اپنے بندوں پر مہربانى و رحمت تھى اور اس دين كى حفاظت ميں ايک اچھا احسان تھا، اگر يہ نہ ہوتا تو لوگ ہراحمق كى جانب سےعجيب وغريب اشياء ديكھتے جو بڑى جرأت كے ساتھہ اپنى احمقانہ رائے لوگوں كے سامنے بيان كرتا پھرتا، اور اس رائے پرفخربھى كرتا، اور امت كے امام ہونے كا دعوىٰ كر ديتا، اور يہ باور كراتا كہ وہ اس امت كا راہنما ہے، اور لوگوں كى اسى كى طرف رجوع كرنا چاہيے، كسى اور كى جانب نہيں ليكن اللہ كا فضل اور اس كا احسان ہے كہ اس نے اس خطرناک دروازے كو بند كر ديا، اور ان عظيم خرابيوں كو جڑ سے كاٹ پھينكا، اور يہ بھى اللہ كى اپنے بندوں پر مہربانى ہے لیكن اس كے باوجود ايسے افراد اب تک ظاہر ہوتے اور سامنے آتے رہتے ہيں جو اجتہادكے درجہ تک پہنچنے كا دعویٰ كرتے، اور ان آئمہ اربعہ كى تقلید كيے بغير علم ميں باتيں كرتے ہيں، اور باقى سارے لوگ جو اس درجہ تک نہيں پہنچے انہيں ان چاروں كى تقلید كيے بغير كوئى چارہ نہيں، بلكہ جہاں سارى امت داخل ہوئى ہے انہيں بھى داخل ہونا ہوگا‘‘۔ (الرد على من اتبع غير المذاہب الاربعۃ: ص ۲۶-۲۸)
سبحان اﷲحافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ الله کے اس تبصرے کا ایک ایک لفظ مبنی برحقیقت اورکهلا اور واضح پیغام حق ہے اور مذاہب ائمہ اربعہ سے بغاوت کی صورت میں جن خدشات وخطرات کے واقع ہونے کی طرف ابن رجب رحمہ اﷲ نے اشاره کیا ہے آج کے دور میں ہم اس کا مشاہده کر رہے ہیں۔
۱۔ جیساکہ شیعہ حضرات نے صحابہ کرام رضی اﷲعنہم اجمعین کی تقلید کا انکارکرتے ہوئے متعہ کے حرام ہونے اورامی عائشہ رضی اﷲعنہا، حضرت ابوبکرصدیق، حضرت عمرفاروق، حضرت عثمان غنی اورحضرت امیر معاویہ رضی اﷲعنہم اجمعین کے مقام ومرتبہ پرصحابہ کرامؓ کے ہونے والے اجماع کا انکارکیا۔
۲۔ مرزاغلام احمد قادیانی نےتقلید کا انکارکرتےہوئےختم نبوت کا انکارکیااورصحابہ کرامؓ، تابعین وتبع تابعینؒ، ائمہ مجتہدینؒ، مفسرینؒ اورمحدثینؒ سمیت پوری امت مسلمہ کے ہونے والے اجماع کا انکارکرکیا۔
۳۔ اسی طرح منکرین حدیث نے ائمہ محدثین کی تقلید کا انکارکرتے ہوئےکتب احادیث بلکہ سرے سے احادیث کا ہی انکار کردیااوراحادیث کے حجت شرعی ہونے پرامت مسلمہ کے ہونے والے اجماع کا انکارکیا۔
۴۔ بالکل ویسے ہی غیرمقلدین حضرات نے ائمہ مجتہدین کی تقلید کا انکارکرتے ہوئےطلاق ثلاثہ، بیس رکعات تراویح اورعامی شخص پرتقلید کے واجب ہونےپرخیرالقرون کے زمانے سے چلے آنے والے اجماع کا انکارکرکیا۔
۵۔ پھر ان ہی میں سے پیداہونے والے فرقہ غیرمقلدین جماعت المسلمین (مسعودی فرقے)نے ائمہ مجتہدین کے ساتھ ساتھ ائمہ محدثین کی تقلید کا بھی انکار کرتے ہوئے بخاری و مسلم کے"اصح الکتاب بعد الکتاب ﷲ" (قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب) ہونے پر۱۲۰۰ سالوں سےچلے آنے والے اجماع کاانکار کیااوربخاری ومسلم کی مرسل اورمدلس روایات کو ضعیف قراردیا۔
۶۔ بالکل اسی طرح موجودہ دورمیں پروفیسرغامدی صاحب نے بھی تقلید کا انکار کرتے ہوئے قربِ قیامت میں نزولِ حضرت عیسیٰؑ، رجم کی سزا، داڑھی اوردیگراحکامات کےوجوب پر خیرالقرون کے زمانے سے چلے آنے والے اجماع کا انکارکیا۔
مندرجہ بالاتمام باطل فرقے تقلید کا انکار کرنے کے بعدہی وجود میں آئے ہیں۔ کیونکہ جب کوئی شخص مجتہدین کی تقلید کا انکار کرتاہےتوپھر محدثین، مفسرین حتیٰ کہ صحابہ کرامؓ کی تقلید کا بھی انکارکربیٹھتا ہے کیونکہ اس کا ہرشخص پرسے اعتماد ختم ہوجاتاہے اور وہ یہ سوچنے پرمجبورہوجاتا ہےکہ جب مجتہدین سے اجتہاد کرنے میں غلطی ہوسکتی ہے توپھرمحدثین سے کسی حدیث کوصحیح یا ضعیف قراردینے میں اورکسی راوی کو ثقہ یا کذاب کہنے میں بھی غلطی ہوسکتی ہے اورکسی مفسرسے تفسیرقرآن کے سمجھنے اور بیان کرنے میں بھی غلطی ہوسکتی ہے۔
حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ الله ایک سوال نقل کرتے ہیں اورخود ہی اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’فإن قيل: فما تقولون في نهي الإمام أحمد وغيره من الأئمة عن تقليدهم وكتابة كلامهم، وقول الإمام أحمد: لا تكتب كلامي ولا كلام فلان وفلان، وتعلم كما تعلمنا۔ وهذا كثير موجود في كلامهم؟
قيل: لا ريب أن الإمام أحمد رضي الله عنه كان ينهى عن آراء الفقهاء والاشتغال بها حفظاً وكتابة ويأمر بالاشتغال بالكتاب والسنة حفظاً وفهماً وكتابة ودراسة وبكتابة آثار الصحابة والتابعين دون كلام مَن بعدهم ومعرفة صحة ذلك من سقمه والمأخوذ منه والقول الشاذ المطرح منه ولا ريب أن هذا مما يتعين الاهتمام به والاشتغال بتعلمه أولاً قبل غيره فمن عرف ذلك وبلغ النهاية من معرفته كما أشار إليه الإمام أحمد فقد صارعلمه قريباً من علم أحمد فهذا لا حجرعليه ولا يتوجه الكلام فيه إنما الكلام في منع من لم يبلغ هذه الغاية ولا ارتقى إلى هذه النهاية ولا فهم من هذا إلا النزر اليسير كما هو حال أهل هذا الزمان بل هو حال أكثر الناس منذ أزمان مع دعوى كثير منهم الوصول إلى الغايات والانتهاء إلى النهايات وأكثرهم لم يرتقوا عن درجة البدايات‘‘۔ ’’اگر يہ كہا جائے کہ امام احمد رحمه الله وغيرہ نے جو اپنى كتاب اور كلام ميں تقلید كرنے سے منع كيا ہے اس كے متعلق آپ كيا كہتے ہيں؟ اور پھر امام احمد رحمہ اللہ كا قول ہے ميرا اور فلان اور فلان كا كلام مت لكھو، بلكہ جس طرح ہم نے سيكھا ہے اور تعليم حاصل كى ہے اس طرح تم بھى تعليم حاصل كرو ائمہ كى كلام ميں يہ بہت موجود ہے؟
اس كے جواب ميں كہا جائيگا كہ بلاشک و شبہ امام احمد رحمہ اللہ فقہاء كى آراء لكھنے اور حفظ كرنے ميں مشغول ہونے سے منع كيا كرتے تھے بلكہ كہتے كہ كتاب و سنت كى فہم اور تعليم و تدريس اور حفظ ميں مشغول ہوا جائے اور صحابہ كرامؓ اور تابعين عظامؒ كے آثار لكھا كريں ان كے بعد والوں كى نہيں اور اس ميں سے صحيح اور ضعيف شاذ و مطروح قول كو معلوم كريں بلاشک اس سےیہ تعين ہو جاتا ہے كہ كتاب و سنت كى تعليم كا اہتمام كرنا كسى دوسرے كام ميں مشغول ہونے سے بہتر ہے بلكہ پہلے اس كى تعليم حاصل كى جائے۔ لہٰذا جو يہ جان لے اور اس كى معرفت كى انتہاء تک پہنچ جائے جيسا كہ امام احمد رحمه الله نے اشارہ كيا ہے تو اس كا علم تقريباً امام احمد رحمه الله كے قريب ہو گيا تو اس پر كوئى روک ٹوک نہيں ہے اور نہ ہى اس كے متعلق كلام کیاجارہا ہے، بلكہ كلام تو اس شخص كے متعلق ہے جو اس درجہ تک نہيں پہنچا اور نہ ہى وہ اس كى انتہاء كو پہنچا ہے اور نہ اس نے کچھ سمجھا ہے ہاں تهوڑا ساعلم ضرور ہے جيسا كہ اس دور كے لوگوں كى حالت ہے بلكہ كئى زمانوں سے اكثر لوگوں كا يہى حال ہے وہ انتہاء درجہ تک پہنچنے اورغايت كو پانے كا دعوىٰ كرتے ہيں حالانكہ وہ تو ابتدائى درجات تک بھى نہيں پہنچ سكے‘‘۔ (الرد على من اتبع غير المذاہب الاربعۃ: ص ۳۵-۳۶)
کسی مسلمان کے لیئے یہ جائزنہیں ہے کہ فروعی مسائل میں مذاہب الاربعہ کے علاوه کسی اورکو اختیار کرے، لہٰذا ائمہ اربعہ کے علاوه کسی کی تقلید جائزنہیں ہے۔ ابن رجب الحنبلی رحمہ الله نے اپنے اس فیصلے پرکئی دلائل پیش کئے ہیں، مثلاً: صحابہ کرام رضی الله عنہم کا لوگوں کو صرف مصحف عثمانی کی قراءت پرجمع کرنا، جب انهوں نے دیکها کہ اب مصلحت ومنفعت اسی میں ہے، کیونکہ لوگوں کو اگرآزاد چهوڑدیا جائے تومختلف مفاسد ومہالک وخطرات میں مبتلا ہوجائیں گے، لہٰذااحكام کے مسائل اورحلال وحرام کے فتاویٰ کا بهی یہی حال ہے، پهراس دعویٰ پر ابن رجب الحنبلی رحمہ الله نے کئی دلائل ذکرکئے مثلاً:
۱۔ اگرلوگوں کو معدود ومشہورائمہ (یعنی ائمہ اربعہ)کے اقوال پرجمع نہ کیا جائے تو دین میں فساد واقع ہوجائے گا۔
۲۔ ہرأحمق بے وقوف وجاہل اپنے آپ کو مجتہدین کے زمره میں شمارکرے گا۔
۳۔ کبهی کوئی جهوٹا قول کوئی بات مُتقدمین سلف کی طرف منسوب کیا جائے گا۔
۴۔ اورکبهی کوئی تحريف کرکے ان کی طرف منسوب کیا جائے گا، اورکبهی یہ قول بعض سلف کی خطاء ولغزش ہوگی جس کے ترک کرنے اورچهوڑنے پر مسلمانوں کی ایک جماعت کا اجتماع ہوگا۔
۵۔ لہٰذا مصلحت کا تقاضا وہی ہے جو الله تعالیٰ کی قضاء وقدر میں مقررہوچکا ہے یعنی لوگوں کو مشہورائمہ (یعنی ائمہ اربعہ) رضی الله عنہم اجمعين کے مذاہب پرجمع کیا جائے۔
ابن رجب الحنبلی رحمہ الله ایک اعتراض نقل کرتے ہیں وه یہ کہ ممکن ہے کہ حق ائمہ اربعہ کے اقوال سے خارج ہو ؟
پھرابن رجب الحنبلی رحمہ الله نے اس شبہ کے واقع ہونے کا انکارکیا ہے کہ حق ائمہ اربعہ کے اقوال سے خارج ہو، اوراس کی دلیل یہ دی کہ کیونکہ ’’لأن الأمة لا تجتمع على ضلالة‘‘، ’’امت مسلمہ کبهی گمراہی پرجمع نہیں ہوسکتی ‘‘۔
الله تعالی کی بے شمار رحمتیں نازل ہوں تمام ائمہ وعلماء اہل سنت پر کہ ہر مسئلہ میں ہر پہلو اور ہرمیدان میں ہماری راہنمائی فرمائی اورتمام فتنوں سے ہمیں پہلے ہی آگاه وخبرادار کیا ، حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ الله کا مبنی برصدق وحق کلام وتبصره آپ نے پڑھ لیا، یقیناًاس کلام میں ہم سب کے لئے اورخصوصاًان نادان لوگوں کے لئے بڑی عبرت ونصیحت ہے جنہوں نے دین کے معاملہ ائمہ حق وہدی ائمہ اربعہ کی اتباع چهوڑ کر آج کل کے چند جاہل لوگوں کی اورنفس وشیطان کی اتباع کا طوق اپنے گلے میں ڈال دیا ہے۔
آئمہ کرام کا حدیث سمجھنے میں اختلاف بالکل اسی طرح سے ہے جیسا کہ صحابہ کرام رضی الله عنھم کا حدیث سمجھنے میں ہواتھا۔
جس شخص کو قوت اجتہادیہ حاصل نہ ہو اور مجتہد نہ ہو اس کو اجتہاد کرنے کی اجازت نہیں، اور ممکن ہے کہ ایک شخص حافظ حدیث (محدث) ہو اور مجتہد نہ ہو اس لئے صرف جمع روایات (احادیث) سے قابل تقلید ہونا ضروری نہیں۔
اس حدیث میں صاف تصریح ہے کہ بعض حافظ الحدیث صاحبِ فہم نہیں ہوتے یا قلیل الفہم ہوتے ہیں۔ حافظ الحدیث ہونا اور بات ہے اور حدیث کا فہم حاصل ہونا اوربات ہے۔
آج ہرغیر مقلدعامی اور جاہل شخص تقلید کا انکار کرتے ہوئے دعویٰ کرتا ہے کہ میں کسی امام کی تقلید نہیں کرتا۔ جبکہ اﷲ تعالیٰ عالم اور جاہل میں خود ہی فرق بیان فرماتےہیں کہ: ’’اس کو عالموں کے سواکوئی نہیں سمجھتا۔ کیا علم والے اور جاہل برابرہیں؟‘‘
تقلید پر صحابہ کرامؓ کے اقوال اور غیر مقلدین کا دھوکہ
’’حاما العالم فان اهتدي فلا تقلدوه دينكم‘‘۔ ’’اگر عالم ہدایت پر بھی ہو تو اس کی دین میں تقلید نہ کرو‘‘۔