ads1

Ads Area

مسلہ تقلید پر تحقیق مقلد اور غیر مقلدین کے لیےمسلہ تقلید پر تحقیق مقلد اور غیر مقلدین کے لیے

 بسم الله الرحمن الرحیم

اکثرغیرمقلدین حضرات بلاکسی مستند دلیل وتفصیل کے تقلید اور اہل تقلیدکی مذمت کرتے ہیں جس سے بعض لاعلم لوگ خصوصاً خودان کے اپنے ہم مسلک عوام یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ تقلید مطلقاً بہت بُری چیز ہےاورمقلدین مشرک، بدعتی یاکم ازکم غلطی پراورگنہگارہیں۔ اس تحریر کا مقصد ایسے تمام لوگوں کی غلط فہمیوں کو دورکرنا اورمستند دلائل کے ساتھ حق کو واضح کرنا ہےتاکہ معتدل لوگوں تک حق بات پہنچاکران کی رہنمائی کی جائے اورمذاہب اربعہ(حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی) جن کو اﷲتبارک وتعالیٰ نےپچھلے ۱۴۰۰ سالوں سے حق پرغالب رکھاہے، باطل اورمتعصب لوگوں سےان کا دفاع کیاجاسکے۔
حرفِ آغاز
تقلیدکے بارے میں جاننے کے لئے ضروری ہوگاکہ سب سے پہلے اس کے معنیٰ ومفہوم اورتعریف بیان کی جائے تاکہ قارئین کو سمجھنے میں مزید آسانی ہوسکے۔
تقلید کی تعریف کے سلسلے میں غیرمقلدین حضرات کا نہایت ہی احمقانہ مطالبہ اور اس کا مدلل جواب
تقلید کی تعریف میں موجودہ دور کے نہایت ہی احمق اورجاہل غیرمقلدین عوام ایک نیاءمطالبہ پیش کرتی ہے کہ ’’تقلید کی تعریف امام ابوحنیفہ رحمہ اﷲسے پیش کرو‘‘۔
تقلید کی تعریف امام ابوحنیفہ رحمہ اﷲسے ثابت کرنے کامطالبہ بالکل ایساہے جیسے کوئی منکرینِ حدیث (نام نہاد اہل قرآن) کسی منکرینِ فقہ(نام نہاد اہلحدیث) سے مطالبہ کرے کہ ’’حدیث کی تعریف رسول اﷲﷺ سے پیش کرو‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ ہم انہیں سب سے پہلے الزامی جواب دینگے تاکہ ناقص العقل اوراحمق لوگوں کا منہ بند ہوسکے، اس کے بعد تحقیقی جواب پیش کیاجائے گا، تاکہ سمجھدار اورصاحب فہم لوگ اس سے فائدہ اٹھاسکیں۔
الزامی جواب:
غیرمقلدین حضرات صبح شام بس ایک ہی نعرہ لگاتے ہیں کہ ہم صرف اﷲاوراس کے رسولﷺ کی اطاعت کرتےاورکسی کی تقلید نہیں کرتے۔ غیرمقلدین حضرات کے اس دعوے اور اصول کے تحت ہم ان سے چندمطالبات کرتے ہیں کہ:
۱۔ کیاکوئی غیرمقلداتباع و اطاعت کی تعریف قرآن وحدیث سے پیش کرسکتاہے؟
۲۔ کیا کوئی غیرمقلدحدیث کی تعریف رسول اﷲﷺسے پیش کرسکتاہے؟
۳۔ کیا کوئی غیرمقلدصحیح وضعیف حدیث کی تعریف رسول اﷲﷺسے ثابت کرسکتاہے؟
کوئی غیرمقلد حدیث اورصحیح وضعیف حدیث کی تعریف رسول اﷲﷺسے تو کیاامام بخاریؒ اورامام مسلمؒ سے بھی ثابت نہیں کرسکتاجبکہ یہ سب کے سب امام بخاریؒ اورامام مسلمؒ کو علم حدیث میں امام مانتے ہیں توپھر ہم سےامام ابوحنیفہؒ کی بیان کردہ تقلید کی تعریف کا مطالبہ کیوں؟
اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ ’’جیسی دلیل کا تقاضہ تم ہم سے کرتے ہو، ویسی ہی دلیل تم ہمیں پیش کردو‘‘۔اوراگرویسی دلیل تم پیش نہیں کرسکتے توپھرہم سے ایسی دلیل کا تقاضہ کیوں کرتے ہو؟
یہ توتھاالزامی جواب جو ان لوگوں کے لئے ہے جن کے پاس نہ علم ہے اور نہ ہی عقل و شعور۔ اس کے بعد میں تحقیقی جواب پیش کرتاہوں تاکہ ہرعاقل وباشعورمسلمان جو تھوڑی بہت بھی سمجھ بوجھ رکھتاہے، وہ بآسانی میری اس بات کوسمجھ سکے۔
تحقیقی جواب:
دنیامیں ہرفن وشعبے کے ماہرین ہوتےہیں، جیساکہ علم طب (یعنی میڈیکل )کے ماہرین کوڈاکٹرکہاجاتاہے، علم طبیعات (یعنی فزکس)اورعلم کیمیا(یعنی کیمسٹری)کے ماہرین کوانجنیئراورسائنسدان کہاجاتاہے۔ اب اگرکوئی احمق شخص یہ مطالبہ کرے کہ کسی انجنیئروسائنسدان سے یااس کی کتاب سے طب کی تعریف بیان کرو، یاپھریہ کہے کہ کسی ڈاکٹر یااس کی کتاب سےطبیعات اورکیمیاکی تعریفات ثابت کروتوایساشخص دنیاکا احمق اوربے وقوف ترین شخص کہلائےگا۔ اس لئے کے طب کی تعریف ڈاکٹرہی بتاسکتاہے انجنیئراورسائنسدان نہیں کیونکہ وہ علم طب کے ماہرین نہیں ہیں، باکل ایسے ہی طبیعات اورکیمیاکی تعریفات انجنیئراورسائنسدان ہی بتاسکتے ہیں ڈاکٹرنہیں کیونکہ ڈاکٹراس شعبے کا ماہرنہیں ہے۔
بالکل ایسے ہی علم دین میں بھی مختلف شعبہ جات ہیں، جیساکہ علم تفسیر، علم حدیث، علم فقہ، علم اسماءالرجال، علم صرف ونحو، علم لغت۔ اب اگرکوئی احمق شخص یہ کہے کہ تفسیرکی تعریف امام بخاریؒ سے ثابت کرو، یاحدیث کی تعریف امام ابن کثیرؒ سے ثابت کرو، یاعلم فقہ کی تعریف امام یحییٰ ابن معینؒ سے پیش کرو، یاپھرعلم صرف ونحوکی تعریف امام ابوحنیفہؒ سے ثابت کرو، توایسا شخص بھی دنیاکااحمق اوربے وقوف ترین شخص ہی کہلائےگا۔ کیونکہ امام بخاریؒ علم حدیث کے امام ہیں علم تفسیرکے نہیں، امام ابن کثیرؒ علم تفسیرکے امام ہیں علم حدیث کے نہیں، امام یحییٰ ابن معینؒ علم اسماءالرجال میں امام ہیں علم فقہ میں نہیں، اسی طرح مشہورقول کے مطابق معاذبن مسلم الہراویؒ علم صرف ونحوکے امام ہیں علم لغت کےنہیں، لہٰذااگرکسی شخص کوتقلید کی تعریف معلوم کرنی ہوتواسے لغت کےاماموں کی طرف متوجہ ہونا پڑےگا۔
عہد نبوتﷺ اورخلافت راشدہ میں قرآنی الفاظ کی تفسیر اورغریب الحدیث کی شرح اورتوضیح کی بہت ضرورت تھی، لہٰذا ان میں ایسے عربی لغت دان موجود تھےجن سے یہ ضرورت پوری ہوجاتی تھی مثلاً: خلفاءاربعہ، حضرت زید بن ثابت، حضرت اُبی بن کعب، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابوالدرداء، اورنامور اسلامی شعراء مثلاً: حسان بن ثابت، عبداللہ بن رواحہ، کعب بن زہیروغیرھم رضی اللہ عنہم اجمعین۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲعنہ سےمروی ہے: ’’وأخرج أبو بكر بن الأنباري في كتاب الوقف عن طريق عِكْرِمة عن ابن عباس قال: إذا سألتم عن شيء من غريب القرآن فالتمسوه في الشعر، فإن الشعر ديوان العرب‘‘۔ ’’شعر عربوں کادیوان ہے۔ جب قرآن کےکسی لفظ کامفہوم ہمیں معلوم نہ ہوتاہم اشعار کی طرف رجوع کرتے، جب قرآن کی کوئی بات سمجھ نہ آئے توشعروں میں تلاش کیجئے، کیونکہ اشعار عربی زبان میں ہیں‘‘۔ (اعراب القرآن الکریم وبیانہ: ج۴، ص۲۵۰، سورۃ النحل [۴۷-۴۳])
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲعنہ لغت میں بہت مہارت رکھتےتھے۔ وہ عربی نوادرات ومفرادات اور امثال وغیرہ سےبخوبی واقف تھےاوراسی مہارت کی بنیاد پرو ہ کلمات کی لغوی تشرح کرتے، ایک مرتبہ نافع بن ازرق اورنجدہ بن عویمر نےحضرت ابن عباس رضی اﷲعنہ سےتفسیری مسائل دریافت کرنےکےلئےیہ شرط لگائی کہ ہرکلمہ کامفہوم عربی اشعارکی مدد سے واضح کریں توآپ نے یہ شرط پوری کردی۔گویا ابن عباس رضی اﷲعنہ اپنے عہد کی چلتی پھرتی کتاب لغت تھے تاہم لغت نگاری کےبانی مبانی حضرت ابن عباس رضی اﷲعنہ ہی ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اﷲعنہ کےبعد ابان بن تغلب نےعربی لغت نویسی کی طرف خصوصی توجہ کی اور پھر ابوعبدالرحمٰن البصری الفراہیدیؒ(المتوفی ۱۷۰ھ)نےفن لغت میں پہلی شہر ہ آفاق کتاب’’کتاب العین‘‘کےنام سے لکھی جوکہ ایسی مایہ ناز تصنیف ہےجسے اصطلاحاً ’’عربی ڈکشنری‘‘کہا جاتا ہے۔ وہ اپنے اسلوب میں پہلےشخص تھےجس نےبغیر کسی کی تقلید کیئے اس فن کاآغاز کیا۔ اسی لئے انہیں عربی لغت کاپہلاامام کہاجاتاہے، آپ ابوعمروبن العلاء کےشاگرد اورمشہور نحوی سیبویہ کےاستاد تھے، انتہائی ذہین، فطین، عابد،مجاہد تھے۔ ان کے بعد خلف الاحمر(المتوفی ۱۸۰ھ)، الکسائی (المتوفی ۱۸۹ھ)، ابن درید (المتوفی ۳۲۱ھ) جیسے لوگ شامل اس فن میں شامل ہوئے۔
ابونصر اسماعیل بن حماد الجوہریؒ (المتوفی۴۰۰ھ) جوکہ ترکستان کے باشندے تھے۔ انہوں نے فن لغت میں ’’الصحاح فی اللغۃ‘‘ نامی کتاب لکھ کرایسا کارنامہ انجام دیاجسے علماء کرام نے بہت پسند کیا۔ چنانچہ ثعلبیؒ کہتے ہیں: ’’الصحا ح، ابن درید کی الجمہرۃ فی اللغۃ اورابن فارس کی المجمل سےزیادہ بہترہے‘‘۔
علامہ جلال الدین سیوطی ﷫ کہتےہیں: ’’اولین لغت نویس جس نے لغت کی کتاب میں صحت کا التزام کیاوہ الجوہری ہے۔صحاح کولغتت کتب میں وہی درجہ حاصل ہےجوصحیح بخاری کوکتب حدیث میں ہے‘‘۔
ابونصر اسماعیل بن حماد الجوہری ؒکی اس کتاب کوعلماء نےہرزمانہ میں پسند کیا کیونکہ موصوف نےاس کتاب کو جدید اورآسان اسلوب میں مرتب کیا، اس کےقبول عام کی سب سےبڑی دلیل یہ ہےکہ کتب لغت میں جتنا اس کےساتھ اعتناء کیاگیا، شاید اتنا کسی اور کےساتھ نہیں کیاگیا مثلاً محمدبن ابی بکر بن عبادالقادرالرازیؒ (المتوفی ۶۶۰ھ) نے مختارالصحاح کےنام سے اس کاخلاصہ تیار کیا۔
اس کے بعد علامہ مجدالدین ابوطاہر محمدبن یعقوب الفیروز آبادیؒ (المتوفی۸۱۶ھ) نے القاموس کے نام سے ایک اورعظیم الشان کتاب لکھی جس نےلغت نویسی کی تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی، ا س کی مقبولیت کااندازہ اس بات سےلگایا جاسکتاہےکہ مشہور عالم مرتضیٰ حسین الزبیدیؒ نے’’تاج العروس من جواہرالقاموس‘‘کےنام سے اس کی شرح لکھ کرکتب لغت میں ایک غظیم اضافہ کیا، یہ بھی مکمل طورپرچھپ چکی ہے، اورالقاموس الجدیدکےنام سے اردو تراجم بھی کئے جاچکے ہیں۔
ذیل میں ہم تقلیدکے معنیٰ ومفہوم اورتعریف  کوثابت کرنے کے لئے ان ہی کتابوں سے دلائل اورحوالہ جات پیش کریں گے، جن کو علماءوصلحا میں مقبولیت اورمقام حاصل ہے اورائمہ کرام ہردورمیں ان ہی کتب لغت سے استفادہ حاصل کرتے رہے ہیں۔
تقلید کی لغوی تعریف
تقلید کے لفظ کا مادہ "قلادہ" ہے۔ جب انسان کے گلے میں ڈالا جائے تو "ہار" کہلاتا ہے اور جب جانور کے گلے میں ڈالا جائے تو "پٹہ" کہلاتا ہے۔
تقلید کا مادہ "قلادہ" ہے، باب تفعیل سے "قلد قلادۃ" کے معنیٰ ہار پہننے کے ہیں۔ حضرت امام محمدبن اسمٰعیل البخاریؒ (متوفی ۲۵۶ھ) نے صحیح بخاری میں القلائداوراستعارۃ القلائدکے مستقل ابواب قائم کیئے ہیں جن میں ہارپہنے اورضرورت کے وقت عورتوں کاایک دوسرے سے ہار مانگنے کاتذکرہ ہے؛ چنانچہ خود حدیث میں بھی "قلادہ" کا لفظ "ہار" کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔
’’حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ أَنَّهَا اسْتَعَارَتْ مِنْ أَسْمَاءَ قِلاَدَةً، فَهَلَكَتْ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَاسًا مِنْ أَصْحَابِهِ فِي طَلَبِهَا، فَأَدْرَكَتْهُمُ الصَّلاَةُ فَصَلَّوْا بِغَيْرِ وُضُوءٍ، فَلَمَّا أَتَوُا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم شَكَوْا ذَلِكَ إِلَيْهِ، فَنَزَلَتْ آيَةُ التَّيَمُّمِ‏.‏ فَقَالَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ جَزَاكِ اللَّهُ خَيْرًا، فَوَاللَّهِ مَا نَزَلَ بِكِ أَمْرٌ قَطُّ، إِلاَّ جَعَلَ لَكِ مِنْهُ مَخْرَجًا، وَجُعِلَ لِلْمُسْلِمِينَ فِيهِ بَرَكَةٌ‏‘‘۔ ’’مجھ سے عبید بن اسمعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہانہوں نے (اپنی بہن) حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے ایک ہار عاریۃ ًلے لیا تھا، راستے میں وہ گم ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ میں سے کچھ آدمیوں کو اسے تلاش کرنے کے لئے بھیجا۔ تلاش کرتے ہوئے نماز کا وقت ہو گیا (اور پانی نہیں تھا) اس لئے انہوں نے وضو کے بغیر نماز پڑھی۔ پھر جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس ہوئے تو آپ کے سامنے یہ شکوہ کیا۔ اس پر تیمم کی آیت نازل ہوئی۔ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے عائشہ ! اللہ تمہیں بہتر بدلہ دے، واللہ ! جب بھی آپ پر کوئی مشکل آن پڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے تم سے اسے دور کیا اور مزید برآ ں یہ کہ مسلمانوں کے لئے برکت اور بھلائی ہوئی‘‘۔ (صحیح البخاری: كِتَاب النِّكَاحِ، بَاب اِسْتِعَارَةِ الثِّيَابِ لِلْعَرُوسِ وَغَيْرِهَا، رقم الحدیث ۴۷۶۶، شامله، موقع الإسلام)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: "اسْتَعَارَتْ مِنْ أَسْمَاءَ قِلَادَةً"۔ ’’انہوں نے حضرت اسماءؓ سے ہار عاریۃً لیا تھا‘‘۔ (بخاری، كِتَاب انِّكَاحِ،بَاب اسْتِعَارَةِ الثِّيَابِ لِلْعَرُوسِ وَغَيْرِهَا،حدیث نمبر:۴۷۶۶)
دوسری حدیث میں امی عائشہ رضی اﷲعنہ فرماتی ہیں:  "اِنْسَلَتْ قِلَادَةً لِی مَن عنقی فوقعت الحدیث"۔ ’’میراہار گردن سے سرک کر نیچے گرپڑا‘‘۔ (مسند احمد،ج ۶، ص۲۷۲؛ فتح الباری  شرح صحيح البخاری: ج۲)
’’حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ شِنْظِيرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ "طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ وَوَاضِعُ الْعِلْمِ عِنْدَ غَيْرِ أَهْلِهِ كَمُقَلِّدِ الْخَنَازِيرِ الْجَوْهَرَ وَاللُّؤْلُؤَ وَالذَّهَبَ"‘‘۔ ’’حضرت انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علم حاصل کرنا ہر مسلمان مردو عورت پر فرض ہے؛ اور نااہل (بےقدر) لوگوں کے سامنے علم پیش کرنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے جوسؤر کے گلے میں جواہرات، موتی اورسونےکےہار ڈالے‘‘۔ (سنن ابن ماجه: ج۱، کتاب السنۃ، أَبْوَابُ فِی فَضَائِلِ أَصَحَابِ رَسُولِ اللَّهِ، رقم الحدیث۲۲۴)
مندرجہ بالا حدیث سے اس بات کی دلیل ملتی ہے کہ ’’مقلد‘‘ کے معنیٰ ہار پہننے والے کے ہیں اور ساتھ ہی یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتاہے کہ یہ ہار خنزیروں کےگلے میں ڈالنے لائق نہیں ہوتا کیونکہ خنزیروں کو اس کی قدروقیمت معلوم نہیں ہوتی۔ ہم تو الحمداﷲخنزیرنہیں ہیں کیونکہ ہم نے تو یہ ہار خوشی سے پہنا ہواہے، لیکن جولوگ اس ہار کے پہننے کا انکار کرتے ہیں، ان بے قدرلوگوں کواس کی قدرمعلوم نہیں۔
کوئی غیرمقلد اس حدیث پر یہ اعتراض کرسکتاہے کہ اس حدیث کاایک راوی ’’حفص بن سلیمان‘‘ ضعیف ہے، لہٰذا یہ حدیث حجت وقابل استدلال نہیں۔
اس اعتراض کے جواب میں اوّل تو یہ کہاجائے گاکہ یہ حدیث فضائل کے باب میں ہے صفات باری تعالیٰ، احکامات اور حلال وحرام کے باب میں نہیں۔ لہٰذا اصول حدیث کی روسے یہ حدیث قابل حجت اورقابل استدلال ہے۔ دوسرا یہ کہ جب تک کسی ضعیف حدیث کے مقابلے میں صحیح حدیث موجود نہ ہوتب تک رائے اور قیاس سے بہترضعیف حدیث پرعمل کرناہے۔ اپنے اس مؤقف کی تائید میں دلیل کے طورپرفلحال اصول حدیث کے اصول، محدثین کے اقوال اورعلماءِغیرمقلدین کا ضعیف حدیث کے بارے میں اصول پیش خدمت ہیں۔
۱۔ امام نوویؒ نے اصول حدیث و اصول روایات کی کتاب میں لکھا ہے: ’’ويجوز عند أهل الحديث وغيرهم التساهل في الأسانيد ورواية ما سوى الموضوع من الضعيف، والعمل به من غير بيان ضعفه في غير صفات الله تعالى والأحكام كالحلال والحرام‘‘۔ ’’اہل حدیث کے نزدیک ضعیف سندوں میں تساہل (نرمی) برتنا اور موضوع کو چھوڑ کر ضعیف حدیثوں کو روایت کرنا اور ان پر عمل کرنا ان کا ضعف بیان کیے بغیر جائز ہے؛ مگر اللہ کی صفات اور حلال و حرام جیسے احکام کی حدیثوں میں ایسا کرنا جائز نہیں‘‘۔ (تدريب الراوی فی شرح تقريب النواوی: أنواع الحديث؛ النوع الثانی والعشرون المقلوب؛ شروط العمل بالأحاديث الضعيفة: ج۱، ص۳۵۰، ۴۵۵)
۲۔ امام نوویؒ کی الاربعین اور اس کی شرح فتح المبین لابن حجر المکی الہیثمی کے الفاظ میں: ’’قد اتفق العلماء علی جواز العمل بالحدیث فی فضائل الاعمال، لانہ ان کان صحیحاً فی نفس الامر، فقد اعطی حقہ، والا لم یترتب علی العمل بہ مفسدة تحلیل ولاتحریم، ولاضیاع حق الغیر‘‘۔ ’’ یعنی فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کے بارے میں علماء کا اتفاق ہے، کیونکہ اگر وہ واقعتاً صحیح تھی تو اس کا حق اس کو مل گیا، ورنہ اس پر عمل کرنے سے نہ تو حرام کو حلال کرنا لازم آیا اور نہ اس کے برعکس اور نہ ہی کسی غیر کا حق پامال کرنا‘‘۔ (الاجوبة الفاضلة: ص۴۳)
۳۔ حافظ ابن حجر ؒنے مقدمہ فتح الباری میں ’’محمد بن عبد الرحمن الطُفاوی‘‘ راوی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہےکہ: ’’قال ابو زرعة منکر الحدیث، واورد لہ ابن عدی عدة احادیث، قلت: لہ فی البخاری ثلاثة احادیث، لیس فیہا شئ مما استکرہ ابن عدی۔۔۔ ثالثہا فی الرقاق کن فی الدنیا کأنک غریب وہذا تفرد بہ الطفاوی، وہو من غرائب الصحیح، وکان البخاری لم یشدد فیہ، لکونہ من احادیث الترغیب والترہیب‘‘۔ ’’یہ حدیث صحیح بخاری کی غریب حدیثوں میں سے ہے۔ یعنی کن فی الدنیا کأنک غریب (بخاری کتاب الرقاق) حدیث کی روایت میں محمد بن عبد الرحمن الطفاوی منفرد ہے، شاید کہ امام بخاریؒ نے اس کے ساتھ تساہل کا معاملہ صرف اس وجہ سے کیا ہے کہ یہ ترغیب وترہیب کی حدیثوں میں سے ہے‘‘۔ (مقدمہ فتح الباری:ص۶۱۵)
۴۔ امام جلال الدین سیوطیؒ اپنی کتاب "التعقبات علی الموضوعات" میں اورامام على بن محمد بن عراق الكنانیؒ "تنزیہ الشریعۃ" میں لکھتے ہیں: ’’وقال: حنش ضعيف عند أهل الحديث والعمل على هذا عند أهل العلم، فأشار بهذا إلى أن الحديث اعتضد بقول أهل العلم، وقد صرح غير واحد بأن دليل صحة الحديث قول أهل العلم به، وإن لم يكن له إسناد يعتمد على مثله‘‘۔ ’’اور (امام ترمذیؒ)  نے کہا: اہل حدیث کے نزدیک (یہ حدیث) ضعیف ہے لیکن عمل ہے اسی پر اہل علم کا "بس یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ بیشک (ضعیف) حدیث اہل علم کے قول اور تعامل کے ساتھ حدیث ضعیف، ضعف سے نکل کر صحیح اور قابل عمل ہوجاتی ہے؛ اگرچہ اس کی اسناد لائق اعتماد نہ ہو، بہت سے اہل علم کا یہ قول ہے"‘‘۔ (تنزیہ الشریعۃللکنانی: ج۲، ص۱۰۴)
۵۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ بھی فضائل وغیرہ میں ضعیف احادیث پر عمل کے مسئلہ میں فرماتے ہیں: ’’قال شيخ الإسلام رحمه الله: قول أحمد بن حنبل: إذا جاء الحلال والحرام شددنا في الأسانيد، وإذا جاء الترغيب والترهيب تساهلنا في الأسانيد، وكذلك ما عليه العلماء من العمل بالحديث الضعيف في فضائل الأعمال‘‘۔ ’’شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ، امام احمدؒ کا قول نقل کرتے فرماتے ہیں کہ: جب حلال و حرام کی بات آئےگی تو اسانید (سندوں) کی جانچ پرکھ میں سختی سے کام لیں گے، اور جب ترغیب (نیکی کا شوق دلانے) اور ترہیب (برائی کا خوف دلانے) کی بات آئےگی تو ہم اسانید میں تساہل (نرمی) برتینگے، اسی طرح فضائل اعمال میں جس ضعیف حدیث کے عمل کرنے پر علماء ہیں‘‘۔ (مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ: ج۱۸، ص۶۵)
۶۔ امام ابوحنیفہؒ کا ارشادہے کہ ’’الخبر الضعیف عن رسول اللہ ا اولیٰ من القیاس، ولایحل القیاس مع وجودہ‘‘۔ ’’یعنی باب میں اگر ضعیف حدیث بھی موجود ہو تو قیاس نہ کرکے اس سے استدلال کیا جائے گا‘‘۔ (المحلیٰ لابن حزم: ج ۳، ص۱۶۱)
۷۔ غیرمقلد عالم مولاناثناءاللہ امرتسریؒ سے سوال کیا گیا کہ: ’’ضعیف حدیث کا معنیٰ کیا ہے، ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے یا نہیں؟‘‘ جواب میں کہتے ہیں: ’’ضعیف کے معنیٰ ہیں جس میں صحیح کی شرائط نہ پائی جائیں، وہ کئی قسم کی ہوتی ہے اگر اس کے مقابل میں صحیح نہیں ہے تو اس پر عمل کرنا جائز ہے۔ جیسے نماز کے شروع میں سبحالک اللھم الخ پڑھنے والی حدیث ضعیف ہے مگر عمل ساری امت کرتی ہے‘‘۔ (فتاویٰ ثنائیہ :ج، ص ۵۰)
۸۔ ایسے ہی غیرمقلدین کے شیخ الکل مولانانذیر حسین دہلویؒ اپنی کتاب فتاویٰ نذیریہ میں لکھتےہیں: ’’ضعیف حدیث قابل عمل ہوتی ہے اور یہ کہ ضعیف حدیث کو موضوع نہیں کہنا چاہیئے ‘‘۔ (فتاویٰ نذیریہ:  ج ۳، ص۵)
۹۔ اسی طرح غیرمقلدعالم نواب صدیق حسن خان بھوپالی لکھتے ہیں:  ’’احادیثِ ضعیفہ در فضائل اعمال معمول بہا است‘‘ ۔ ’’احادیث ضعیفہ فضائل اعمال میں قابل قبول ہیں‘‘۔ (مسک الختام شرح بلوغ المرام، ص ۵۷۲)
۱۰۔ غیرمقلد عالم مولوی عبداللہ روپڑی صاحب سے کسی نے سوال کیا کہ شب برات کے روزے والی حدیث ضعیف ہے، کیا روزہ رکھنا درست ہے؟ عبداللہ روپڑی صاحب نے جواب میں لکھا: ’’شبرات کا روزہ رکھنا افضل ہے چنانچہ مشکوٰۃ وغیرہ میں جو حدیث موجود ہے اگرچہ حدیث ضعیف ہے لیکن فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل درست ہے‘‘۔ (فتاویٰ اہل حدیث روپڑی: ج ۲،ص ۱۳۷، ۳۱۸)
۱۱۔ غیرمقلدعالم ابومحمد بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں: ’’اس امت کے علماءوفقہاءکااس بات پراتفاق اور اجماع ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف احادیث پرعمل کیاجائےگا‘‘۔ (مقالات راشدیہ: ج۲، ص۳۴۸)
۱۲۔ مزید دلائل اور حوالہ جات کے لئے غیرمقلدعالم ابومحمد بدیع الدین شاہ راشدی کی کتاب مقالات راشدہ جلد نمبر۲کے صفحہ نمبر۳۴۸ سے ۳۵۵ تک کامطالعہ فرمائیں۔
اس طرح فرقہ غیرمقلدین کے مترجم جناب وحیدالزمان صدیقی اپنی حدیث کی لغت کی کتاب میں لکھتے ہیں: ’’اَیُّمَا اِمْرَأۃء تَقَلَّدَتْ قَلَادَۃً‘‘۔ ’’جوعورت سونے کاہارپہنے‘‘۔ (لغات الحدیث: ج۲، ص۳۶)
علم لغت کے مشہورشیخ الامام علامہ محمد بن أبی بكر بن عبد القادر الرازی (متوفی ۶۶۰ھ) لکھتے ہیں: ’’(الْقِلَادَةُ) الَّتِي فِي الْعُنُقِ وَ (قَلَّدَهُ فَتَقَلَّدَ) وَمِنْهُ (التَّقْلِيدُ) فِي الدِّينِ وَتَقْلِيدُ الْوُلَاةِ الْأَعْمَالَ‘‘۔ ’’(الْقِلَادَةُ) ہار۔ جوگلے میں پہناجاتاہے۔ (قَلَّدَهُ فَتَقَلَّدَ): اس نے اسے ہار پہنایاتو اس نے پہن لیا۔ اسی سے لفظ تَّقْلِيدُ مشتق ہے۔ یعنی التَّقْلِيدُ فِي الدِّينِ: دین میں کسی شخص کی پیروی‘‘۔ (مختارالصحاح: ص ۴۸۲عربی؛ص ۷۵۸ اردو)
مشہورلغوی امام علامہ قرشیؒ فرماتے ہیں: "تقلید درگردن افگندن حمیل وغیرآن کَسے"۔ ’’تقلید کے معنیٰ کسی کے گلے میں ہار وغیرہ ڈالناہے‘‘۔ (صراح: ص۱۴۳، طبع مجیدی کانپور)
غیرمقلدین کے ہاں ’’قلاوۃ‘‘ کےمعنیٰ صرف پٹا ہی ہوگا۔ معاذ اللہ  کیونکہ ان کے ہاں تقلید کا بس یہی ایک معنیٰ ہے۔
اصولین کے نزدیک تقلید کی اصطلاحی تعریف
۱۔ حضرت مولانا قاضی محمداعلیٰ تھانویؒ تقلید کی تعریف یوں کرتے ہیں: ’’التقليد اتّباع الإنسان غيره فيما يقول أو يفعل معتقدا للحقية من غير نظر إلى الدليل، كأنّ هذا المتّبع جعل قول الغير أو فعله قلادة في عنقه من غير مطالبة دليل‘‘۔ ’’تقلید (کے اصلاحی معنیٰ یہ ہیں کہ) کسی آدمی کا دوسرے کے قول یا فعل کی اتباع کرنا محض حسن عقیدت سے کہ جس  میں (مجتہد کی ) دلیل پر غور نہ کرے۔ گویا اس اتباع کنندہ نے دوسرے کے قول یا فعل کو اپنے گلے کا ہار بنا لیا بلا دلیل طلب کرنے کے“۔ (کشف الاصطلاحات الفنون والعلوم: ص ۵۰۰)
۲۔ علامہ ابن ملکؒ اور علامہ ابن العینیؒ فرماتے ہیں: ’’وهو عبارۃ عن اتباعه في قولهاو فعله منقدا للحقية تامل في الدليل‘‘۔ ”تقلید دوسرے کے قول یا فعل میں اتباع کا نام ہےیہ اعتقاد رکھتے ہوئے کہ وہ حق ہے بغیراس کے کہ دلیل کی فکر میں پڑے(کہ اس کی دلیل کیاہے)“۔ (شرح منار مصری:ص ۲۵۲)
۳۔ ’’التقليد اتباع الغير علي ظن انه محق بلا نظر في الدليل‘‘۔ ”دلیل میں غور و خوص کئے بغیر کسی کی اتباع کرنا یہ گمان رکھتے ہوئے کہ وہ حق پر ہے“۔ (النامی شرح حسامی: ص ۱۸۰)
یہ عبارت تقلیداور اتّباع کے ایک ہونے پرصراحت سے دال ہےاور اس میں لفظ الدلیل پرلام عہد کے لئے ہے یعنی وہ خاص دلیل جس کو مجتہد نے پیش نظر رکھ کراجتہاد کیاہےاور ’’من غیرنظرالیٰ الدلیل‘‘ اور ’’من غیرتامل فی الدلیل‘‘ اور ’’من غیرمطالبۃ الدلیل‘‘ میں اسی خاص دلیل کی طرف اشارہ ہے اس دلیل سے وہ دلیل مراد نہیں جو مقلد اپنی طرف سے کبھی پیش کردیتا ہے۔
۴۔ حضرت مولانارشیداحمد گنگوہیؒ فرماتے ہیں: ’’اوراتباع وتقلیدکے معنیٰ واحد ہیں‘‘۔ (سبیل الرشاد: ص۳۲)
تقلید کی تعریف میں اہل لغت نے لفظ اتّباعِ غیربلادلیل  ہی بیان کیا ہے جیسا کہ تعریفات سے ظاہر ہے ، اگر تقلیداور اتباع میں فرق ہوتا تو اہل لغت تقلید کی تعریف اتباع سے کبھی نہ کرتے۔
عرف عام میں تقلید کو اتباع بولاجاتا ہے۔(غیرمقلدین کے گھر کی گواہی)
 غیرمقلدین حضرات کےشیخ الکل جناب مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلویؒ فرماتے ہیں کہ :’’معنیٰ تقلید کے اصطلاح میں اہل اصول کی یہ ہےکہ مان لینا اور عمل کرنا ساتھ قول بلا دلیل اس شخص کی بات جس کا قول حجت شرعی نہ ہو۔تو اس بنا پر اس اصطلاح کی رجوع کرنا عامی کا طرف مجتہد وں کی اور تقلید کرنی ان کی کسی مسئلہ میں تقلید نہ ہو گی ۔ (کیونکہ لاعلمی کے وقت ان کی طرف رجوع کرنا نصوص قرآنیہ اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور وہ شخص اہل الذکر اور اہل علم کی بات ماننے کا شرعاً مکلف ہے)۔ بلکہ اس کو اتباع اور سوال کہیں گے اور معنیٰ تقلید کے عرف میں یہ ہیں کہ وقت لاعلمی کے کسی اہل علم کا قول مان لینا اور اس پر عمل کرنا اور اس معنیٰ عرفی سےمجتہدوں کے اتباع کو تقلید بولا جاتا ہے‘‘۔ (معیارالحق:ص۷۲)
آگے لکھتے ہیں: ’’امام الحرمین نے کہاہے کہ اسی قول مشہورپربڑےبڑےاصولی ہیں اورغزالی اورآمدی اورابن حاجب نے کہاکہ رجوع کرناآنحضرتﷺاوراجماع اورمفتی اورگواہوں کی طرف اگرتقلیدقراردیاجائے توکچھ ہرج نہیں۔ پس ثابت ہواکہ آنحضرتﷺکی پیروی کواورمجتہدین کی اتباع کوتقلید کہناجائزہے‘‘۔ (معیار الحق: ص ۷۳)
غیرمقلد عالم کی زبانی اس مفصل عبارت سے چند اہم نکات واضح ہوتے ہیں جن سے درج ذیل فوائد ثابت ہوتے ہیں:
۱۔ لاعلمی کے وقت کسی مسئلہ میں مجتہدین کی طرف رجوع کرنا درحقیقت تقلید نہیں بلکہ اتباع اور سوال ہے۔
۲۔ مجتہدین کی اتباع کو تقلید بھی کہاجاتا ہے، یعنی بالٓمال اتباع اور تقلید ایک ہی جیزہے، ان میں کوئی فرق نہیں۔
۳۔ لاعلم اور انجان آدمی کامفتی کے قول کی طرف رجوع کرناتقلید نہیں بلکہ یہ بحکم شرعی واجب ہے۔ لیکن بڑے بڑے اصولیوں کے قول کے مطابق اس کو تقلید کہنے میں بھی کوئی حرج اور مضائقہ نہیں ہے۔
۴۔ جس طرح مجتہدین کی اتباع کوتقلید کہنا جائز ہے اسی طرح آنحضرت ﷺ کی اتباع کو بھی تقلید کہنا جائز ہے اس تفصیل کو ملحوظ رکھنے کے بعد اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں مجتہدین کی اتباع اور تقلید کرتا ہوں یا یہ کہے کہ میں آنحضرت ﷺکا مقلد ہوں تو درست اور صحیح ہےاور اس پرکوئی ملامت اور لعن طعن نہیں ہوسکتی۔ نیز جو حضرات تقلید اور اتباع کو ایک ہی مفہوم میں لیتے ہیں ان پر بھی کوئی گرفت نہیں ہوسکتی۔
غیرمقلدین دعویٰ کرتے ہیں کہ تقلیدمحض بلادلیل قول قبول کرنے کا نام ہے اور اتباع علیٰ وجہ البصیرت قول قبول کرنے کا نام ہے۔
آئیں دیکھتے ہیں کہ اتّباع میں علیٰ وجہ البصیرت سے کیا مراد ہے؟ اگر مراد یہ ہے کہ اتّباع کرنے والاوہ مسئلہ اور اس کی دلیل دونوں کو علیٰ وجہ البصیرت سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو پھر اسے کسی عالم مفتی سے مسئلہ پوچھنے کی کیا ضرورت ہے؟ خود قرآن و حدیث سے براہِ راست مسائل اخذ کرلیا کرے۔ کیونکہ کسی مجتہد عالم کی اتّباع وہاں ہوتی ہے جہاں علم سے محرومی ہویا علم میں کمی ہو۔ علیٰ وجہ البصیرت علم کے ہوتے ہوئے بھی کسی دوسرے سے مسئلہ پوچھنا اور اس پر عمل کرنا کم عقلی اور بے وقوفی کی نشانی ہے۔
اس کے برعکس اگرعلیٰ وجہ البصیرت اتّباع کا مطلب یہ ہے کہ اتّباع کرنے والا اپنی صوابدید اور دانست کے مطابق پوری طرح مطمئن ہے کہ میں جس کی اتّباع کرتاہوں وہ اس قابل ہے کہ اس کی اتّباع کی جائے اور اس سلسلہ میں اسے کوئی ترددّ نہیں، بالکل یہی مطلب تقلید کاہے۔ کیونکہ تقلید کرنے والا جس کی تقلید کرتا ہے اس کو حق پر اور اہل حق علماء میں سمجھتا ہے۔ اور اس میں اسے کوئی ترددّ نہیں، لہٰذا اتّباع کی تعریف میں علیٰ وجہ البصیرت کے جملے کو تقلید کے خلاف سمجھنا غیرمعقول بلکہ کم عقلی والی بات ہے۔ کیونکہ اتّباع اور تقلید دونوں کے حقیقی معنیٰ ومفہوم ایک ہیں ۔
تقلید کیا ہے اور دینِ اسلام میں تقلید کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
تقلید کی تعریف: کسی بھی غیر نبی کی بات کو بلا دلیل تسلیم کرلینا اس حسنِ ظن وعقیدت سے کے یہ دلیل کے موافق بتادیگاتقلید کہلاتا ہے۔
تقلید کی تعریف سے یہ بات واضح طور پر سمجھی جاسکتی ہے کہ کسی بھی غیر بنی کی بات کوبلادلیل تسلیم کرلینا تقلید کہلاتا ہے اور غیر نبی میں تمام  آئمہ کرام، فقہاء کرام، مفسرین، محدثین، مجتہدین اور ہر عامی شخص شامل ہے۔اگر دلیل کے ساتھ کسی غیر نبی کی بات کو تسلیم کرلینا تقلید نہیں ہے تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک عامی شخص میں اتنی صلاحیت ہوتی ہے کہ ایک عالم کی پیش کردہ دلیل کو سمجھ سکے اوراس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرسکے؟
خوب یاد رکهیں کہ تقلید "نعوذبالله" الله تعالیٰ کے حکم اور حضور ﷺ  کے سنت کے مقابل ومخالف چیز کا نام نہیں ہے ، جیسا کہ فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث نے عوام کو گمراه کرنے کے لئے مشہور کیا ہے ،بلکہ"تقلید" کی حقیقت صرف اور صرف یہ ہے کہ آئمہ مجتہدین نے قرآن مجید اور احادیث نبویہ ﷺ اور آثار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم  سے جو مسائل استنباط (نکالے) کئے  ہیں ان کو تسلیم کرلینا ہی "تقلید" ہے۔
علماء امت نے "تقلید" کی تعریف اس طرح کی ہے کہ فروعی مسائل فقہیہ میں غیر مجتہد (مُقلد) کا مجتہد کے قول کو تسلیم کرلینا اور اس سے دلیل کا مطالبہ نہ کرنا اس اعتماد پر کہ اس مجتہد کے پاس اس قول کی دلیل موجود ہے۔
حاصل یہ کہ ہمارے نزدیک ایک عامی آدمی کا اہل علم کی اتباع ورہنمائی میں دین پرعمل کرنا "تقلید"ہے، اور یہی حکم قرآن نے ہمیں دیا ہے۔
مجتہد کی تقلیدمیں حسنِ ظن و حسنِ عقیدت رکھنے کا کیامطلب ہے اور شریعت میں اس کی مثال کہاں ملتی ہے؟
’’حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قِيلَ لِعُمَرَ أَلاَ تَسْتَخْلِفُ قَالَ إِنْ أَسْتَخْلِفْ فَقَدِ اسْتَخْلَفَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي أَبُو بَكْرٍ، وَإِنْ أَتْرُكْ فَقَدْ تَرَكَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‘‘۔ ’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب زخمی ہوئے تو ان  سے کہا گیا کہ آپ اپنا خلیفہ منتخب کرتا ہوں (تو اس کی بھی مثال ہے کہ) اس شخص نے اپنا خلیفہ منتخب کیا تھا جو مجھ سے بہتر تھے یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ اور اگر میں اسے مسلمانوں کی رائے پر چھوڑ تا ہوں تو (اس کی بھی مثال موجود ہے کہ) اس بزرگ نے (خلیفہ کا انتخاب مسلمانوں کے لیے) چھوڑ دیا تھا جو مجھ سے بہتر تھے یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم‘‘۔ (صحیح البخاری: كتاب الأحكام،باب الاِسْتِخْلاَفِ، ج۹، رقم الحدیث ۷۲۱۸؛ صحیح المسلم: كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب مَا جَاءَ فِي الْخِلاَفَةِ، ج۴، رقم الحدیث ۲۲۲۵)
حضرت عمرفاروق رضی اﷲعنہ کے قول سے دونوں باتوں کی واضح گنجائش معلوم ہوتی ہے کہ خلیفہ نامزد کرنے کے لئے چاہوں تو اس مسئلے میں ابوبکررضی اﷲعنہ کی اقتداء (تقلید) کروں یا پھر چاہوں تو رسول اﷲ ﷺکی اقتداء کروں۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی اقتداء کا حکم تو قرآن وحدیث کی روشنی میں حجت ہے لیکن حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ کےاس فعل کی اقتداءکس طرح حجت ہوئی، جبکہ رسول اﷲﷺسے تو خلیفہ نامزد کرنا ہی ثابت نہیں تھا۔ پھرحضرت عمرفاروق رضی اﷲعنہ نےحضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ کے اس فعل کو بنظراستحسان سمجھتے ہوئے اپنے دماغ میں کیسے جگہ دیدی؟ ائمہ اربعہ کی تقلید کے منکراگراُس زمانے میں موجود ہوتےتو کہتے کہ حضرت عمرفاروق رضی اﷲعنہ نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ کی سنت کو حضورﷺکی سنت کے برابرلاکھڑاکیاجس میں شانِ نبوت کی توحین ہے (العیاذباﷲتعالیٰ)۔ حضرت عمررضی اﷲعنہ کاحضورﷺکے عمل کے بعدحضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ کے عمل کو بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس مسئلہ میں دونوں کی پیروی جائز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام نوویؒ شرح مسلم میں اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’فإن تركه فقد اقتدى بالنبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في هذا وإلا فقد اقتدى بأبي بكر‘‘۔ ’’خلیفہ نے اگر خلافت کے لئے کسی کو نامزد نہ کیا تو آنحضرتﷺکی قتداءکی۔ اور اگر نامزد کردیا تو حضرت ابوبکررضی اﷲعنہ کی اقتداء کرلی‘‘۔ (شرح صحیح المسلم النووی: كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب الاستخلاف وتركہ، ج۱۲، ص ۲۰۵)
جلیل القدرصحابی رسولﷺحضرت عبدا ﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ خوداپنے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ: ’’حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا شَقِيقُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ خَطَبَنَا عَبْدُ اللَّهِ فَقَالَ وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي مِنْ أَعْلَمِهِمْ بِكِتَابِ اللَّهِ وَمَا أَنَا بِخَيْرِهِمْ‏‘‘۔ ’’عبداللہ بن  مسعود رضی اللہ عنہما نے ہمیں خطبہ دیا اور کہا کہ اللہ کی قسم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ میں ان سب سے زیادہ قرآن مجید کا جاننے والا ہوں حالانکہ میں ان سے بہتر نہیں ہوں‘‘۔ (صحیح البخاری: كتاب فضائل القرآن،باب الْقُرَّاءِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صلى الله عليه وسلم، ج۶، رقم الحدیث ۵۰۰۰)
رسول اﷲﷺ سے قرآن کے علم کی اتنی بڑی سند ملنے کےباوجود بھی حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ حضرت عمرفاروق رضی اﷲعنہ سے اتنی عقیدت اورحسنِ ظن رکھتے تھے کہ ان کے ہرعمل کی پیروی کیاکرتے تھے۔ حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ فرماتے ہیں:
’’"وَقَالَ الشَّعْبِيُّ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ لا يَقْنُتُ، وَقَالَ: وَلَوْ قَنَتَ عُمَرُ لَقَنَتَ عَبْدُ اللَّهِ"۔ "وَقَالَ أَيْضًا: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَقُولُ: لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا وَشِعْبًا وَسَلَكَ عُمَرُ وَادِيًا وَشِعْبًا لَسَلَكْت وَادِي عُمَرَ وَشِعْبَهُ"‘‘۔ ’’ اگرحضرت عمررضی اﷲعنہ قنوت (صبح کی نماز میں) پڑھتے تو عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ(یعنی میں)بھی پڑھتا‘‘۔ ’’اگرتمام لوگ ایک وادی اور گھاٹی میں چلنے لگیں۔ اور حضرت عمررضی اﷲعنہ کسی اور وادی اور گھاٹی میں چلیں تو میں حضرت عمررضی اﷲعنہ کی وادی اور گھاٹی میں ہی جاؤں گا‘‘۔ (اخرجہ ابن ابی شیبہ فی المصنف: ج۶، باب من کان یقنت فی الفجر، ص۲۰۹؛ اعلام الموقعین الامام ابن القیم الجوزی: ج۲، فصل [مکانۃعمربن خطاب العلمیۃ]،ص۳۶-۳۷)
حضرت عمرفاروق رضی اﷲعنہ کے عمل کے صحیح ہونے کی ایسی کونسی دلیل تھی جس کی بنیاد پرحضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ جیسے فقیہہ ومجتہد صحابی رسولﷺان کے ہرعمل کی پیروی کرتے تھے؟ حالانکہ حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ نے تو بچپن ہی سے نبی کریمﷺ کی صحبت اٹھائی اورقرآن وحدیث کو براہِ راست رسول اﷲﷺ سے سیکھاپھربھی آپ حضرت عمررضی اﷲعنہ کے عمل کو حسنِ ظن وعقیدت کی وجہ سےبلادلیل تسلیم کرتے ہوئے ان کی تقلید کیا کرتے تھے۔ جبکہ موجودہ دور کے غیرمقلدین حضرات جنھیں نہ قرآن کی ناسخ ومنسوخ ومتشابہ آیات کا علم ہوتا ہے اورنہ ہی احادیث مبارکہ کے ثقہ اورضعف کی خبرہوتی ہے، پھربھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم کسی کے مقلد نہیں۔
حضرت عبداﷲبن زبیررضی اﷲعنہ جلیل القدرصحابی رسول ﷺہیں، ان سے کسی نے دادا کی وراثت کے متعلق سوال کیاتوآپ نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ کی رائے بیان فرمادی کہ حضرت ابوبکررضی اﷲعنہ دادا کوباپ کی طرح سمجھتے تھےاورپھر حضرت ابوبکررضی اﷲعنہ کی فضیلت کاذکرکرنے لگے کہ جانتے ہوحضرت ابوبکررضی اﷲعنہ کیسے تھے؟
’’حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ كَتَبَ أَهْلُ الْكُوفَةِ إِلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ فِي الْجَدِّ‏۔ فَقَالَ أَمَّا الَّذِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم "لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ هَذِهِ الأُمَّةِ خَلِيلاً لاَتَّخَذْتُهُ‏"۔‏ أَنْزَلَهُ أَبًا يَعْنِي أَبَا بَكْرٍ‘‘۔ ’’ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو دادا ( کی میراث کے سلسلے میں ) سوال لکھا تو آپ نے انہیں جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: اگر اس امت میں کسی کو میں اپنا جانی دوست بنا سکتا تو ابوبکر کو بناتا۔ (وہی) ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ فرماتے تھے کہ دادا باپ کی طرح ہے (یعنی جب میت کا باپ زندہ نہ ہو تو باپ کا حصہ دادا کی طرف لوٹ جائے گا۔ یعنی باپ کی جگہ دادا وارث ہو گا)‘‘۔ (صحیح بخاری، كتاب فضائل أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم، باب قَوْلِ النَّبِیِّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً ‏"‏ قَالَهُ أَبُو سَعِيدٍ ، ج۵، رقم الحدیث۳۶۵۸)
اوریہی واقعہ بعینہ حضرت عبداﷲبن عباس رضی اﷲعنہ سے بھی صحیح بخاری میں مذکورہے: ’’حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَمَّا الَّذِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏ "‏لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ هَذِهِ الأُمَّةِ خَلِيلاً لاَتَّخَذْتُهُ، وَلَكِنْ خُلَّةُ الإِسْلاَمِ أَفْضَلُ‏"‏‏۔ أَوْ قَالَ ‏"‏خَيْرٌ‏"۔‏ فَإِنَّهُ أَنْزَلَهُ أَبًا‏۔‏ أَوْ قَالَ قَضَاهُ أَبًا‘‘۔ ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ اگر میں اس امت کے کسی آدمی کو "خلیل" بناتا تو ان کو (ابوبکر رضی اللہ عنہ کو) کو خلیل بناتا ، لیکن اسلام کا تعلق ہی سب سے بہتر ہے تو اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دادا کو باپ کے درجہ میں رکھا ہے‘‘۔ (صحیح بخاری، كتاب الفرائض، باب مِيرَاثِ الْجَدِّ مَعَ الأَبِ وَالإِخْوَةِ، ج۸، رقم الحدیث۶۷۳۸)
حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ کے قول میں ایسی کونسی دلیل تھی  جس کی بنیادپرحضرت عبداﷲبن زبیررضی اﷲعنہ اور حضرت عبداﷲبن عباس رضی اﷲعنہ جیسے فقیہہ مجتہد صحابی رسولﷺنے قرآن وحدیث کا حوالہ دینے کے بجائے حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ کے قول سے مسئلہ اخذ کیا؟ یہی وہ حسنِ ظن وعقیدت ہے جس کی بنیاد پردوجلیل القدرفقیہہ ومجتہدصحابی رسولﷺ اپنے سے بڑے مجتہدصحابی رسولﷺ(ابوبکر رضی اللہ عنہ) کے قول کودلیل کے طورپرپیش کرتے ہوئے ان کی تقلید کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ دورکے علماءحضرات و مفتیان کرام خودقرآن و حدیث کا علم رکھنے کے باوجودبھی کسی مسئلہ کی تحقیق میں اپنی رائے پراعتمادکرنےکے بجائے کسی فقیہہ مجتہدامام کے قول سے استدلال کرتے ہوئے فتویٰ دیتے ہیں جس بنیادپرانہیں اس امام کا مقلد کہاجاتاہے۔
قارئین کرام! یہ توہم نے محض حضرات صحابہ کرامؓ کے چندحالات اختصاراً عرض کیئے ہیں اب ہم بعض ایسے واقعات جن میں غیرصحابی (یعنی تابعین وتبع تابعین)پرحسنِ ظنی اورعقیدت کااظہارکرتے ہوئے بڑےبڑےفقہاءومجتہدین نے ان کی تقلیدکااعتراف کیا۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ دورکے بڑے بڑے علماءومفتیانِ کرام بھی ائمہ اربعہ کے قول کو بنیادبناکرفتویٰ دیتے ہیں اوران کے مقلدکہلاتے ہیں۔
علامہ ابن سعد ؒ نقل کرتے ہیں کہ: ’’وقال أَبُو هلال الراسبي، عن خالد بْن رباح الهذلي: سئل أنس بْن مالك عن مسألة فقال: سلوا مولانا الْحَسَن، قَالُوا: يا أبا حمزة نسألك، تقول: سلو الْحَسَن مولانا قال: سلوا مولانا الْحَسَن، فإنه سمع وسمعنا، فحفظ ونسينا‘‘۔ ’’جب بھی کوئی آدمی حضرت انس بن مالک رضی اﷲعنہ کے پاس سوال لے کر جاتا تو آپ اس سائل کو ارشاد فرماتے: "سلوا مولانا الْحَسَن"۔ "کہ ہمارے رفیق حسن بصری ؒ سے جاکر پوچھو"۔ جب سائل یہ کہتا کہ ہم تو آپ کے پاس آئے ہیں ۔ تو حضرت انس رضی اﷲعنہ فرماتے اسی کے پاس جاؤ وہ تمہیں معقول جواب دے گا، ہم بوڑے ہوچکے ہیں۔ وہ جوان ہے، اور اس کا حافظہ بھی قوی ہے‘‘۔ (تہذیب الکمال فی اسماء الرجال: ج۶، ص۱۰۴؛ طبقات ابن سعد: ج۷، ص۱۲۸،قسم اول )
تعجب کی بات ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اﷲعنہ جوکہ خودجلیل القدرصحابی رسولﷺہیں، سائل کو فتویٰ دینے کے بجائے تابعی حضرت حسن بصریؒ سے مسئلہ دریافت کرنے کوکہہ رہے ہیں۔ آخر کیا وجہ تھی کہ حضرت انس رضی اﷲعنہ نے سائل کونہ خودجواب دیا اورنہ ہی اُسے اس بات کی تلقین کی کہ جاؤخودتحقیق کرکے قرآن وحدیث سے مسئلہ اخذ کرلوبلکہ حضرت حسن بصریؒ سے مسئلہ پوچھنے کی تلقین کی۔ اگرتقلیدحرام وشرک ہوتی تو حضرت انس رضی اﷲعنہ سائل کوکبھی حضرت حسن بصریؒ سےمسئلہ پوچھنے کونہ کہتے۔
امام ذہبی ؒ نقل کرتے ہیں کہ: حضرت ابو بکر الہذلی ؒ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت محمد بن سیرین ؒ نے فرمایا کہ : ’’الزم الشعبی فلقد رأیتہ یستفتٰی والصحابۃ متوافرون‘‘۔ ’’حضرت امام شعبی ؒ کا دامن ہی ہمیشہ تھامے رکھنا، کیونکہ میں نے ان سے ایسے وقت فتویٰ پوچھتے دیکھا جبکہ صحابہ کرامؓ بکثرت موجود تھے ‘‘۔ ( تذکرۃ الحفاظ: ج۱، ص ۸۱)
دیکھئےحضرت شعبی ؒ صحابی نہیں ہیں لیکن حضرت محمد بن سیرینؒ جیسے جلیل القدربزرگ کو ان کے متعلق یہ حسنِ ظنی ہے کہ چونکہ حضرات صحابہ کرام ؓکی موجوودگی میں وہ فتویٰ دیتے رہے ہیں، لہٰذا ان کا خطاء سے بعید ہونا زیادہ قریب ہے۔ اسی حسنِ ظنی کی وجہ سے موجودہ دورکے مفتیانِ کرام بھی ائمہ اربعہ کی تقلیدکرتے ہیں کیوں کہ ائمہ اربعہ کا خطاءسے بعید ہونا زیادہ قریب ہے بنسبت آج کے ائمہ ومفتیانِ کرام کے۔
مشہورغیرمقلدعالم نواب صدیق حسن خان صاحب حجۃاﷲالبالغۃ سے نقل کرتےہیں: ’’کان أبوحنیفة رضی الله عنه ألزمهم بمذهب إبراهیم و أقرانه لا یجاوزه الا ماشاءالله و کان عظیم الشان فی التخریج علی مذهبه و دقیق النظر فی وجوه التخریجات مقبلا علی الفروع أتم إقبال‘‘۔ ’’امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ اور ان کے ہم عصر علماء کے مذہب کے پابند تھے اور ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے مذہب سے باہر نہیں جاتے الا ماشاء اللہ، وہ ان کے مذہب کے مطابق مسائل کی تخریج کرتے، بڑی شان رکھتے اور وجوہِ تخریجات کے معلوم کرنے میں دقیق النظر تھے‘‘۔ (الجنہ: ص۶۸؛ حجۃ اﷲالبالغۃ: ج۱، ص۲۵۱؛ اوجزالمسالک الیٰ موطامالک: ج۱، ص۶۳)
حضرت شاہ ولی اﷲمحدث دہلویؒ لکھتے ہیں کہ: ’’اسی طرح امام ابوحنیفہؒ سب سے زیادہ ابراہیم نخعیؒ اوران کے ہمعصروں کے مسلک پرقائم رہے، کبھی کبھاراس سے تجاوزکیااوراس مسلک کے اصولوں پرمسائل کی تخریج میں آپ کامقام بڑابلندتھا۔ اخذمسائل میں آپ بہت دِقّت نظرسے کام لیتے اورجزئیات پربھی پوری توجہ تھی اگرآپ کوہمارے اس قول کی صداقت مطلوب ہے توامام محمدؒ کی کتاب الآثار، عبدالرزاقؒ کی جامع مصنف، ابوبکرابن ابی شیبہؒ اورابراہیم نخعیؒ کے اقوال جمع کرلیجئے پھرامام ابوحنیفہؒ کے مسلک سے ان کامقابلہ کیجئےتومعلوم ہوگاکہ وہ بہت کم باتوں میں ابراہیم نخعیؒ کے راستے سے ہٹے ہیں اور فقہائے کوفہ کے مذہب سے باہر نہیں جاتے‘‘۔ (فقہی اختلافات کی اصلیت اردو ترجمہ الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف: ص۲۴-۲۳)
امام ابن القیم الجوزیؒ لکھتے ہیں: ’’قال الشافعی فی مواضع من الحجج قلتہ تقلید لعطاء‘‘۔ ’’حضرت امام شافعی نے بہت سے مقامات پرکہاہے کہ میں نے حضرت عطاء کی تقلید میں ایساکہاہے‘‘۔ (عصرہ ومنہجہ وآراؤہ فی الفقہ والعقائدوالتصوف: ص۱۰۷)
حضرت شاہ ولی اﷲمحدث دہلویؒ لکھتے ہیں کہ: ’’على اختلافٍ في ذلك بنأءً على اختلافهم في مسألةٍ أخرى وهي أن الـمجتهد هل يجوز له تقليد الـمجتهد الآخر إذا كان أفضل منه واعلم؟ قولان الـمشهور لايجوز، والصواب الذي لا يجوز غيره عند استقراء صنيع الاوائل يجوز۔ قال الشافعي: «قول الأئمة أبي بكر وعمر وعثمان وقال في القديم: وعلى إذا صرنا إلى التقليد أحب إلينا»‘‘۔ ’’کیاکسی مجتہد کے لئے دوسرے مجتہدکی تقلیدجائزہےجب کہ وہ اُس سے افضل اوراَعلَم ہو؟ اس میں دوقول ہیں۔ ۱۔ مشہوریہ ہے کہ جائز نہیں۔ اور ۲۔ قول صواب ایساکہ جس کے خلاف جائزنہیں ابتدائی دورکے مجتہدین کے طریقِ کارپرتفصیلی نظرکے بعدیہ ہے کہ جائزہے۔ شافعیؒ نے فرمایاہے: ائمہ ابوبکرؓ، وعمرؓ، وعثمانؓ، اوران کے قدیم قول میں اورعلیؓ بھی مذکورہے، کے مل جانے کے بعدہم کوپسندہے کہ ہم تقلیداختیارکرلیں‘‘۔ (إزالة الخفاء عن خلافة الخلفاء: ج۳، ص۳۰۳)
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ بھی قول ہے: "قال الإِمام الشافعي: مالك حجة اللَّه على خلقه بعد التابعين"۔ ’’تابعین کے بعد امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بندوں کے لئے اللہ کی سب سے بڑی حجت ہیں‘‘۔ (تنوير الحوالك شرح على موطأ مالك: ج۱، ص۳؛ رجال صحیح البخاری: ص۶۹۳؛ الموطأ: ج۱، ص۷۳)
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ بھی فرمان ہےکہ: "قال الشافعي: من أراد أن يتبحر في الفقه، فهو عيال على أبي حنيفة"۔ ’’تمام لوگ فقہ میں امام ابوحنیفہ کےخوشہ چین (محتاج ) ہیں‘‘۔ "وقد أورد العلماء قول الشافعي فيه: من أراد الحديث فهو عيال على مالك"۔ ’’تمام لوگ علم حدیث میں امام مالک کے خوشہ چین (محتاج) ہیں‘‘۔  (تاریخ مدینۃ دمشق الامام ابن عساکر: ج۶۰، ص ۱۱۷؛ طبقات الفقہاءالامام ابی اسحاق الشیرازی شافعی: ص۸۶؛ البدایۃ والنہایۃ حافظ ابن کثیر: ج۱۰، ص ۱۷۴؛ الامام زیدالامام محمد ابوزھرہ: ص۱۶)
امام شافعیؒ جوکہ خودجلیل القدرمحدث بھی ہیں اورفقیہہ امام بھی، اس کے باوجودبھی وہ امام مالکؒ کواﷲکی سب سے بڑی حجت قراردے رہے ہیں اور ساتھ ہی سب لوگوں کوعلم حدیث میں امام مالکؒ اورعلم فقہ میں امام ابوحنیفہؒ کا محتاج قراردے رہے ہیں۔
خطیب بغدادیؒ اور حافظ ابن حجرؒ نقل کرتے ہیں کہ: ’’امام احمد بن حنبلؒ خود مجتہد ہیں۔ ایک مسئلہ کے جواب میں ایک سائل نے کہاکہ اس میں توکوئی حدیث موجود نہیں ہے۔ اس پر حضرت امام احمد بن حنبلؒ نے جواباًارشاد فرمایاکہ اگرحدیث موجود نہیں تونہ سہی اس میں "ففیہ قول الشافعی وحجتہ، أثبت شئی فیہ" حضرت امام شافعیؒ کا قول موجودہےاورامام شافعی کاقول بذات خودحجت اوردلیل ہے‘‘۔(تاریخ بغداد:ج۲، ص۴۰۷؛ تہذیب الکمال فی اسماء الرجال: ج۲۴، ص۳۷۲)
امام ابوحنیفہؒ جیسے جلیل القدرمجتہدامام جن کوبڑےبڑےائمہ مجتہدین ومحدثین نےامام اعظم کہہ کرمخاطب کیاہے، وہ بھی ابراہیم نخعیؒ اوران کے ہم عصرعلماءکے مذہب کے پابندتھےاوران کے مذہب سے باہرنہیں جاتے تھے۔ امام شافعیؒ جیسے فقیہہ ومحدث بزرگ خودحضرت عطاءؒ کی تقلید کااقرارفرماتے ہیں۔ امام احمد بن حنبلؒ جوکہ خودجلیل القدرمجتہدومحدث ہیں، حدیث نہ ملنے پرامام شافعیؒ کے قول کوحجت اوردلیل مانتے ہوئےان کے قول سے استدلال کرتےہیں۔ توآخرایسی کیاوجہ تھی کہ اتنے بڑے بڑےائمہ مجتہدین بھی اپنے استادوں کےاقوال وافعال کوحجت مانتے ہوئے ان کی تقلیدکیاکرتے تھے؟
امام شعبیؒ، امام محمد بن سیرینؒ، امام ابوحنیفہؒ، امام شافعیؒ، اورامام احمدبن حنبلؒ وغیرہ تمام مجتہدہیں مگرحسن ظنی کایہ عالم ہے کہ امام احمدبن حنبلؒ امام شافعیؒ کے قول کو ایک مستقل حجت سمجھتے ہیں۔ اورامام شافعیؒ نے تو صاف کہہ دیا کہ ’’میں نے حضرت عطاء کی تقلید میں ایساکہاہے‘‘۔
اسکا مطلب یہ تمام مجتہدین حضرات تقلیدکاارتکاب کرتےہیں تواس سے معلوم ہواکہ مجتہدکوبھی بعض مسائل میں اپنے بڑوں اورپچھلوں کی تقلیدمضرنہیں۔ توپھرغیرعالم اورغیرمجتہدکے لئے تقلیدمضرکیسے ہوسکتی ہے۔
اب ہم ایک اوردلیل مخالفین کے گھر سے بھی دیئے دیتے ہیں تاکہ انہیں سمجھنے میں کسی قسم کا شبہ باقی نہ رہے۔
مشہورغیرمقلد عالم نواب صدیق حسن خان صاحبؒ نے تویہاں تک معاملہ صاف کردیاکہ لکھتے ہیں: ’’فلا تجد احد امّن الا ئمۃ اِلّا و ھو مُقلد من ھو اعلم منہ فی بعض الاحکام‘‘۔ ’’تم حضرات ائمہ کرامؒ میں سےکسی ایک کوبھی نہیں پاسکتے کہ وہ بعض مسائل میں اپنے سےکسی بڑے عالم کی تقلیدنہ کرتاہو‘‘۔ (الجنۃ: ص۶۸)
حضرت شاہ ولی اﷲمحدث دہلویؒ لکھتے ہیں کہ: ’’هذا ما وفقني ﷲ له من تدوين مذهب الخليفة الاواب الناطق بالصدق والصواب أمير الـمؤمنين عمر بن الخطاب رضیﷲ تعالى عنه وأرضاه والـمذاهب الأربعة منه بمنزلة الشروح من الـمتون والـمجتهدين الـمنتسبين من الـمجتهد الـمستقل والله هو الـمؤفق والـمعين‘‘۔ ’’امیرالمومنین عمربن الخطاب رضی اﷲعنہ وارضاءکے مذاہب کی تدوین کے بارے میں ہے اورچاروں مذہب (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) اس کے مقابلہ پرمتون کی شروح کے مرتبہ میں ہیں‘‘۔ (إزالة الخفاء عن خلافة الخلفاء: ج۳، ص۳۰۸)
قارئین کرام کوان حوالوں سے اچھی طرح معلوم ہوچکاہوگاکہ ان ائمہ مجتہدین وبزرگان دین نے جن میں جلیل القدرحضرات صحابہ کرامؓ، تابعینؒ اورائمہ مجتہدین بھی شامل ہیں، محض عقیدت اورحسن ظنی کی بناءپردوسروں پراعتماداوربھروسہ کرتےہوئےان کی تقلیدکی۔ اوریہی تقلیدکااصل معنیٰ ہےکہ کسی کی ذات اورہستی پرحسن ظنی کرتے ہوئے اسی کے قول کوتسلیم کرلیاجائےاوردلیل طلب نہ کی جائے۔ گونفس الامرمیں دلیل موجودبھی ہومگرظاہری طورپران کی شخصیت کے بغیرکوئی اوردلیل موجودنہ ہو۔
غیرمقلدین حضرات فرماتے ہیں کہ مقلد اہل علم نہیں ہوتا۔ اس پر میں صاحب موافقات علامہ شاطبیؒ کی ایک عبارت نقل کردیتاہوں اورآپ سے ہی جواب طلب کرتاہوں۔علامہ شاطبی ایک فتویٰ کے جواب میں فرماتے ہیں: ’’انالااستحل -انشاءاللہ- فی دین اللہ وامانتہ ان اجد قولین فی المذہب فافتی باحدھما علی التخیر مع انی مقلد، بل اتحری ماھو المشہور والمعمول بہ فھوالذی اذکرہ للمستفتی، ولااتعرض لہ الی القول الاخر، فان اشکل علی المشہور ولم ارلاحد من الشیوخ فی احد القولین ترجیحاتوفقت‘‘۔’’میں اللہ کے دین میں اوراس کی امانت میں یہ حلال نہیں سمجھتا کہ کسی مسئلہ کے سلسلہ میں مذہب (مسلک مالکی)میں دوقول پاؤں اوراپنی مرضی سے کسی ایک پر فتوی دے دوں باوجود اس کے کہ میں مقلدہوں۔ بلکہ میں غوروفکر کرتاہوں کہ مشہور اورمعمول بہ کون سامسلک ہے اوراسی کو میں فتوی پوچھنے والے کو بتاتاہوں اوردوسرے قول سے تعرض نہیں کرتا اگرمشہور قول میں کسی وجہ سے کوئی اشکال پیش آئے اورمشائخ میں سے کسی نے دوقول میں سے کسی ایک کو ترجیح نہ دی ہوتو میں توقف کرتاہوں‘‘۔ (فتاویٰ الامام الشاطبی: ص۹۴)
کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف ماننا اور کسی راوی کوثقہ یا مجہول یا ضعیف ماننا بھی تقلید ہے؟
تقلید کی تعریف: کسی بھی غیر نبی کی بات کو بلا دلیل تسلیم کرلینا اس حسنِ ظن وعقیدت پرکے یہ دلیل کے موافق بتادیگاتقلید کہلاتا ہے۔
تقلید کی تعریف کے مطابق راوی کی روایت کو قبول کرنا تقلید فی الروایت ہے اور مجتہد کی درایت کو قبول کرنا تقلید الدرایت ہے۔ کسی محدث کی رائے سے کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف ماننا بھی تقلید ہے اور کسی محدث کی رائے سے کسی راوی کو ثقہ یا مجہول یا ضعیف ماننا بھی تقلید ہے۔ کسی امتی کے بنائے ہوئے اصول حدیث، اصول تفسیر، اصول فقہ کو ماننا بھی تقلید ہے۔
میرے غیرمقلددوستوں !آپ کے پاس اس بات کی کیا دلیل ہے کہ محدثین کی کسی راوی یا کسی حدیث کے بارے میں کہی ہوئی بات درست ہے؟ کیا وہ انسان نہیں تھے؟ کیا ان سے غلطی نہیں ہو سکتی؟پھر آپ ان کی کہی ہوئی بات کو بلادلیل کیسے تسلیم کرلیتےہیں؟اس کا مطلب آپ بھی مقلد ہوئے۔
تقلید کا اصل مفہوم یہی ہے کہ کسی کا قول محض اس حسن ظن وعقیدت پر قبول کرلینا کہ چونکہ بتانے والاصاحب علم بھی ہے اورصاحب فہم بھی اس لئے وہ جو بتارہا ہے وہ یقیناًحق ہوگالہٰذا دلیل کی تحقیق نہ کرنا۔ یہ وہ اصل تعریف ہے جس کو سامنے رکھاجائےتو پتہ چلے گا کہ شرعی علوم میں تقلید کے بغیر گزارا ہی نہیں ہے۔ گو کہ یہ معروف اصطلاحی تقلید نہیں لیکن عملاً تو تقلید ہی ہے۔ مثال کے طورپر:
۱۔ عربی لغت جاننے کے لئے ائمہ صرف ونحو کی تقلید کی جاتی ہے۔
۲۔ راویوں کےثقہ وضعف کوجاننے کے لئے ائمہ جرح وتعدیل اور اسما الرجال اوران کے وضع کردہ اصولوں کی تقلید کی جاتی ہے۔
۳۔ راویوں کی پیدائش، رہائش، معاملات ا ورموت کے حالات جاننے کے لئےمورخین کی تقلید کی جاتی ہے۔
۴۔ حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے میں ائمہ محدثین کی تقلید کی جاتی ہے۔
۵۔ تلاوت قرآن میں بھی ہر مسلمان تقلید ہی کرتا ہے کیونکہ قرآن مجید سات مختلف قرأتوں میں نازل ہواہے اوررسول اﷲﷺ کےمبارک زمانے میں تمام قرأتوں کے ساتھ تلاوتِ کلام پڑھنے کی اجازت تھی۔ لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نےان تمام قرأتوں کو ختم کرکےمسلمانوں کوایک قرأت پرجمع کردیا۔ توآخر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے اس اقدام کے صحیح ہونے کی ایسی کونسی دلیل تھی کہ کسی ایک صحابی رسولﷺ نے بھی ان کے اس حکم سے اختلاف نہیں کیا؟ تمام صحابہ کرامؓ کے پاس حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے اس عمل کی دلیل نہ تو قرآن سے تھی اور نہ نبی ﷺ کے فرمان سے، محض اس حسن ظن وحسن عقیدت کے بناءپرخلیفہ وقت کے عمل کو بلادلیل تسلیم کرلیاگیااورآنے والے مسلمانوں کے لئے مجتہد حاکم کی تقلید کی مثال قائم کردی۔ اسی طرح حجاج بن یوسف نے اپنے دورِخلافت میں قرآن کریم میں اعراب لگائےتاکہ وہ لوگ جواعراب سے واقف ہیں نہ اوقاف کے دلائل سے واقف ہیں، قرآن مجید کی تلاوت صحیح طریقے سے کرسکیں۔ لہٰذاپوری امت مسلمہ پچھلے ۱۴۰۰ سالوں سےاس حسن ظن پر وہ قرآن میں لگے اعراب کوقبول کرتے چلی آرہی ہے کہ لگانے والے نے بادلیل ہی لگائے ہونگے، یہی وجہ ہے کہ آج تک اس مسئلے میں کسی شخص نے دلیل کا تقاضہ نہیں کیا۔
’’حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ، أَنَّهُ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ عَلَى غَيْرِ مَا أَقْرَؤُهَا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَقْرَأَنِيهَا، وَكِدْتُ أَنْ أَعْجَلَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَمْهَلْتُهُ حَتَّى انْصَرَفَ، ثُمَّ لَبَّبْتُهُ بِرِدَائِهِ فَجِئْتُ بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقُلْتُ إِنِّي سَمِعْتُ هَذَا يَقْرَأُ عَلَى غَيْرِ مَا أَقْرَأْتَنِيهَا، فَقَالَ لِي ‏"أَرْسِلْهُ‏"۔ ثُمَّ قَالَ لَهُ ‏"‏اقْرَأْ‏"‏‏۔‏ فَقَرَأَ‏۔‏ قَالَ ‏"‏هَكَذَا أُنْزِلَتْ‏"‏‏۔ ثُمَّ قَالَ لِي ‏"‏اقْرَأْ‏"۔‏ فَقَرَأْتُ فَقَالَ ‏"‏هَكَذَا أُنْزِلَتْ۔‏ إِنَّ الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ فَاقْرَءُوا مِنْهُ مَا تَيَسَّرَ‏"‘‘۔ ’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو سورۃ الفرقان ایک دفعہ اس قرآت سے پڑھتے سنا جو اس کے خلاف تھی جو میں پڑھتا تھا۔ حالانکہ میری قرآت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سکھائی تھی۔ قریب تھا کہ میں فوراً ہی ان پر کچھ کر بیٹھوں، لیکن میں نے انہیں مہلت دی کہ وہ (نماز سے) فارغ ہو لیں۔ اس کے بعد میں نے ان کے گلے میں چادر ڈال کر ان کو گھسیٹا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا۔ میں نے آپ سے کہا کہ میں نے انہیں اس قرآت کے خلاف پڑھتے سنا ہے جو آپ نے مجھے سکھائی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ پہلے انہیں چھوڑ دے۔ پھر ان سے فرمایا کہ اچھا اب تم قرآت سناؤ۔ انہوں نے وہی اپنی قرآت سنائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی تھی۔ اس کے بعد مجھ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب تم بھی پڑھو، میں نے بھی پڑھ کر سنایا۔ آپ نے اس پر فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی۔ قرآن سات قرأتوں میں نازل ہوا ہے۔ تم کو جس میں آسانی ہو اسی طرح سے پڑھ لیا کرو‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۳، كتاب الخصومات، باب كَلاَمِ الْخُصُومِ بَعْضِهِمْ فِي بَعْضٍ، رقم الحدیث ۲۴۱۹)
اسلام میں عملی مسائل کا اصل دارومدار تعامل امت پر ہے۔ جس حدیث پر امت بلانکیر عمل کرتی چلی آرہی ہو اس کی سند پر بحث کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی طرح جس حدیث پر پوری امت نے عمل ترک کردیا ہو اس کی سند خواہ کتنی ہی صحیح ہو وہ معلول قرار پاتی ہے۔ جیسےابن ماجہ ابو امامہ باہلی رضی الله  تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا: "ان الماء طھور لاینجسہ شئی الا ماغلب علی ریحہ او طعمہ او لونہ"۔ ’’بےشك پانی پاك ہے اسے کوئی چیز نجس نہیں بناتی مگر وہ چیز جو پانی کی بُو، ذائقہ اور رنگ پر غالب ہوجائے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ: باب الماء الذی لاینجس؛ سنن الدار قطنی: باب الماء المتغیر؛ شرح معانی الآثار: باب الماء یقع فیہ النجاسۃ) یہ حدیث ضعیف ہے لیکن اس کو جمہورعلما ءومحدثین نے  قبول کیا ہے اور اس پر امت میں ہمیشہ سے عمل رہا ہے۔ اسی لئےمحدثین کا اصول ہے کہ جس حدیث کو امت میں تلقی بالقبول حاصل ہوتو وہ حدیث صحیح ہے۔ اسی طرح جن چیزوں کو امت کے علماء اور صلحاء نے قبول کرلیا اور ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا ان کو تلقی بالقبول حاصل ہے۔ جیسے قرآن کا ایک مصحف میں جمع کرنے کی کوئی دلیل نہیں البتہ صحابہ کرامؓ کا اجماع ہے اور امت نے اس کو قبول کرلیا۔ اسی طرح تلقی بالقبول کی مثال صحیح بخاری کی مقبولیت ہے جس کی صحت کی بنیاد پر اس کو "اصح الکتاب بعد الکتاب ﷲ" (قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب) کہا جاتا ہے۔ یہاں بھی قرآن و حدیث سے کوئی دلیل نہیں پھر بھی تمام مکاتب فکر کے لوگ صحیح بخاری کو قرآن کے بعد کا درجہ دیتےہیں۔
اسی طرح ہمارے علوم کا مدار پچھلوں کی ثابت شدہ تحقیق پر ہوتا ہے۔ اس میں بتانے والے کی علمیت پر حسن ظن قائم ہوتا ہےکہ وہ صحیح بتائے گا۔ جس طرح محدثین خاص طور پر امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ اور صحاح ستہ کے مؤلفین کی تحقیق پر اعتماد اس حسن ظن پر قائم ہے کہ انہوں حدیث کی صحت کے متعلق جو کچھ کہا ہے اس کی بنیاد کسی دلیل پر ہے۔ بالکل اسی طرح مجتہدین کے متعلق بھی ہم یہی حسنِ ظن رکھتےہیں کہ انہوں کسی مسئلے میں جو قول وفتویٰ صادرفرمایا ہے اس کی بنیاد قرآن کی آیت یاحدیث پرہی ہوگی۔
کسی حدیث کی صحت یا عدم صحت خود ایک بہت بڑا کام ہے جو ہر کس و ناکس کے بس کی چیز نہیں۔ عام طور پر علمائے کرام بھی کسی حدیث کی صحت یا عدم صحت کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں وہ تقلیدًا ہے نہ کہ تحقیقًا۔ علم کی دنیا میں یہی ہوتا ہے۔ پچھلوں کی ثابت شدہ تحقیق کو مان کر چلنا پڑتا ہے۔ ورنہ علوم کی ترقی رک جائے گی اورہرشخص خود کو علمی ودینی معاملات میں عقلِ کُل ثابت کرتے ہوئے پچھلوں کی تحقیق کو ناقص قرار دیتے ہوئے ان پرکیچڑ اچھالتارہے گا، جیساکہ موجودہ دورکے غیرمقلدعلماء وجہلاءامام ابوحنیفہؒ اور امام محمد بن حسن شیبانیؒ پرکیچڑاچھالتے رہتےہیں۔
تقلید کا انکار کرکے علماءِغیرمقلدین نے عام اورلاعلم مسلمانوں کو ایک ایسی گمراہی کے دلدل میں دھکیل دیا ہےجہاں ایک عامی شخص کا سب سے پہلے فقہاءاورائمہ مجتہدین پرسے اعتماد ختم ہوتاہےاورپھر آہستہ آہستہ ائمہ جرح وتعدیل اور محدثین پرسے بھی اعتماد ختم ہوجاتاہے،کیونکہ تقلید کسی کے علم اورتقویٰ پراعتمادکی بنیاد پرہی کی جاتی ہے، لہٰذا جب لوگوں کا خیروالقرون  کے زمانے کےتابعین وتبع تابعین (یعنی امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمد ابن حنبلؒ) پر سے اعتماد ختم ہوگیا توپھر ان کے بعد کے ائمہ محدثین (یعنی امام بخاریؒ، امام مسلمؒ، امام ترمذیؒ، امام ابوداؤدؒوغیرہ) پراعتماد کیسے قائم رہ سکتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ تقلید کا انکارکرتے ہوئے منکرینِ فقہ نے ’’اہل حدیث‘‘ کے نام کا دِلکش لیبل لگاکرسب سے پہلےائمہ مجتہدین و فقہاءکی تقلید کاانکارکیا، پھر ان ہی کے نقشِ قدم پرچلتے ہوئے منکرینِ حدیث نے ’’اہل قرآن‘‘ کے نام کا دِلکش لیبل لگاکر ائمہ جرح وتعدیل اورمحدثین کی تقلید کابھی انکار کرڈالا۔ اس طرح عام ولاعلم مسلمانوں کو گمراہی کے ایسے دلدل میں دھکیل دیاگیاجہاں سے تقلید واعتماد کیئے بغیرنکلناممکن نہیں۔ کیونکہ جب ایک لاعلم اورجاہل شخص تقلید کی قید سے آزاد ہوتا ہے توپھراس کی بریکیں فیل ہوجاتی ہیں، پھروہ نہ کسی مجتہدکافتویٰ قبول کرتاہے، نہ کسی مفسرکی تفسیر، نہ کسی امام کی جرح قبول کرتاہےاورنہ ہی کسی محدث کی توثیق۔ ایساشخص وہی کچھ قبول کرتاہےجو اس کا نفس اورشیطان اس کے دماغ میں ڈالتاہے۔ پھر وہ اپنے  ناقص علم وعقل سےقرآن و حدیث کی ایسی تشریح کرتاہےجواس سے پہلے کسی مجتہد، مفسر، محدث امام نے نہیں کی ہوتی۔ اس طرح خودبھی گمراہ ہوتا ہے اوراپنے جیسے دوسرے جہلاء کوبھی گمراہ کرتاہے۔
قرآن مجید میں اﷲتبارک وتعالیٰ ارشادفرماتے ہیں: ’’وَاَنزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ‘‘۔ ’’ہم نے آپ پر قرآن اس لیے نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لیے اس کی تشریح فرمائیں‘‘۔ {سورۃ النحل: ۴۴}
مندرجہ بالاآیت سے معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب تبییں اور تشریح کاہے، آیت مبارکہ میں ذکر سے مراد قرآن، بیان سے مرادفقہ وحدیث، تفکر سے مراد اجتہاد و استنباط ہے۔
جس طرح قرآن مجید کی تشریح کا حق اﷲرب العزت نے اپنے پیغمبررسول اﷲﷺکو عطا فرمایا تھا، بالکل اسی طرح اﷲکے رسولﷺنے اپنے فرمان کی تشریح کا حق اپنے ورثاءکو عطافرمایاہے۔
’’بَابُ الْعِلْمُ قَبْلَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ‘‘۔ ’’اس بیان میں کہ علم (کا درجہ) قول و عمل سے پہلے ہے‘‘۔
’’وَأَنَّ الْعُلَمَاءَ هُمْ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ- وَرَّثُوا الْعِلْمَ - لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَمَا يَعْقِلُهَا إِلاَّ الْعَالِمُونَ}، {وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ} وَقَالَ: {هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ} وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ‏"مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ‏"۔ وَقَالَ أَبُو ذَرٍّ لَوْ وَضَعْتُمُ الصَّمْصَامَةَ عَلَى هَذِهِ وَأَشَارَ إِلَى قَفَاهُ- ثُمَّ ظَنَنْتُ أَنِّي أُنْفِذُ كَلِمَةً سَمِعْتُهَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ تُجِيزُوا عَلَيَّ لأَنْفَذْتُهَا۔ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: {كُونُوا رَبَّانِيِّينَ} حُكَمَاءَ فُقَهَاءَ۔ وَيُقَالُ الرَّبَّانِيُّ الَّذِي يُرَبِّي النَّاسَ بِصِغَارِ الْعِلْمِ قَبْلَ كِبَارِهِ‘‘۔
’’(حدیث میں ہے) کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ (اور) پیغمبروں نے علم (ہی) کا ورثہ چھوڑا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔ اور (دوسری جگہ) فرمایا اور اس کو عالموں کے سوا کوئی نہیں سمجھتا۔اور فرمایا، کیا علم والے اور جاہل برابر ہیں؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس شخص کے ساتھ اللہ بھلائی کرنا چاہتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ حاضر کو چاہیے کہ (میری بات) غائب کو پہنچا دے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ہے کہ آیت ‏"كونوا ربانيين‏"سے مراد حکماء، فقہاء، علماء ہیں۔ اور ‏"ربانی‏" اس شخص کو کہا جاتا ہے جو بڑے مسائل سے پہلے چھوٹے مسائل سمجھا کر لوگوں کی (علمی) تربیت کرے‘‘۔ (صحيح البخاری :كتاب العلم:بَابُ الْعِلْمُ قَبْلَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ: رقم الحديث:۶۷) 
’’حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ "إِنَّ اللَّهَ لاَ يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا، يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا، اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالاً فَسُئِلُوا، فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا"‏‏‘‘۔’’حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے۔ بلکہ وہ (پختہ کار) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، اوران سے (دینی مسائل) پوچھےجائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۱، کتاب العلم، باب كَيْفَ يُقْبَضُ الْعِلْمُ، رقم الحدیث ۱۰۰)
مندرجہ بالا احادیث سے علماء و فقہاء کی اہمیت اور ان کے مقام کی افضلیت کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے، اور یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ غیر مقلدین حضرات کا علماء کی تقلید سے انکار کرتے ہوئے ہر جاہل شخص کے ہاتھوں میں قرآن و حدیث تھما کر تحقیق کا اہل قراردینا ایک بہت بڑی حماقت اور جہالت ہے۔کیونکہ عالم اور جاہل کبھی برابرنہیں ہوسکتےاور علم کی باتین عالموں کے سواکوئی نہیں سمجھ سکتا۔
دوسری حدیث سے اس بات کی بھی وضاحت ہوتی ہے کہ جب پختہ کارعلماءنہیں رہیں گے تو لوگ جاہلوں کوسرداربناکران کی تقلید کرتے ہوئے ان سے فتوے لیں گےاورگمراہ ہونگے۔ جیساکہ آج کل زبیرعلی زئی، پروفیسرغامدی اورانجنیئرعلی مرزاکی تقلید کی جارہی ہےلیکن اس پرلیبل قرآن و حدیث کالگایاجاتاہے۔
’’حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ زِيَادِ بْنِ لَبِيدٍ قَالَ ذَکَرَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا فَقَالَ ذَاکَ عِنْدَ أَوَانِ ذَهَابِ الْعِلْمِ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَکَيْفَ يَذْهَبُ الْعِلْمُ وَنَحْنُ نَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَنُقْرِئُهُ أَبْنَائَنَا وَيُقْرِئُهُ أَبْنَاؤُنَا أَبْنَائَهُمْ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ قَالَ ثَکِلَتْکَ أُمُّکَ زِيَادُ إِنْ کُنْتُ لَأَرَاکَ مِنْ أَفْقَهِ رَجُلٍ بِالْمَدِينَةِ أَوَلَيْسَ هَذِهِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَی يَقْرَئُونَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ لَا يَعْمَلُونَ بِشَيْئٍ مِمَّا فِيهِمَا‘‘۔ ’’حضرت زیاد بن لبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولﷺنے کسی بات کا ذکر کر کے فرمایا یہ اس وقت ہوگا جب علم اٹھ جائے گا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم علم کیسے اٹھ جائے گا حالانکہ ہم خود قرآن پڑھتے ہیں اور اپنے بیٹوں کو پڑھاتے ہیں اور ہمارے بیٹوں کو (اسی طرح نسل در نسل) قیامت تک پڑھاتے رہیں گے فرمایا زیاد تیری ماں تجھ پر روئے (یعنی تم نادان نکلے) میں تو تمہیں مدینہ کے سمجھ دار لوگوں میں شمار کرتا تھا کیا یہ یہود و نصاری تورات اور انجیل نہیں پڑھتے لیکن اس کی کسی بات پر عمل نہیں کرتے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ: ج۳، ابواب الفتن، باب قرآن اورعلم کے اٹھ جانے کابیان، رقم الحدیث۴۰۴۸)
مندرجہ بالا حدیث مبارکہ سے اس بات کی وضاحت ملتی ہے کہ محض قرآن مجیدپڑھ لینے سے یا اس کے معنیٰ کا علم رکھنے سے دین کی سمجھ عطا نہیں ہوجاتی بلکہ دین کی سمجھ تفقہ وبصیرت اور مہارت سے حاصل ہوتی ہے جوہرکسیکے بس کاکام نہیں، جیساکہ رسول اﷲﷺکے ارشادات سے پتہ چلتاہے۔
سیدنا حضرت معاویہ﷜سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریمﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے: "مَن يُرِدِ اللهُ بِه خَيرًا يُفَقِّهْهُ في الدِّيْنِ"۔ ’’اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں، اسے دین (کتاب وسنت) کی سمجھ بوجھ عطا کر دیتے ہیں‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۱، کتاب العلم، باب مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، رقم الحدیث ۷۱)
سیدنا حضرت ابو ہریرہ﷜ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: "فَخِيَارُكُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُكُمْ فِي الإِسْلاَمِ إِذَا فَقِهُوا ’’پھر جاہلیت میں جو لوگ شریف اور اچھے عادات و اخلاق کے تھے وہ اسلام لانے کے بعد بھی شریف اور اچھے سمجھے جائیں گے جب کہ وہ دین کی سمجھ بھی حاصل کریں‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۴، کتاب أحادیث الأنبیاء، بَابُ: {أَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ} إِلَى قَوْلِهِ: {وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ}، رقم الحدیث۳۳۷۴)
نبی کریمﷺ نے سیدنا حضرت ابن عباس﷜ کو دُعا دیتے ہوئے فرمایا: "اللَّهُمَّ فَقِّهْهُ فِي الدِّينِ"۔  ’’اے اللہ! اسے دین کی فقاہت عطا کر دیں‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۱، کتاب الوضوء، باب وَضْعِ الْمَاءِ عِنْدَ الْخَلاَءِ، رقم الحدیث ۱۴۳)
آخرمیں ایک اور چھوٹی سی مثال پیش کیئے دیتا ہوں تاکہ قارئین کو سمجھنے میں مزید آسانی ہوجائے۔ فرض کریں کہ موجودہ دور کا کوئی محدث صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے صرف بالاتفاق صحیح احادیث کا انتخاب کرتاہے اوران تمام احادیث کو چھوڑدیتا ہے جس پرامت کے کسی بھی طبقے یا محدث نے کسی بھی قسم کا شبہ یا اعتراض قائم کیاہواور حدیث کی ایک نئی کتاب تشکیل دیتاہے اورکہتاہے کہ میری یہ کتاب "اصح الکتاب بعد الکتاب ﷲ" (قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب ہے) توکیا کوئی مسلمان اس کی اس بات کوقبول کریگا؟ ہرگزنہیں۔ حالانکہ اس نے بھی تو ان ہی کتابوں سے احادیث جمع کی ہیں جن کو ہم قرآن کے بعد کا درجہ دیتے ہیں پھر بھی کوئی مسلمان اس کی بات قبول نہیں کریگا۔ بالکل اسی طرح سے ائمہ اربعہ کے جواقوال وفتاوجات جن پرامت پچھلے ۱۴۰۰ سالوں سے عمل پیراہے، ان کے خلاف موجودہ دور کا کوئی عالم کوئی نیافتویٰ پیش کریگاتو امت اس کے فتوے کو قبول نہیں کریگی۔ کیونکہ جس طرح علم حدیث کے معاملے میں امت ۱۴۰۰ سالوں سے ائمہ محدثین پراعتمادکرتی آئی ہے بالکل اسی طرح سے علم فقہ کے معاملے میں بھی امت کا۱۴۰۰ سالوں سے ائمہ اربعہ پراعتمادرہاہے۔
اتباع اور تقلید میں فرق
تقلید کا معنیٰ لغت میں پیروی ہے اور لغت کے اعتبار سے تقلید، اتباع، اطاعت اور اقتداء کے سب ہم معنیٰ ہیں۔ (مختار الصحاح: ۴۸۲، موسوعه فقہیہ: ۱ / ۲۶۴ - ۲۶۵، فیروز الغات: ا - ت، صفحہ ۳۵، ۲۱۲)
یہ دعوا بلکل غلط ہے کہ اصل لفظ "اتباع" ہے جو صرف اور صرف الله و رسول (قرآن و حدیث کی) دلیل کی پیروی کرنے کو کہتے ہیں، کیونکہ یہی لفظ "اتباع" نفس و شیطان کی پیروی، اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) اور غیر عالم کی پیروی کے لئے بھی قرآن میں استعمال ہوا ہے، تو وہ کونسی اور کیا "دلیل" دیتے تھے کہ ان کےلئےبھی لفظ "اتباع" استعمال کیا گیا اور ان کی اتباع سے روکا بھی گیا؟
اور جن قرآنی آیات سے بے علم و عقل اور بے ہدایتے آباء و اجداد کی "تقلید" کا حرام و شرک ہونا ثابت کیا جاتا ہے، ان میں لفظ اتباع کا ترجمہ تقلید کیوں کیا جاتا؟
غیرمقلدین حضرات تقلید کی تعریف میں کتاب  موسوعہ فقہیہ کے حوالہ سے ادھوری بات نقل کرکے عام اور لاعلم مسلمانوں کو دھوکہ دیتے ہیں جبکہ موسوعہ فقہیہ کےصفحہ نمبر۲۶۴اور ۲۶۵میں اتباع کے متعلقہ الفاظ (تقلیداوراقتداء) کی دضاحتیں بھی موجود ہیں اور عامی آدمی پرمجتہد کی تقلید کالازم ہونا بھی نقل کیا گیاہے۔
غیرمقلدین حضرات تقلید کی تعریف کے سلسلے میں مسلم الثبوت وغیرہ کتب کے حوالہ سے تقلید کی تعریف ”التقليد اخذ قول الغير من غير حجة“  سے دلیل پکڑتے ہیں۔
غیرمقلدین  حضرات مسلم الثبوت کی پوری عبارت نقل نہیں کرتے ورنہ کسی صاحب فہم کو شبہ باقی نہ رہے غالباً اسی میں وہ اپنے لئے خیر سمجھتے ہیں۔ مسلم الثبوت کی مکمل عبارت درج ذیل ہے:
’’فصل- التقليد: العلمل بقول الغير من  غير حجة  کأخذ العامی والمجتهد من مثله، فالرجوع الي النبي علیه الصلوٰة والسلام اولٰی الاجماع ليس منه وکذا العامي الٰي المفتي  والقاضي الٰی العدول لايجاب النص ذالك عليها‘‘۔ ’’تقلید  غیر کے قول پر بغیر حجت کے عمل کرنے کا نام ہے جیسا کہ عامی اور مجتہد کا اپنے جیسے عامی اور مجتہد کے قول کو لینا پس آنحضرتﷺ  اور اجماع کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں ہے اور اسی طرح عامی کا مفتی اور قاضی کا عادلوں کی طرف رجوع کرنا بھی تقلید نہیں ہے کیونکہ ان پر ایسا کرنے کو نص واجب قرار دیتی ہے “۔
تقلید  کی اس تعریف کے بعد آخر میں یہ بات لکھی ہےکہ’’لكن العرف علٰي أن العامي مقلد للمجتهد قال الامام الحرمین وعليه معظم الأصولين۔ الصحیح لصحۃ ایمان المقلد عند الأئمۃ اربعۃ وکثیر من المتکمین خلافاً للأشعری“۔ ”مگر عرف اسی پر ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے (امام الحرمینؒ) فرماتے ہیں کہ اسی پر اکثر اصولین ہیں۔ ائمہ اربعہ (امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمدبن حنبل) کے نزدیک مقلد کا ایمان صحیح ہوتاہےاوراکثرمتکلمین کے نزدیک سوائے اشعری کے‘‘۔ (شرح مسلم الثبوت:ج۲، ص۴۳۲)
غیرمقلدین حضرات کےشیخ الکل جناب مولانا سید نذیر حسین دہلویؒ مسلم الثبوت کی مکمل عبارت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’امام الحرمین نے کہاہےکہ اسی قول مشہورپربڑےبڑےاصولی ہیں اورغزالی اورآمدی اورابن حاجب نے کہاکہ رجوع کرناآنحضرتﷺاوراجماع اورمفتی اورگواہوں کی طرف اگرتقلیدقراردیاجائے توکچھ ہرج نہیں۔ پس ثابت ہواکہ آنحضرتﷺکی پیروی کواورمجتہدین کی اتباع کوتقلید کہناجائزہے‘‘۔ (معیار الحق: ص۷۳)
لیکن عام ارباب اصول کے عرف میں مجتہدکے قول کوماننے والا مقلد کہلاتاہےحالانکہ مجتہد کاقول اس کے لئے حجت ہےیہ من غیرحجۃکی مداورزدمیں نہیں ہے اور علماءِ اصول کی اکثریت اسی پرہے، لہٰذا مجتہدکی تقلیدپر من غیرحجۃ کی تعریف کوفٹ کرنااورمجتہدکے قول کوغیرحجت قراردیناارباب اصول کی واضح عبارات سے غفلت پرمبنی ہے کیونکہ عامی جب خودعلم نہیں رکھتا توعلم والوں کی طرف مُراجعت کے بغیراس کے پاس کوئی چارہ ہی نہیں اورایسا کرنے کوبھی نص واجب قراردیتی ہے۔ جیساکہ ارشادباری تعالیٰ ہے کہ: ’’فَاسْاَلُـوٓا اَهْلَ الـذِّكْرِ اِنْ كُنْتُـمْ لَا تَعْلَمُوْنَ‘‘۔’پس سوال کرو اہل الذکر سے اگر تم کو علم نہیں‘‘۔ [سورۃ النحل: ٤٣]
ثانیاً یہ کہ ہم نے باحوالہ تقلید کی تعریف میں’’من غير مطالبة دليل‘‘ اور ’’من غير تامّل فی الدليل‘‘ اور ’’بلا نظر فی الدليل‘‘ کے الفاظ بھی نقل کیئے ہیں جس کا یہ مطلب ہرگزنہیں ہے کہ مجتہد کے پاس دلیل موجودہی نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مقلد دلیل کاتقاضہ نہیں کرتا اوراس خاص دلیل کافکرمند نہیں ہوتا جوکہ مجتہد نے قائم کی ہے۔ کیونکہ الدلیل میں الف لام عہد کے لئے ہے۔ غرض یہ کہ تقلید کی تعریف صرف یہی نہیں جو مسلم الثبوت کے حوالے سے نقل کی گئی ہے بلکہ وہ بھی ہے جوہم نےباحوالہ نقل کی ہیں۔
غیرمقلدین کے نزدیک تقلید کی تعریف
غیرمقلدین کے نزدیک تقلید کی بس یہی تعریف ہےکہ کسی کی بے دلیل بات کو ماننا یا پھر کسی کی بات کو ماننا جو قرآن و حدیث کے خلاف ہو۔
 یہی تعریف ان کے شیخ الحدیث اور ان کی ”تقلید“ میں ان کا ایک عام اَن پڑھ جاہل شخص کرتا پھرتا ہے۔
اتباع، اقتداء، اطاعت، پیروی اور تقلیدایک ہی  معنیٰ میں آتے ہیں، جس طرح اتباع و اطاعت کے دونوں معنیٰ ہیں اسی طرح  اہل لغت نے تقلید کے بھی دونوں معنیٰ کیئے ہیں۔ بے دلیل کسی کی پیروی کو بھی تقلید کہتے ہیں اور با دلیل بات کو بلا مطالبہ دلیل مانے کو بھی تقلید کہتے ہیں۔
کون سی تقلید صحیح (محمود) ہے اور کون سی صحیح نہیں (مذموم ) ہے اس کا  فرق تب معلوم ہوتا ہے جب دیکھا جائے کہ جس کی اتباع کی جارہی ہے وہ کیا ہے۔ کافر ہے تو مذموم اور اس کی تقلید حرام، مومن ہے، مجتہد ہے، فقیہ ہے، تو محمود اور اس کی تقلید لازم کیونکہ فروعی غیر منصوص مسائل میں اجتہاد ایک ضرورت ہے ۔جب اجتہاد ضرورت ہے  تو جو اجتہاد نہیں جانتا تو اسکے لئے مجتہد کی پیروی کرنا ضروری ہو گا اور اس کے سوا ء ایک عامی شخص کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ ہم دونوں باتوں کو اپنی اپنی جگہ صحیح مانتے ہیں جبکہ غیرمقلدین اہل لغت و اصولین سے اپنی خواہش کے مطابق صرف ایک بات کا انتخاب کرتے ہیں دوسری کو پرے پھینک دیتے ہیں۔
غیرمقلدین کاتقلید کی تعریفات میں اپنی خواہش کے مطابق ایک تعریف کو لینا اور دوسری کو پھینک دینا اصولین، اہل لغت وغیرہ کے ساتھ خیانت نہیں  تو اور کیا ہے؟
غیرمقلدین حضرات ’’اتباع اور تقلید‘‘کے فرق کو صرف ایک جملے سے بیان کرتے ہوئےکہتے ہیں کہ اتباع کسی غیر نبی کی بات کو دلیل کے ساتھ قبول کرنےکو کہتے ہیں اور تقلید کسی غیر نبی کی بات کو بلا دلیل قبول کرنے کانام ہے۔
میں تمام غیر مقلدین حضرات سے سوال کرتاہوں کہ اگر اتباع کسی غیر نبی کی بات کو دلیل کے ساتھ قبول کرنے کو کہتےہیں تو پھر قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر ’’اتباع‘‘ کا لفظ یہودونصاریٰ،من گھڑت پرستوں، خواہشِ نفس،بےسند خیال اور شیطان کی پیروی کے لئے بھی استعمال ہوا ہے تو  یہ کیا دلیل دیا کرتے ہیں؟جن کی پیروی کے لئے بھی قرآن میں ’’اتباع ‘‘ کا لفظ استعمال ہواہے؟
۱۔ یہودونصاریٰ کیا دلیل دیاکرتے تھے کہ اﷲتبارک وتعالیٰ نے ان کی پیروی کوبھی لفظ اتباع سے تعبیرکیا؟
۲۔ من گھڑت پرستوں کی آخرایسی کونسی دلیلیں تھیں جن کی پیروی کے لئے بھی لفظ اتباع ہی استعمال ہوا؟
۳۔ نفس ہمیں کونسی دلیل دیتاہےجس کی پیروی کے لئے بھی لفظ ابتاع ہی نازل ہوا؟
۴۔ بے سند خیالوں میں ایسی کونسی دلیلیں ہواکرتی ہیں جن کی پیروی کے لئے بھی لفظ اتباع ہی استعمال کیاگیا؟
۵۔ شیطان ہمیں ایسی کیادلیلیں دیتاہے کہ اس کی پیروی کے لئے بھی اﷲتبارک وتعالیٰ نے لفظ اتباع ہی نازل فرمایا؟
اتباع بھی اسی طرح ہو تی ہے بے دلیل کسی کے پیچھے چلنے کو بھی اتباع ہی کہا جائے گا اور با دلیل کسی کے پیچھے چلنے کو بھی اتباع ہی کہا جائے گا بے دلیل کسی کے پیچھے چلنے سے اتباع کا مطلب نہیں بدل جاتا۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں : وَ مَنۡ یَّتَّبِعۡ خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ فَاِنَّہٗ یَاۡمُرُ بِالۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ۔”جو شخص شیطان کی اتباع کرتا ہے تو اچھی طرح جان لے کہ شیطان بے حیائی اور نا معقول کام کرنے کا حکم دیتا ہے“۔{سورۃ النور :۲۱}
اللہ تعالیٰ نے بھی یہاں شیطان کے پیچھے چلنے والوں کے  لئے اتباع کا ہی لفظ استعمال کیا۔ (سوال)شیطان کی بات با دلیل ہوتی ہےیا بے دلیل؟
ایک اور آیت میں آتا ہے: وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمُ اتَّبِعُوۡا مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ قَالُوۡا بَلۡ نَتَّبِعُ مَاۤ اَلۡفَیۡنَا عَلَیۡہِ اٰبَآءَنَا ؕ اَوَ لَوۡ کَانَ اٰبَآؤُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ شَیۡئًا وَّ لَا یَہۡتَدُوۡنَ۔ ”ہم تو اسی طریقے کی اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے  اگرچہ ان کے باپ دادے    کچھ بھی نہ جانتے ہوں اور نہ جانتے ہوں سیدھی راہ“۔{سورۃ البقرۃ ۱۷۰}
قرآن پاک نے بے عقل اور سیدھی راہ سے بھٹکے ہوئے باپ داداؤں کے پیچھے چلنے  سے منع فرمایا ہے اور ان کے پیچھے چلنے کا ہم بھی نہیں  کہتے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر باپ دادا مومن مسلمان اور متقی پرہیزگار ہوں تو کیا قرآن اس وقت بھی باپ دادا کی پیروی سے ہمیں روکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ اسی لئے قرآن مجید میں اﷲ بتارک و تعالیٰ نے ایمان لانے والے  باپ داداؤں کی پیروی کرنے کا حکم دیا ہے۔
وَالَّذينَ ءامَنوا وَاتَّبَعَتهُم ذُرِّيَّتُهُم بِإيمٰنٍ أَلحَقنا بِهِم ذُرِّيَّتَهُم وَما أَلَتنٰهُم مِن عَمَلِهِم مِن شَيءٍ ۚ كُلُّ امرِئٍ بِما كَسَبَ رَهينٌ ۔’’اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی (راہ) ایمان میں ان کے پیچھے چلی۔ ہم ان کی اولاد کو بھی ان (کے درجے) تک پہنچا دیں گے اور ان کے اعمال میں سے کچھ کم نہ کریں گے۔ ہر شخص اپنے اعمال میں پھنسا ہوا ہے‘‘۔{سورۃالطور:۲۱}
اللہ تعالیٰ نے ان کفار کی بات کو ذکر کیا تب بھی  لفظ تقلید نہیں بلکہ اتباع ہی لایا۔تومعلوم ہوا کہ اتباع بھی بلا دلیل ہوتی ہے۔
غیرمقلدین حضرات بتائیں کیا قرآن کی یہ آیات اس بات کی دلیل کیلئے کافی نہیں کہ اتباع بھی بلا دلیل ہو سکتی ہے؟ پھر آج سے شروع ہو جائیں یہ کہنا  کہ اتباع بھی علی الاطلاق حرام ہے۔
غیرمقلدین حضرات اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن میں ’’اتباع‘‘ کا لفظ موجودہے جبکہ ’’تقلید‘‘ کا لفظ قرآن میں موجود نہیں، لہٰذا قرآن میں اتباع کاحکم توہے، تقلید کانہیں۔
غیرمقلدین حضرات کا یہ اعتراض ایک نابالغ بچے کے اعتراض کی طرح ہے جوکہتاہے کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہےکہ ’’وَبِالْوَالِـدَيْنِ اِحْسَانًا ۚ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَـرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّـهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْـهَرْهُمَا وَقُلْ لَّـهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا‘‘۔ ’’اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو، اور اگر تیرے سامنے ان میں سے ایک یادونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف بھی نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو اور ان سے ادب سے بات کرو‘‘۔ [سورۃ الاسراء: ۲۳]
اب اگرایک نابالغ بچہ ہم سے یہ کہے کہ قرآن میں تواﷲتعالیٰ نے ماں باپ کو ’’اُف‘‘ کہنے اور ’’جھڑکنے‘‘ سے منع کیا ہے مارنے اور گالی دینے سے نہیں۔ اور اپنے اس دعویٰ کی دلیل یہ پیش کرے کہ کیونکہ قرآن میں’’اُف‘‘ اور’’جھڑکنے‘‘کے الفاظ موجودہیں ’’مارنے‘‘ اور ’’گالی‘‘ دینے کے نہیں، لہٰذا مجھے قرآن سے ’’مارنے‘‘ اور ’’گالی‘‘دینے کے الفاظ دکھاؤ تب میں ’’مارنے‘‘ اور ’’گالی‘‘دینے کے حکم کو تسلیم کرونگا۔
اس کی ایک اورمثال یہ بھی دی جاسکتی ہے کہ ایک چرسی، ہیروئنچی یا افیمچی یہ کہتاہے کہ کیونکہ قرآن مجید اوراحادیث مبارکہ میں شراب کےلفظ کے ساتھ اس کی حرمت کاحکم توملتاہے لیکن چرس، ہیروئن اورافیم کے الفاظ موجودنہیں، لہٰذا چرس، ہیروئن اورافیم کےالفاظ قرآن وحدیث میں دکھاؤ گے تومیں انہیں حرام تسلیم کرونگاورنہ ان کی حرمت قرآن وحدیث سے ثابت نہیں ہے۔
بالکل اسی طرح ایک شخص کہتاہے کہ کیونکہ قرآن مجید میں بھیڑ(نرومادہ)، بکری(نرومادہ)، اونٹ(نرومادہ)، اورگائے(نرومادہ)کی حلّت کاحکم توملتاہے لیکن بھینس(جاموس) کی حلّت قرآن وحدیث میں موجودنہیں کیونکہ بھینس(جاموس) کالفظ قرآن وحدیث میں کہیں نہیں ملتالہٰذا بھینس حلال جانورنہیں ہے۔
ایسے ناسمجھ، کم علم وکم عقل اوراحمق لوگوں سے یہی کہاجائے گاکہ قرآن مجیدمیں کسی چیز کی حلّت اور حرمت کے حکم کے پائےجانے کا انحصارکسی لفظ کے صراحتاً موجود ہونے پرنہیں ہوتابلکہ اس حکم میں  مقیس اور مقیس علیہ کے مابین علت مشترکہ ہونے پرہوتاہے۔ یا تو وہ علت منصوصہ ہو یعنی نص میں علت بیان کی گئی ہو، یا پھر علت بدیہی ہو، یعنی دماغ لڑائے بغیر بات سنتے ہی فورا ًسمجھ آجانے والی ہو۔
جیسےمندرجہ بالاآیت مبارکہ میں والدین کو ’’اُف‘‘ نہ کرنے کی علت غور و خوض کیئے بغیر سمجھ آ رہی ہے کہ انہیں تکلیف دینے کا سب سے کم درجہ ’’اُف‘‘ کہنےسے منع کی خاطر یہ حکم جاری کیا گیا ہےلہٰذا انہیں مارنا اور گالی دینا توطریق اولیٰ حرام ہوگا۔ سو ہر وہ کام جس سے والدین کو تکلیف پہنچےاس آیت کی رو سے منع قرارپایا۔
اسی طرح قرآن وحدیث میں شراب کی حرمت کاحکم شراب کے لفظ پرنہیں بلکہ اس کےپینےپرنشہ طاری ہوجانےاورہوش وحواس کھوجانے کی علت پرجاری ہواہے۔ اب شراب پینے پرنشہ طاری ہوجانے اورہوش وحواس کھوجانےوالی علت جن جن اشیاء میں مشترکہ پائی جائے گی وہ تمام چیزیں خودباخود اس حکم میں داخل ہوجائیں گی۔ اس کے لئے شراب کے لفظ کا ہونا ضروری نہیں، جیساکہ آج شراب مختلف ناموں سے دستیاب ہے پھربھی تمام مکاتب فکرکے نزدیک حرام ہے۔
بالکل ایسے ہی قرآن وحدیث میں بھینس(جاموس) کا لفظ کہیں بھی موجود نہیں پھربھی تمام مکاتب فکرکے نزدیک بھینس (جاموس) حلال ہے کیونکہ بھینس اورگائے میں علتیں مشترکہ ہیں لہٰذا جب گائے کا لفظ قرآن مجیدمیں صراحتاً موجودہے توگائے اوربھینس کی علتیں مشترکہ ہونے کی وجہ سے بھینس بھی حلال ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ بھینس کو تمام ائمہ کرام نے گائے کی ایک قسم قراردیاہے۔
مندرجہ بالاتینوں مثالوں سے یہ بات واضح طورپرسمجھی جاسکتی ہے کہ اتباع اور تقلید ایک ہی کام کے دومختلف نام ہیں کیونکہ لغت میں اتباع کے بھی وہی معنیٰ بیان ہوئے ہیں جو تقلیدکےہیں، لہٰذایہاں بھی دونوں لفظوں میں علتیں مشترکہ ہیں۔ لغت میں تقلید، اتباع، اقتداء، اطاعت سب کے معنیٰ پیروی کرنا، فرمابرداری کرنا، تابعداری کرناہے، لہٰذا قرآنِ کریم کے بیان سے صرف اتباع کے لفظ کو قبول کرنا اوراس کے معنیٰ ومفہوم سمجھے بغیرتقلید کو اس کی مخالفت میں استعمال کرنا، اس کی وہی مثال بنتی ہےجیساکہ ایک نشئی شراب کی حرمت کے مقابلے میں چرس، ہیروئین اورافیم کوحلال قراردیتاہو۔
اگر غیرمقلدین کے نزدیک تقلید کا بیان قرآن کریم میں موجود ہے تو پھر وہیں سے پہلے تقلید کا لفظ دکھائیں پھر وہیں سے اس کی معنیٰ کریں پھر اسکے بعد اس کا حکم دکھائیں کیونکہ تقلید کے وجوب کو ثابت کرنے کیلئے آپ لوگ یہی پیمانہ بناتے ہیں۔
غیرمقلدین جواب دیں ان کے باپ داداؤں کی بات با دلیل تھی یا بے دلیل اگر بے دلیل بات کو اتباع نہیں کہا جاتا تو اللہ تعالیٰ نے اسے اتباع کیوں قرار دیا ہے تقلید  کیوں نہیں؟ معلوم ہوا کہ  اتباع بھی بے دلیل ہوتی ہے دلیل کا ہونا ضروری نہیں۔
لیکن لغت سے جاہل غیرمقلدین تقلید کا  معنیٰ اپنی خوائش کے مطابق ہی تعین کرتے ہیں۔کبھی کہتے ہیں  تقلید کا معنیٰ بے دلیل بات کی پیروی کرنے کو ہی کہا جاتا ہے۔ اور ان کے عالم کہلانے والے جاہل یہاں تک بھی لکھتے ہیں کہ: ”قرآن و سنت کے خلاف بات ماننے کو تقلید کہتے ہیں“۔(احکام و مسائل: ج ۱، ص ۱۵۸، عبد المنان نورپوری)
تقلید کا یہ معنیٰ تعین کرنے کی حاجت انکی مجبوری کے سوا کچھ نہیں اگر یہ انصاف سے جو معنیٰ اس کا ہے وہی لیں  اور خود سے ایک ہی طرف کا معنیٰ تعین نہ کریں تو ان کا مذہب خطرے میں پڑ جاتا ہے۔  جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا مذہب صرف غلط بنیادوں پر کھڑا ہے۔بہر حال ہم انہیں منہ مانگا جواب دینگے۔(انشاء اللہ)
حضرت عثمان غنی ؓ نے اپنے دور خلافت میں قرآن کے تمام مصحفوں کوختم کرکے پوری امت مسلمہ کو ایک مصحفِ عثمانیؓ پر جمع کیاجس میں قرآن کی سورتوں کی ترتیب بھی ترتیب نزولی پر نہ تھی اور ان کے اس فیصلے پر تمام صحابہؓ میں سے کسی نے بھی ان کی مخالفت نہ کرتے ہوئے ان کی تقلیدکی۔
 اگر تقلید بلا دلیل بات ماننے کو کہتے ہیں تو اللہ تبارک و تعالیٰ کے پیارے نبیﷺکے پیارے صحابی حضرت عثمان غنی ؓ نے اپنے دور خلافت میں قرآن کے تمام مصحفوں کوختم کرکے پوری امت مسلمہ کو ایک مصحفِ عثمانیؓ پر جمع کیاجس میں قرآن کی سورتوں کی ترتیب بھی ترتیب نزولی پر نہ تھی اور ان کے اس فیصلے پر تمام صحابہؓ میں سے کسی نے بھی ان کی مخالفت نہ کرتے ہوئے ان کی تقلیدکی ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جو کام نبی کریم ﷺ نے نہیں کیا وہ کام ایک غیرنبی صحابی رسولﷺ نے کیاجس کی دلیل نہ قرآن میں موجود ہے اور نہ نبی ﷺ کے فرمان میں موجود ہے۔تو کیا  نعوذباﷲ انھوں نے قرآن وحدیث کی مخالفت کی اور باقی تمام صحابہ کرام ؓ نے ان کے اس بلادلیل فیصلے کی پیروی کرتے ہوئے قرآن و حدیث کی مخالف کی۔(معاذ اللہ)
بالکل اسی طرح حضرت عثمان غنی ؓ نے اپنے دور خلافت میں جمعہ کی نماز کیلئے ایک اضافی  اذان کا حکم فرمایا۔(صحیح بخاری: ج۱ ،ح ۸۷۹)
جس کا ثبوت نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں، محض رائے سے ہے۔ سب مہاجرین و انصار نے بلا مطالبہ دلیل اس کو قبول فرما لیا۔ اگر تقلید کا یہی معنیٰ ہے تو پس تقلید شخصی صحابہ کرام ؓکے پاک اورمبارک زمانے سے ثابت ہوئی ۔
اگر تقلید قرآن حدیث کے خلاف کسی کی بات ماننے کو کہتے ہیں تو بقول غیرمقلدین اکھٹی تین طلاق کو تین حضرت عمرؓ نے قرار دیا ہے اور غیرمقلدین کے ہاں اکھٹی تین طلاق کو تین شمار کرنا قرآن و حدیث کے خلاف ہے اب اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ معاذ اللہ حضرت عمرؓ نےپہلے قرآن و حدیث کی مخالفت کی اور پھر بقیہ تمام صحابہؓ نے ان کی تقلید کرکے قرآن حدیث کی مخالفت کی اور یوں تمام صحابہؓ قرآن و حدیث کے منکر اور مخالف ہو گئے ۔ (معاذ اللہ)
تمام غیرمقلدین حضرات سے مطالبہ ہے کہ وہ  حضرت عثمان غنیؓ کا قرآن کے تمام مصحفوں کو ختم کرکے امت مسلمہ کوایک مصحف عثمانیؓ پر جمع کرنے کے اس عمل کی دلیل قرآن و حدیث سے پیش کردیں ورنہ یہ قبول کرلیں کہ تقلید مجتہدجائزبلکہ واجب ہے۔ اور اگران دونوں میں سے کوئی ایک کام بھی نہیں کرسکتے تو پھر قرآن مجیدپڑھنااور اس کی پیروی کرنا چھوڑدیں کیونکہ یہ قرآن بھی ہم تک تقلیدکے ذریعہ ہی پہنچا ہےاور بقول غیرمقلدین حضرات تقلید تو ایک حرام عمل ہے۔تو پھر آج آپ ایک حرام عمل کا حصہ کیوں بنے ہوئے ہیں؟
 دوسرا یہ کہ (تقلید محمود میں) جس کی تقلید کی جاتی ہے اس کی بات با دلیل ہوتی جس کو محض حسن ظن پر بغیر مطالبہ دلیل تسلیم کر لیا جاتا ہے  اور ایسا کرنا نہ حرام ہے، نہ کفر ہے، نہ شرک وہ بھی جب مجتہد کی تقلید کی جارہی ہو تو پھر کس طرح بندہ کہے کہ مجتہد سے دلیل لازم نہیں کیونکہ اس پر اعتماد نہیں شاید وہ غلط بات بتا رہا ہو اور پھر اگر مجتہد دلیل پیش بھی کردے جس بنا پر اس نے اجتہاد کیا ہے تو کیا غیرمقلدکے اندر کوئی اہلیت موجود ہےجو اس کے اجتہاد کو سمجھ سکے؟ اور سمجھ نہ آئے تو انکار کر دے؟
 
غیرمقلدین حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ  سے تقلید کے متعلق ایک قول نقل کرتے ہیں، جبکہ مولانا تھانویؒ   کی  بات سمجھنے میں یہ  بلکل جاہل ہیں کیونکہ بقول ان کے ایک مولوی صاحب جماعت اہلحدیث کیلئے علمی اور گہری باتیں بسا اوقات پریشانی کا باعث ہو تی ہیں ۔(قافلہ حدیث:ص ۸۰)
اور جو قول غیرمقلدین حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ  کا پیش کرتے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس میں   لفظ اتباع کو نبیﷺ کے ساتھ اور تقلید کو مجتہد کے ساتھ خاص کیا گیا ہے، جیسے حمد کا معنیٰ بھی تعریف ہوتا ہے اور نعت کا معنیٰ بھی تعریف ہوتا لیکن نبیؐ کی تعرف حمد کی بجائے نعت کہلاتی ہے اور اللہ کی تعریف نعت نہیں بلکہ حمد  کہلاتی ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی کہے کہ نعت کا معنیٰ اب تعریف نہیں رہا یا حمد کا معنیٰ تعریف نہیں رہا۔جبکہ مولانا تھانویؒ  خود بھی فرماتے ہیں :’’ تقلید کہتے ہیں اتباع کو ‘‘۔(شان صحابہ: ص۲۹۶)
اس کی ایک اور مثال یہ بھی دی جاسکتی ہے کہ لغت میں ’’حدیث‘‘ ہرقسم کے کلام یاخبرکوکہتے ہیں۔ جس کی دلیل قرآن مجید میں موجوداﷲتبارک وتعالیٰ کے ارشادات سے ملتی ہے۔
۱۔ ’’ وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ ‘‘۔ ’’اوراپنے رب کی نعمت کااظہارکیجئے‘‘۔ [سورۃ الضحی: ۹۳]
۲۔ ’’هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَی‘‘۔ ’’کیا موسیٰؑ کی خبرتمہیں پہنچی ہے‘‘۔ [سورۃ النّٰزعٰت: ۱۵]
۳۔ ’’فَمَا لِهَؤُلاء الْقَوْمِ لاَ يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا‘‘۔ ’’ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی‘‘۔ [سورۃ النسآء: ۷۸]
۴۔ ’’أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللّهِ يُكَفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلاَ تَقْعُدُواْ مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُواْ فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ‘‘۔ ’’جب تم الله کی آیتوں پر انکار اور مذاق ہوتا سنو تو ان کے ساتھ نہ بیٹھو‘‘۔ [سورۃ النسآء: ۱۴۰]
مندرجہ بالاآیات میں ’’حدیث‘‘ کے معنیٰ ذکرکرنا، خبراوربات(کلام) کےواردہوئےہیں۔
اس سے پتہ چلتاہے کہ عربی لغت میں ’’حدیث‘‘کے معنیٰ صرف رسول اﷲﷺکے اقوال وافعال اورارشادات کےہی نہیں تھےبلکہ خبراورکلام کے بھی ہیں۔ جیساکہ اﷲتبارک وتعالیٰ نے موسیٰؑ کی خبرکوبھی حدیث ہی بیان فرمایاہے۔ لیکن عہدرسالت میں اس لفظ کو رسول اﷲﷺکے اقوال وافعال اورارشادات وواقعات کے ساتھ خاص کردیاگیااوربعدمیں صحابہ کرامؓ کے اقوال اورواقعات کوبھی حدیث ہی قراردیاجانے لگا۔ بالکل ایساہی معاملہ لفظ ’’اتباع‘‘ کے ساتھ بھی ہواہے۔ جیساکہ اوپربیان کیا جاچکا ہے۔
غیرمقلدین حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ  سے تقلید اور اتباع کے متعلق ایک قول نقل کرکے اتباع اور تقلید کے فرق کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ مولانا تھانویؒ خود فرماتے ہیں کہ: ’’پس ایک زمانہ خاص تک ایک شخص کے اتباع کا حکم فرمایا اور یہ کہیں نہیں فرمایا کہ ان سے احکام کی دلیل بھی دریافت کرلینااور یہی تقلیدشخصی ہے‘‘۔ (اجتہاد و تقلید کا آخری فیصلہ: ص۵۴)
غیرمقلدین حضرات تذکرۃالرشید کے حوالے سے حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کا تقلید کے متعلق ایک اورقول نقل کرکے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتےہیں،کہ مولانا تھانویؒ یہ کہتے ہیں کہ ’’تقلید شخصی پر کبھی اجماع نہیں ہوا‘‘ جبکہ مولانافرماتے ہیں کہ ’’وہ میں نے بطور تحقیق اور رائے کے نہیں بلکہ (اپنے شیخ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ) کو بطور اشکال کے پیش کیا ہے‘‘۔ (امداد الفتویٰ: ص۳۸۳)
حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ نے خود اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ’’بعض علماء نے ان مذاہب اربعہ میں اہل سنت والجماعت ہونے پر اجماع نقل کیا ہے‘‘۔ (اجتہاد و تقلید کا آخری فیصلہ: ص ۵۱)
غیرمقلد عالم زبیر علی زئی صاحب نے اپنی کتاب ’’دین میں تقلید کا مسئلہ‘‘میں ایک  جھوٹ رقم کیا ہے کہ مولانا سرفراز خان صفدرؒ نے اپنی کتاب’’المنھاج الواضح، راہ ِسنت‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’یہ الگ بات ہے کہ اقتدا ءاور چیز ہے اور تقلید اور‘‘۔ ان کے اس جھوٹ کی اصل حقیقت ملاحضہ فرمائیں۔
مشہور زمانہ غیرمقلد عالم زبیر علی زئی کا جھوٹ ملاحضہ فرمائیں۔ جس فرقے کے عالموں کے دجل کا یہ حال ہے اس کے جاہلوں کا کیا حال ہوگا۔
کتاب المنھاج الواضح یعنی راہ ِسنت کے صفحہ نمبر۳۵ پر لکھی یہ عبارت واضح طور پر پڑھی جاسکتی ہے کہ یہ الفاظ مولاناصفدر ؒ کے نہیں بلکہ علامہ امیر یمانیؒ کےہیں جو انہوں نے علامہ برمادیؒ کو بطورتردید پیش کیا ہے۔ 
غیرمقلد عالم زبیر علی زئی صاحب نے اپنی کتاب ’’دین میں تقلید کا مسئلہ‘‘میں دوسرا جھوٹ یہ رقم کیا ہے کہ مولانا سرفراز خان صفدرؒ نے اپنی کتاب ’’الکلام المفید فی اثبات تقلید‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’تقلیداوراتباع ایک ہی چیز ہے‘‘۔
زبیرعلی زئی صاحب الکلام المفید اور راہِ سنت کی عبارات میں تعارض ثابت کرتے ہوئے حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی سمجھ پرانگلی اٹھارہے ہیں جبکہ ذرابھی عقل و شعور اور اردو سمجھنےوالا شخص بھی اس بات کوبآسانی سمجھ سکتاہے کہ راہِ سنت کی عبارت پرزبیرعلی زئی صاحب نے انتہائی کذب بیانی سے کام لیتے ہوئے علامہ امیر یمانیؒ کی عبارت کو مولانا سرفرازخان صفدرؒ کی طرف منسوب کرکے عام اورلاعلم عوام کو دھوکہ دینے کی ناکام کوشش کی ہے۔ کتاب الکلام المفید فی اثبات تقلید کے صفحہ نمبر۳۲ پر لکھی یہ عبارت بھی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس کتاب میں بھی مولاناصفدر ؒ نےعلامہ ابن القیمؒ کے الفاظ بطوراشکال بحوالہ علام الموقعین سےدرج کیئے ہیں۔

اہلحدیث عالم شیخ الکل محدث جلیل جناب سیدنذیر حسین دہلوی ؒ اپنی کتاب معیارالحق کے صفحہ نمبر ۸۰ پر لکھتے ہیں: ’’(تقلید کی اقسام) قسم اول: واجب ہے اور وہ تقلیدِ مُطلق ہے‘‘۔’’یہ تقلید واجب اور صحیح ہے‘‘۔
جس طرح ایک بُت کو سجدہ کرنا یا ایک سے زائد بُتوں کو سجدہ کرنا دونوں ہی شرک وحرام ہیں، بالکل اسی طرح تقلید کسی ایک مجتہد کی کی جائے (یعنی تقلیدشخصی)یا پھر ایک سے زائد مجتہد ین کی (یعنی تقلیدمُطلق) دونوں ہی شرک و حرام ہوئے۔اگرایک سے زائد مجتہدین کی تقلید (یعنی تقلیدمُطلق) شرک و حرام نہیں تو پھر ایک مجتہد کی تقلید(یعنی تقلیدشخصی) کیسے شرک و حرام ہوسکتی ہے؟
غیرمقلدین کے شیخ الکل محدث جلیل جناب سیدنذیر حسین دہلوی ؒ اپنی کتاب معیارالحق کے صفحہ نمبر ۸۱ پر لکھتے ہیں: ’’(تقلید کی اقسام) قسم ثانی: مباح اور وہ تقلید مذہب معین کی ہے‘‘۔
مزید فرماتے ہیں کہ: ’’جو شخص قرآن اور حدیث کو نہیں جانتاتو وہ بذات خود جستجو سے مسائل اوراستنباط کی طاقت نہیں رکھتاسو اس کا یہی وظیفہ ہے کہ کسی فقیہ سےپوچھ لےکہ آنحضرت ﷺنے فلانے فلانے مسئلہ میں کیا حکم فرمایا ہےجب فقیہ بتادے تو اس کی پیروی کرےبرابر ہےکہ صریح نص سے لیا ہو یا اس سے استنباط کیا ہویامنصوص پر قیاس کیا ہویہ سب صورتیں حضرت ﷺ کی روایت کی طرف رجوع کرتی ہیں اگرچہ بطور دلالت کے ہی ہوں اور ایسی تقلید کی صحت پر تمام امت کا ہرطبقہ میں اتفاق ہے‘‘۔
غیرمقلدین حضرات کے شیخ الکل نے تقلید کی قسم ثانی کے بارے میں یہ کہہ کرمسئلہ ہی ختم کردیاکہ ’’جوشخص قرآن وحدیث نہیں جانتااوراستنباط کی صلاحیت نہیں رکھتاوہ کسی فقیہ سے پوچھ کراس کی پیروی کرلے۔ اوراس تقلید کی علامت یہ بتائی ہے کہ اگرکسی دوسرے مذہب (مسلک یاامام) کے کسی مسئلہ پرعمل کرسکے تواس سے انکارنہ کرے‘‘۔
الحمدﷲ! فقہ حنفی میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید بالکل ویسے ہی کی جاتی ہے جیسی تقلید کا حکم اﷲاوراس کے رسولﷺنے ہمیں دیاہے، یہی وجہ ہے کہ فقہ حنفی میں ایسے کئی مسائل ہیں جن میں علماءِ احناف نے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید کو ترک کرتے ہوئےدوسرےائمہ مجتہدین کے قول پرفتویٰ دیاہے، جس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
۱۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ شیرخوار بچے کی مدت رضاعت ۲سال ۶ ماہ بیان کرتے ہیں اورقرآن مجید کی اس آیت سے استدلال کرتے ہیں: ’’حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا‘‘۔ ’’کہ اسے اس کی ماں نے تکلیف سے اٹھائے رکھا اور اسے تکلیف سے جنا، اور اس کا حمل اور دودھ کا چھڑانا تیس مہینے(۲سال ۶ ماہ) ہیں‘‘۔ [سورۃ الأحقاف: ۱۵]
اس کے برعکس فقہ حنفی میں اس مسئلے پرامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو چھوڑ کرامام ابویوسف اور امام محمدرحمۃ اللہ علیہ کے قول پرفتویٰ دیا جاتاہےکیونکہ اس مسئلے پرصاحبینؒ نے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے فتویٰ کوچھوڑکرمدعت رضاعت ۲ سال بیان کی جس کی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے۔ ’’حَـمَلَتْهُ اُمُّهٝ وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ وَّفِصَالُـهٝ فِىْ عَامَيْنِ‘‘۔ ’’اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہے‘‘۔ [سورۃ القمان: ۱۴]
۲۔ اسی طرح امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا موقف یہ ہے کہ لاپتہ شوہرکی بیوی اس وقت  تک عقدِ نکاح سے فارغ نہیں ہوسکتی جب تک لاپتہ شوہر کی موت کایقینی علم نہ ہوجائے۔ ان دونوں فقہاء کرامؒ کا استدلال رسول اﷲﷺ کے اس فرمان سے ہے کہ ’’لاپتہ شوہرکی بیوی اس وقت تک اس کی بیوی ہی رہےگی جب تک گم شدہ آدمی کےمتعلق کوئی واضح اطلاع نہ موصول ہو جائے‘‘۔ (سنن دارقطنی: ج۳، ص ۳۱۲)
اگرچہ اس حدیث کی سندمیں محمدبن شرحبیل صمدانی نامی ایک راوی ضعیف ہے لیکن امام ابوحنیفہؒ کا ارشادہے کہ ’’الخبر الضعیف عن رسول اللہ ا اولیٰ من القیاس، ولایحل القیاس مع وجودہ‘‘۔ ’’یعنی باب میں اگر ضعیف حدیث بھی موجود ہو تو قیاس نہ کرکے اس سے استدلال کیا جائے گا‘‘۔ (المحلیٰ لابن حزم: ج ۳، ص۱۶۱)
احناف نے یہاں بھی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کےقول کو چھوڑ کرامام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے قول کی طرف رجوع کیا ہےاورلاپتہ ہونے والے شوہرکے لئےہم عمر لوگوں کی موت تک مدت مقرر نہیں کی بلکہ اس کا تعین حاکم کی رائے پرکیا ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیاگیا  کہ اگر کوئی عورت عدالت کے نوٹس میں لائے بغیر اپنےلاپتہ شوہرکا چار سال تک انتظار کرے تو اس مدت کا اعتبار کیا جائےگا؟ اما م مالک رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیاکہ:’’اگر وہ اس طرح بیس سال بھی گزار دے تو اس کاکوئی اعتبار نہیں ہوگا‘‘۔ (المدونة الکبریٰ: ج۲، ص۹۳)
احناف کے نزدیک امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ کا قول صحیح ہے کیوں کہ اسے حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک فیصلے کی تائید حاصل ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے موقف کی بنیاد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ فیصلہ ہے: ’’جس عورت کا خاوند گم ہوجائے اور اس کاپتہ معلوم نہ ہو کہ وہ کہا ں ہے۔ تو وہ  عورت چار سال تک انتظار کرے پھر چار ماہ دس دن عدت گزار کر چاہے تو دوسرا نکاح کرے‘‘۔ (موطا امام مالک: کتاب الطلاق)
غیرمقلدین حضرات کےشیخ الکل مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلویؒ فرماتے ہیں:’’پس ثابت ہوا کہ آنحضرتﷺکی پیروی اورمجتہدین کی اتباع کو تقلید کہنا جائز ہے‘‘۔(یعنی غیرمقلدین کے گھر کی دلیل سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ تقلید اور اتباع دونوں کے معنیٰ ایک ہی ہیں)
لاعلمی کے ساتھ تقلید کا انکارکرنے والے عامی غیرمقلدین حضرات پرعلماءاہلحدیث کارد:
۱۔ غیرمقلدمولوی ڈاکٹر بہاوالدین صاحب لکھتے ہیں: ’’ہاں بعض عوام کالانعام گروہ اہل حدیث میں ایسے بھی ہیں جو اہل حدیث کہلانے کے مستحق نہیں۔ ان کو لامذہب، بد مذہب، ضال مضل جو کچھ کہو، زیبا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ خود کتاب و سنت کا علم رکھتے ہیں نہ اپنے گروہ کے اہل علم کا اتباع کرتے ہیں۔ کسی سے کوئی حدیث سن کریا کسی اردو مترجم کتاب میں دیکھ کرنہ صرف اس کے ظاہری معنی کے موافق عمل کرنے پر صبرو اکتفاکرتے ہیں۔ بلکہ اس میں اپنی خواہش نفس کے موافق استنباط واجتہاد بھی شروع کردیتے ہیں۔ جس میں وہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں‘‘۔ (تاریخ اہل حدیث: ص۱۶۴)
۲۔غیرمقلدعالم محمد شاہ جہانپوریؒ لکھتے ہیں: ’’کچھ عرصہ سے ہندوستان میں ایک ایسے غیرمانوس مذہب کے لوگ دیکھنے میں آرہے ہیں جس سے لوگ بالکل ناآشناہیں۔ پچھلے زمانہ میں شاذ ونادر اس خیال کے لوگ کہیں تو ہوں مگر اس کثرسے دیکھنے میں نہیں آئے۔ بلکہ ان کا نام ابھی تھوڑے ہی دنوں میں سنا ہے۔ اپنے آپ کو اہلحدیث یا محمدی یا موحد کہتے ہیں۔ مگر فریق میں ان کا نام غیرمقلد یا وہابی یالامذہب لیا جاتا ہے‘‘۔ (الارشادالی سبیل الرشاد: ص۱۳)
۳۔ مشہورومعروف غیر مقلدعالم جناب مولانا محمدحسین بٹالوی لکھتے ہیں:’’پچیس برس کے تجربہ سے ہم کویہ بات معلوم ہوئی ہے کہ جولوگ بے علمی کے ساتھ مجتہد مطلق اور مطلق تقلید کے تارک بن جاتے ہیں وہ آخر اسلام کوسلام کربیٹھتے ہیں ان میں سے بعض عیسائی ہوجاتے ہیں اور بعض لامذہب، جو کسی دین و مذہب کے پابند نہیں رہتےاور احکام شریعت سے فسق و خروج تو اس آزادی (غیرمقلدیت) کا ادنیٰ کرشمہ ہے، ان فاسقوں میں بعض تو کھلم کھلاجمعہ، جماعت اور نماز ، روزہ چھوڑبیٹھتے ہیں۔ سود و شراب سے پرہیزنہیں کرتےاور بعض جو کسی مصلحت دنیاوی کے باعث فسق ظاہری سے بچتے ہیں وہ فسق خفی میں سرگرم رہتے ہیں۔ ناجائزطور پرعورتوں کو نکاح میں پھنسا لیتے ہیں۔ کفروارتداداورفسق کے اسباب دنیا میں اور بھی بکثرت موجود ہیں مگردینداروں کے بے دین ہوجانے کابہت بڑاسبب یہ بھی ہے کہ وہ کم علمی کے باوجود تقلید چھوڑبیٹھتے ہیں‘‘۔ ’’اگروہ اہلِ حدیث میں جو بے علم یاکم علم ہوکر ترکِ تقلید کے مدعی ہیں وہ اِن نتائج سے ڈریں، اس گروہ کے عوام آزاد اور خود مختار ہوئے جاتے ہیں‘‘۔ (اشاعۃ السنۃ: جلدنمبر۲۳، شمارہ نمبر۵، ص۱۵۴، مطبوعہ سنہ۱۸۸۸ء؛ بحوالہ سبیل الرشاد: ص۱۷۶؛ تقلید آئمہ ص۱۶-۱۷)
۴۔ فرقۂ اہل حدیث کے مجددجناب نواب صدیق حسن خان بھوپالی اپنی جماعت اہل حدیث کے متعلق لکھتے ہیں: ’’فقد فِي هَذَا الزَّمَان فرقة ذَات سمعة ورياء تَدعِي لأنفسها علم الحَدِيث وَالْقُرْآن وَالْعَمَل‘‘۔ ’’اس زمانہ میں ایک فرقہ شہرت پسندریا کارظہورپذیرہواہےجو باوجودہرطرح کی خامی کے اپنے لئے قرآن و حدیث پر علم وعمل کامدعی ہے حالانکہ اس کو علم وعمل اور معرفت کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہیں ہے‘‘۔ مزید لکھتے ہیں: ’’فيا لله الْعجب من أَيْن يسمون أنفسهم بالموحدين المخلصين وَغَيرهم بالمشركين المبتدعين وهم أَشد النَّاس تعصباً وغلواً فِي الدّين‘‘۔ ’’بڑے تعجب کی بات ہے کہ غیرمقلدین کیونکرخود کو خالص موحد کہتے ہیں اور مقلدین کو (تقلید ائمہ کی وجہ سے) مشرک اور بدعتی قراردیتے ہیں حالانکہ غیرمقلدین خود تو تمام لوگوں میں سخت متعصب اور غالی ہیں‘‘۔ پھراسی مضمون کے آخر میں لکھتے ہیں: ’’فَمَا هَذَا دين إِن هَذَا إِلَّا فتْنَة فِي الأَرْض وَفَسَاد كَبِير‘‘۔ ’’یہ طریقہ (جو غیرمقلدین کا ہے)کوئی دین نہیں یہ توزمین میں فتنہ اور فساد اعظیم ہے‘‘۔ (الحطہ فی ذکرصحاح الستہ: ص۲۴۲، ۲۴۹)
کیاتقلیدچوتھی صدی ہجری کی بدعت ہے؟
مجتہد ین کی تقلید پر کُل صحابہ کرامؓ اورتمام مومنین کاقرونِ اولیٰ میں اجماع کی دلیل غیر مقلد ین کے گھر سے۔
اہلحدیث عالم شیخ الکل محدث جلیل جناب سیدنذیر حسین دہلوی ؒ نے اپنی کتاب معیارالحق کے صفحہ نمبر ۱۴۳ پرلکھتے ہیں: ’’قوی تراجماع صحابہ کاہےخلاف اس اجماع کامقبول نہیں بلکہ مردود ہے۔ پس جب کہ کل صحابہ اورتمام مومنین کاقرونِ اولیٰ میں اس پراجماع ثابت ہواکہ کبھی ایک مجتہد کی تقلید کرتے اورکبھی دوسرے مجتہدکی‘‘۔ (معیارالحق: ص۱۴۳)
شاہ ولی اﷲمحدث دہلویؒ فرماتے ہیں: ’’اس قسم کی تقلید کاکون شخص انکارکرسکتاہے؟ علماءسے مسائل دریافت کرنے کا اورمسئلہ بتانے کا سلسلہ تورسول اﷲﷺکے زمانے سے برابرچلاآرہا ہے۔ اوریہی تو تقلیدہے‘‘۔ (حجۃ اﷲالبالغۃ: ج۲، ص۲۸۴)
غیرمقلدین کے شیخ الکل جناب سید نذیرحسین دہلویؒ نے کل صحابہؓ اور تمام مومنین کا قرونِ اولیٰ میں تقلید پر اجماع نقل کرکے اورشاہ ولی اﷲمحدث دہلویؒ نے تقلید کو رسول اﷲﷺ کے مبارک زمانے سے برابرچلے آنے کا اقرارکرکےان غیر مقلدین کا منہ بند کردیا جو کہتے ہیں کہ تقلید چوتھی صدی ہجری کی بدعت ہے۔
غیرمقلدین کے ایک اور جلیل القدر عالم جناب ثناءاﷲ امرتسریؒ اپنی کتاب فتویٰ ثنائیہ کی جلد اول صفحہ نمبر۲۵۶ پر خود اس بات کا اعتراف کررہے ہیں کہ : ’’تقلید مُطلق یہ ہے کہ بغیرتعیین کسی عالم سے مسئلہ پوچھ کرعمل کیا جائے۔ جو اہل حدیث کا مذہب ہے‘‘۔
الحمدﷲ! اﷲتعالیٰ کے حکم سے ہم نےفریق مخالف کے گھرسے دلیل پیش کرکے یہ ثابت کردکھایاکہ غیر مقلدین حضرات بھی درحقیقت مقلدہی ہیں۔
غیرمقلد سید توصیف الرحمٰن راشدی لکھتے ہیں: ’’کسی گروہ کے عقائداس گروہ کے علماءاوراکابرین طے کرتے ہیں‘‘۔ (کیاعلماءِدیوبنداہلسنت ہیں!!!: ص۸) 
لہٰذا غیرمقلدین کے شیخ الکل مولانا نذیرحسین دہلویؒ اورجناب ثناءاﷲامرتسریؒ جیسے جیدعلماءاوراکابرین جنہوں نے فرقہ اہلحدیث کی بنیاد رکھی،  خود اس بات کا اعتراف کرتےہیں کہ مطلق تقلید واجب ہے، جو اہل حدیث کا مذہب ہے۔ اب اگرموجودہ دور کے غیرمقلدین حضرات تقلید کاانکارکرتے ہوئے اسےسرے سے شرک اورحرام قراردیتے ہیں تو ان کی اس بات کا کوئی اعتبارنہیں۔
اتباع وتقلید کا حکم قرآن سے
تقلید کے وجوب پرقرآن کی پہلی آیت: 
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ۔ (سورۃ النسآء۵۹)
اےایمانوالوں! ا کی اطاعت کرواوررسولﷺ کی اطاعت کرو اوراپنےمیں سے اولی الامرکی ۔
اولی الامرسےمراداکثرمفسرین کےنزدیک علماء و مجتہدین ہیں، یہی بات حضرت عبدابن عباسؓ، حضرت جابربن عبداﷲؓ، حضرت حسن بصریؒاورحضرت عطاء ابن ابی رباحؒ جیسےاکابرمفسرین سےمنقول ہے۔
مستدرک علی الصحیحن میں لکھا ہے ”اولی الامر اصحاب فقیہ اور اصحاب الخیر ہیں“ (مستدرک علی الصحیحن: جلد اول، ص۲۱۱) آگے لکھا ہے۔”اولی الامر سے اہل فقہ اور اہل دین مراد ہیں جو لوگوں کو العمل بالمعروف والنهی عن المنكر کراتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی اطاعت واجب کردی ہے“۔ (مستدرک علی الصحیحین: جلد اول، ص۲۱۱)
اکثر غیر مقلدین حضرات کہتے ہیں ’’اولی الامر‘‘ سے مراد صرف حکمران ہیں علماء اور فقہاء نہیں۔جلیل القدر صحابی رسول ﷺحضرت عبداﷲبن عباس ؓ فرماتے ہیں: ’’ان سے مراد فقہ دین والے ہیں جو لوگوں کو ان کے دین کا مطلب سمجھاتے ہیں‘‘۔
اکثر غیر مقلدین حضرات کہتے ہیں ’’اولی الامر‘‘ سے مراد صرف حکمران ہیں علماء اور فقہاء نہیں۔ جلیل القدر تابعی مشہور محدث اور حضرت عبداﷲبن عباس ؓ کے شاگردحضرت عطاءؒ فرماتے ہیں: ’’اولی الامر سے مراد علم اور فقہ والے ہیں‘‘۔(سنن دارمی: جلد نمبر ۱، رقم الحدیث ۲۲۵)
۱۔ ’’وقال علي بن أبي طلحة، عن ابن عباس: {وأولي الأمر منكم} يعني: أهل الفقه والدين۔ وكذا قال مجاهد، وعطاء، والحسن البصري، وأبو العالية: {وأولي الأمر منكم} يعني: العلماء۔ والظاهر - والله أعلم - أن الآية في جميع (۴) أولي الأمر من الأمراء والعلماء، كما تقدم‘‘۔ ’’علی بن ابی طلحہ نے ابن عباسؓ سے روایت کرتے ہوئے کہا: واولی الامر منکم یعنی اہل فقہ و الدین۔ اور مجاہد اور عطا اور حسن بصری نے فرمایا ہے۔ اور ابو العالیہ نے کہا ہے: واولی الامر منکم یعنی علماء۔ اور ظاہر یہ ہے۔ واللہ اعلم۔ کہ اولی الامر امراء اور علماء (دونوں میں سے)  ہیں جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر: ج۱، ص۷۲۸)
۲۔ ’’قال حدثنا جابر بن نوح، عن الأعمش، عن مجاهد في قوله: "أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم"، قال: أولي الفقه منكم‘‘۔ ’’حضرت مجاہدفرماتے ہیں: اﷲتعالیٰ کےاس ارشادمیں واولی الامرمنکم سے مرادفقہ والےہیں‘‘۔
۳۔ ’’حدثنا أبو كريب قال، حدثنا ابن إدريس قال، أخبرنا ليث، عن مجاهد في قوله: "أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم"، قال: أولي الفقه والعلم‘‘۔ ’’حضرت مجاہدفرماتے ہیں: اﷲتعالیٰ کےاس ارشادمیں واولی الامرمنکم سے مرادفقہ اورعلم والےہیں‘‘۔
۴۔ ’’حدثني محمد بن عمرو قال، حدثنا أبو عاصم، عن عيسى، عن ابن أبي نجيح:"وأولي الأمر منكم"، قال: أولي الفقه في الدين والعقل‘‘۔ ’’ابن أبی نجیح فرماتے ہیں: واولی الامرمنکم سے مراددین میں سمجھ بوجھ اورعقل والےہیں‘‘۔
۵۔ ’’حدثني المثنى قال، حدثنا عبد الله بن صالح قال، حدثني معاوية بن صالح، عن علي بن أبي طلحة، عن ابن عباس قوله: "أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم"، يعني: أهل الفقه والدين۔ حدثني أحمد بن حازم قال، حدثنا أبو نعيم قال، حدثنا سفيان، عن حصين، عن مجاهد: "وأولي الأمر منكم"، قال: أهل العلم‘‘۔  ’’علی بن ابی طلحہ نے ابن عباسؓ سے روایت کرتے ہوئے کہا: واولی الامر منکم یعنی اہل فقہ و الدین۔ اور مجاہد نے فرمایا ہے: و اولی الامر منکم سے مراداہل علم ہیں‘‘۔
۶۔ ’’حدثني يعقوب بن إبراهيم قال، حدثنا هشيم قال، أخبرنا عبد الملك، عن عطاء بن السائب في قوله: "أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم"، قال: أولي العلم والفقه‘‘۔ ’’حضرت عطاءبن السائب فرماتے ہیں: اﷲتعالیٰ کےاس ارشادمیں واولی الامرمنکم سے مرادعلم اور فقہ والےہیں‘‘۔
۷۔ ’’حدثني المثنى قال، حدثنا عمرو بن عون قال، حدثنا هشيم، عن عبد الملك، عن عطاء: "وأولي الأمر منكم"، قال: الفقهاء والعلماء‘‘۔ ’’حضرت عطاء فرماتے ہیں: واولی الامرمنکم سے مرادفقہاءاور علماءہیں‘‘۔
۸۔ ’’حدثنا الحسن بن يحيى قال، أخبرنا عبد الرزاق قال، أخبرنا معمر، عن الحسن في قوله: "وأولي الأمر منكم"، قال: هم العلماء‘‘۔ ’’حضرت حسن فرماتے ہیں: واولی الامرمنکم سے مرادعلماءہیں‘‘۔
۹۔ ’’قال، وأخبرنا عبد الرزاق، عن الثوري، عن ابن أبي نجيح، عن مجاهد قوله: "وأولي الأمر منكم"، قال: هم أهل الفقه والعلم‘‘۔ ’’حضرت مجاہدفرماتے ہیں: واولی الامرمنکم سے مراداہل فقہ اوراہل علم ہیں‘‘۔
۱۰۔ ’’حدثني المثنى قال، حدثنا إسحاق قال، حدثنا ابن أبي جعفر، عن أبيه، عن الربيع، عن أبي العالية في قوله: "وأولي الأمر منكم"، قال: هم أهل العلم‘‘۔ ’’ابو العالیہ فرماتے ہیں: واولی الامرمنکم سے مراداہل علم ہیں‘‘۔
۱۱۔ ’’حدثني يعقوب بن إبراهيم قال، حدثنا ابن علية قال، حدثنا ابن أبي نجيح، عن مجاهد في قوله: "أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم"، قال: كان مجاهد يقول: أصحاب محمد - قال: وربما قال: أولي العقل والفقه ودين الله‘‘۔ ’’حضرت مجاہدکہتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں صحابی کرامؓ فرماتے ہیں: شاید اس آیت سے مراد عقل والے اوراﷲکے دین کی سمجھ رکھنے والےہیں‘‘۔ (تفسیر طبری: ج۸، تفسیرسورة النسآء:۵۹، ص ۵۰۰-۵۰۱)
۱۲۔ امام ابو بكراحمدبن علی الرازی الجصاص ؒ (متوفی ۳۷۰ھ) فرماتے ہیں: ’’لیکن اس میں کوئی امتناع نہیں کہ اولوالامرکے دونوں طبقوں یعنی فوجی دستوں کے امراءاورعلماءکی اطاعت اورفرمانبرداری کااس آیت میں حکم دیاگیاہے“۔ (أحكام القرآن للجصاص [اردو]: ج۳، ص۵۵۹)
۱۳۔ امام فخرالدین ابوعبداﷲمحمد بن عمرالرازیؒ (المتوفی ۶۰۴ھ) فرماتے ہیں کہ: ’’وَالْجَوَابُ: أَنَّهُ لَا نِزَاعَ أَنَّ جَمَاعَةً مِنَ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ حَمَلُوا قَوْلَهُ: وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ عَلَى الْعُلَمَاءِ۔۔۔ أَنَّ أَعْمَالَ الْأُمَرَاءِ وَالسَّلَاطِينِ مَوْقُوفَةٌ عَلَى فَتَاوَى الْعُلَمَاءِ، وَالْعُلَمَاءُ فِي الْحَقِيقَةِ أُمَرَاءُ الْأُمَرَاءِ، فَكَانَ حَمْلُ لَفْظِ أُولِي الْأَمْرِ عَلَيْهِمْ أَوْلَى‘‘۔ ’’اس میں کوئی نزاع نہیں کہ حضرات صحابہ کرامؓ اورتابعین کی ایک جماعت نے اولی الامرکوعلماءکے معنیٰ پرحمل کیاہے۔۔۔ بلاشک امراءاوربادشاہوں کے اعمال علماءکے فتووں پرموقوف ہیں اورحقیقت میں علماءامراء کے امراء ہیں تولفظ اولی الامرکاعلماءپرحمل کرنازیادہ بہترہے‘‘۔ (تفسیر الفخرالرازی: ج۱۱، سورۃ النسآء ۵۹، ص۱۴۹، ۱۵۰)
۱۴۔ غیرمقلد عالم نواب صدیق حسن خان صاحبؒ بھی یہی لکھتے ہیں کہ: ’’حضرت ابن عباسؓ، حضرت جابرؓ، حضرت حسن بصریؒ، حضرت ابوالعالیہؒ، حضرت عطاءؒ، حضرت ضحاکؒ، حضرت مجاہدؒ اورحضرت امام احمدؒفرماتے ہیں کہ اولی الامرسے مراد علماءہیں۔ تحقیق یہ ہے کہ امراءاورحکام کی اطاعت تب ہی کی جاتی ہے کہ وہ علم (شریعت) کے مطابق فیصلہ کریں توامراء کی اطاعت علماءکی اطاعت کے تابع ہے۔ جیساکہ علماء کی اطاعت جناب رسول اﷲﷺ کی اطاعت کے تابع ہے‘‘۔ (الجنۃ: ص۴)
امام ابو بكراحمدبن علی الرازی الجصاص ؒ فرماتے ہیں: ’’علماء پر واجب ہے کہ ان مسائل کا استنباط کریں اور منصوصات میں غور و خوص کر کے ان کےنظائر تلاش کریں اور ان کا حکم متعین کریں۔ اوریہ پیش آمده مسائل میں غیر مجتہدپر مجتہدین کی تقلید واجب ہے۔ اوردونوں تفسیروں میں کوئی تعارض نہیں، بلکہ دونوں (امراء اورعلماء) مراد ہیں، اور مطلب یہ ہے کہ حکام کی اطاعت سیاسی معاملات میں کی جائے، اور علماء و فقہا کی مسائل شریعت کے باب میں‘‘۔ (أحكام القرآن للجصاص [اردو]: ج۳، ص۵۶۰،  باب فی طاعۃ اولی الامر)
اگراولی الامرسے امراء اورعلماء دونوں ہی مراد لیئے جائیں توبھی دونوں کی اطاعت لازم اورواجب ہے۔ جس طرح عوام پرامراءکاقول ماننا (جوموافق شرع ہو) واجب اورلازم ہے بالکل اسی طرح لاعلم لوگوں پرعلماء کی بات جواﷲتعالیٰ کے اوامراورنواہی سے بخوبی آگاہ ہیں تسلیم کرنابھی لازم اورواجب ہے۔ اس لحاظ سے علماءِ حق کی بات ماننابھی عوام پرواجب اورلازم ہے۔
الحاصل یہ کہ حقیقتاًاطاعت توعلماءکی ہی ہونی چاہیئے، کیونکہ حکام کی اطاعت تواس لئے کی جاتی ہے کہ وہ علماءکے تابع اورشریعت اسلامی کے موافق فیصلے صادرکرتے ہیں۔
حضرت مولانا مفتی شفیع صاحبؒ (المتوفی ۱۳۶۹ھ) فرماتے ہیں کہ: ’’اولی الامرکی تفسیرمیں صحابہ کرامؓ تابعین اورتبع تابعینؒ کامؤقف یہ ہے کہ اس سے مرادخلفاء، علماءاورفقہاءہیں‘‘۔ ’’اورغیرمقلدعالم مولانا صدیق حسن خان صاحبؒ بھی اس معنیٰ کواپنی تفسیرمیں قبول کرتے ہیں‘‘۔ (جواہرالفقہ: ج۱، ص۱۲۲)
’’اولی الامر‘‘ سے مراد خلفاءِراشدین اور صحابہ کرامؓ کے بعدائمہ اربعہ ہیں
حافظ ابن کثیرؒ(المتوفی ۷۷۴ھ) تفسیر ابن کثیرکے مقدمہ میں لکھتے ہیں: ’’وحينئذ إذا لم نجد التفسير في القرآن ولا في السنة رجعنا في ذلك إلى أقوال الصحابة فإنهم أدرى بذلك لما شاهدوا من القرائن والأحوال التي اختصوا بها ولما لهم من الفهم التام والعلم الصحيح والعمل الصالح لا سيما علماؤهم وكبراؤهم كالأئمة الأربعة والخلفاء الراشدين والأئمة المهديين وعبد الله بن مسعود رضي الله عنه‘‘۔ ’’اس بنا پرجب کسی آیت کی تفسیرقرآن وحدیث دونوں میں نہ ملے تو اقوال صحابہؓ کی طرف رجوع کرناچاہیئے۔ وہ تفسیرِقرآن کوبہت زیادہ جانتے تھے۔ علاوہ ازین ہم اس تفسیر میں صحیح سمجھ بوجھ، نیک اور با عمل عالم کا قول لینگے۔ بالخصوص ان بزرگوں کاجوان میں بڑے مرتبہ والے اوربزرگ عالم تھے جیسے آئمہ اربعہ (یعنی امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ ) اور خلفاءِ راشدین (یعنی حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ) اورائمہ مہدیین اورعبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہ‘‘۔ (تفسیر ابن کثیرمقدمہ المؤلف: ج۱، ص۱۰و۷، دارطیبۃ للنشروالتوزیع المملکۃالعریبۃ السعودیۃ الریاض)
حافظ ابن کثیرؒ نے تفسیر ابن کثیرکے مقدمہ میں خلفاءِ راشدین اورصحابہ کرامؓ کے بعدآئمہ اربعہ (یعنی امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ )کوصحیح سمجھ بوجھ، نیک، باعمل اوربڑے مرتبہ والے بزرگ عالم تسلیم کرتے ہوئےاس بات کی تصدیق کردی ہے کہ ’’اولی الامر‘‘سے مراد صحابہ کرامؓ کے بعدآئمہ اربعہ ہی ہیں۔
غیرمقلد عالم مولانا محمد جوناگڑھی نے تفسیر ابن کثیرکے ترجمہ میں ائمہِ اربعہ (چار مشہور فقہی اماموں) کے فہم و تشریحات کی پیروی پر سلف صالحین کے عقیدہ و نظریات کو چھپانے بلکہ مٹانے کی ایک علمی خیانت کا واضح ثبوت پیش کرتے ہوئے ’’ كالأئمة الأربعة‘‘ کاترجمہ ہی حذف کرڈالا۔ تاکہ عام اور لاعلم مسلمانوں کو ائمہ اربعہ کی تقلید سے ہٹاکراپنی تقلید میں لگاسکیں۔
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ‏ (سورۃ النسآء :۵۹)
اےایمان والوں!اﷲاوررسول کی اطاعت کرواوراپنےمیں سےاختیاروالوں کی اطاعت کرو۔
تقلید کے وجوب  پر پیش کی جانے والی مندرجہ بالا آیت  پر غیرمقلدین حضرات یہ اعتراض کرتے ہیں کہ کیونکہ اﷲاوررسول ﷺکے ساتھ ’’اطیعو‘‘کا لفظ ہے مگراولی الامرکے ساتھ’’اطیعو‘‘کا لفظ نہیں ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ اﷲاور اس کے رسولﷺکی اطاعت مستقل ہے مگرامراء و علماءکی اطاعت غیرمستقل اورمشروط ہے۔
میرے غیرمقلدبھائیوں ہم نے یہ کب کہا ہے کہ جس طرح اﷲاور رسول اﷲﷺ کی اطاعت مستقل ہے بالکل اسی طرح امراء و علماء کی اطاعت بھی مستقل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم تقلید کو واجب قرار دیتے ہیں فرض نہیں۔ اگر اولی الامرکے ساتھ بھی ’’اطیعو‘‘کا لفظ ہوتا تو امراءوعلماء کی اطاعت ہمارے نزدیک واجب نہیں بلکہ  فرض ہوتی۔ لیکن کیونکہ یہاں اولی الامرکے ساتھ ’’اطیعو‘‘کا لفظ نہیں ہے لہٰذا امراءوعلماء کی بات اگر اﷲورسول ﷺ کے خلاف واضح طورپرثابت ہوجائے تو ہمارے نزدیک بھی حجت نہیں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ لیکن یہ پتہ لگانا کہ علماء کی کونسی بات قرآن و حدیث کے خلاف ہے یہ عام آدمی کا کام نہیں ہے۔
فقہ حنفی میں امام ابو حنیفہؒ کے کئی اقوال کو چھوڑ کر فتویٰ دیاجاتا ہے جسکی تفصیل کافی لمبی ہے۔ابھی چند مسائل پیشِ خدمت ہیں:
۱۔ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک عقیقہ سنت عمل نہیں جبکہ فقہ حنفی کے علماء امام ابو حنیفہؒ کے قول کو چھوڑ کر فتویٰ دیتے ہیں۔
۲۔ اسی طرح امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک ماں کااپنے بچے کو دودھ پلانے کی مدت  ۲سال چھے ماہ ہے جبکہ فقہ حنفی کے علماء اس کی حد ۲ سال مقرر کرتے ہیں۔
۳۔ امام ابو حنیفہ ؒ نمازِ استسقاءکو سنت نہیں سمجھتے تھے لیکن جب احادیثِ مبارکہ سے اس کے سنت ہونے کی دلیل مل گئی تو اب حنفی علماء خود نمازِ استسقاء کے قائل ہیں۔
۴۔ اسی طرح امام ابوحنیفہؒاور امام شافعیؒ کا موقف یہ ہے کہ لاپتہ شوہرکی بیوی اس وقت  تک عقد نکاح سے فارغ نہیں ہوسکتی جب تک لاپتہ شوہر کی موت کایقینی علم نہ ہوجائے۔ احناف نے یہاں بھی امام ابوحنیفہؒکےمؤقف کو چھوڑکرامام مالکؒکے مؤقف کی طرف رجوع کیا ہےاورلاپتہ ہونے والے شوہرکے لئےہم عمر لوگوں کی موت تک مدت مقرر نہیں کی بلکہ اس کا تعین حاکم کی رائے پرکیا ہے۔
ایسے بہت سے مسائل ہیں جن پرحنفی علماء امام ابوحنیفہؒ کے قول کو چھوڑ کرفتویٰ دیتے ہیں۔ لہٰذا ثابت ہوگیا کہ احناف سورۃ النساءآیت نمبر۵۹ پر بالکل اسی طرح عمل کرتے ہیں جیساکہ اﷲاور اس کے رسولﷺ نے کرنے کا حکم دیا ہےاور تقلید بھی ویسے ہی کرتے ہیں جیساکہ قرآن و حدیث اور اثارصحابہؓ وآئمہ کرامؒ سے ثابت ہے۔
تقلید کے وجوب  پر پیش کی جانے والی مندرجہ بالا آیت  پر غیرمقلدین حضرات اعتراض کرتے ہیں کہ کیونکہ ’’اولی الامر‘‘  میں جمع کا صیغہ ہے اسلئے اس سے مراد تمام آئمہ مجتہدین ہیں صرف اکیلے امام ابوحنیفہؒ نہیں۔
غیرمقلد عالم مولانا محمد جوناگڑھی لکھتے ہیں: ’’لفظ اولی الامرجمع ہے اور تقلید شخصی مفرد ہے، اس لئے بھی دعوےٰ اوردلیل میں مطابقت نہیں‘‘۔ (واہ کیا خوب)
غیرمقلدین کے نزدیک کیا بیک وقت متعدد امراء کی اطاعت جائز ہے؟ یاصرف ایک کی؟ اگرمتعدد کی جائز ہے توحدیث میں ایک امیرکی موجودگی میں دوسرے امیر کوقتل کرنے کاحکم کیوں صادر ہواہے؟ اوراگرایک کی ہے تو پھر جمع کا صیغہ ایک پرفٹ کیسے ہوسکتاہے؟ اس سوال کا جواب بھی اب آپ پر ہی قرض رہا۔
یہ بات عقل سے بالاتر ہے کہ غیرمقلدین حضرات کو ایک مجتہدکی تقلید میں تو عارمحسوس ہوتی ہے لیکن ۱۴۰۰ سالوں میں گزرے تمام مجتہدین کی تقلید کرنے میں کوئی شرم نہیں۔ آخرایسا کیوں؟ اسکامطلب دال میں کچھ کالاہے۔ یعنی غیرمقلدین حضرات کو تقلید کرنے میں کوئی شرم نہیں، بس ائمہ اربعہ (یعنی امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، اورامام احمدبن حنبلؒ) کی تقلید کرنے میں شرم آتی ہے۔
غیرمقلدین حضرات کے اس اعتراض کا دوسرامدلل اورجامع جواب ذیل میں درج صحیح بخاری کی حدیث میں واضح طور پر موجود ہے۔
’’حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ، أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ يَعْلَى بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضى الله عنهماـ {‏أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأَمْرِ مِنْكُمْ‏{‏‏.‏ قَالَ نَزَلَتْ فِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُذَافَةَ بْنِ قَيْسِ بْنِ عَدِيٍّ، إِذْ بَعَثَهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فِي سَرِيَّةٍ‘‘۔ ’’حضرتعبداﷲ بن عباسؓ نے بیان فرمایا کہ آیت ‏"اﷲ کی اطاعت  کرو اور رسولﷺ کی  اور اپنے میں سے اختیار والوں کی‏"۔ عبداﷲبن حذیفہ بن قیس بن عدیؓ کے بارے میں نازل ہوئی  تھی۔ جب رسول اﷲﷺ نے انہیں ایک مہم پر امیر بناکر بھیجا تھا۔ (صحیح بخاری:جلد نمبر ۶، رقم الحدیث ۴۵۸۴)
اگرچہ ’’اولی الامر‘‘ میں جمع کا صیغہ ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن نے اس لفظ سے کیا مراد بیان کی ہے۔صحیح بخاری کی حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ آیت ایک (معین)مخصوص  صحابی حضرت حذافہ بن قیس بن عدیؓ کے بارے میں نازل ہوئی جو کہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ آیت کسی معین شخص کی اتباع (تقلید) کے بارے میں نازل ہوئی تھی جوتقلیدشخصی کی واضح  دلیل ہے۔
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ‏ (سورۃ النسآء :۵۹)
اےایمان والوں!اﷲاوررسول کی اطاعت کرو اوراپنےمیں سےاختیاروالوں کی اطاعت کرو۔
مندرجہ بالا آیت اورصحیح بخاری کی حدیث سے یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ تقلید واجب ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اطاعت (تقلید)کب کی جائے اور کب نہ کی جائے؟
’’حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَلِيٍّ رضى الله عنه ـ قَالَ بَعَثَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم سَرِيَّةً، وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ رَجُلاً مِنَ الأَنْصَارِ وَأَمَرَهُمْ أَنْ يُطِيعُوهُ، فَغَضِبَ عَلَيْهِمْ وَقَالَ أَلَيْسَ قَدْ أَمَرَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَنَّ تُطِيعُونِي قَالُوا بَلَى‏۔ قَالَ عَزَمْتُ عَلَيْكُمْ لَمَا جَمَعْتُمْ حَطَبًا وَأَوْقَدْتُمْ نَارًا، ثُمَّ دَخَلْتُمْ فِيهَا، فَجَمَعُوا حَطَبًا فَأَوْقَدُوا، فَلَمَّا هَمُّوا بِالدُّخُولِ فَقَامَ يَنْظُرُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، قَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّمَا تَبِعْنَا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فِرَارًا مِنَ النَّارِ، أَفَنَدْخُلُهَا، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ خَمَدَتِ النَّارُ، وَسَكَنَ غَضَبُهُ، فَذُكِرَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏ "لَوْ دَخَلُوهَا مَا خَرَجُوا مِنْهَا أَبَدًا، إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ‘‘۔ ’’ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا ، ان سے سعد بن عبیدہ نے بیان کیا ، ان سے ابوعبدالرحمن نے بیان کیا اور ان سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دستہ بھیجا اور اس پر انصار کے ایک شخص کو امیر بنایا اور لوگوں کو حکم دیا کہ ان کی اطاعت کریں۔ پھر امیر فوج کے لوگوں پر غصہ ہوئے اور کہا کہ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں میری اطاعت کا حکم نہیں دیا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ضرور دیا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ لکڑی جمع کرو اور اس سے آگ جلاؤ اور اس میں کود پڑو۔ لوگوں نے لکڑی جمع کی اور آگ جلائی، جب کودنا چاہا تو ایک دوسرے کو لوگ دیکھنے لگے اور ان میں سے بعض نے کہا کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری آگ سے بچنے کے لیے کی تھی، کیا پھر ہم اس میں خود ہی داخل ہو جائیں۔ اسی دوران میں آگ ٹھنڈی ہو گئی اور امیر کا غصہ بھی جاتا رہا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ اس میں کود پڑتے تو پھر اس میں سے نہ نکل سکتے۔ اطاعت صرف اچھی باتوں میں ہے‘‘۔(صحیح البخاری:جلد نمبر ۸، كتاب الأحكام، باب السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ لِلإِمَامِ مَا لَمْ تَكُنْ مَعْصِيَةً، رقم الحدیث ۷۱۴۵)
’’حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ"‏السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ، فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ، مَا لَمْ يُؤْمَرْ بِمَعْصِيَةٍ، فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَلاَ سَمْعَ وَلاَ طَاعَةَ‘‘۔  ’’ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے ، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ، مسلمان کے لیے امیر کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا ضروری ہے۔ ان چیزوں میں بھی جنہیں وہ پسند کرے اور ان میں بھی جنہیں وہ ناپسند کرے، جب تک اسے معصیت کا حکم نہ دیا جائے۔ پھر جب اسے معصیت کا حکم دیا جائے تو نہ سننا باقی رہتا ہے نہ اطاعت کرنا‘‘۔ (صحیح البخاری:جلد نمبر ۸، كتاب الأحكام ، باب السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ لِلإِمَامِ مَا لَمْ تَكُنْ مَعْصِيَةً ، رقم الحدیث ۷۱۴۴)
اس سوال کا جواب بھی صحیح بخاری کی اس حدیث میں موجود ہے کہ جس میں امیر نےمسلمانوں کو  ایک حرام کام (خودکشی) کرنے کاحکم دیا اورلوگوں نے اس حرام کام کے کرنے کا انکار کیاپھرجب آنحضرت ﷺ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ ﷺ نے اس پر فرمایا کہ اطاعت (تقلید)  صرف نیکی کے کاموں میں ہے۔
جس طرح روزی (رزق) کمانا عین عبادت ہے،  اگر جائز (حلال) طریقے سے کمایا جائے جس طرح سے کمانے کا اﷲاور اس کے رسولﷺ نے حکم دیا ہے تو بیشک یہ عبادت اورباعث اجرو صواب ہے، لیکن یہی رزق اگر ناجائز (حرام) طریقے سے کمایا جائے( یعنی چوری، رشوت، جھوٹ اور سودی طریقہ سے ) تو یہ حرام اور گناہِ کبیرہ بن جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح تقلید اگر جائزطریقے سے کی جائے یعنی شرعی احکامات،حلال و حرام اور فروعی مسائل میں عمل کرنے کے لئے تو یہ باعث اجر و صواب ہے اور غلط طریقے سے کی جائے یعنی گناہ کے کاموں میں یاشرک،  بدعت اوران امورکےخلاف جن پر امت کا اجماع ہےتو یہ حرام اور باعث گناہ ہے۔
اطاعت (تقلید)کب کی جائے اور کب نہ کی جائے؟
اس سوال کا جواب حضرت حذافہ بن قیس بن عدی رضی اﷲعنہ پر نازل ہونے والی آیت اور مندرجہ بالا پیش کی جانے والی بخاری کی احادیث سے بالکل واضح سمجھا جاسکتا ہے جس کی تفصیل پیش خدمت ہے۔
اصول دین۔ عقائد اور منصوص احکام میں نہ تو اجتہاد جائز ہے اور نہ صرف تقلید ائمہ کرامؒ پر اکتفاء درست ہے تقلید صرف ان مسائل میں جائز ہے جن پر نصوص قرآن کریم، حدیث شریف اور اقوال حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صراحۃً روشنی نہ پڑتی ہو۔ ایسے مسائل میں اجتہاد کی ضرورت بھی پیش آئے گی اور مجتہد کے اس اجتہاد کو تسلیم کرنا بھی امر مطلوب ہے۔ جیسا کہ حضرت معاذرضی اﷲعنہ کی حدیث سے ثابت ہے کہ اگرایسے غیرمنصوص احکام میں لاعلم لوگوں کے لئے تقلید کادروازہ بند کردیا جائے تو اس کا لازم نتیجہ یہ نکلے گا کہ بے علم لوگ مادر پدر آزاد ہوکرالحاد اور بے دینی کے کھلے پھاٹک سے داخل ہوکر واصل جہنم ہوں گے۔ نعوذباﷲتعالیٰ من ذٰلک اور خواہش نفسانی کا ایسا وسیع و عریض باب کھلے گا جس میں داخل ہونے کے بعد آدمی اتنا بے باک جائے گاکہ حضرات ائمہ کرامؒ پرلعن طعن اس کا لذیذمشغلہ قرار پائے گااور فقہاء ملت کی دینی مساعی وخدمات اُسے سب سے بڑا عیب نظرآئیگا۔ ایسے غیرمنصوص مسائل میں ہم اختصاراًتقلید کے جواز اور ترکِ تقلید کے مفاسد پر چند عبارات عرض کرتے ہیں غورسے ملاحضہ فرمائیں۔ (الکلام المفید في اثبات التقلید ازمحمد سرفراز خان صفدر: صفحہ ۱۷۲-۱۷۳، مکتبہ صفدریہ)
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے اس کلام کی تائید علامہ خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے:
علامہ ابوبکراحمدبن علی خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ(متوفی ۴۶۳ھ) فرماتے ہیں کہ: ’’وَالنَّاسُ كُلُّهُمْ يَشْتَرِكُونَ فِي الْعَقْلِ، فَلَا مَعْنَى لِلتَّقْلِيدِ فِيهِ وَأَمَّا الْأَحْكَامُ الشَّرْعِيَّةُ، فَضَرْبَانِ: أَحَدُهُمَا: يُعْلَمُ ضَرُورَةً مِنْ دِينِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَالصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ، وَالزَّكَوَاتِ، وَصَوْمِ شَهْرِ رَمَضَانَ، وَالْحَجِّ، وَتَحْرِيمِ الزِّنَا وَشُرْبِ الْخَمْرِ، وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ، فَهَذَا لَا يَجُوزُ التَّقْلِيدُ فِيهِ، لِأَنَّ النَّاسَ كُلَّهُمْ يَشْتَرِكُونَ فِي إِدْرَاكِهِ، وَالْعِلْمِ بِهِ، فَلَا مَعْنَى لِلتَّقْلِيدِ فِيهِ وَضَرْبٌ آخَرُ: لَا يُعْلَمُ إِلَّا بِالنَّظَرِ وَالِاسْتِدْلَالِ: كَفُرُوعِ الْعِبَادَاتِ، وَالْمُعَامَلَاتِ، وَالْفُرُوجِ، وَالْمُنَاكَحَاتِ، وَغَيْرِ ذَلِكَ مِنَ الْأَحْكَامِ، فَهَذَا يُسَوَّغُ فِيهِ التَّقْلِيدُ، بِدَلِيلِ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ} [النحل: ۴۳] وَلِأَنَّا لَوْ مَنَعْنَا التَّقْلِيدَ فِي هَذِهِ الْمَسَائِلِ الَّتِي هِيَ مِنْ فُرُوعِ الدِّينِ لَاحْتَاجَ كُلُّ أَحَدٍ أَنْ يَتَعَلَّمَ ذَلِكَ، وَفِي إِيجَابِ ذَلِكَ قَطْعٌ عَنِ الْمَعَايِشِ، وَهَلَاكُ الْحَرْثِ وَالْمَاشِيَةِ، فَوَجَبَ أَنْ يَسْقُطَ۔ وَلِأَنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِ الِاجْتِهَادِ فَكَانَ فَرْضُهُ التَّقْلِيدَ، كَتَقْلِيدِ الْأَعْمَى فِي الْقِبْلَةِ، فَإِنَّهُ لَمَّا لَمْ يَكُنْ مَعَهُ آلَةُ الِاجْتِهَادِ فِي الْقِبْلَةِ، كَانَ عَلَيْهِ تَقْلِيدُ الْبَصِيرِ فِيهَا ‘‘۔
’’احکام شرعیہ کی دو قسمیں ہیں۔ ایک قسم وہ جو نصوص سے ثابت ہے، اس میں کسی کی تقلید کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتامثلاً: پانچ نمازین، زکوٰۃ، رمضان کے روزے، حج، زنااورشراب‘‘۔
 پھر آگے فرماتے ہیں: ’’اور دوسری قسم وہ احکام ہیں جو غوروفکرواستدلال کے بغیرحاصل نہیں ہوسکتےمثلاً: عبادات ومعاملات اور نکاح وغیرہ کے فروعی مسائل۔ احکام کی اس قسم میں تقلید درست ہے اس لئے کہ اﷲتعالیٰ کا فرمان ہے کہ {اگر تم خود نہیں جانتے تو اہل علم سے سوال کرو} [سورۃ النحل: ۴۳] علاوہ ازیں اگر ہم دین کے ان فروعی مسائل میں تقلید کو ممنوع قرار دیدیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر آدمی احکام کودلائل کے ساتھ جاننے کا محتاج ہواور عوام پراس کو واجب کرنے سے زندگی کی سب ضروریات کے حاصل کرنے سے انہیں روکنا لازم آئے گا۔ اور کھیتی باڑی اور مویشیوں کی ہلاکت وبربادی لازم آئے گی تو واجب ہے کہ یہ حکم انس سے ساقط ہو۔ رہی یہ بات کہ تقلید کس کے لئے جائز ہے؟ سو وہ عامی شخص ہے جو احکام شرعیہ کے طریقوں سے واقف نہیں، لہٰذا اس کے لئے جائز ہےکہ وہ کسی عالم کی تقلید کرے اور اسکے قول پر عمل پیرا ہو نیز اس لئے کہ وہ (عام آدمی) اجتہاد کا اہل نہیں ہے، لہٰذا اس کا فرض یہ ہےکہ وہ بالکل اس طرح تقلید کرے جیسے ایک نابینا قبلے کے معاملے میں کسی آنکھ والے کی تقلید کرتا ہے، اس لئے کہ جب اس کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جس سے وہ اپنی ذاتی کوشش کے ذریعہ قبلے کا رخ معلوم کرسکے تو اس پر واجب ہے کہ کسی آنکھ والے کی تقلید کرے۔ (الفقیہ والمتفقہ للخطیب البغدادی: ج۲، ص۱۳۲، ۱۳۴، طبع الریاض)
مولانا تقی عثمانی صاحب حفظ اﷲ نے خطیب بغدادیؒ کے قول کی تشریح ان الفاظ میں کی: ’’اس شخص کی مثال ایسی عامی کی سی ہے جس نے ایک دفعہ مجھ سے سوال کیا کہ میں الحمد للہ سمجھ دار ہوں میں ترجمہ قرآن پڑھ کر خود بخود قرآن سمجھ سکتا ہوں میں نےان صاحب سے عرض کیا بھائی صاحب ذرا یہ تو بتادیجئے کہ ناسخ ومنسوخ کیا چیز ہوتی ہے؟ فرمانے لگے ناسخ ومنسوخ کا قرآن کی سمجھ سے کیا تعلق؟ میں تو ترجمہ پڑھ کر خود ہی قرآن سمجھ سکتا ہوں میں نے کہا بھائی سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ۲۳۴ سے لیکر ۲۴۰ تک چھ سات آیتوں کا ترجمہ پڑھ کر آؤ ہاں مگر شرط یہ ہےکہ سمجھ کر پڑھنا اور پھر مجھے یہ سمجھادو آیت نمبر ۲۳۴ میں اللہ تعالی نے فرمایا ہےکہ بیوہ عورت کی عدت چار مہینہ دس دن ہے، جبکہ آیت نمبر ۲۴۰ میں فرماتے ہیں کہ بیوہ کی عدت ایک سال ہے۔ اب مجھےسمجھاؤ کونسی بات صحیح ہے کونسی غلط؟ اگر دونوں صحیح تو یہ بات عقل کے خلاف ہےاوراگر ایک صحیح تو دوسری آیت بھی تو قرآن کی ہی ہے؟ تو کیا پھر اسے جھٹلاؤگے؟
ظاہر ہےکہ انہیں بات سمجھ میں آگئی کہ قرآن وحدیث کسی استاد سے پڑھنے کے بعد ہی اسکا صحیح معنی ومفہوم سمجھا جاسکتاہے۔ ورنہ تو وہی حالت ہوگی جو مرزا غلام احمد قادیانی اور مودودی صاحب وغیرہ کی ہوئی ہے۔ بالکل اسی طرح حدیث کا سمجھنا کسی عامی کے بس کی بات نہیں کیونکہ اگر بالفرض حدیث صحیح ہو اور امام مسلم نے اپنی کتاب میں اسکی تخریج بھی کی ہو، مگر اس سے بھی یہ لازم نہیں آتا کہ اس پر عمل ضروری ہے جب تک حدیث پر عمل کرنے کے تمام قواعد اس شخص کو نہ معلوم ہوں۔ ملاحظہ فرمائیے صحیح مسلم کی حدیث ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےکہ اللہ تعالی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی مسافر پر دو رکعت، مقیم پر چار رکعت اور حالت خوف میں ایک رکعت نماز فرض کی ہے۔ (صحیح مسلم: باب صلاۃ المسافرین وقصرہا)
اب فرمائیے کہ حالت خوف میں کیا ایک رکعت نماز پڑھی جاتی ہے؟ ظاہرہے ہر منصف شخص کا جواب نفی میں ہوگا پھر تو کیا ہم تمام مسلمان اس حدیث کی مخالفت کررہے ہیں؟ اور اہل حدیث بھی آج تک اس حدیث کی مخالفت کرتے رہے۔ ظاہر ہےکہ اسکا جواب نفی میں ہوگا اور ہر عالم یہی کہے گا کہ حدیث پر عمل کرنے کےبہت سے ضوابط ہیں جن کو خطیب بغدادیؒ اور ابن الصلاحؒ نے تقریبا پینسٹھ قسموں میں تقسیم کردیا ہے۔ اب ان تمام قسموں کے استعمال کے بعد ہی آپ یہ جان سکتے ہیں کہ اس حدیث کو تمام مسلمانوں نے کیوں چھوڑدیا؟ اور یہ کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ اب کیا آپ عامی سے بھی فرمائیں گے کہ تقلید کو چھوڑو اور اجتہاد کرو اور علم حدیث کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے؟ یا آپ اسے دو لفظوں میں جواب دیکر مطمئن فرمادینگے چاہے آپ حنفی ہوں یا سلفی شافعی یا غیر مقلد مالکی یا اہلحدیث حنبلی یا ظاہری؟ یہی تقلید کی حقیقت ہے جو ان صفحات میں بیان فرمائی گئیں ہیں۔ اور ایسے شخص کہ حق میں تقلید شخصی فرض ہے یعنی اسکے لئے یہ جائز نہیں کہ دس علماء کرام سے فتویٰ پوچھنے کے بعد جہاں آسانی نظر آئے اس فتویٰ پر عمل کرے۔ بلکہ اسکے ذمہ واجب ہے کہ کسی ایک شخص (مجتہد)کو تھام لے اور اسی کی بات پر عمل کرتا رہے‘‘۔
فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا۔ (سورۃالنسآء:۵۹)
اگر تم میں اختلاف ہوجائے تو اﷲاور اﷲکے رسولﷺ کی طرف لوٹاؤ۔ اگر تمہیں اﷲتعالیٰ پر اور قیامت کے دن پرایمان ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام۔
غیر مقلدین حضرات تقلید کے وجوب پر پیش کی جانے والی آیت کے رد میں اس کی اگلی  آیت پیش کرتے ہیں کہ  اگر مسلمانوں کے دو گروہوں میں اختلاف ہوجائے تو اﷲاور اﷲکے رسولﷺ کی طرف لوٹاؤ۔لیکن اس بات کاجواب ان کے بڑوں کے پاس بھی نہیں ہے کہ اﷲاور رسولﷺ کی طرف لوٹانے کے بعد بھی اختلاف باقی رہا توکیا کریں گے؟ اس کا جواب صحیحِ بخاری کی درج ذیل احادیث سے سمجھا جاسکتا ہےاور یہی چاروں اماموں کے حق پرہونے کی دلیل ہے۔
’’حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ، قَالَ حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم لَنَا لَمَّا رَجَعَ مِنَ الأَحْزَابِ "‏لاَ يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلاَّ فِي بَنِي قُرَيْظَةَ‏"‏‏۔ فَأَدْرَكَ بَعْضُهُمُ الْعَصْرَ فِي الطَّرِيقِ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لاَ نُصَلِّي حَتَّى نَأْتِيَهَا، وَقَالَ بَعْضُهُمْ بَلْ نُصَلِّي لَمْ يُرَدْ مِنَّا ذَلِكَ‏۔‏ فَذُكِرَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَلَمْ يُعَنِّفْ وَاحِدًا مِنْهُمْ‏‘‘۔ ’’ہم سے عبداللہ بن محمد بن اسماء نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے جویریہ بن اسماء نے نافع سے ، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خندق سے فارغ ہوئے (ابوسفیان لوٹے) تو ہم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص بنو قریظہ کے محلہ میں پہنچنے سے پہلے نماز عصر نہ پڑھے لیکن جب عصر کا وقت آیا تو بعض صحابہ نے راستہ ہی میں نماز پڑھ لی اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ ہم بنو قریظہ کے محلہ میں پہنچنے پر نماز عصر پڑھیں گے اور کچھ حضرات کا خیال یہ ہوا کہ ہمیں نماز پڑھ لینی چاہیے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ نہیں تھا کہ نماز قضاء کر لیں۔ پھر جب آپ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پر بھی ملامت نہیں فرمائی‘‘۔ (صحیح بخاری کتاب صلاۃ الخوف، بَابُ صَلاَةِ الطَّالِبِ وَالْمَطْلُوبِ رَاكِبًا وَإِيمَاءً،  رقم الحدیث ۹۴۶)
مندرجہ بالا حدیث سے یہ بات واضح طور پر سمجھی جاسکتی ہےکہ  صحابہ کرامؓ میں رسولﷺ کی حدیث کو سمجھنے میں نمازِ عصراداکرنے پراختلاف ہواجبکہ فرض  نماز قضا کرنا گناہِ کبیرہ ہےاور قرآن مجید میں بھی نمازوں کی حفاظت کا حکم آیاہے، ’’حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ‘‘ خصوصاً درمیانی نماز(یعنی نمازِ عصر) کی۔جس کے نتیجے میں صحابہ کرامؓ کے دو الگ مؤقِف سامنے آئے۔کچھ صحابہ کرامؓ نے قرآن کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے نمازِعصرادا کرلی اورکچھ نے نبی ﷺ کےفرمان کی پیروی کرتے ہوئے نمازِعصر کو قضا کردیا۔رسول ﷺ  کو جب اس واقع کی اطلاع ملی تو آپﷺ نے کسی کو بھی  ملامت نہیں فرمائی اسکا مطلب صحابہ کرامؓ کے دونوں گروہوں کےاس اجتہادی فیصلے کو برحق سمجھا۔
’’حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنِ النَّزَّالِ بْنِ سَبْرَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلاً، يَقْرَأُ آيَةً، سَمِعَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم خِلاَفَهَا، فَأَخَذْتُ بِيَدِهِ فَانْطَلَقْتُ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ"‏ كِلاَكُمَا مُحْسِنٌ فَاقْرَآ ـ أَكْبَرُ عِلْمِي قَالَ ـ فَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ اخْتَلَفُوا فَأَهْلَكَهُمْ‏"‘‘۔ ’’ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے عبدالملک بن میسرہ نے، ان سے نزال بن سبرہ نے کہعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے ایک صاحب (ابی بن کعب رضی اللہ عنہ) کو ایک آیت پڑھتے سنا، وہی آیت انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے خلاف سنی تھی۔ (ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ) پھر میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم دونوں صحیح ہو (اس لئے اپنے اپنے طور پر پڑھو)۔ (شعبہ کہتے ہیں کہ) میرا غالب گمان یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا (اختلاف و نزاع نہ کیا کرو) کیونکہ تم سے پہلے کی امتوں نے اختلاف کیا اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کر دیا‘‘۔ (صحیح بخاری: كتاب فضائل القرآن، باب اقْرَءُوا الْقُرْآنَ مَا ائْتَلَفَتْ قُلُوبُكُمْ، رقم الحدیث۵۰۶۲)
مندرجہ بالاحدیث میں نبی ﷺ نے امتِ مسلمہ کو واضح الفاظ میں ارشاد فرمادیا کہ قرآن و حدیث سمجھنے میں (اختلاف و نزاع) نہ کیا کرواو ر اگر پھر بھی اختلاف ہوجائے تو دونوں ہی فریق ایک دوسرے کو حق پرسمجھیں کیونکہ دونوں کے دلائل قرآن و حدیث میں موجود ہیں بس سمجھنے میں فرق ہے۔
موجودہ دورکا ہر جاہل غیرمقلدشخص جسے قرآن و حدیث سمجھنے کے لئے ترجمہ کی ضرورت پڑتی ہے، اپنے آپ کو اس آیت کا مصداق ٹھہراتے ہوئے تقلید کا انکار کرتا ہے اور آئمہ اربعہ جیسے مجتہدین پرعتراضات کرتا ہے۔
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا۔ (سورۃالنسآء: ۵۹)
اے ایمان والو!فرمانبرداری کرواﷲتعالیٰ کی  اورفرمانبرداری کرو رسول ﷺ کی اور اپنے میں سے اختیار والوں کی۔پھر اگر کسی چیز  میں اختلااف ہوجائے تو اﷲاور اﷲکے رسولﷺ کی طرف لوٹاؤ، اگر تمہیں اﷲتعالیٰ پر اور قیامت کے دن پرایمان ہےاوربہت بہترہے اس کا انجام۔
درجہ ذیل مفسرین کے نزدیک اس آیت {فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ} میں اﷲتعالیٰ کا خطاب ہر عامی شخص  (غیرمقلد) کو نہیں بلکہ دین کے ماہرین ائمہ مجتہدین اور فقہاء کرام کو ہے۔

حضرت ابو العالیه رفیع بن مہران رحمہ اﷲ(المتوفی:۹۰ھ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کےدوسال بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اسلام لائے، حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے قرآن عزیز تین دفعہ پڑھا۔ تفسیر اُبی بن کعب اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پڑھی، اپنے ہم سبق تلامذہ میں ممتاز مقام کے مالک تھے، چنانچہ فرماتے ہیں: ’’مجھے ابن عباس رضی اللہ عنہ اپنے پاس تخت پر بٹھایا کرتے تھے‘‘۔

ابو العالیہ نے اجل صحابہ کرام جیسے حضرت علی، ابن مسعود، ابو موسیٰ اشعری، ابن عباس اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے اکتساب فیض کیا۔ حضرت علی، ابن مسعود، ابن عمر، ابى بن كعب رضی اﷲعنہم اجمعین اور ديگر حضرات صحابہ سے روايات ليں۔ آپ کے شاگردوں میں سے حضرت قتادہؒ جیسے مفسر قرآن پیداہوئے۔

قتادہ ؒ ان سے روایت کرتےہوئےفرماتے ہیں: "قرأت القرآن بعد وفاة نبيكم بعشر سنين"۔ " میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد دس سال قرآن پڑھا" ۔ اورفرماتے ہیں: "قرأت القرآن على عمر ثلاث مرار"۔ "میں نے عمررضی اللہ عنہ كے دور میں تین مرتبہ قرآن پڑھا"۔ ان كے بارے میں ابن ابی دؤاد فرماتے ہیں: "ليس أحد بعد الصحابة أعلم بالقراءة من أبى العالية"۔ ’’صحابہ کرامؓ کے بعد قرآن عزیز کی تفسیر جاننے والا ابو العالیہ سے بہتر کوئی نہیں‘‘۔ (تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، الذهبی:ج۶، ص۵۳۰)

۱۔ حضرت ابو العالیه ؒ (المتوفی:۹۰ھ) فرماتے ہیں: ’’حدثني المثنى قال، حدثنا إسحاق قال، حدثنا ابن أبي جعفر، عن أبيه، عن الربيع، عن أبي العالية في قوله:"وأولي الأمر منكم"، قال: هم أهل العلم، ألا ترى أنه يقول: (وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الأمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ) [سورة النساء:۸۳]‘‘۔ (تفسیر طبری: ج۴، تفسیرسورة النسآء:۸۹، ص ۱۵۲؛ الدر المنثور فی التفسير المأثور: ج۲، ۵۷۵)

۲۔ حضرت مجاہدؒ (المتوفی:۱۰۴ھ) فرماتے ہیں: ’’وَأخرج سعيد بن مَنْصُور وَعبد بن حميد وَابْن جرير وَابْن الْمُنْذر وَابْن أبي حَاتِم عَن مُجَاهِد فيقوله {فَإِن تنازعتم فِي شَيْء} قَالَ: فَإِن تنَازع الْعلمَاء {فَردُّوهُ إِلَى الله وَالرَّسُول} قَالَ: يَقُول: فَردُّوهُ إِلَى كتاب الله وَسنة رَسُوله‘‘۔ (الدر المنثورفی التفسیربالمأثور: ج۴، ص۵۱۴)

۳۔ امام ابو الحسن ماتریدیؒ (المتوفی:۳۳۳ھ) فرماتے ہیں: ’’هذه الآية والتي تليها تدل على أن أولي الأمر هم الفقهاء، وهو قوله - تعالى - (فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ)، والتنازع يكون بين العلماء‘‘۔ (تفسير الماتريدی تأويلات أهل السنة: ج ۱، ص ۴۴۲)

۴۔ امام ابو بكراحمدبن علی الرازی الجصاص ؒ (المتوفی: ۳۷۰ھ) فرماتے ہیں: ’’وقَوْله تَعَالَى عَقِيبَ ذَلِكَ: {فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ} يَدُلُّ عَلَى أَنَّ أُولِي الْأَمْرِ هُمْ الْفُقَهَاءُ؛ لِأَنَّهُ أَمَرَ سَائِرَ النَّاسِ بِطَاعَتِهِمْ ثُمَّ قَالَ: {فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ}، فَأَمَرَ أُولِي الْأَمْرِ بِرَدِّ الْمُتَنَازَعِ فِيهِ إلَى كِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةِ نَبِيهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‘‘۔ ”اور اولی الامر کی اطاعت کا حکم دینے کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ اگر کسی معاملے میں اختلاف ہو تو اسے اللہ رسول کی طرف لوٹاؤ اس بات کی دلیل ہے کہ اولی الامر سے مراد فقہاء ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کو ان کی اطاعت کا حکم دیا ہے پھر فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فرما کر " اولی الامر" کو حکم دیا ہے کہ جس معاملے میں ان کے درمیان اختلاف ہو تو اسے اللہ کی کتاب اور نبیﷺ کی سنت کی طرف لوٹا دیں“۔ (أحكام القرآن للجصاص [اردو]: ج۲، ص۵۶۰)

۵۔ امام قرطبیؒ (المتوفی:۶۷۱ھ) فرماتے ہیں: ’’قَوْلُهُ تَعَالَى: (فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ)۔ فَأَمَرَ تَعَالَى بِرَدِّ الْمُتَنَازَعِ فِيهِ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَيْسَ لِغَيْرِ الْعُلَمَاءِ مَعْرِفَةَ كَيْفِيَّةِ الرَّدِّ إِلَى الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ، وَيَدُلُّ هَذَا عَلَى صِحَّةِ كَوْنِ سُؤَالِ الْعُلَمَاءِ وَاجِبًا، وَامْتِثَالِ فَتْوَاهُمْ لَازِمًا‘‘۔ (تفسير القرطبی: ج۵، ص۲۶۰)
۶۔ مشہور اہل حدیث عالم علامہ نواب صدیق حسن خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں اعتراف فرمایا ہے کہ ’’فان تنازعتم ۔۔۔الاخر“ کا خطاب مجتہدین کو ہے، چنانچہ فرماتے ہیں: ’’والظاھر انہ خطاب مستقل مستانف موجہ للمجتھدین“۔ ’’اور ظاہر ہے کہ یہ مستقل خطاب ہے جس میں روئے سخن مجتہدین کی طرف ہے“۔(تفسیر فتح البیان،جلد۲،صفحہ۱۵۸،مطبعۃ العاصمۃ،قاہرہ)
مندرجہ بالا تفاسیرسے ثابت ہوگیاکہ تنازع اور اختلاف کی صورت میں اﷲ اور اس کے رسولﷺ کی طرف لوٹانے کا حق عوام الناس کونہیں بلکہ اہل علم کوہےجو کہ مجتہدین وفقہاء ہوں، عام علماء کوبھی نہیں کیونکہ ہر عالم اجتہاد کا اہل نہیں ہوتا اورہر عالم فقیہہ بھی نہیں ہوتا۔
یہاں یہ اشکال بھی دورہوگیاکہ آج کل کےعلماءاحناف اورمفتیان کرام قرآن وحدیث کی روشنی میں ائمہ اربعہ کی طرح خودسےبراہِ راست مسائل استنباط نہیں کرتے بلکہ وہ ان کو اپنے سے زیادہ ماہر جانتے ہوئےان کے اقوال کی پیروی کرتے ہیں اور انہیں اپنا امام جانتے ہیں کیونکہ ہمارا یہ نظریہ ہے کہ ائمہ اربعہ قرآن وحدیث کو ہم سے بہترجاننے اورسمجھنے والےتھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہی کے مسائل آگے نقل کرتے ہیں اور اگر کوئی مسئلہ نہ ملے تو انہی کے قواعد اور اصولوں کی روشنی میں مسئلہ اخذکرتےہیں۔
ہمارا کام ان کی رہنمائی میں کتاب و سنت پر عمل کرنا ہے۔ ان کے بغیر صرف گمراہی ہے اور آج ہمارے پاس ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں جس سے ہم نے ثابت کیا ہے کہ فرقہ اہل حدیث کے علماء نے جب نا اہل ہونے کے باوجود ائمہ مجتہدین وفقہاء کرام کے راستےکو چھوڑ کر کتاب و سنت کی طرف رجوع کرنے کی کوشش کی تو ان کے عقائد ونظریات بھی جدا جدا نکلےاورفروعی مسائل میں بھی ان کے درمیان اختلافات کم ہونے کے بجائے مزید بڑھتے چلے گئے۔ آج ہم واضح طور پران اختلافات کا مشاہدہ کرسکتے ہیں،جیساکہ منکرین حدیث، غیرمقلدین جماعت المسلمین، پروفیسرغامدی اور انجنیئرعلی مرزاجیسے گمراہ کن لوگوں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس لئے ان کا طریقہ بالکل غلط اور گمراہی پر مبنی ہے۔
اب غیرمقلدین حضرات اگریہ کہیں گےکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ حکم دیاہے کہ جب اولی الامر کا اولی الامر کے ساتھ اختلاف ہو تواولی الامر کو چھوڑ کرقرآن وحدیث پرعمل کرے۔ یہاں بھی وہی بات آجاتی ہے کہ جب عوام الناس کو اﷲتعالیٰ نے یہ حق دیاہی نہیں کہ وہ قرآن وحدیث سے براہِ راست استنباط کرے توپھر اولی الامرکے درمیان اختلاف کی صورت میں بھی ان کو چھوڑنے کی اجازت نہیں ہوسکتی۔ زیادہ سے زیادہ اس بات کی ہی اجازت ہوسکتی ہے کہ جس اولی الامرپرزیادہ اعتماد اوریقین ہواسی کو حق پر سمجھتے ہوئے اس کی پیروی کی جائے۔
دوسری بات یہ کہ اولی الامرکوچھوڑنے کا مطلب یہ ہے کہ غیراولی الامرکواولی الامرسے اختلاف کرنے کا حق حاصل ہے، جبکہ یہ بات بھی بالکل صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ رسول اﷲﷺ نے اولی الامرسے اختلاف کرنے سے سختی سے منع کیاہےاوراس وقت تک ان کی اطاعت اور فرمانبرداری کا حکم دیاہے جب تک کہ وہ اعلانیہ کفرنہ کریں۔
’’حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ بُكَيْرٍ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ، قَالَ دَخَلْنَا عَلَى عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ وَهْوَ مَرِيضٌ قُلْنَا أَصْلَحَكَ اللَّهُ حَدِّثْ بِحَدِيثٍ، يَنْفَعُكَ اللَّهُ بِهِ سَمِعْتَهُ مِنَ النَّبِيِّ، صلى الله عليه وسلم۔‏ قَالَ دَعَانَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَبَايَعْنَاهُ فَقَالَ فِيمَا أَخَذَ عَلَيْنَا أَنْ بَايَعَنَا عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، فِي مَنْشَطِنَا وَمَكْرَهِنَا، وَعُسْرِنَا، وَيُسْرِنَا، وَأَثَرَةٍ عَلَيْنَا، وَأَنْ لاَ نُنَازِعَ الأَمْرَ أَهْلَهُ، إِلاَّ أَنْ تَرَوْا كُفْرًا بَوَاحًا، عِنْدَكُمْ مِنَ اللَّهِ فِيهِ بُرْهَانٌ‘‘۔ ’’جنادہ بن ابی امیہ نے بیان کیا کہ ہم عبادہ ابن صامت رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچے وہ مریض تھے اور ہم نے عرض کیا اللہ تعالیٰ آپ کو صحت عطا فرمائے۔ کوئی حدیث بیان کیجئے جس کا نفع آپ کو اللہ تعالیٰ پہنچائے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لیلۃالعقبہ میں سنا ہے کہ آپ نے ہمیں بلایا اور ہم نے آپ سے بیعت کی۔انہوں (عبادہ بن صامت) نے بیان کیا کہ جن باتوں کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے عہد لیا تھا ان میں یہ بھی تھا کہ خوشی و ناگواری، تنگی اور کشادگی اور اپنی حق تلفی میں بھی اطاعت و فرمانبرداری کریں اور یہ بھی کہ حکمرانوں کے ساتھ حکومت کے بارے میں اس وقت تک جھگڑا نہ کریں جب تک ان کو اعلانیہ کفر کرتے نہ دیکھ لیں۔ اگر وہ اعلانیہ کفر کریں تو تم کو اللہ کے پاس سے دلیل مل جائے گی‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۸، كتاب الفتن، باب قَوْلِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‏"سَتَرَوْنَ بَعْدِي أُمُورًا تُنْكِرُونَهَا‏"، رقم الحدیث ۷۰۵۵)
 اگردومجتہدین میں اجتہادی اختلاف ہو جاتا ہے اورایک مجتہدغلطی پر ہوتاہےتوبھی ان میں سے کوئی گنہگار نہیں بلکہ اللہ کے نبی ﷺکی حدیث ہے کہ اگر مسئلہ خطا پر بھی ہوا تب بھی ایک اجر ملے گا۔
’’حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ، مَوْلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ "‏إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ‏"۔ قَالَ فَحَدَّثْتُ بِهَذَا الْحَدِيثِ أَبَا بَكْرِ بْنَ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ فَقَالَ هَكَذَا حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ‏، وَقَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُطَّلِبِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مِثْلَهُ‘‘‏۔ ’’نبی ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے کہ جب حاکم (مجتہد)کوئی فیصلہ اپنے اجتہاد سے کرے اور فیصلہ صحیح ہو تو اسے دہرا ثواب ملتا ہے اور جب کسی فیصلہ میں اجتہاد کرے اور غلطی کر جائے تو اسے اکہرا ثواب ملتا ہے‘‘۔ (صحيح بخاری، کتاب الاعتصام، باب أَجْرِ الْحَاكِمِ إِذَا اجْتَهَدَ فَأَصَابَ أَوْ أَخْطَأَ، رقم الحدیث ۷۳۵۲)
مندرجہ بالا حدیث پرغیرمقلدین حضرات یہ اشکال کرتے ہیں کہ اس حدیث میں تومجتہد کوایک اجرملنے کاحکم ہے، یہ کہاں لکھا ہے کہ مجتہدکی پیروی کرنے والے (مقلد) کوبھی ایک اجرملے گا؟
اس کے جواب میں یہ کہاجائے گاکہ مجتہداجتہاد کرتاہی اپنی پیروی کرنے والے (مقلدین) کے لئے ہےصرف اپنے لئے نہیں۔ جیساکہ حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲعنہ کو رسول اﷲﷺ نے یمن کا حاکم بناکربھیجاتھاتواہل یمن کو ان کے اجتہادات کی پیروی کرنے کاہی حکم تھا۔ اگراہل یمن کوخودہی قرآن وحدیث سے مسئلہ اخذ کرنے کی اجازت ہوتی تو آپﷺ حضرت معاذرضی اﷲعنہ کو یمن کیوں بھیجتے اوران سے یہ سوالات کیوں کرتے جوکہ حدیث میں وارد ہیں؟
’’حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي عَوْنٍ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَمْرِو بْنِ أَخِي الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنْ أُنَاسٍ، مِنْ أَهْلِ حِمْصَ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَمَّا أَرَادَ أَنْ يَبْعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ قَالَ ‏"كَيْفَ تَقْضِي إِذَا عَرَضَ لَكَ قَضَاءٌ" ‏۔‏ قَالَ أَقْضِي بِكِتَابِ اللَّهِ ۔‏ قَالَ ‏"‏فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِي كِتَابِ اللَّهِ‏"۔‏ قَالَ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم۔‏ قَالَ ‏"‏فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَلاَ فِي كِتَابِ اللَّهِ‏"۔‏ قَالَ أَجْتَهِدُ رَأْيِي وَلاَ آلُو۔‏ فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم صَدْرَهُ وَقَالَ ‏"‏الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللَّهِ‏" ‘‘۔ ’’معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے حمص کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن (کا گورنر) بنا کرب بھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ‏"جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے گا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے؟‏" معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کی کتاب کے موافق فیصلہ کروں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‏"اگر اللہ کی کتاب میں تم نہ پا سکو؟‏" تو معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے موافق، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‏"اگر سنت رسول اور کتاب اللہ دونوں میں نہ پاسکو تو کیا کرو گے؟‏" انہوں نے عرض کیا: پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، اور اس میں کوئی کوتاہی نہ کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کا سینہ تھپتھپایا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‏‏"تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جو اللہ کے رسول کو راضی اور خوش کرتی ہے‏"‘‘۔ (سنن ابی داؤد: كتاب الأقضية، باب اجْتِهَادِ الرَّأْىِ فِي الْقَضَاءِ، رقم الحدیث ۳۵۹۲؛ جامع الترمذی: ج۳، کتاب الأحکام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب مَا جَاءَ فِي الْقَاضِي كَيْفَ يَقْضِي، رقم الحدیث ۱۳۲۷؛ مسند احمد: ج۵، رقم الحدیث۲۳۰، ۲۳۶، ۲۴۲)
’’حَدَّثَنِي مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، شَيْبَانُ عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ أَتَانَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ بِالْيَمَنِ مُعَلِّمًا وَأَمِيرًا، فَسَأَلْنَاهُ عَنْ رَجُلٍ، تُوُفِّيَ وَتَرَكَ ابْنَتَهُ وَأُخْتَهُ، فَأَعْطَى الاِبْنَةَ النِّصْفَ وَالأُخْتَ النِّصْفَ‏‘‘۔ ’’أسود بن يزيد سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ ہمارے پاس معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ یمن میں معلم اور امیر ہو کر آئے تو ہم نے ان سے اس شخص کے متعلق پوچھا جو فوت ہوگیا اور ایک بیٹی اور ایک بہن چھوڑ کر گیا تو انہوں نے بیٹی کو نصف اور بہن کو نصف دلایا‘‘۔ (صحيح البخاری: كِتَاب الْفَرَائِضِ، بَاب مِيرَاثِ الْبَنَاتِ، رقم الحديث: ٦٢٦٧، ٦٢٣٤)
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کویمن بھیجا تو يقينا ًاہل یمن کو اجازت دی کہ ہر مسئلے میں ان سے رجوع کریں اورمندرجہ بالاحدیث سے اس بات کی واضح دلیل ملتی ہے کہ اہل یمن حضرت معاذرضی اﷲعنہ سے دلیل کا تقاضہ نہیں کرتے تھے، اسی کوتقلیدشخصی کہاجاتاہے۔
تقلید صرف چار اماموں کی ہی کیوں جبکہ اماموں سے بڑادرجہ تو صحابہ کرامؓ کاہے، پھرآپ صحابہ کرامؓ کی تقلید کیوں نہیں کرتے؟
غیر مقلدین حضرات یہ اشکال بھی کرتے ہیں کہ ۱۴۰۰ سالہ اسلامی تاریخ میں کیا صرف یہی چار ائمہ اولی الامر میں داخل ہیں صحابہ کرامؓ اوردیگرائمہ اولی الامر نہیں تھے؟ جبکہ صحابہ کرامؓ علم اورمرتبہ میں چاروں ائمہ سےزیادہ تھے۔ اس  اشکال کا جواب ہم خود دینگے تویقیناًغیرمقلدین حضرات کے لئے ہماری بات معتبرنہ ہوگی لہٰذا اپنے الفاظ میں جواب دینے کے بجائے ہم آج سے ۸۰۰سال پہلے کے جلیل القدرمحدث کے الفاظ میں جواب نقل کردیتےہیں۔
محدث الکبیر شارح صحیح مسلم علامہ نوویؒ (المتوفى:۶۷۶ھ) فرماتے ہیں: ’’وليس له التذهب بِمَذْهَبِ أَحَدٍ مِنْ أَئِمَّةِ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَغَيْرِهِمْ مِنْ الْأَوَّلِينَ وَإِنْ كَانُوا أَعْلَمَ وأعلا دَرَجَةٍ مِمَّنْ بَعْدَهُمْ لِأَنَّهُمْ لَمْ يَتَفَرَّغُوا لِتَدْوِينِ الْعِلْمِ وَضَبْطِ أُصُولِهِ وَفُرُوعِهِ فَلَيْسَ لِأَحَدٍ مِنْهُمْ مَذْهَبٌ مُهَذَّبٌ مُحَرَّرٌ مُقَرَّرٌ وَإِنَّمَا قَامَ بِذَلِكَ مَنْ جَاءَ بَعْدَهُمْ مِنْ الْأَئِمَّةِ النَّاحِلِينَ لِمَذَاهِبِ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ الْقَائِمِينَ بِتَمْهِيدِ أَحْكَامِ الْوَقَائِعِ قَبْلَ وُقُوعِهَا النَّاهِضِينَ بِإِيضَاحِ أُصُولِهَا وَفُرُوعِهَا كَمَالِكٍ وَأَبِي حَنِيفَةَ وَغَيْرِهِمَا‘‘۔’’اکابر ین صحابہ وغیرہ اگر چہ بعد والوں سے علم و عمل میں بہت آگے ہیں لیکن پھر بھی کسی کیلئے جائز نہیں کہ صحابہ کے مذہب کو اپنائے، کیونکہ صحابہ کرام ؓکو اتنا موقع نہیں ملا کہ وہ اپنے مذہب کو مدون کرتے اور اس کے اصول و فروع کو محفوظ کرتے، اسی وجہ سے صحابہ میں سے کسی بھی صحابی کا مذہب مدون و منقح نہیں، ہاں بعد میں آنے والے آئمہ کرام امام مالکؒ، اما م ابو حنیفہؒ وغیرہ نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور باقاعدہ مذاہب مدون کرکے ان کے اصول و فروع کو محفوظ کیا اور مسائل کے وقوع سے پہلے ان کا حل تلاش کیا‘‘۔ (المجموع شرح المهذب: ج۱، ص۹۳)
تقلیدصرف ایک ہی امام کی کیوں ضروری ہے سب کی کیوں نہیں، جبکہ امام تو اور بھی ہیں؟
اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک وقت میں دو اختلافی مسائل پر ایک ساتھ عمل کیا جائے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ ایک ہی امام کی اقتداء میں نماز کیوں ضروری ہے ایک رکعات ایک امام کے پیچھے دوسری دوسرے کے پیچھے تیسری تیسرے کے پیچھے اور چوتھی چوتھے کے پیچھے کیوں نہ پڑھی جائے۔ کیا اس طرح نماز ہو جائے گی؟
اس کا جواب بھی ہم امام نوویؒ سے ہی نقل کر دیتے ہیں چنانچہ وہ فرماتے ہیں: ’’وَوَجْهُهُ أَنَّهُ لَوْ جَازَ اتِّبَاعُ أَيِّ مَذْهَبٍ شاء لا فضى إلَى أَنْ يَلْتَقِطَ رُخَصَ الْمَذَاهِبِ مُتَّبِعًا هَوَاهُ وَيَتَخَيَّرَ بَيْنَ التَّحْلِيلِ وَالتَّحْرِيمِ وَالْوُجُوبِ وَالْجَوَازِ وَذَلِكَ يُؤَدِّي إلَى انْحِلَالِ رِبْقَةِ التَّكْلِيفِ بِخِلَافِ الْعَصْرِ الْأَوَّلِ فَإِنَّهُ لَمْ تَكُنْ الْمَذَاهِبُ الْوَافِيَةُ بِأَحْكَامِ الْحَوَادِثِ مُهَذَّبَةً وَعُرِفَتْ: فَعَلَى هَذَا يَلْزَمُهُ أَنْ يَجْتَهِدَ فِي اخْتِيَارِ مَذْهَبٍ يُقَلِّدُهُ عَلَى التَّعْيِينِ‘‘۔ ’’اگر یہ جائز ہو کہ انسان جس فقہ کی چاہے پیروی کرے تو بات یہاں تک پہنچے گی کہ وہ اپنی نفسانی خواہش کے مطابق تمام مذاہب کی آسانیاں چنےگا۔ اس لیے ہرشخص پرلازم ہے کہ ایک معین مذہب چن لے اور اس کی تقلیدکرے‘‘۔ (المجموع شرح المهذب: ج۱، ص۹۳)
ذیل میں پیش کردہ سنن دارمی کی حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ مفتی بننے کے لئے قرآن مجید و احادیث مبارکہ کی ناسخ و منسوخ آیات و احادیث کا علم ہونا لازم ہے ۔ جب مفتی بننے کے لئے ان علوم کا ہونا لازم ہے تو پھر مجتہد بننے کےلئے توبطریقِ اولیٰ قرآن و حدیث کا مکمل علم ہونا لازم ہوا۔جبکہ موجودہ دور کا ہر غیرمقلد تقلید کا انکار کرکے خود مفتی و مجتہد بنا بیٹھاہے اور ’’فَصَلُّوْ اوَاَضَلُّوْا‘‘ (گمراہ ہوا اور گمراہ کیا) کی وعید کا مرتکب ثابت ہوتا ہے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ جن کے بارے میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: "وقد أورد العلماء قول الشافعي فيه: من أراد الحديث فهو عيال على مالك"۔ ’’تمام لوگ علم حدیث میں امام مالک کے محتاج ہیں‘‘۔ وہی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے: "مَا أَفْتَيْتُ حَتَّى شَهِدَ لِي سَبْعُونَ أَنِّي أَهْلٌ لِذَلِكَ"۔ ’’میں نے فتویٰ دینا شروع نہیں کیا، یہاں تک کہ مدینہ کے ستر فقہاء نے اس کی شہادت دی کہ میں فتویٰ دے سکتا ہوں‘‘۔ (البدایۃ والنہایۃ: ج۱۰، ص ۱۷۴)
’’امام شافعی رحمہ اﷲ سے پوچھا گیا کہ مفتی کون ہو سکتا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: اللہ کے دین میں فتویٰ دینا صرف اسی کے لئے جائز ہے جو کتاب اللہ کا ماہر ہو، ناسخ منسوخ، محکم، متشابہ، تاویل، تنزیل، مکی مدنی، مراد ومطلب سے آگاہ ہو؛ پھرساتھ ہی احادیث پر بھی اس کی نظر بالغ ہو، ناسخ منسوخ  کوخوب جانتاہو۔ قرآن و حدیث کی وضاحت کے لئے کام آنے والے دیگر فنون یعنی لغت وشعر کا بھی عالم ہو۔ ان فنون کا پھر نہایت انصاف کے ساتھ استعمال کرتاہواورشہریوں کے اختلاف پر بھی اس کی نگاہ ہو اور استنباط کا ملکہ بھی رکھتاہو۔ جس شخص میں یہ اوصاف جمع ہوں وہ شریعت پر گفتگو کرنے اور حلال وحرام کے فتوے دینے کا اہل ہو سکتا ہے ورنہ نہیں‘‘۔ (اعلام الموقعین: ص۴۹)
امام احمد بن حنبل رحمہ اﷲسے دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: ’’جب کوئی شخص مفتی بنناچاہے تواسے قرآن کی تمام وجوہ کاعلم ہوناچاہئے، صحیح سندوں کاعلم ہوناچاہیئے۔ سنت رسولﷺاوراحادیث پیغمبرکاعلم ہوناچاہیئے۔ ورنہ اس شخص کیلئے فتویٰ دینا جائز نہیں۔ فرماتے ہیں اسے اپنے سے پہلے کے علماء کے قول معلوم ہونے چاہیئے ورنہ فتویٰ بازی نہیں کرنی چاہیے۔کسی نے آپؒ سے پوچھاکہ ایک لاکھ حدیثیں یادکرنے کے بعدانسان فقیہ ہوجاتاہے؟ فرمایانہیں۔ پوچھا دولاکھ کے بعد؟ فرمایا نہیں۔ دریافت کیا اچھا تین لاکھ؟ فرمایا نہیں۔ پوچھا چار لاکھ؟ توآپؒ نے اپنے ہاتھ ہلاکراشارہ کردیااورفرمایااب میں توقع کرتاہوں کہ وہ بالکل فتویٰ دے سکے گا۔ خود امام صاحبؒ کو چھ لاکھ حدیثیں حفظ تھیں‘‘۔ (اعلام الموقعین: ص۴۸)
امام احمد رحمہ اﷲسے سوال ہواکہ: ’’اگرکوئی شخص سمجھدار نہ ہووہ حدیث میں جوپائے اس پرفتویٰ دے سکتاہے؟ توآپ نے فرمایاجب کوئی فتویٰ دینے کے عہدے پرآناچاہتاہوتو اس کے لئے حدیثوں کا، قرآن کا، سندحدیث کا عالم ہونا ضروری ہےپھرمندرجہ بالامقولہ بیان فرمایا‘‘۔ (اعلام الموقعین: ص۴۹)
’’امام ابن مبارکؒ سے پوچھا گیاکہ انسان مفتی ہونے کے قابل کب ہوتاہے؟ آپ نے فرمایاجب حدیثوں کا عالم ہو۔ رائے کاحافظ ہو۔ یحییٰ بن اکثم نے اسی سوال کے جواب میں یہی کہاہے۔ یہ یاد رہے کہ رائے سے مرادان دونوں بزرگوں کی صحیح قیاس اورصحیح مطلب اور صحیح علتیں ہیں جن پرشارع ؑنے احکام معلق رکھے ہوں اور انہیں اثرڈالنے والی علتیں بنائی ہوں جوہرطرح حکم میں اثررکھتی ہوں‘‘۔ (اعلام الموقعین: ص۴۹)
آج موجودہ دور کا ہرغیرمقلدشخص جسے قرآن و حدیث سمجھنے کے لیے اردومترجم کی ضرورت پڑتی ہے۔ علماء کی اتباع (تقلید) چھوڑ کرخود مجتہداور مفتی بنابیٹھاہے۔ اور تقلید کے رد میں ائمہ اربعہؒ کے اقوال پیش کرتاہے۔ حالانکہ ائمہ اربعہ ؒ سےمنقول اقوال عامی شخص کے لئے نہیں تھے بلکہ اپنے ان شاگردوں کے لئے تھے جو مجتہدفی المذہب کے منسب پرفائض ہونے کی جدوجہد میں کوشاں تھے۔
امام الہندحضرت شاہ ولی اﷲمحدث دہلویؒ نے مجتہد بننے کی  شرائط و اصول بیان کرتے ہوئے امام بغویؒ کی رائے نقل کی ہے جس میں مجتہد بننے کے لئے دیگر پانچ علوم میں کلی مہارت کے علاوہ خواہش نفس، بدعات اور گناہوں سے اپنے آپ کو بچانے والاتقویٰ اور پاکیزگی کاشعار ہونے کی شرائط بیان فرمائی ہیں جن کے بغیر مجتہد بننا ممکن ہی نہیں۔موجودہ پرفتن دور میں ایسا غیرمقلد ملنا تو بہت دور کی بات اگر آڈر پربنوانے کی کوشش کی جائے تو بھی ممکن نہیں۔
’’قَالَ الْغَزالِيّ إِنَّمَا يحصل الإجتهاد فِي زَمَاننَا بممارسة الْفِقْه وَهِي طَرِيق تَحْصِيل الدِّرَايَة فِي هَذَا الزَّمَان وَلم يكن الطَّرِيق فِي زمن الصَّحَابَة رَضِي الله عَنْهُم ذَلِك‘‘۔ ’’امام غزالیؒ فرماتے ہیں: ہمارے زمانے میں اجتہاد، فقہ میں مہارت اورگہرے شغف کے بغیرممکن نہیں‘‘۔ (عقد الجيد فی أحكام الاجتهاد والتقليد شاه ولی اﷲمحدث دہلویؒص۲۱)
’’قَالَ الْبَغَوِيّ والمجتهد من جمع خَمْسَة أَنْوَاع من الْعلم علم كتاب الله عز وَجل وَعلم سنة رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وأقاويل عُلَمَاء السّلف من أجماعهم وَاخْتِلَافهمْ وَعلم اللُّغَة وَعلم الْقيَاس وَهُوَ طَرِيق استنباط الحكم من الْكتاب وَالسّنة إِذا لم يجده صَرِيحًا فِي نَص كتاب أَو سنة أَو إِجْمَاع فَيجب أَن يعلم من علم الْكتاب النَّاسِخ أَو الْمَنْسُوخ والمجمل والمفصل وَالْخَاص وَالْعَام والمحكم والمتشابه وَالْكَرَاهَة وَالتَّحْرِيم وَالْإِبَاحَة وَالنَّدْب وَالْوُجُوب وَيعرف من السّنة هَذِه الْأَشْيَاء وَيعرف مِنْهَا الصَّحِيح والضعيف والمسند والمرسل وَيعرف تَرْتِيب السّنة على الْكتاب وترتيب الْكتاب على السّنة حَتَّى لَو وجد حَدِيثا لَا يُوَافق ظَاهره الْكتاب يَهْتَدِي إِلَى وَجه محمله فَإِن السّنة بَيَان الْكتاب وَلَا تخَالفه وَإِنَّمَا يجب معرفَة مَا ورد مِنْهَا فِي أَحْكَام الشَّرْع دون مَا عَداهَا من الْقَصَص وَالْأَخْبَار والمواعظ وَكَذَلِكَ يجب أَن يعرف من علم اللُّغَة مَا أَتَى فِي كتاب أَو سنة فِي أُمُور الْأَحْكَام دون الْإِحَاطَة بِجَمِيعِ لُغَات الْعَرَب وَيَنْبَغِي أَن يتحرج فِيهَا بِحَيْثُ يقف على مرامي كَلَام الْعَرَب فِيمَا يدل على المُرَاد من اخْتِلَاف الْمحَال وَالْأَحْوَال لِأَن الْخطاب ورد بِلِسَان الْعَرَب فَمن لم يعرفهُ لَا يقف على مُرَاد الشَّارِع وَيعرف أقاويل الصَّحَابَة وَالتَّابِعِينَ فِي الْأَحْكَام ومعظم فتاوي فُقَهَاء الْأمة حَتَّى لَا يَقع حكمه مُخَالفا لأقوالهم فَيكون فِيهِ خرق الْإِجْمَاع وَإِذا عرف من كل من هَذِه الْأَنْوَاع معظمه فَهُوَ حِينَئِذٍ مُجْتَهد وَلَا يشْتَرط معرفَة جَمِيعهَا بِحَيْثُ لَا يشذ عَنهُ شَيْء مِنْهَا وَإِذا لم يعرف نوعا من هَذِه الْأَنْوَاع فسبيله التَّقْلِيد وَإِن كَانَ متبحرا فِي مَذْهَب وَاحِد من آحَاد أَئِمَّة السّلف فَلَا يجوز لَهُ تقلد الْقَضَاء وَلَا الترصد للفتيا وَإِذا جمع هَذِه الْعُلُوم وَكَانَ مجانبا للأهواء والبدع مدرعا بالورع محترزا عَن الكباتر غير مصر على الصَّغَائِر جَازَ لَهُ أَن يتقلد الْقَضَاء ويتصرف فِي الشَّرْع بالإجتهاد وَالْفَتْوَى وَيجب على من لم يجمع هَذِه الشَّرَائِط تَقْلِيده فِيمَا يعن لَهُ من الْحَوَادِث انْتهى كَلَام البغوى‘‘۔ ’’امام بغویؒ فرماتے ہیں: مجتہد وہ ہے جو پانچ علوم کا جامع و ماہرہو۔ ۱- کتاب اﷲکا وسیع علم، ۲- سنت رسولﷺ کا وسیع علم، ۳- علمائے سلف نے جو کچھ لکھا اس سے آگہی۔ جو بخوبی جانتا ہوکہ علماء سلف نے کس مسئلے میں اتفاق کیاہےاور کس مسئلے میں ان کی آراء مختلف ہیں۔ ۴- قیاس کے طریقہ کار کوجانتاہو اور یہ کہ قیاس، قرآن و سنت سے کسی مسئلہ کا حکم معلوم کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ اس صورت میں جب مجتہد کو مطلوبہ حکم نہ قرآن و سنت کے نصوص میں ملے اور نہ اس کے بارے میں کوئی اجماع منعقد ہوا ہو۔ ۵- عربی لغت میں مہارت۔ مجتہد کے لئے قرآن کریم کے علوم میں سے ان علوم کا جاننا بھی ضروری ہے۔ ناسخ و منسوخ، مجمل ومفسر، عام و خاص، محکم ومتشابہ۔ نیز یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ حلال و حرام، واجب، مکروہ، مباح، اور مندوب سے کیا مراد ہے۔سنت میں بھی ان امور کاعلم ضروری ہے۔ مجتہد کے لئے اقسام حدیث کا علم بھی ضروری ہےکہ صحیح و ضعیف، مسند و مرسل کی تعریفات کیا ہیں اور ان کے درمیان کیا فرق ہے؟ حدیث کو قرآن کے ساتھ اور قرآن کو حدیث کے ساتھ تطبیق دینے کی کیا صورت ہے؟ ضروری ہے کہ مجتہدیہ بھی جانتا ہو کہ وہ اگر کوئی ایسی حدیث پائے جس کا ظاہری مفہوم قرآن کے مطابق نہیں ہے تو یہ کھوج لگائے اور اس حقیقت تک پہنچے کہ اس حدیث کی قرآن کے ساتھ مطابقت کس طرح ممکن ہے؟ کیونکہ حدیث قرآن کی توضیح وتشریح ہے، وہ قرآن کے مخالف نہیں ہوسکتی۔ ہاں یہ بات ہے کہ مجتہد کے لئے صرف ان احادیث کا جاننا ضروری ہے جن کا تعلق شرعی احکام سے ہے۔ ان احادیث کا علم ضروری نہیں جو قصص، واقعات اور وعظ و نصیحت پر مشتمل ہیں۔ اسی طرح عربی لغت کا بھی اس حد تک جاننا ضروری ہے جس کے سبب قرآن وسنت میں وارد احکام و مسائل کا علم ہوسکے۔ پورے عربی لغت کا احاطہ ضروری نہیں ہے۔ بہتر یہ ہے کہ عربی زبان میں اتنی مہارت حاصل کر کہ اس کے معانی و مطالب اور مدلول کو بخوبی سمجھ سکے۔ وہ اس بات سے آگاہ ہو کہ سیاق وسباق کی مناسبت سے فلاں لفظ اور جملے کے فلاں مقام پر یہ معنیٰ ہیں۔ عربی زبان پر اس حدتک عبور اس لئے ضروری ہے کہ شریعت عربی زبان میں نازل ہوئی ہے۔ (خواہ وہ قرآن کی صورت میں ہو یا حدیث کی شکل میں) جو شخص عربی زبان سے پوری طرح واقف نہیں ہوگا وہ شارع کے مقصود کو نہیں پہچان سکے گا۔ صحابہؓ اور تابعینؒ کے ان اقوال و آراء کا علم بھی ضروری ہے جو ان سے احکام کے بارے میں منقول ہیں۔ مختلف مسائل کے بارے میں (قدیم) فقہاء نے جو فتوے دیئے ہیں ان کا جاننا بھی بہت ضروری ہے۔ تاکہ اس کی کوئی اور فیصلہ اسلاف کے فتاویٰ اور فیصلوں کے خلاف نہ ہو کیوں کہ اگر ایسا ہوا تو اسلاف کے اجماع کے خلاف ایک نئی رائے دینے کا مرتکب ہوگا۔ جب ان مذکورہ بالاپانچ علوم میں مہارت حاصل کرلے گا تو پھر مجتہد کہلائے گا۔ لیکن ان علوم میں مہارت اس حد تک ضروری نہیں کہ ان کا کوئی جزو اور معمولی حصہ بھی اس کے علم سے خارج نہ ہو۔ البتہ اگر ان پانچ علوم میں سے کسی ایک علم سے کلی طور پر ناواقف ہوتوپھر اس کے لئے تقلید کا راستہ اختیار کرنا ہی بہتر ہے۔ اگرچہ وہ شخص ائمہ سلف میں سے کسی ایک کے فقہی مسلک پر مکمل عبور رکھتا ہو۔ ایسے شخص کے لئے عہدہ قضاکو قبول کرنا اورمفتی کے منصب پر فائز ہونا جائز نہیں ہے۔ جو شخص ان پانچ علوم کا جامع ہو، نفسانی خواہشات اور بدعات سے اپنے آپ کو بچاتا ہو، تقویٰ اور پاکیزگی اس کا شعار ہو۔ کبیرہ گناہوں سے دور رہتا ہو اور صغیرہ گناہوں پراصرار نہ کرتا ہو۔ وہ قاضی بھی نب سکتا ہے اور مسائل شریعت میں اس کے لئے اجتہاد بھی جائز ہوگا۔ اور جو شخص ان شرائط کا جامع نہ ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ پیش آمدہ واقعات و حوادث میں سے کسی ایک امام مجتہد کی تقلید کرے‘‘۔ (عقد الجيد فی أحكام الاجتهاد والتقليد شاه ولی اﷲمحدث دہلویؒ: ص۲۳-۲۱)
صحابہ کرام ؓ  کی اتباع (تقلید) کا حکم
مومنین کی اتباع (تقلید) کا حکم
علماء، فقہاء اور مجتہدین کی اتباع (تقلید) کا حکم
مومن باپ دادا کی اتباع (تقلید) کا حکم
اجماع کی اتباع (تقلید) کا حکم
قرآن سےتقلید کےحکم پر غیرمقلدین کے اشکالات کے جوابات
اگر آباء الله تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے راستے سے ہٹانے والے ہوں تو ان کی تقلید (اتباع) حرام ہے۔ اگر آباء الله تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کا راستہ بتانے والے ہیں تو ان کی تقلید(اتباع) واجب ہے۔
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۗ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ۔{سورۃالبقرہ:۱۷۰}
اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ جو (کتاب) خدا نے نازل فرمائی ہے اس کی پیروی کرو تو کہتے ہیں (نہیں) بلکہ ہم تو اسی چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا۔ بھلا اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ سمجھتے ہوں اورنہ سیدھے رستے پر ہوں (تب بھی وہ انہیں کی تقلید کئے جائیں گے)؛
وَالَّذينَ ءامَنوا وَاتَّبَعَتهُم ذُرِّ‌يَّتُهُم بِإيمـٰنٍ أَلحَقنا بِهِم ذُرِّ‌يَّتَهُم وَما أَلَتنـٰهُم مِن عَمَلِهِم مِن شَىءٍ ۚ كُلُّ امرِ‌ئٍ بِما كَسَبَ رَ‌هين۔{سورۃالطور:۲۱}
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی (راہ) ایمان میں ان کے پیچھے چلی۔ ہم ان کی اولاد کو بھی ان (کے درجے) تک پہنچا دیں گے اور ان کے اعمال میں سے کچھ کم نہ کریں گے۔ ہر شخص اپنے اعمال میں پھنسا ہوا ہے۔
غیرمقلدین حضرات اکثرتقلید (اتباع)کے حرام ہونے پرقرآن کی  پہلی آیت پیش کرکے عام مسلمانوں کو گمراہ کرتےہیں جبکہ دوسری آیت میں باپ دادا کی تقلید(اتباع) کا واضح حکم ملتاہے۔جن کی تقلید سے روکا گیا ہے وہاں یہ قید لگائی ہے کہ وہ باپ دادا بےدین ہوں تو بےدینی میں ان کی تقلید (اتباع) نہ کرو، بےعقل ہوں تو بے عقلی میں ان کی تقلید نہ کرو۔ ان آیات کو آئمہِ اربعہ (چار ٤ اماموں) کی تقلید میں پیش کرنا گویا ان کو گمراہ، بےعقل و بےہدایت اور جاہل ماننا ہے، یقیناً ایسا کہنا خود جہالت و ظلم ہے۔
قرآن مجید میں عالم کی تقلید (پیروی) کا حکم اور غیرعالم کی تقلید (پیروی) کی ممانعت
قَالَ قَدْ اُجِيْبَتْ دَّعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِيْمَا وَلَا تَتَّبِعَآنِّ سَبِيْلَ الَّـذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ۔ ’’اور ان لوگوں کی راہ نہ چلنا جو علم نہیں رکھتے‘‘۔ }سورۃ یونُس: ۸۹{
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِىٓ اِلَيْـهِـمْ ۚ فَاسْاَلُـوٓا اَهْلَ الـذِّكْرِ اِنْ كُنْتُـمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۔ ’’پس سوال کرو اہل الذکر سے اگر تم کو علم نہیں‘‘۔ {سورۃ النحل: ٤٣}
تقلید کے وجوب پرقرآن کی دوسری آیت:
فَاسْاَلُـوٓا اَهْلَ الـذِّكْرِ اِنْ كُنْتُـمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۔ ’’پس سوال کرو اہل الذکر سے اگر تم کو علم نہیں‘‘۔  [سورۃ النحل : ٤٣]
اس آیت میں یہ اصولی ہدایت دیدی گئی ہے کہ جو لوگ کسی علم و فن کےشعبہ میں ماہر نہ ہوں، انھیں چاہیے کہ اس علم و فن کے شعبہ کے ماہرین سے پوچھ پوچھ کر عمل کرلیا کریں، یہی چیز تقلید کہلاتی ہے۔ اس آیت سے درج ذیل ائمہ مفسرین ومحدثین نے تقلید کے وجوب سے استدلال کیاہے۔
۱۔ امام ابو بكراحمدبن علی الرازی الجصاص ؒ (المتوفی: ۳۷۰ھ) فرماتے ہیں: ’’قَالَ أَبُو بَكْرٍ: إذَا اُبْتُلِيَ الْعَامِّيُّ الَّذِي لَيْسَ مِنْ أَهْلِ الِاجْتِهَادِ بِنَازِلَةٍ، فَعَلَيْهِ مُسَاءَلَةُ أَهْلِ الْعِلْمِ عَنْهَا۔ وَذَلِكَ لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ} [الأنبياء: ۷] وَقَالَ تَعَالَى: {فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إذَا رَجَعُوا إلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ} [التوبة: ۱۲۲]‘‘۔ ”یہ آیت عام طورپراس شخص کے لئے نازل ہوئی ہے جواجتہاد کی اہلیت نہیں رکھتا، اسےجس کے علم و تفقہ پر اعتماد ہوگا اس سے مسئلہ پوچھ کر اس پر عمل کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {اگر تم خود نہیں جانتے تو اہل علم سے سوال کرو} [الأنبياء: ۷] اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہےکہ: {اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب نکل آئیں۔ تو یوں کیوں نہ کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا (علم سیکھتے اور اس) میں سمجھ پیدا کرتے اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آتے تو ان کو ڈر سناتے تاکہ وہ حذر کرتے} [التوبة: ۱۲۲] “۔ (أصول الفقہ المسمی الفصول فی الأصول للجصاص: ج۴، بَابُ الْقَوْلِ فِي تَقْلِيدِ الْمُجْتَهِدِ، ص۲۸۱)
۲۔ علامہ ابوبکراحمدبن علی الخطیب بغدادیؒ (المتوفی: ۴۶۳ھ) فرماتے ہیں کہ: ’’فَهَذَا يُسَوَّغُ فِيهِ التَّقْلِيدُ، بِدَلِيلِ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ} [النحل: ۴۳] وَلِأَنَّا لَوْ مَنَعْنَا التَّقْلِيدَ فِي هَذِهِ الْمَسَائِلِ الَّتِي هِيَ مِنْ فُرُوعِ الدِّينِ لَاحْتَاجَ كُلُّ أَحَدٍ أَنْ يَتَعَلَّمَ ذَلِكَ، وَفِي إِيجَابِ ذَلِكَ قَطْعٌ عَنِ الْمَعَايِشِ، وَهَلَاكُ الْحَرْثِ وَالْمَاشِيَةِ، فَوَجَبَ أَنْ يَسْقُطَ۔ وَلِأَنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِ الِاجْتِهَادِ فَكَانَ فَرْضُهُ التَّقْلِيدَ، كَتَقْلِيدِ الْأَعْمَى فِي الْقِبْلَةِ، فَإِنَّهُ لَمَّا لَمْ يَكُنْ مَعَهُ آلَةُ الِاجْتِهَادِ فِي الْقِبْلَةِ، كَانَ عَلَيْهِ تَقْلِيدُ الْبَصِيرِ فِيهَا ‘‘۔ ’’احکام کی اس قسم میں تقلید درست ہے اس لئے کہ اﷲتعالیٰ کا فرمان ہے کہ {اگر تم خود نہیں جانتے تو اہل علم سے سوال کرو} [سورۃ النحل: ۴۳] علاوہ ازیں اگر ہم دین کے ان فروعی مسائل میں تقلید کو ممنوع قرار دیدیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر آدمی احکام کودلائل کے ساتھ جاننے کا محتاج ہواور عوام پراس کو واجب کرنے سے زندگی کی سب ضروریات کے حاصل کرنے سے انہیں روکنا لازم آئے گا۔ اور کھیتی باڑی اور مویشیوں کی ہلاکت وبربادی لازم آئے گی تو واجب ہے کہ یہ حکم انس سے ساقط ہو۔ رہی یہ بات کہ تقلید کس کے لئے جائز ہے؟ سو وہ عامی شخص ہے جو احکام شرعیہ کے طریقوں سے واقف نہیں، لہٰذا اس کے لئے جائز ہےکہ وہ کسی عالم کی تقلید کرے اور اسکے قول پر عمل پیرا ہو نیز اس لئے کہ وہ (عام آدمی) اجتہاد کا اہل نہیں ہے، لہٰذا اس کا فرض یہ ہےکہ وہ بالکل اس طرح تقلید کرے جیسے ایک نابینا قبلے کے معاملے میں کسی آنکھ والے کی تقلید کرتا ہے، اس لئے کہ جب اس کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جس سے وہ اپنی ذاتی کوشش کے ذریعہ قبلے کا رخ معلوم کرسکے تو اس پر واجب ہے کہ کسی آنکھ والے کی تقلید کرے۔ (الفقیہ والمتفقہ للخطیب البغدادی: ج۲، ص۱۳۲، ۱۳۴)
۳۔ حافظ ابن عبد البر المالکیؒ (المتوفی: ٤٦٣ھ) فرماتے ہیں: ’’قال ابن عبد البر: ولم تختلف العلماء أن العامة عليها تقليد علمائها وانهم المرادون بوقل الله عز وجل {فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون[النحل: ۴۳] وكذلك لم يختلف العلماء أن العامة لا يجوز لها الفتيا وذلك والله أعلم لجهلها بالمعاني التي منها يجوز التحليل والتحريم والقول في العلم‘‘۔ ’’علماء کااس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ عام لوگوں پر علماء کی تقلید لازم ہے اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد : {پس سوال کرو اہل الذکر سے اگر تم کو علم نہیں}۔ [النحل : ٤٣] سے علماء ہی مراد ہیں، اور علماء کا اس امر (بات) پر اجماع ہے کہ نابینا شخص پر جب قبلہ کی تعین میں اختلاف ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ غیر کی جس (کے علم و صداقت) پر اعتماد ہو عمل کرے جو اسے قبلہ کی تمیز کراسکے سو اسی طرح جس شخص کو دینی امور میں علم و بصیرت نہ ہو اس پر لازم ہے کہ وہ عالم کی تقلید کرے‘‘۔ (صحیح جامع بيان العلم وفضله: ص۹۸۹)
۴۔ امام  إبراهيم بن علی بن يوسف الفيروزاباذی الشيرازی أبو إسحاقؒ (المتوفی: ۴۷۶ھ) فرماتے ہیں: ’’قد بينا الأدلة التي يرجع إليها المجتهد في معرفة الحكم وبقي الكلام في بيان ما يرجع إليه العامل في العمل وهو التقليد، وجملته أن التقليد قبول القول من غير دليل۔ والأحكام على ضربين عقلي وشرعي۔ ۔۔۔ وحكي عن أبي علي الجبائي أنه قال: إن كان ذلك مما يسوغ فيه الاجتهاد جاز وإن كان مما لا يجوز فيه الاجتهاد لم يجز۔ والدليل على ما قلناه قوله تعالى: {فَاسْأَلوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ} [النحل: ۴۳] ولأنا لو منعنا التقليد فيه لاحتاج كل أحد أن يتعلم ذلك، وفي إيجاب ذلك قطع عن المعاش وهلاك الحرث والزرع فوجب أن يسقط‘‘۔ ’’‘‘۔ (اللمع فی أصول الفقه للشيرازی: ص۲۹۵-۲۹۶)
۵۔ منصور بن محمد بن عبد الجبار السمعانی أبو المظفرؒ (المتوفی: ۴۸۹ھ)فرماتے ہیں: ’’ونتكلم في المسألة على الإطلاق فنقول: احتج من جوز للعالم تقليد العالم بظاهر قوله تعالى: {فَاسْأَلوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ} [النحل: ۴۳]‘‘۔ ’’‘‘۔(قواطع الأدلة فی الأصول للسمعانی: ج۲، ص۳۴۲)
۶۔ امام غزالیؒ(المتوفی: ۵۰۵ھ) فرماتے ہیں: ’’فَإِنْ قِيلَ: حَصَرْتُمْ طَرِيقَ مَعْرِفَةِ الْحَقِّ فِي الْإِلْحَاقِ ثُمَّ قَطَعْتُمْ طَرِيقَ الْإِلْحَاقِ، وَلَا نُسَلِّمُ أَنَّ مَأْخَذَهُ الْإِلْحَاقُ بَلْ عُمُومَاتٌ تَشْمَلُ الْعَامِّيَّ وَالْعَالِمَ، كَقَوْلِهِ تَعَالَى: {فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ} [النحل: ۴۳] وَمَا أَرَادَ مَنْ لَا يَعْلَمُ شَيْئًا أَصْلًا فَإِنَّ ذَاكَ مَجْنُونٌ أَوْ صَبِيٌّ بَلْ مَنْ لَا يَعْلَمُ تِلْكَ الْمَسْأَلَةَ، وَكَذَلِكَ قَوْله تَعَالَى: {أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ} [النساء: 59] وَهُمْ الْعُلَمَاءُ‘‘۔ ’’‘‘۔ (المستصفیٰ من علم الاصول:  ج۴، ص۱۴۷)
۷۔ امام فخرالدین ابوعبداﷲمحمد بن عمرالرازیؒ (المتوفی:  ۶۰۴ھ) فرماتے ہیں کہ: ’’اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي أَنَّهُ هَلْ يَجُوزُ لِلْمُجْتَهِدِ تَقْلِيدُ الْمُجْتَهِدِ؟ مِنْهُمْ مَنْ حَكَمَ بِالْجَوَازِ/ وَاحْتَجَّ بِهَذِهِ الْآيَةِ فَقَالَ: لَمَّا لَمْ يَكُنْ أَحَدُ الْمُجْتَهِدِينَ عَالِمًا وَجَبَ عَلَيْهِ الرُّجُوعُ إِلَى الْمُجْتَهِدِ الْآخَرِ الَّذِي يكون عالما لقوله تعالى: فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ فَإِنْ لَمْ يَجِبْ فَلَا أَقَلَّ مِنَ الْجَوَازِ‘‘۔ ’’بلاشبہ بعض لوگوں نے مجتہد کے لئےاس آیت کریمہ سےتقلید کاجوازثابت کیاہے۔ وہ یوں کہ جب مجتہدین میں سے کوئی کسی چیز کونہیں جانتاتواس پرمجتہدعالم کی طرف رجوع کرناواجب ہے، کیونکہ اﷲتعالیٰ کاارشادہےکہ: {پس سوال کرو اہل علم سے اگر تم کو علم نہیں}۔ اگررجوع کرناواجب نہ ہوتوجواز سے کیاکم ہوگا‘‘۔ (تفسیر الفخرالرازی: ج۲۰، سورۃ النحل۴۳، ص۳۷)
۷۔ امام عبد الله بن أحمد بن محمد بن قدامہ المقدسیؒ(المتوفی: ۶۲۰ھ) فرماتے ہیں: ’’فلم يبقَ إلا سؤال العلماء، وقد أمر الله – تعالى – بسؤال العلماء في قوله تعالى: {فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ} [النحل: ۴۳] قال أبو الخطاب: "ولا يجوز التقليد في أركان الإسلام الخمس ونحوها، مما اشتهر، ونقل نقلًا متواترًا؛ لأن العامة شاركوا العلماء في ذلك، فلا وجه للتقليد"‘‘۔ ’’‘‘۔ (روضة الناظر وجنة المناظر فی أصول الفقه على مذهب الإمام أحمد بن حنبل: ص۱۰۱۹)
۸۔ امام علی بن محمد التغلبی الآمدیؒ(المتوفی: ۶۳۱ھ) فرماتے ہیں: ’’الْعَامِّيُّ وَمَنْ لَيْسَ لَهُ أَهْلِيَّةُ الِاجْتِهَادِ، وَإِنْ كَانَ مُحَصِّلًا لِبَعْضِ الْعُلُومِ الْمُعْتَبَرَةِ فِي الِاجْتِهَادِ يَلْزَمُهُ اتِّبَاعُ قَوْلِ الْمُجْتَهِدِينَ وَالْأَخْذُ بِفَتْوَاهُ عِنْدَ الْمُحَقِّقِينَ مِنَ الْأُصُولِيِّينَ۔ أَمَّا النَّصُّ فَقَوْلُهُ تَعَالَى: {فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ} [النحل: ۴۳] وَهُوَ عَامٌّ لِكُلِّ الْمُخَاطَبِينَ، وَيَجِبُ أَنْ يَكُونَ عَامًّا فِي السُّؤَالِ عَنْ كُلِّ مَا لَا يُعْلَمُ، بِحَيْثُ يَدْخُلُ فِيهِ مَحَلُّ النِّزَاعِ‘‘۔ ’’‘‘۔ (الإحكام فی أصول الأحكام:  ج۴، ص۲۲۸)
۹۔ قاضی ناصرالدین عبداﷲبن عمربن محمدالبیضاویؒ(المتوفی: ۶۸۵ھ) فرماتے ہیں: ’’قوله تعالى: {فَاسْأَلوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ} [الأنبياء: ۷] فإنه يدل على جواز السؤال لمن لا يعلم كان مجتهدا أو غير مجتهد، والمجتهد قبل اجتهاده غير عالم، فوجب أن يجوز له ذلك۔ الثاني: قوله تعالى: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ} [النساء: ۵۹] فإنه يدل على قبول قول أولي الأمر على كل أحد مجتهدا كان أو غيره، والعلماء من أولي الأمر لأن أمرهم ينفذ على الأمراء والولاة، فيكون قولهم معمولا به في حق المجتهد والمقلد‘‘۔ ’’‘‘۔ (نهاية السول شرح منهاج الوصول: ص۴۰۴)
۱۰۔ امام نجم الدین ابی الربیع سلیمان بن عبد القویؒ (المتوفی: ۷۱۶ھ) فرماتے ہیں: ’’قَوْلُهُ: «قَالُوا:» يَعْنِي مَنْ جَوَّزَ التَّقْلِيدَ احْتَجُّوا بِوُجُوهٍ:أَحَدُهَا: قَوْلُهُ تَعَالَى: {فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ} [النَّحْلِ: ۴۳]۔ «وَهَذَا» وَإِنْ كَانَ أَهْلًا لِلِاجْتِهَادِ، لَكِنَّهُ «لَا يَعْلَمُ» هَذَا الْحُكْمَ الْخَاصَّ، فَيَتَنَاوَلُهُ عُمُومُ هَذَا النَّصِّ، فَجَازَ لَهُ التَّقْلِيدُ كَالْعَامِّيِّ۔ الْوَجْهُ الثَّانِي: قَوْلُهُ تَعَالَى: {وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ} [النِّسَاءِ: ۵۹]، «وَهُمُ الْعُلَمَاءُ»، أَمَرَ بِطَاعَتِهِمْ، وَذَلِكَ بِتَقْلِيدِهِمْ فِيمَا يُخْبِرُونَ بِهِ عَنِ الشَّرْعِ، وَالْخِطَابُ لِلْمُؤْمِنِينَ، وَهُوَ يَتَنَاوَلُ هَذَا الْمُجْتَهِدَ وَغَيْرَهُ۔ الْوَجْهُ الثَّالِثُ: «أَنَّ الْأَصْلَ جَوَازُ التَّقْلِيدِ» لِامْتِنَاعِ حُصُولِ أَدَوَاتِ الِاجْتِهَادِ فِي كُلِّ أَحَدٍ عَادَةً «تُرِكَ» ذَلِكَ «فِي مَنِ اجْتَهَدَ» وَظَنَّ الْحُكْمَ، «لِظُهُورِ الْحَقِّ لَهُ بِالْفِعْلِ، فَمَنْ عَدَاهُ» يَبْقَى «عَلَى الْأَصْلِ» وَهُوَ جَوَازُ التَّقْلِيدِ، فَثَبَتَ‘‘۔ ’’‘‘۔ (شرح مختصر الروضۃ: ج۳، ص۶۳۳)
۱۱۔ امام جلال الدین ابی محمد الاسنویؒ (المتوفی: ۷۷۴ھ) فرماتے ہیں: ’’من لم يبلغ رُتْبَة الِاجْتِهَاد هَل لَهُ التَّقْلِيد فِيهِ ثَلَاثَة مَذَاهِب حَكَاهَا فِي الْمَحْصُول أَصَحهَا عِنْده وَعند الْآمِدِيّ وَغَيرهمَا يجوز بل يجب لقَوْله تَعَالَى: {فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ} [النَّحْلِ: ۴۳]۔ وَلِأَن المعاش يفوت باشتغال جَمِيع النَّاس بِأَسْبَاب الِاجْتِهَاد‘‘۔ ’’‘‘۔ (التمهيد فی تخريج الفروع على الأصول: ص۵۲۶)
۱۲۔ امام ابی اسحاق ابراہیم بن موسیٰ الشاطبیؒ (المتوفی: ۷۹۰ھ) فرماتے ہیں: ’’وَالدَّلِيلُ عَلَيْهِ أَنَّ وُجُودَ الْأَدِلَّةِ بِالنِّسْبَةِ إِلَى الْمُقَلِّدِينَ وَعَدَمَهَا سَوَاءٌ؛ إِذْ كَانُوا لَا يَسْتَفِيدُونَ مِنْهَا شَيْئًا؛ فَلَيْسَ النَّظَرُ فِي الْأَدِلَّةِ وَالِاسْتِنْبَاطُ مِنْ شَأْنِهِمْ، وَلَا يَجُوزُ ذَلِكَ لَهُمْ أَلْبَتَّةَ وَقَدْ قَالَ تَعَالَى: {فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ} [النَّحْلِ: ۴۳]‘‘۔ ’’‘‘۔ (الموافقات للشاطبی: ج۵، کتاب الاجتہاد، ص۳۳۷)
۱۳۔ امام محمد بن بهادر بن عبد الله الزركشی بدر الدینؒ(المتوفی: ۷۹۴ھ) فرماتے ہیں: ’’وَأَمَّا وُجُوبُهُ عَلَى الْعَامَّةِ، فَلِقَوْلِهِ تَعَالَى: {فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ} [النَّحْلِ: ۴۳] وَقَوْلُهُ: {فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ} [التوبة: ۱۲۲] فَأَمَرَ بِقَبُولِ قَوْلِ أَهْلِ الْعِلْمِ فِيمَا كَانَ مِنْ أَمْرِ دِينِهِمْ، وَلَوْلَا أَنَّهُ يَجِبُ الرُّجُوعُ إلَيْهِمْ لَمَا كَانَ لِلنِّذَارَةِ مَعْنًى، وَلِقَضِيَّةِ الَّذِي شُجَّ، فَأَمَرُوهُ أَنْ يَغْتَسِلَ، وَقَالُوا: لَسْنَا نَجِدُ لَك رُخْصَةً فَاغْتَسَلَ وَمَاتَ فَقَالَ النَّبِيُّ - عَلَيْهِ السَّلَامُ -: «قَتَلُوهُ قَتَلَهُمْ اللَّهُ، إنَّمَا كَانَ شِفَاءُ الْعِيِّ السُّؤَالَ» فَبَانَ بِذَلِكَ جَوَازُ التَّقْلِيدِ‘‘۔ ’’‘‘۔ (البحر المحيط فی أصول الفقه للزركشی: ج۶، ص۲۸۲)
۱۴۔ امام ابن ھمام حنفیؒ (المتوفی:۸۶۱ھ) فرماتے ہیں: ’’يَعْمَلَ بِقَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ، فِيمَا يَقَعُ لَهُ مِنْ الْمَسَائِلِ الَّتِي تَتَعَيَّنُ فِي الْوَقَائِعِ، فَإِنْ أَرَادُوا هَذَا الِالْتِزَامَ فَلَا دَلِيلَ عَلَى وُجُوبِ اتِّبَاعِ الْمُجْتَهِدِ الْمُعَيَّنِ بِإِلْزَامِهِ نَفْسَهُ ذَلِكَ قَوْلًا أَوْ نِيَّةً شَرْعًا، بَلْ الدَّلِيلُ اقْتَضَى الْعَمَلَ بِقَوْلِ الْمُجْتَهِدِ فِيمَا احْتَاجَ إلَيْهِ لِقَوْلِهِ تَعَالَى: {فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ} [النَّحْلِ: ۴۳]‘‘۔ ’’‘‘۔ (فتح القدير للكمال ابن الهمام: ج۷، ص۲۳۹)
۱۵۔  اسی آیت کے بیان میں ابن القیم الجوزیؒ(المتوفی: ۷۵۱ھ) فرماتے ہیں:فَالْجَوَابُ أَنَّهُ سُبْحَانَهُ ذَمَّ مَنْ أَعْرَضَ عَمَّا أَنْزَلَهُ إلَى تَقْلِيدِ الْآبَاءِ، وَهَذَا الْقَدْرُ مِنْ التَّقْلِيدِ هُوَ مِمَّا اتَّفَقَ السَّلَفُ وَالْأَئِمَّةُ الْأَرْبَعَةُ عَلَى ذَمِّهِ وَتَحْرِيمِهِ، وَأَمَّا تَقْلِيدُ مَنْ بَذَلَ جَهْدَهُ فِي اتِّبَاعِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَخَفِيَ عَلَيْهِ بَعْضُهُ فَقَلَّدَ فِيهِ مَنْ هُوَ أَعْلَمُ مِنْهُ فَهَذَا مَحْمُودٌ غَيْرُ مَذْمُومٍ، وَمَأْجُورٌ غَيْرُ مَأْزُورٍ، كَمَا سَيَأْتِي بَيَانُهُ عِنْدَ ذِكْرِ التَّقْلِيدِ الْوَاجِبِ وَالسَّائِغِ إنْ شَاءَ اللَّهُ“۔ تو جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی مذمت کی ہے جو اس کی نازل کردہ سے اعراض رکھے اور اپنے آباؤاجداد کی تقلید کرے ایسی تقلید کی حرمت اور مذمت پر ائمہ اربعہؒ اور سلف صالحین  کا اتفاق ہے۔ اور ایسے شخص کی تقلید جو کوشش کرکے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ کی اتباع کرے اور جو بظاہر چیزیں اس پر مخفی(چھپی) رہ جاتی ہیں ان میں وہ اپنے سے زیادہ علم والے کی تقلید کرتا ہے تو یہ "محمود" ہے "مذموم" نہیں، اس میں وہ ماجور ہے(یعنی اگر مسئلہ غلط ہوا تو خطاپر بھی اجر ملے گا) اس پر کوئی وبال نہیں اور اس کا بیان تقلید واجب اور جائز میں آئے گا، انشاءاللہ تعالیٰ“۔(إعلام الموقعين:ج۳،ص۴۴۸)
۱۶۔ علامہ جلال الدین السیوطیؒ (المتوفی:  ۹۱۱ھ) لکھتےہیں کہ: ’’لِقَوْلِهِ تَعَالَى: {فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ} [النَّحْلِ: ۴۳]۔ استدل به على جواز التقليد في الفروع للعامي‘‘۔ ’’اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد: {پس سوال کرو اہل الذکر سے اگر تم کو علم نہیں}۔ [النحل : ٤٣] سےاس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ عام آدمیوں کے لئے فروعی مسائل میں تقلید جائز ہے‘‘۔ (الاکلیل فی استنباط التنزیل: ۱۳۹)
۱۷۔ علامہ آلوسی بغدادی ؒ(المتوفی:  ۱۲۷۰ھ) فرماتے ہیں: ’’واستدل بها أيضاً على وجوب المراجعة للعلماء فيما لا يعلم۔ وفي "الإكليل" للجلال السيوطي أنه استدل بها على جواز تقليد العامي في الفروعفإن الظاهر العموم لا سيما إذا قلنا إن المسألة المأمورين بالمراجعة فيها والسؤال عنها من الأصول، ويؤيد ذلك ما نقل عن الجلال المحلي أنه يلزم غير المجتهد عاميا كان أو غيره التقليد للمجتهد لِقَوْلِهِ تَعَالَى: {فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ} [النَّحْلِ: ۴۳] والصحيح أنه لا فرق بين المسائل الاعتقادية وغيرها وبين أن يكون المجتهد حيا أو ميتا اهـ‘‘۔  اور اس آیت میں اس بات پر بھی استدلال کیا گیا ہے کہ جس چیز کا علم اسے خود نہ ہو اس میں علماء سے رجوع کرنا واجب ہے۔ اور علامہ جلال الدین السیوطیؒ "الإكليل" میں لکھتے ہیں کہ اس آیت میں اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ عام آدمیوں کے لئے فروعی مسائل میں تقلید جائز ہے‘‘۔ (تفسیر روح المعانی:ج١٤،ص۱۴۸، سورۃ النحل:٤٣)
۱۸۔ اسی آیت کے بارے میں غیرمقلد عالم سید نذیرحسین دہلویؒ لکھتے ہیں: ’’جس آیت کے حکم سے تقلیدثابت ہے تووہ اسی صورت میں ہے جب کہ لاعلمی ہو: قال اﷲتعالیٰ: {فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون} "یعنی پس سوال کرواہل ذکرسے اگرنہ جانتےہوتم"۔ اوریہی آیت دلیل ہے وجوب تقلیدپر‘‘۔ (معیارالحق: ص۷۴)
غیرمقلدین حضرات آج یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ تقلید حرام اور شرک ہے۔ غیرمقلدین کا یہ دعویٰ ۱۰۰ فیصد غلط اور اﷲاوراس کے رسولﷺ پر سریع بہتان ہے۔ کیونکہ لاعلمی کے وقت اہل علم سے مسئلہ پوچھنا اور اس کی بات کو تسلیم کرنا تو نص قطعی سے ثابت ہےجس کی دلیل سورۃ النحل، آیت ۴۳ میں موجود ہے۔ پھر تقلید حرام و شرک اور ممنوع کیسے ہوگئی؟
غیرمقلدین حضرات کا یہ کہنا کہ تقلید اﷲتعالیٰ کے دین میں صحیح نہیں ہے، اگر اس سے مراد عقائد اور اصول دین میں تقلیدہے تو اس بات کوصحیح مان کر ہم قبول کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر نصوص اور احادیث صحیحہ صریحہ غیرمعارض کے مقابلہ میں تقلید مراد ہے تب بھی صحیح ہے کہ یہاں بھی تقلید ممنوع ہے اور یہ بات محل نزاع سے بالکل خارج ہے لیکن اگر جاہل کے لئے لاعلمی کے وقت دینی مسائل میں اہل علم کی طرف رجوع کرکے ان کی بات کو تسلیم کرنا مراد ہے۔ تو اس کو حرام، شرک و ممنوع قرار دینا قرآن و حدیث کی کھلی بغاوت اور صریح جسارت ہے جس کاپچھلے۱۴۰۰سالوں میں اہل اسلام میں کوئی بھی قائل نہیں رہا ہے۔جس دلیل سے اتّباع جائز اور درست ہےبالکل  اسی دلیل سے اسلام میں تقلید بھی جائز اور درست ہے کیونکہ تقلید اور اتّباع دونوں ہم معنیٰ ہیں اور دونوں میں کوئی فرق نہیں  تو پھر ایک کو جائز قرار دینا اور دوسری کو ناجائز و ممنوع کہنا سراسر باطل ہے لہٰذا جائز اور نائز کو گڈمڈکرکے معجون مرکب تیار کرنا کسی نامحمود اور خطرۂ جان حکیم ہی کا کام ہوسکتا ہے۔
تقلید کے وجوب پرقرآن کی تیسری آیت:
وَقَالُوْا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِىٓ اَصْحَابِ السَّعِيْرِ۔ ’’اور کہیں گے کہ اگر ہم نے سنا یا سمجھا ہوتا تو ہم دوزخیوں میں نہ ہوتے‘‘۔  [سورۃ الملک : ۱۰]
سراج الہندحضرت شاہ عبدالعزیزمحدث دہلویؒ (المتوفی ۱۲۳۹ھ) سورۃ الملک کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اوربعض مفسرین نے نسمع کوتقلیدپراورنعقل کوتحقیق واجتہادپرمحمول فرمایاہےکہ دونوں نجات کی راہیں ہیں‘‘۔ (جواھرعزیزی اردوترجمہ تفسیرعزیزی: ج۳، پارہ انتیسواں، ص۳۰)
فخرالمفسرین زبدۃالمحدثین عمدۃالمتکلمین حضرت مولاناابومحمدعبدالحق الحقانی الدہلویؒ(المتوفی ۱۳۸۹ھ) لکھتے ہیں: ’’انسان کی فلاح کے دوہی طریق ہیں۔ اوّل اورآسان یہ کہ کسی ناصح اورہادی کی بات سن کرمان لے، یہ تقلیدکامرتبہ ہےاس لئے اس کومقدم کیا۔ دوم یہ کہ خودعقلِ سلیم سے غوروتدبرکرے، یہ اجتہاد کامرتبہ ہے۔ پھرجس کودونوں باتیں نصیب نہ ہوں تواس کے بربادہونے میں کیاشک ہے‘‘۔(تفسیر فتح المنّان المشھور بہ تفسیر حقّانی: ج۵، پارہ۲۹، سورۃ الملک، ص۱۲)
مندرجہ بالاتفاسیرسے جہاں تقلید کا وجوب ثابت ہوتاہے وہاں اس بات کی بھی دلیل ملتی ہے کہ دین اسلام میں صرف دوطرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ اوّل مجتہدین جو خود اجتہاد کی صلاحیت رکھتے ہوئے دین پرعمل کرتے ہیں۔ دوم مقلدین جو خود اجتہادکی اہلیت نہ رکھتے ہوئے کسی مجتہد کی تقلید کرتے ہوئے دین پرعمل کرتےہیں۔ اورجولوگ ان دونوں میں سے نہ ہوں وہ گمراہ ہوکربربادہوجاتےہیں۔ اب فیصلہ ان لوگوں کو کرناہے جو نہ خوداجتہاد کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہی کسی مجتہد کی تقلید کرتے ہیں، پھر بھی قرآن وحدیث پرعمل کے دعویدارہیں۔
وَفَوقَ كُلِّ ذى عِلمٍ عَليمٌ۔’’اور ہرذی علم پرفوقیت رکھنے  والا دوسراذی علم موجودہے‘‘۔ {سورۃ یوسف:۷۶}
غیر مقلدین حضرات اکثر اعتراض کرتے ہیں کہ: ’’تقلید تو عامی شخص پر واجب ہے جسے قرآن و حدیث کا علم نہیں تو پھرحنفی علماءجوعربی زبان پر عبور رکھتے ہیں اور قرآن و حدیث کا علم بھی رکھتے ہیں، کسی امام (ابوحنیفہؒ) کے مقلدکیوں کہلاتے ہیں‘‘۔
اس آیت کے مطابق جو بڑے علم و گہرے فہم والے آئمہِ مسلمین امت میں گزرے ہیں جیسے آئمہِ اربعہ؛موجودہ دورکے علماء اپنی کم علمی و غلط فہمی سے بچنےکے لئےبڑے علم والوں کی اتباع (تقلید) کرتے ہیں۔موجودہ دور میں اگر کوئی عالم کسی شرعی مسئلےکے حل کے لئے قرآن و حدیث سے استدلال کرتاہے تو اسے ان ہی اصولوں و ضوابط کے مطابق عمل کرناپڑتاہے جو آئمہ، مجتہدین  و محدثین نے وضع کیئے ہیں لہٰذا قرآن کی تفسیر اور احادیث مبارکہ کی جانچ کے لئے اسے کسی درجےمیں آئمہ،مجتہدین، مفسرین اور محدثین کا ہی سہارالیناپڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور کے علماء ومجتہدین بھی کسی نہ کسی امام اوراس کی فقہ کے  مقلد نظرآتےاورسمجھے جاتےہیں۔
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ يَزِيدَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ غُطَيْفِ بْنِ أَعْيَنَ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم وَفِي عُنُقِي صَلِيبٌ مِنْ ذَهَبٍ۔‏ فَقَالَ ‏"‏يَا عَدِيُّ اطْرَحْ عَنْكَ هَذَا الْوَثَنَ‏"‏۔‏ وَسَمِعْتُهُ يَقْرَأُ فِي سُورَةِ بَرَاءَةَ:‏ ‏(اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ) قَالَ ‏"‏أَمَا إِنَّهُمْ لَمْ يَكُونُوا يَعْبُدُونَهُمْ وَلَكِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا أَحَلُّوا لَهُمْ شَيْئًا اسْتَحَلُّوهُ وَإِذَا حَرَّمُوا عَلَيْهِمْ شَيْئًا حَرَّمُوهُ‏"۔
’’حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عدی اس بت کو اپنے سے دور کر دو پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۃ براة کی یہ آیات پڑھتے ہوئے سنا  (اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ) [سورۃالتوبہ:۳۱] (انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنالیا ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ لوگ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن اگر وہ (علماء اور درویش) ان کے لئے کوئی چیز حلال قرار دیتے تو وہ بھی اسے حلال سمجھتے اور اسی طرح ان کی طرف سے حرام کی گئی چیز کو حرام سمجھتے‘‘۔ (جامع ترمذی:جلدنمبر ۵، كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب سورہ التوبہ، رقم الحدیث۳۰۹۵)
آج کے غیر مقلدین حضرات قرآن کی اس آیت کو امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد ابنِ حنبلؒ کےماننے والوں پر فٹ کرتے ہیں حالانکہ ان چاروں آئمہ کرام میں سے کسی نے بھی خود سے کسی چیز کو حرام و حلال قرار نہیں دیا بلکہ اﷲ کے حلال و حرام کردہ اشیاء کی حلت اور حرمت کو بیان کیا۔آئیں میں آپ کو بتاتا ہوں کہ موجودہ دور میں اس آیت کے اصل مصداق کون لوگ ہیں جنھوں نے اﷲ کے حرام قرار دیئے ہوئے کو خود اپنی جہالت اور نفس پرستی کے سبب حلال قرار دیکر اﷲکےحکم کی مخالفت کی۔
احادیثِ مبارکہ سے ہمیں واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ ابتدائے اسلام میں عورتوں سے متعہ جائز تھا اور نبی ﷺ نے خود صحابہ کرام ؓ کو متعہ کرنےکی اجازت دی تھی لیکن بعد میں اﷲتبارک وتعالیٰ نے رسول اﷲﷺکے ذریعہ متعہ کے عمل کو قیامت تک کے لئے حرام قرار دیدیا لیکن آج بھی مسلمانوں میں ایک ایسا فرقہ موجود ہے جو متعہ کے عمل کوجائز قرار دیتا ہے اور اﷲ کے حکم کی خلاف ورزی کر تے ہوئے اپنے عالموں کی اطاعت کر رہا ہے اور اس آیت کا مصداق ثابت ہو رہا ہے۔
بالکل اسی طرح ابتدائے اسلام میں اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دیتا تو عدت گزرنے سے پہلے رجوع کرلیتا اوراسے رجوع کاحق حاصل تھااگرچہ اس نے ایک ہزار طلاقیں ہی کیوں نہ دی ہوتیں (المؤطا :باب جامع الطلاق)پھر اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:’’الطلاق مرتان‘‘ (یہ طلاقیں دو مرتبہ ہیں، پھر اگراس کو تیسری طلاق دےدے تو اب اس کے لئے حلال نہیں)آج مسلمانوں میں ایک اور فرقہ موجود ہے جوکہ عورت کو دی گئی تین طلاقوں کو ایک قراردیکر اﷲتعالیٰ کے حرام کئے ہوے کو حلال قرار دیتا ہے اور ایک طلاق یافتہ عورت کو جوکہ اپنے سابقہ شوہر پر حرام ہوچکی ہے حلال کہتاہے اور اس آیت کا مصداق ثابت ہوتاہے۔ اب فیصلہ عام مسلمانوں پر ہے کہ وہ حق بات کو سمجھتے ہوئے ان باطل فرقوں کی حمایت کرتے ہیں یا مخالفت۔
ذیل میں درجاحادیث میں امیر کی اطاعت (تقلید) کا کتنی سختی سے حکم دیا گیا ہے۔ جو لوگ صرف اﷲ اور رسولﷺ کی اطاعت کا حکم سناکرعام مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہیں وہ قرآن کی آیت اور حدیث کی کھلی نافرمانی اور اﷲ اور رسولﷺ کے حکم کی  مخالفت کرتےہیں۔
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رضى الله عنه ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ "‏مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَى اللَّهَ، وَمَنْ أَطَاعَ أَمِيرِي فَقَدْ أَطَاعَنِي، وَمَنْ عَصَى أَمِيرِي فَقَدْ عَصَانِي‏"‏‏۔‏
’’ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں یونس نے ، انہیں زہری نے ، انہیں ابوسلمہ ابن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے میرے (مقرر کئے ہوئے) امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی‘‘۔(صحیح البخاری:جلد نمبر ۸،كتاب الأحكام، بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأَمْرِ مِنْكُمْ، رقم الحدیث ۷۱۳۷)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم "‏اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَإِنِ اسْتُعْمِلَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ كَأَنَّ رَأْسَهُ زَبِيبَةٌ‏"۔
’’ہم سے مسدد نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا ، ان سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے ابوالتیاح نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو اور اطاعت کرو ، خواہ تم پر کسی ایسے حبشی غلام کو ہی عامل بنایا جائے جس کا سرمنقیٰ کی طرح چھوٹا ہو‘‘۔(صحیح البخاری:جلد نمبر۸،كتاب الأحكام ۸، باب السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ لِلإِمَامِ مَا لَمْ تَكُنْ مَعْصِيَةً، رقم الحدیث ۷۱۴۲)
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنِ الْجَعْدِ، عَنْ أَبِي رَجَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، يَرْوِيهِ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم "مَنْ رَأَى مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا فَكَرِهَهُ فَلْيَصْبِرْ، فَإِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ يُفَارِقُ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَيَمُوتُ إِلاَّ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً‏"۔
’’ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے حماد نے بیان کیا ، ان سے جعد نے بیان کیا اور ان سے ابورجاء نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جس نے اپنے امیر میں کوئی برا کام دیکھا تو اسے صبر کرنا چاہئے کیونکہ کوئی اگر جماعت سے ایک بالشت بھی جدا ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا‘‘۔(صحیح البخاری:جلد نمبر ۸،كتاب الأحكام ، باب السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ لِلإِمَامِ مَا لَمْ تَكُنْ مَعْصِيَةً، رقم الحدیث ۷۱۴۳)
تقلید ِشخصی کا حکم رسول اﷲﷺسے
’’عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "إِنِّي لَا أَدْرِي مَا بَقَائِي فِيكُمْ فَاقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي"، وَأَشَارَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَر‘‘۔ ’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے نہیں معلوم کہ کب تک میں تم لوگوں میں ہوں۔ لہذا میرے بعد تم ابوبکر (رضی اللہ عنہ) اور عمر (رضی اللہ عنہ) کی پیروی کرنا‘‘۔ (جامع الترمذيكِتَاب الدَّعَوَاتِ:أبوابُ الْمَنَاقِبِبَاب فِي مَنَاقِبِ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُرقم الحديث:٣٧٦٥،٣٧٩٩)
"من بعدی"سے مراد ان صاحبانؓ کادورِ خلافت ہے، کیوں کہ بلاخلافت تو دونوں صاحبان ؓ آپ ﷺ کے روبرو بھی موجود تھے۔ پس مطلب یہ ہوا کہ ان کے خلیفہ ہونے کی حالت میں ان کی اتباع کیجیو اور ظاہر ہے کہ خلیفہ ایک ایک ہوں گے۔ پس حاصل یہ ہوا کہ حضرت ابو بکر رضی الله عنہ کی خلافت میں تو ان کا اتباع کرنا، حضرت عمر رضی الله عنہ کی خلافت میں ان کا اتباع کرنا،  پس ایک زمانہ خاص تک ایک معین شخص کی اتباع کا حکم فرمایا اور یہ کہیں نہیں فرمایا کہ ان کے احکام کی دلیل بھی دریافت کرلیا کرنا۔اور نہ یہ عادت مستمرہ (جاریہ)تھی کہ دلیل کی تحقیق ہر مسئلے میں کی جاتی ہو اور یہی تقلیدشخصی ہے۔ کیونکہ حقیقت تقلیدشخصی یہ ہے کہ ایک شخص کو جو مسئلہ پیش آوے وہ کسی مرجح کی وجہ سے ایک ہی عالم سے رجوع کیا کرے اور اس سے تحقیق کروا کے عمل کیا کرےاور خود اس کی تحقیق کو بلادلیل تسلیم کرلے۔
مشہور حدیث ہے: ’’علیکم بسنتی و سنة الخلفاءالراشدین المھد ییین تمسکو ابھا و عضوا علیھا بالنواجذ‘‘۔ ’’میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوط پکڑو اور اس پر دانت جمائے رکھو‘‘۔
اس حدیث میں بھی خلفائے راشدین کے طریقہ و عمل کا لازم پکڑنے کا کتنا تاکیدی حکمہے۔ اس حدیث سے تقلید شخصی کی واضح دلیل ملتی ہے، اس لئے کہ ہر زمانہ میں خلیفہ راشدایک ہی ہو گا، اس لئے ہر زمانہ کے خلیفہ راشد کی تقلید کا حکم دیا جا رہا ہے، اور اسی کا نام تقلید شخصی ہے گویا مسلمانوں پر اس کے زمانہ کے خلیفہ راشد کی تقلید و اتباع واجب اور ضروری ہے۔
آنحضورﷺکا حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کے بارے میں ارشاد ہے: ’’قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: رضيت لكم ما رضي لكم ابن أم عبد‘‘۔ ’’جو طریقہ و عمل تمہارے لئے حضرت عبداﷲ بن مسعودرضی اﷲعنہ پسند فرمائیں میں اس پر راضی ہوں‘‘۔ (المستدرک علی الصحیحین: كتاب معرفة الصحابة رضی الله تعالى عنهم، رقم الحدیث۵۴۴۵)
 حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کے بارے میں آنحضور ﷺ کی اس وزنی شہادت کے بعد کون شخص ہو گا جو یہ کہےگاکہ ان کی تقلید و اتباع حرام ہے۔
عہد صحابہرضی الله عنہم اجمعین میں تقلید ِشخصی کا حکم
’’حَدَّثَنِي مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، شَيْبَانُ عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ أَتَانَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ بِالْيَمَنِ مُعَلِّمًا وَأَمِيرًا، فَسَأَلْنَاهُ عَنْ رَجُلٍ، تُوُفِّيَ وَتَرَكَ ابْنَتَهُ وَأُخْتَهُ، فَأَعْطَى الاِبْنَةَ النِّصْفَ وَالأُخْتَ النِّصْفَ‏‘‘۔ ’’أسود بن يزيد سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ ہمارے پاس معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ یمن میں معلم اور امیر ہو کر آئے تو ہم نے ان سے اس شخص کے متعلق پوچھا جو فوت ہوگیا اور ایک بیٹی اور ایک بہن چھوڑ کر گیا تو انہوں نے بیٹی کو نصف اور بہن کو نصف دلایا‘‘۔ (صحيح البخاری: كِتَاب الْفَرَائِضِ، بَاب مِيرَاثِ الْبَنَاتِ، رقم الحديث: ٦٢٦٧، ٦٢٣٤)
اس حدیث سے یہ بات واضح معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللهکے زمانہ مبارک میں تقلید جاری تھی، کیونکہ تقلید کہتے ہیں ’’کسی کا قول محض اس حسن ظن(اعتماد) پر مان لینا کہ یہ "دلیل" کے موافق بتلادےگا اور اس سے دلیل کی تحقیق نہ کرنا‘‘۔اسی طرح تقلیدشخصی بھی ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ جب رسول الله نے تعلیم احکام کے لئے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کویمن بھیجا تو يقينا ًاہل یمن کو اجازت دی کہ ہر مسئلے میں ان سے رجوع کریں اور یہی تقلیدشخصی ہے۔سو قصہ مذکورہ میں گویا جواب قیاسی نہیں سو اس وجہ سے ہم نے اس سے جوازقیاس پر استدلال نہیں کیا لیکن سائل نے تو دلیل دریافت نہیں کی اور ان کے محض تدین کے اعتماد پر قبول کرلیا اور یہی تقلید ہے اور یہ حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ خود رسول اللهکے بھیجے ہوئےہیں۔پھر اس جواب کے اتباع پر جو کہ رسول اللهکی حیات میں تھا، نہ حضور سے انکار ثابت نہ کسی سے اختلاف اور رد منقول۔پس اس سے "جوازتقلید" کا اور حضورﷺ کی حیات میں اس کا بلا نکیر شایع ہونا ثابت ہوگیا۔
عہد صحابہ رضی الله عنہم اجمعین میں تقلید ِشخصی کی مثال
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَاصِمٍ الأَنْطَاكِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبٍ، أَخْبَرَنِي الأَوْزَاعِيُّ، أَنَّهُ بَلَغَهُ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ أَصَابَ رَجُلاً جُرْحٌ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ثُمَّ احْتَلَمَ فَأُمِرَ بِالاِغْتِسَالِ فَاغْتَسَلَ فَمَاتَ فَبَلَغَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ"‏قَتَلُوهُ قَتَلَهُمُ اللَّهُ أَلَمْ يَكُنْ شِفَاءُ الْعِيِّ السُّؤَالَ‏"۔ ’’عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی کو زخم لگا، پھر اسے احتلام ہو گیا، تو اسے غسل کرنے کا حکم دیا گیا، اس نے غسل کیا تو وہ مر گیا، یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”ان لوگوں نے اسے مار ڈالا، اللہ انہیں مارے، کیا لاعلمی کا علاج مسئلہ پوچھ لینا نہیں تھا؟“۔ (سنن أبی داود: كِتَاب الطَّهَارَةِ: بَاب فِي الْمَجْرُوحِ يَتَيَمَّمُ، رقم الحديث: ٢٨٤،٣٣٦)
مندرجہ بالا حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کسی شرعی مسئلےمیں ناواقفیت  کے سبب کسی جاہل سے رجوع کرنانقصان کا باعث بنتا ہے اس لئے جو لوگ اہل اجتہاد میں سے نہیں ہیں تو ان پر تقلید ہی فرض ہے۔جیسے نابینا، جس کے پاس ذریعہ علم نہیں ہے تو قبلے کے سلسلے میں اس کو کسی دیکھنے والے(بینا) کی بات ماننی ہوگی۔ میراغیر مقلد ین حضرات سے سوال ہے کہ کیا کسی نابینا شخص پر تقلیدِ شخصی جائز ہے؟اگر نہیں تو پھر ایسا شخص اپنے دینی مسائل کس طرح حل کرےگا؟
اگر عالم کے فتوے پر عامی شخص کےلئے دلیل کی تحقیق واجب ہوتی توعالم کے غلط فتوے پر وہ بھی گناہگار ٹھہرتا
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، - يَعْنِي ابْنَ أَبِي أَيُّوبَ - عَنْ بَكْرِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏مَنْ أَفْتَى‏"۔ ح وَحَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ عَنْ بَكْرِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي نُعَيْمَةَ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ الطُّنْبُذِيِّ - رَضِيعِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ - قَالَ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏مَنْ أُفْتِيَ بِغَيْرِ عِلْمٍ كَانَ إِثْمُهُ عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ‏"۔"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"جس شخص نے (کسی کو) بغیر علم کے فتوی دیا تو اس کا گناہ فتوی دینے والے پر ہوگا"۔)رواۃ ابو داؤد: جلد نمبر ۳، صفحہ نمبر ۸۵۴،  رقم الحدیث ۳۶۵۷)
اگر تقلید جائز نہ ہوتی اور کسی عالم کے فتوے پرعامی کو (دلیل پہچانے بغیر) عمل کرناجائز نہ ہوتا ؟تو گناہگار ہونے میں مفتی کی کیا تخصیص تھی؟ جیسا کہ بنی کریم ﷺ کےارشاد سے بات واضح ہوگئی۔ اگرعامی پر عالم کی تقلید جائز نہ ہوتی توجس طرح مفتی کو غلط فتویٰ بتانے کا گناہ ہوتا ہے اسی طرح سائل (عامی شخص)کو دلیل کی تحقیق نہ کرنے کا گناہ ہوتا۔پس جب شارع عليه السلام نے باوجود دلیل کی تحقیق نہ کرنے پر عامی شخص کو (گناہگار) نہیں ٹھہرایا تو جوازتقلید يقينا ًثابت ہوگیا۔
صحابہ کرام رضی الله عنھم  کاحضرت عمررضی الله عنہ سے مسئلہ پوچھنا اور دلیل کا تقاضہ نہ کرناتقلید ِشخصی کی بہترین مثال ہے
حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، أَنَّهُ قَالَ: أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ، أَنَّ أَبَا أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيَّ خَرَجَ حَاجًّا حَتَّى إِذَا كَانَ بِالنَّازِيَةِ مِنْ طَرِيقِ مَكَّةَ أَضَلَّ رَوَاحِلَهُ، وَإِنَّهُ قَدِمَ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يَوْمَ النَّحْرِ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ عُمَرُ: "اصْنَعْ كَمَا يَصْنَعُ الْمُعْتَمِرُ، ثُمَّ قَدْ حَلَلْتَ فَإِذَا أَدْرَكَكَ الْحَجُّ قَابِلًا فَاحْجُجْ، وَأَهْدِ مَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ"۔ ’’سلیمان بن یسار سے روایت ہےکہحضرت ابوایوب انصاری رضی الله عنہ حج کرنے کو نکلے جب نازیہ میں پہنچے مکہ کے راستے میں تو وہ اپنی اونٹنیاں کھو بیٹھے اور یوم النحر(دسویں ذی الحجہ) میں جبکہ حج ہو چکا تھا حضرت عمر رضی الله عنہ کے پاس آئےاور یہ سارا قصہ بیان کیا۔آپؓ نے فرمایا: جو عمرہ والا کیا کرتا ہے اب تم بھی وہی کرو، پھر تمہارا احرام کھل جاویگا، پھر جب آئندہ سال حج کا زمانہ آوے تو حج کرو اور جو کچھ میسر ہو قربانی ذبح کرو‘‘۔ (تيسير كلكته: صفحہ نمبر٣١، كتاب الحج، باب حادي عشر، فصل ثالث)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو صحابہ(رضی الله عنھم) اجتہاد نہ کر سکتے تھے، وہ مجتہدین صحابہ (رضی الله عنھم) کی تقلید کرتے تھے، کیونکہ حضرت ابو ایوب انصاری (رضی الله عنہ) بھی صحابی تھے اور انہوں نے حضرت عمر (رضی الله عنہ) سے دلیل فتویٰ کی نہیں پوچھی۔
تقلید شخصی کی دلیل حضرت ابن عمررضی اﷲعنہ سے
’’وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حَفْصِ بْنِ خَلْدَةَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ، يَكُونُ لَهُ الدَّيْنُ عَلَى الرَّجُلِ إِلَى أَجَلٍ فَيَضَعُ عَنْهُ صَاحِبُ الْحَقِّ وَيُعَجِّلُهُ الآخَرُ فَكَرِهَ ذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَنَهَى عَنْهُ‘‘۔ ’’حضرت سالم سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ مسئلہ پوچھا گیا کہ کسی شخص کا دوسرے شخص پر کچھ میعادی دین (قرض) واجب ہے اور صاحب حق (قرض خواہ) اس میں سے کسی قدر اس شرط سے معاف کرتا ہے کہ وہ قبل از میعاد (وقت مقررہ سے پہلے) اس کا دین(قرض) دیدے،(تو یہ طریقہ/عمل کیسا ہے؟)آپ نے اس کو ناپسند فرمایا اور منع فرمایا‘‘۔ (موطأ مالك:كِتَاب الْبُيُوعِ،بَابُ مَا جَاءَ فِي الرِّبَا فِي الدَّيْنِ، رقم الحديث: ١٣٤٦،١٣٧٧))تيسير كلكته: صفحہ نمبر٢٣، كتاب البيع، باب رابع، فروع في الحيوان)
چونکہ اس مسئلہ جزئیہ میں کوئی حدیث مرفوع صریح منقول نہیں، اس لئے یہ حضرت ابن عمررضی الله عنہ کا قیاس ہے اور چونکہ سائل نے دلیل نہیں پوچھی اس لئے اس کا حضرت ابن عمر رضی الله عنہ کے فتوے کو بنا دلیل قبول کرنا تقلید ہے اور حضرت ابن عمررضی الله عنہ کا دلیل بیان نہ کرنا خود تقلید کو جائز رکھتا ہے۔ پس حضرت ابن عمررضی الله عنہ کے فعل سے قیاس وتقلید دونوں کا جواز ثابت ہوگیا۔
تقلید کرنا کیوں ضروری ہے؟
بنیادی عقائداورشریعت کے وہ احکامات جومنصوص اورغیرمتعارض ہیں ان میں تو کسی کی تقلید کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا۔ جیسے عقیدہ توحید، عقیدہ آخرت، ختم نبوت، دن میں پانچ نمازوں کی فرضیت، رمضان کے روزوں کی فرضیت وغیرہ وغیرہ۔ ایسے بنیادی عقائد و شرعی احکامات جو نص قطعی سے ثابت ہیں اوران مسائل میں نصوص آپس میں متعارض نہیں ان میں توتقلید کی ضرورت ہی نہیں پڑتی کیوں کہ وہ سورج کی روشنی کی طرح واضح احکامات ہیں۔ تقلید کی ضرورت تو وہاں پڑتی ہیں جہاں ایک ہی مسئلے پر قرآن و حدیث سے دو احکامات ملتے ہوں، جیسے کسی عمل کے کرنے کا حکم بھی ملتا ہو اور نہ کرنے کا بھی۔ ایسی صورت میں تقلید کیئے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں۔ لہٰذا ایسے فروعی و اختلافی مسائل میں کسی ایک امام کی تقلید کرنی پڑتی ہے۔ مثلاً:
قرآن مجید میں ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا‘‘۔ ’’اسے اس کی ماں نے تکلیف سے اٹھائے رکھا اور اسے تکلیف سے جنا، اور اس کا حمل اور دودھ کا چھڑانا تیس مہینے ہیں‘‘۔ [سورۃ الأحقاف: ۱۵]
اسی طرح دوسری میں اﷲتبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ’’حَـمَلَتْهُ اُمُّهٝ وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ وَّفِصَالُـهٝ فِىْ عَامَيْنِ‘‘۔ ’’اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہے ‘‘۔ [سورۃ القمان: ۱۴]
پہلی آیت سے بچے کی مدعت رضاعت ڈھائی سال بنتی ہے، جبکہ دوسری آیت سے مدعت رضاعت دوسال بنتی ہے۔ اب یہاں ایک عام آدمی اس بات کا کیسے فیصلہ کرسکتاہے کہ قرآن کی کونسی آیت قابل عمل واستدلال ہے اور کونسی نہیں؟
اسی طرح حدیث میں آتا ہےکہ: "مسلم نے عبد الرحمٰن بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  صبح کی نماز کا وقت طلوع فجر سے لے کر اس وقت تک ہے جب تک سورج نہ نکلے، جب سورج نکل آئے تو نماز سے رک جائے کہ یہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے"۔ (صحیح مسلم :ج۱، ص۱۴۶)
اوردوسری حدیث میں ہے کہ: "ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر عصر کی نماز کی ایک رکعت بھی کوئی شخص سورج غروب ہونے سے پہلے پا سکا تو پوری نماز پڑھے (اس کی نماز ادا ہوئی نہ قضاء) اسی طرح اگر سورج طلوع ہونے سے پہلے فجر کی نماز کی ایک رکعت بھی پا سکے تو پوری نماز پڑھے"۔ (صحیح بخاری: ج۱، كتاب مواقيت الصلاة، باب مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ الْعَصْرِ قَبْلَ الْغُرُوبِ، رقم الحدیث ۵۵۶)
پہلی حدیث میں سورج کے نکلنے پرنماز سے رک جانے کا حکم ملتا ہے جبکہ دوسری حدیث سے سورج نکلنے سے پہلے سجدہ پالینے پر نمازمکمل کرنےکا حکم ملتا ہے، حالانکہ پہلاسجدہ پالینے کے بعدبھی تو سورج کا نکل جانایقینی طورپرممکن ہے۔ توایسی صورت میں ایک عام آدمی حدیث سے کیسے مسئلہ اخذ کرسکتاہے، جبکہ اس میں نہ تومسائل کے استنباط کی صلاحیت ہے اورنہ ہی اجتہادکی اہلیت، لہٰذا ایسے شخص کے لئے کسی مجتہد امام کی تقلید کے سواء کوئی چارہ نہیں۔ بالکل یہی معاملہ رفع الیدین، فارتحہ خلف الامام اوردیگراختلافی مسائل کابھی ہے۔
مجتہدین ومقلدین کے مختلف درجات
شیخ الہند شاہ ولی اﷲمحدث دہلویؒ جواپنے دورکے بلندپایہ محدث بے مثال فقیہہ زبردست اصولی جامع المعقول والمنقول اورمجتہدتھے۔ جن کو غیرمقلدین کے پیشوامولانا صدیق حسن خان صاحبؒ بھی رئیس المجتہدین اور سردارتسلیم کرتےہوئے آپ کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’انصاف ایں است کہ اگروجوداو درصدراول درزمانۂ ماضی بودامام الائمہ وتاج المجتہدین شمردہ می شود‘‘۔ ’’انصاف کی بات تویہ ہے کہ اگرشاہ صاحب کا وجودصدراوّل (پہلےزمانے) میں ہوتاتواماموں کے امام اورمجتہدین کے سردارشمارہوتے‘‘۔ (کتاب اتحاف النبلاء المتقين بمأثر الفقهاء و المحدثین: ص۳۰)
شیخ الہند شاہ ولی اﷲمحدث دہلویؒ نے اپنی تالیف ’’الامدادفی مآثرالأجداد‘‘ میں بتایاہےکہ اُن کا نسب حضرت عمربن الخطاب رضی اﷲعنہ تک پہنچتاہے۔ (فقہی اختلافات کی اصلیت اردو ترجمہ الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف: صفحہ ’’م‘‘)
شاہ ولی اﷲمحدث دہلویؒ نےاپنی کتاب عقدالجیدفی أحکام الاجتہادوالتقلید میں نہایت تفصیل کے ساتھ مجتہدین اوران کی تقلید کے مختلف درجات کاجائزہ لیتے ہوئے مجتہدین کے چارمختلف درجات بیان فرمائے ہیں۔
شاہ ولی اﷲمحدث دہلویؒ فرماتے ہیں: ’’معلوم ہونا چاہیئے کہ ان چارفقہی مسالک(حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی) کواختیار کرنے میں لوگوں کے چاردرجے اورمرتبے ہیں اورہرطبقے کے لئے ایک حدمقررہے۔ کسی کے لئے یہ جائزنہیں کہ اس حدسے آگے بڑھے۔
۱۔ اوّل مجتہد مطلق کامرتبہ جس کی طرف ان فقہی مسالک میں سے کوئی ایک فقہی مسلک منسوب ہے۔
۲۔ دوسرا مجتہد فی المذہب یعنی ان مسائل کی تخریج کرنے والے کامرتبہ۔
۳۔ تیسرےمتبحرفی المذہب کامرتبہ ہے، جواپنے مسلک کاحافظ ہے، اس کی جزئیات اور اصول پرپوری دسترس رکھتاہے۔ اپنے حفظ اورمہارت کی مدد سے اپنے ائمہ کے مسلک کے مطابق فتوے دیتاہے۔
۴۔ چوتھے مقلدمحض، جواپنے مسلک کے علماءسے فتوے لے کران پرعمل کرتاہے۔
اہل علم کی بیشترکتابوں میں ہرمرتبے کی شرائط اوراحکام تفصیل سے بیان کیئے گئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بعض لوگ ان مراتب میں جوباہمی فرق ہے نہ اس کوسمجھتے ہیں اورنہ ان کے درمیان کوئی امتیازکرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ احکام کی پہچان ان کے لئے دشوارہوجاتی ہےاوروہ ان احکام کوایک دوسرے سےمتناقص سمجھنے لگتے ہیں۔
لوگوں کے اس تحیراورخلط مبحث کودورکرنے کے لئے ہم نے ارادہ کیاہے کہ ہرمرتبے کے لئے ایک مستقل فصل رکھی جائے اوراس میں اس مرتبے سے متعلق احکام کی وصاحت کے ساتھ نشان دہی کی جائے‘‘۔ (عقدالجیدفی أحکام الاجتہادوالتقلید: ص۴۷)
شاہ ولی اﷲمحدث دہلویؒ نےاپنی کتاب الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف میں نہایت تفصیل کے ساتھ مقلدین اوران کی تقلید کے مختلف درجات کاجائزہ لیتے ہوئے ان کےتین مختلف درجات بیان فرمائے ہیں۔
شاہ ولی اﷲمحدث دہلویؒ فرماتے ہیں: ’’ہم نے جوکچھ بیان کیا ہے اس کی تائیدکتاب الانوارسے بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ اس کا مصنف کہتاہےکہ "جولوگ امام شافعیؒ، امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ یاامام احمدؒ کے مسلک کی طرف منسوب ہیں ان کی چندقسمیں ہیں۔
۱۔ طبقۂ عوام: جن کا امام شافعیؒ کی تقلید کرناان مجتہدین کے توسط سے ہوتاہے (جوامام شافعیؒ کی طرف منسوب ہوتے ہیں)۔
۲۔ وہ لوگ جودرجۂ اجتہادکوپہنچے ہوتے ہیں: اگرچہ وہ شخص جودرجۂ اجتہاد کوپہنچا ہواہووہ کسی مجتہدکی تقلید نہیں کرتامگراس کے باوصف وہ ایک امام کی طرف منسوب ہوتاہےکیونکہ وہ اجتہاد کے طریقے ادلۃ کے استعمال اوران کی باہمی ترتیب کاوہی اندازاختیارکرتاہے جواس امام کاطریقہ ہوتاہے۔
۳۔ طبقہ متوسطین: وہ لوگ جودرجۂ اجتہاد کونہیں پہنچے لیکن اجتہاد کے وہ اصول ان کے سامنے ہوتے ہیں اوروہ اس بات کی قدرت رکھتے ہیں کہ جومسئلہ (امام کے اقوال میں) تصریح کے ساتھ نہیں آیااسکوامام کے واضح کردہ اقوال پرقیاس کرسکتےہیں۔ یہ لوگ بھی امام کے مقلدہوتے ہیں اوران کے ساتھ وہ عالم لوگ بھی جوان کے مستنبط اقوال کواختیارکرتے ہیں۔ تاہم ان کے اصحاب کویہ حیثیت حاصل نہیں کہ ان کی تقلید کی جائے کیونکہ وہ خوددوسرے کے مقلد ہیں۔
ان دلائل کی روشنی میں کہ ابتدائی دوصدیوں میں کسی معین فقہی مذہب کواختیارکرنے کادستورنہ تھااورتیسری صدی میں کسی نہ کسی معین فقہی مذہب کواختیارکرناعام ہوگیااوریہ چیز ایک امرِ واجب قرارپائی"‘‘۔ (فقہی اختلافات کی اصلیت اردو ترجمہ الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف: ص۷۰-۶۹)
عامی شخص پرعالم کی تقلیدواجب ہے اگرچہ عالم اپنے فتوے میں غلطی پرہی کیوں نہ ہو۔ 
’’اعْلَم أَن الْعَاميّ الصّرْف لَيْسَ لَهُ مَذْهَب وَإِنَّمَا مذْهبه فَتْوَى الْمُفْتِي فِي الْبَحْر الرَّائِق لَو احْتجم أَو اغتاب فَظن أَنه يفطره ثمَّ أكل إِن لم يستفت فَقِيها وَلَا بلغه الْخَبَر فَعَلَيهِ الْكَفَّارَة لِأَنَّهُ مُجَرّد جهل وَأَنه لَيْسَ بِعُذْر فِي دَار الْإِسْلَام وَإِن استفتى فَقِيها فأفتاه لَا كَفَّارَة عَلَيْهِ لِأَن الْعَاميّ يجب عَلَيْهِ تَقْلِيد الْعَالم إِذا كَانَ يعْتَمد على فتواه فَكَانَ مَعْذُورًا فِيمَا صنع وَإِن كَانَ الْمُفْتِي مخطئا فِيمَا أفتى‘‘۔ ’’اگرکسی نے پچھنے لگوائے (یعنی حجامہ کرایا) یاغیبت کی، اوریہ گمان کیا کہ اس کا روزہ ٹوٹ گیاہے، کھالیا تواگرکسی فقیہ سے فتویٰ نہیں لیااور نہ اس کے پاس کوئی حدیث ہے، تواس پرکفارہ واجب ہے۔ کیونکہ محض جہالت کی وجہ سے ہوا، اور جہالت دارالاسلام میں عذرنہیں اور اگرکسی فقیہ سے فتویٰ لیااوران نے فتویٰ دے دیاکہ اس پر کفارہ واجب نہیں ہے، کیونکہ عام آدمی جب کسی عالم کے فتوے پراعتماد کرے، اگرچہ وہ عالم اپنے فتوے میں غلطی پرہی کیوں نہ ہو، تب بھی اس کی تقلید واجب ہے‘‘۔ (عقدالجیدفی أحکام الاجتہادوالتقلید: ص۷۲)
یہ کیسے ہوسکتاہے کہ تقلیدِشخصی کواﷲاوراس کے رسول ﷺنے واجب قرار نہیں دیا تووہ واجب کیسے ہوسکتی ہے؟
حضرت شاہ ولی اﷲمحدث دہلویؒ کسی معین فقہی مذہب کواختیار کرنے کے واجب ہونے پراشکال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’’وکان ھذاھوالواجب فی ذلک الزمان‘‘۔ ’’اس پر اشکال سکتاہےکہ ایک وقت میں کوئی چیز واجب نہ ہواوردوسرے وقت وہی چیزواجب ہوجائے درآنحالیکہ شریعت ایک ہی ہے‘‘؟ (الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف: ص۷۰؛ فقہی اختلافات کی اصلیت: ۶۹)
اس اشکال کاجواب دیتے ہوئے حضرت شاہ ولی اﷲؒ فرماتے ہیں کہ: ’’یہ اعتراض کہ مجتہدمستقل کی اقتداءپہلے واجب نہ تھی پھرواجب ہوگئی اس میں تناقص (تضاد) ہے جواپنی نفی خودکرتاہے۔
اس کاجواب یہ ہے کہ امرواجب دراصل یہ ہے کہ امت میں کوئی شخص ایساہوجوفروعی احکامِ شریعت کاعلم اس کے تفصیلی دلائل کے ساتھ رکھتاہواس پرسب اہل حق متفق ہیں۔ اورجس بات پرکوئی امرواجب موقوف ہوتاہے وہ بات بھی واجب ہوتی ہےاورجب ادائے واجب کے متعددطریقے ہوں توان میں سے کسی ایک طریقہ کواختیار کرناواجب ہوگااس کے لئے کسی خاص طریقہ کاتعین لازم نہیں۔ اگراس کا ایک ہی طریقہ ہوتوخاص اس طریقہ کاحصول واجب ہوگا۔
اسی طرح اسلاف کے پاس اس واجب اصلی (یعنی اجتہاد) کوحاصل کرنے کےچند طریقے تھے اوران طریقوں میں سے کسی ایک طریقہ کواختیارکرناواجب تھا، کسی خاص طریقہ کاتعین ضروری نہ تھاپھرجب سوائے ایک طریقے کے باقی طریقے ختم ہوگئے تویہی مخصوص طریقہ واجب رہا۔
مثلاً: سلف میں حدیثیں نہیں لکھی جاتی تھیں لیکن آج احادیث کالکھنا واجب ہے کیونکہ آج ان کتب احادیث کے سوا حدیثوں کی روایت کی اورکوئی صورت نہیں ہے اسی طرح اسلاف حصولِ علم نحو ولغت میں مشغول نہ ہوئے تھے کیونکہ عربی ان کی اپنی زبان تھی اورانہیں ان علوم میں سرکھپانے کی حاجت نہ تھی لیکن آج (ہمارے زمانے میں) عربی زبان کاعلم باقاعدہ حاصل کرنا واجب ہوگیاکیونکہ سابقہ اہل عرب کازمانہ بہت دور چلاگیا۔ ہمارے اس قول کے شواہد بہت ہیں۔
اسی پرایک معین امام کی تقلید کے واجب ہونے کوبھی قیاس کرنا چاہیئے‘‘۔ (فقہی اختلافات کی اصلیت اردو ترجمہ الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف: ص۷۰-۷۲)
یہی وہ بات ہے جس کی طرف حضرت شاہ ولی اﷲؒ نے ان الفاظ میں اشارہ فرمایا کہ تقلید شخصی کاوجوب کوئی شرعی حکم نہیں بلکہ ایک انتظامی فتویٰ ہے۔
اس کی ایک واضح نظیر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد میں جمعِ قرآن کا واقعہ ہے، جب انہوں نے قرآنِ حکیم کا ایک رسم الخط متعین کر دیا تھا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے پہلے قرآنِ حکیم کو کسی بھی رسم الخط کے مطابق لکھا جا سکتا تھا کیونکہ مختلف نسخوں میں سورتوں کی ترتیب بھی مختلف تھی اور اس ترتیب کے مطابق قرآنِ حکیم لکھنا جائز تھا لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ایک شدیدفتنہ کے سدباب کےلئے پوری امت کی اجتماعی مصلحت کے پیشِ نظر اس اجازت کو ختم فرما کر قرآن کریم کے ایک رسم الخط اور ایک ترتِیب کو متعین کر کے امت کو اس پر متفق و متحد کر دیا اور امت میں اسی کی اتباع پر اجماع ہوگیا۔ بالکل یہی معاملہ تقلید شخصی کابھی ہے، کہ ایک عظیم فتنہ کے سدباب کے لئے اس کو واجب قراردیاگیاہے۔
آج کل کے غیرمقلدین حضرات ، درحقیقت تو ان میں کوئی ایک بهی غیرمقلد نہیں ہے بلکہ سب کے سب مقلد ہی ہیں جوآج کل کے چند جہلاء کی تقلید کرتے ہیں اوران جہلاءکو شیخ کےلقب سے پکارتے ہیں۔ کوئی بهی جاہل شخص جوفقہ حنفی یا امام اعظم ابوحنیفہؒ یا کسی اورحنفی عالم کے خلاف کچھ واہیات باتیں بولتا یا لکهتا ہے اورقرآن وحدیث  کی غلط تشریحات بیان کرتے ہوئے مقلدین کو ان آیات واحادیث کا مصداق ٹھہرانے کی ناکام کوشش کرتاہے تو وه ان کے نزدیک شیخ بن جاتا ہے۔ لیکن اس پر حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ بالکل اسی طرح صحابہ کرام ؓکے دور میں بھی خوارج کافرقہ وجود میں آیا تھا جوقرآن کی آیات پڑھ کر صحابہ کرامؓ کی نفی کرتا تھا اور حضرت علیؓ کی خلافت کو تسلیم کرنے سے انکا رکرتاتھااور اس کی دلیل قرآنِ کریم کی اس آیت سے دیاکرتا تھا کہ’’إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ‘‘،  ’’حکومت صرف اﷲ کی ہے‘‘ یعنی خلافت کسی کی نہیں چلے گی۔ بالکل اسی طرح اسلامی تاریخ کےہر دور میں ایسے فرقے وجودمیں آتے رہے ہیں جوقرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ کو بنیاد بناکر اپنی جہالت کے سبب اہل علم سے اختلاف کرتےرہےہیں۔ ایسے باطل فرقوں کے رد میں شیخ الاسلام ابن تيمية اورابن القیم رحمهما الله تعالیٰ کے شاگردِخاص حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ الله نےساتویں صدی ہجری میں ایک مستقل انتہائی لطیف ومفید رسالہ لکھ کرہردورکےجاہلین خصوصاً آج کے دور کے غیرمقلدین حضرات پرزبردست رد کیا ہے،  اس رسالہ کا نام ہے’’الرد علی من اتبع غیر المذاہب الاربعہ‘‘یعنی ان لوگوں پر رد جو مذاہب اربعہ (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کے علاوه کسی اورکی اتباع کرتے ہیں۔
حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ الله(متوفی ۷۹۵)نے’’الرد علی من اتبع غیر المذاہب الاربعہ‘‘ ان لوگوں کی رد وتردید میں لکهی ہے جو فروعی واجتہادی مسائل میں مذاہب اربعہ (حنفی، شافعی، مالکی،حنبلی) کے علاوه کسی اور کی اتباع کرتے ہیں، اورپهر جولوگ صرف یہی نہیں کہ مذاہب اربعہ کی اتباع نہیں کرتے بلکہ ساتھ ہی دن رات ان پرلعن طعن بهی کرتے ہیں توایسے لوگ کتنے خطرے ونقصان میں ہیں وه بالکل واضح ہے۔
حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ: ’’فاقتضت حكمة الله سبحانه أن ضبط الدين وحفظه بأن نصب للناس أئمة مجتمعاً على علمهم ودرايتهم وبلوغهم الغاية المقصودة في مرتبة العلم بالأحكام والفتوى من أهل الرأي والحديث فصار الناس كلهم يعولون في الفتاوى عليهم ويرجعون في معرفة الأحكام إليهم وأقام الله من يضبط مذاهبهم ويحڑ قواعدهم، حتى ضبط مذهب كل إمام منهم وأصوله وقواعده وفصوله حتى ترد إلى ذلك الأحكام ويضبط الكلام في مسائل الحلال والحرام وكان ذلك من لطف الله بعباده المؤمنين ومن جملة عوائده الحسنة في حفظ هذا الدين ولولا ذلك لرأى الناس العجاب مِن كل أحمق متكلف معجبٍ برأيه جريءعلى الناس وثَّاب فيدعي هذا أنه إمام الأئمة ويدعي هذا أنه هادي الأمة وأنه هوالذي ينبغي الرجوع دون الناس إليه والتعويل دون الخلق عليه ولكن بحمد الله ومنته انسد هذا الباب الذي خطره عظيم وأمره جسيم وانحسرت هذه المفاسد العظيمة وكان ذلك من لطف الله تعالى لعباده وجميل عوائده وعواطفه الحميمة ومع هذا فلم يزل يظهر من يدعي بلوغ درجة الاجتهاد ويتكلم في العلم من غير تقليدٍ لأحد من هؤلاء الأئمة ولا انقياد فمنهم من يسوغ له ذلك لظهور صدقه فيما ادعاه ومنهم من رد عليه قوله وكذب في دعواه وأما سائر الناس ممن لم يصل إلى هذه الدرجة فلا يسعه إلا تقليد أولئك الأئمة والدخول فيما دخل فيه سائر الأمة‘‘۔ ’’اللہ تعالی كى حكمت ہے كہ اس كے دين كى حفاظت و ضبط اس طرح ہوئى كہ لوگوں كے ليے آئمہ كرام كھڑے كيے جن كاعلم و فضل اور درايت احكام وفتوىٰ ميں انتہائى درجہ كو پہنچا ہوا ہے وہ آئمہ اہل رائے ميں بھى ہوئے اور اہل حديث یعنی محدثین ميں بھى، اس طرح سب لوگ ان كے فتاویٰ پر چلنے لگے اور احكام معلوم كرنے كے ليے ان آئمہ كرام كى طرف رجوع كرتے ہيں اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے ايسے افراد پيدا كيے جنہوں نے ان كے مذاہب كواحاطہ تحريرميں لايا اور ان كے قواعد لكھے حتیٰ كہ ہر ايک امام كا مسلک اور اس كے اصول و قواعد اور فصول مقرر كرديئےكہ احكام معلوم ہوں اورحلال وحرام كے مسائل معلوم وضبط كيے جاسكيں يہ اللہ تعالى كى اپنے بندوں پر مہربانى و رحمت تھى اور اس دين كى حفاظت ميں ايک اچھا احسان تھا، اگر يہ نہ ہوتا تو لوگ ہراحمق كى جانب سےعجيب وغريب اشياء ديكھتے جو بڑى جرأت كے ساتھہ اپنى احمقانہ رائے لوگوں كے سامنے بيان كرتا پھرتا، اور اس رائے پرفخربھى كرتا، اور امت كے امام ہونے كا دعوىٰ كر ديتا، اور يہ باور كراتا كہ وہ اس امت كا راہنما ہے، اور لوگوں كى اسى كى طرف رجوع كرنا چاہيے، كسى اور كى جانب نہيں ليكن اللہ كا فضل اور اس كا احسان ہے كہ اس نے اس خطرناک دروازے كو بند كر ديا، اور ان عظيم خرابيوں كو جڑ سے كاٹ پھينكا، اور يہ بھى اللہ كى اپنے بندوں پر مہربانى ہے لیكن اس كے باوجود ايسے افراد اب تک ظاہر ہوتے اور سامنے آتے رہتے ہيں جو اجتہادكے درجہ تک پہنچنے كا دعویٰ كرتے، اور ان آئمہ اربعہ كى تقلید كيے بغير علم ميں باتيں كرتے ہيں، اور باقى سارے لوگ جو اس درجہ تک نہيں پہنچے انہيں ان چاروں كى تقلید كيے بغير كوئى چارہ نہيں، بلكہ جہاں سارى امت داخل ہوئى ہے انہيں بھى داخل ہونا ہوگا‘‘۔ (الرد على من اتبع غير المذاہب الاربعۃ: ص ۲۶-۲۸)
سبحان اﷲحافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ الله کے اس تبصرے کا ایک ایک لفظ مبنی برحقیقت اورکهلا اور واضح پیغام حق ہے اور مذاہب ائمہ اربعہ سے بغاوت کی صورت میں جن خدشات وخطرات کے واقع ہونے کی طرف ابن رجب رحمہ اﷲ نے اشاره کیا ہے آج کے دور میں ہم اس کا مشاہده کر رہے ہیں۔
۱۔ جیساکہ شیعہ حضرات نے صحابہ کرام رضی اﷲعنہم اجمعین کی تقلید کا انکارکرتے ہوئے متعہ کے حرام ہونے اورامی عائشہ رضی اﷲعنہا، حضرت ابوبکرصدیق، حضرت عمرفاروق، حضرت عثمان غنی اورحضرت امیر معاویہ رضی اﷲعنہم اجمعین کے مقام ومرتبہ پرصحابہ کرامؓ کے ہونے والے اجماع کا انکارکیا۔
۲۔ مرزاغلام احمد قادیانی نےتقلید کا انکارکرتےہوئےختم نبوت کا انکارکیااورصحابہ کرامؓ، تابعین وتبع تابعینؒ، ائمہ مجتہدینؒ، مفسرینؒ اورمحدثینؒ سمیت پوری امت مسلمہ کے ہونے والے اجماع کا انکارکرکیا۔
۳۔ اسی طرح منکرین حدیث نے ائمہ محدثین کی تقلید کا انکارکرتے ہوئےکتب احادیث بلکہ سرے سے احادیث کا ہی انکار کردیااوراحادیث کے حجت شرعی ہونے پرامت مسلمہ کے ہونے والے اجماع کا انکارکیا۔
۴۔ بالکل ویسے ہی غیرمقلدین حضرات نے ائمہ مجتہدین کی تقلید کا انکارکرتے ہوئےطلاق ثلاثہ، بیس رکعات تراویح اورعامی شخص پرتقلید کے واجب ہونےپرخیرالقرون کے زمانے سے چلے آنے والے اجماع کا انکارکرکیا۔
۵۔ پھر ان ہی میں سے پیداہونے والے فرقہ غیرمقلدین جماعت المسلمین (مسعودی فرقے)نے ائمہ مجتہدین کے ساتھ ساتھ ائمہ محدثین کی تقلید کا بھی انکار کرتے ہوئے بخاری و مسلم کے"اصح الکتاب بعد الکتاب ﷲ" (قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب) ہونے پر۱۲۰۰ سالوں سےچلے آنے والے اجماع کاانکار کیااوربخاری ومسلم کی مرسل اورمدلس روایات کو ضعیف قراردیا۔
۶۔ بالکل اسی طرح موجودہ دورمیں پروفیسرغامدی صاحب نے بھی تقلید کا انکار کرتے ہوئے قربِ قیامت میں نزولِ حضرت عیسیٰؑ، رجم کی سزا، داڑھی اوردیگراحکامات کےوجوب پر خیرالقرون کے زمانے سے چلے آنے والے اجماع کا انکارکیا۔
مندرجہ بالاتمام باطل فرقے تقلید کا انکار کرنے کے بعدہی وجود میں آئے ہیں۔ کیونکہ جب کوئی شخص مجتہدین کی تقلید کا انکار کرتاہےتوپھر محدثین، مفسرین حتیٰ کہ صحابہ کرامؓ کی تقلید کا بھی انکارکربیٹھتا ہے کیونکہ اس کا ہرشخص پرسے اعتماد ختم ہوجاتاہے اور وہ یہ سوچنے پرمجبورہوجاتا ہےکہ جب مجتہدین سے اجتہاد کرنے میں غلطی ہوسکتی ہے توپھرمحدثین سے کسی حدیث کوصحیح یا ضعیف قراردینے میں اورکسی راوی کو ثقہ یا کذاب کہنے میں بھی غلطی ہوسکتی ہے اورکسی مفسرسے تفسیرقرآن کے سمجھنے اور بیان کرنے میں بھی غلطی ہوسکتی ہے۔
حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ الله ایک سوال نقل کرتے ہیں اورخود ہی اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’فإن قيل: فما تقولون في نهي الإمام أحمد وغيره من الأئمة عن تقليدهم وكتابة كلامهم، وقول الإمام أحمد: لا تكتب كلامي ولا كلام فلان وفلان، وتعلم كما تعلمنا۔ وهذا كثير موجود في كلامهم؟
قيل: لا ريب أن الإمام أحمد رضي الله عنه كان ينهى عن آراء الفقهاء والاشتغال بها حفظاً وكتابة ويأمر بالاشتغال بالكتاب والسنة حفظاً وفهماً وكتابة ودراسة وبكتابة آثار الصحابة والتابعين دون كلام مَن بعدهم ومعرفة صحة ذلك من سقمه والمأخوذ منه والقول الشاذ المطرح منه ولا ريب أن هذا مما يتعين الاهتمام به والاشتغال بتعلمه أولاً قبل غيره فمن عرف ذلك وبلغ النهاية من معرفته كما أشار إليه الإمام أحمد فقد صارعلمه قريباً من علم أحمد فهذا لا حجرعليه ولا يتوجه الكلام فيه إنما الكلام في منع من لم يبلغ هذه الغاية ولا ارتقى إلى هذه النهاية ولا فهم من هذا إلا النزر اليسير كما هو حال أهل هذا الزمان بل هو حال أكثر الناس منذ أزمان مع دعوى كثير منهم الوصول إلى الغايات والانتهاء إلى النهايات وأكثرهم لم يرتقوا عن درجة البدايات‘‘۔ ’’اگر يہ كہا جائے کہ امام احمد رحمه الله وغيرہ نے جو اپنى كتاب اور كلام ميں تقلید كرنے سے منع كيا ہے اس كے متعلق آپ كيا كہتے ہيں؟ اور پھر امام احمد رحمہ اللہ كا قول ہے ميرا اور فلان اور فلان كا كلام مت لكھو، بلكہ جس طرح ہم نے سيكھا ہے اور تعليم حاصل كى ہے اس طرح تم بھى تعليم حاصل كرو ائمہ كى كلام ميں يہ بہت موجود ہے؟
اس كے جواب ميں كہا جائيگا كہ بلاشک و شبہ امام احمد رحمہ اللہ فقہاء كى آراء لكھنے اور حفظ كرنے ميں مشغول ہونے سے منع كيا كرتے تھے بلكہ كہتے كہ كتاب و سنت كى فہم اور تعليم و تدريس اور حفظ ميں مشغول ہوا جائے اور صحابہ كرامؓ اور تابعين عظامؒ كے آثار لكھا كريں ان كے بعد والوں كى نہيں اور اس ميں سے صحيح اور ضعيف شاذ و مطروح قول كو معلوم كريں بلاشک اس سےیہ تعين ہو جاتا ہے كہ كتاب و سنت كى تعليم كا اہتمام كرنا كسى دوسرے كام ميں مشغول ہونے سے بہتر ہے بلكہ پہلے اس كى تعليم حاصل كى جائے۔ لہٰذا جو يہ جان لے اور اس كى معرفت كى انتہاء تک پہنچ جائے جيسا كہ امام احمد رحمه الله نے اشارہ كيا ہے تو اس كا علم تقريباً امام احمد رحمه الله كے قريب ہو گيا تو اس پر كوئى روک ٹوک نہيں ہے اور نہ ہى اس كے متعلق كلام کیاجارہا ہے، بلكہ كلام تو اس شخص كے متعلق ہے جو اس درجہ تک نہيں پہنچا اور نہ ہى وہ اس كى انتہاء كو پہنچا ہے اور نہ اس نے کچھ سمجھا ہے ہاں تهوڑا ساعلم ضرور ہے جيسا كہ اس دور كے لوگوں كى حالت ہے بلكہ كئى زمانوں سے اكثر لوگوں كا يہى حال ہے وہ انتہاء درجہ تک پہنچنے اورغايت كو پانے كا دعوىٰ كرتے ہيں حالانكہ وہ تو ابتدائى درجات تک بھى نہيں پہنچ سكے‘‘۔ (الرد على من اتبع غير المذاہب الاربعۃ: ص ۳۵-۳۶)
حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ الله(متوفی ۷۹۵)نے اس رسالہ میں  دو اہم فیصلے سنائے ہیں:
۱۔ فروعی مسائل میں صرف اورصرف مذاہب الاربعہ کی اتباع
۲۔غیرمذاہب الاربعہ کی اتباع نہ کرنا
کسی مسلمان کے لیئے یہ جائزنہیں ہے کہ فروعی مسائل میں مذاہب الاربعہ کے علاوه کسی اورکو اختیار کرے، لہٰذا ائمہ اربعہ کے علاوه کسی کی تقلید جائزنہیں ہے۔ ابن رجب الحنبلی رحمہ الله نے اپنے اس فیصلے پرکئی دلائل پیش کئے ہیں، مثلاً: صحابہ کرام رضی الله عنہم کا لوگوں کو صرف مصحف عثمانی کی قراءت پرجمع کرنا، جب انهوں نے دیکها کہ اب مصلحت ومنفعت اسی میں ہے، کیونکہ لوگوں کو اگرآزاد چهوڑدیا جائے تومختلف مفاسد ومہالک وخطرات میں مبتلا ہوجائیں گے، لہٰذااحكام کے مسائل اورحلال وحرام کے فتاویٰ کا بهی یہی حال ہے،  پهراس دعویٰ پر ابن رجب الحنبلی رحمہ الله نے کئی دلائل ذکرکئے مثلاً:
۱۔ اگرلوگوں کو معدود ومشہورائمہ (یعنی ائمہ اربعہ)کے اقوال پرجمع نہ کیا جائے تو دین میں فساد واقع ہوجائے گا۔
۲۔ ہرأحمق بے وقوف وجاہل اپنے آپ کو مجتہدین کے زمره میں شمارکرے گا۔
۳۔ کبهی کوئی جهوٹا قول کوئی بات مُتقدمین سلف کی طرف منسوب کیا جائے گا۔
۴۔ اورکبهی کوئی تحريف کرکے ان کی طرف منسوب کیا جائے گا، اورکبهی یہ قول بعض سلف کی خطاء ولغزش ہوگی جس کے ترک کرنے اورچهوڑنے پر مسلمانوں کی ایک جماعت کا اجتماع ہوگا۔
۵۔ لہٰذا مصلحت کا تقاضا وہی ہے جو الله تعالیٰ کی قضاء وقدر میں مقررہوچکا ہے یعنی لوگوں کو مشہورائمہ (یعنی ائمہ اربعہ) رضی الله عنہم اجمعين کے مذاہب پرجمع کیا جائے۔
ابن رجب الحنبلی رحمہ الله ایک اعتراض نقل کرتے ہیں وه یہ کہ ممکن ہے کہ حق ائمہ اربعہ کے اقوال سے خارج ہو ؟
پھرابن رجب الحنبلی رحمہ الله نے اس شبہ کے واقع ہونے کا انکارکیا ہے کہ حق ائمہ اربعہ کے اقوال سے خارج ہو، اوراس کی دلیل یہ دی کہ کیونکہ ’’لأن الأمة لا تجتمع على ضلالة‘‘، ’’امت مسلمہ کبهی گمراہی پرجمع نہیں ہوسکتی ‘‘۔
الله تعالی کی بے شمار رحمتیں نازل ہوں تمام ائمہ وعلماء اہل سنت پر کہ ہر مسئلہ میں ہر پہلو اور ہرمیدان میں ہماری راہنمائی فرمائی اورتمام فتنوں سے ہمیں پہلے ہی آگاه وخبرادار کیا ، حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ الله کا مبنی برصدق وحق کلام وتبصره آپ نے پڑھ لیا، یقیناًاس کلام میں ہم سب کے لئے اورخصوصاًان نادان لوگوں کے لئے بڑی عبرت ونصیحت ہے جنہوں نے دین کے معاملہ ائمہ حق وہدی ائمہ اربعہ کی اتباع چهوڑ کر آج کل کے چند جاہل لوگوں کی اورنفس وشیطان کی اتباع کا طوق اپنے گلے میں ڈال دیا ہے۔
آئمہ کرام کا حدیث سمجھنے میں اختلاف بالکل اسی طرح سے ہے جیسا کہ صحابہ کرام رضی الله عنھم کا حدیث سمجھنے میں ہواتھا۔
’’حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ مَيْمُونٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا صَخْرُ بْنُ جُوَيْرِيَةَ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، كَانَ يَرَى التَّحْصِيبَ سُنَّةً وَكَانَ يُصَلِّي الظُّهْرَ يَوْمَ النَّفْرِ بِالْحَصْبَةِ۔‏ قَالَ نَافِعٌ قَدْ حَصَّبَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَالْخُلَفَاءُ بَعْدَهُ‘‘۔ ’’نافع ابن عمررضی اﷲعنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ محصب میں اترنے کوسنت جانتے تھےاور ظہر وہیں پڑھتے تھےنحرکے دن کی۔ نافع نے کہاکہ محصب میں اترے ہیں رسول اﷲﷺاورآپ کے بعداترے ہیں خلیفہ آپ کے‘‘۔
’’حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو كُرَيْبٍ قَالاَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ نُزُولُ الأَبْطَحِ لَيْسَ بِسُنَّةٍ إِنَّمَا نَزَلَهُ رَسُولُ اللَّهِﷺلأَنَّهُ كَانَ أَسْمَحَ لِخُرُوجِهِ إِذَا خَرَجَ‘‘۔ ’’حضرت عائشہ رضی اﷲعنہانے فرمایاکہ محصب میں اترناکچھ واجب نہیں اور جناب رسول اﷲﷺتو صرف اس لئے وہاں اترے ہیں کہ وہاں سے نکلناآسان تھاجب مکہ سے آپ نکلے‘‘۔ (صحيح مسلم: كِتَاب الْحَجِّ، بَاب اسْتِحْبَابِ النُّزُولِ بِالْمُحَصَّبِ يَوْمَ، رقم الحديث: ۳۱۶۸، ۳۱۶۹)
ایک فعل جو رسول الله سے صادر ہوا جو ظاهرا ًدلیل ہے سنّت ہونے کی۔چناچہ ابن عمر رضی الله عنہ اسی بنا پر اسے سنّت کہتے ہیں۔اس کی نسبت ام المومنین حضرت عائشہ رضی الله عنہامحض اپنی قوت اجتہادیہ سے فرماتی ہیں کہ یہ فعل سنّت نہیں، آپﷺاتفاقاً وہاں ٹھہرگئےتھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایسے اجتہاد کو صحابہ (رضی الله عنھم) مقابلہ حدیث کا نہ سمجھتے تھے۔ اس کی نظیر ہے حنفیہ کا یہ قول کہ نمازجنازہ میں جو فاتحہ پڑھنا منقول ہے،  یہ سنّت مقصودہ نہیں، اتفاقاً بطورثنا و دعاء کے پڑھ دی تھی یا ان کا یہ قول کہ جنازہ کی وسط کے محاذاة میں کھڑا ہونا قاصدا نہ تھا بلکہ اتفاقاً کسی مصلحت سے تھا تو یہ حضرت بھی قابل ملامت نہیں ہیں۔اس کے برعکس نمازمیں امام کے پیچھے خاموش رہنے پرقرآن کی آیت اوراحادیث بھی اس بات کی گواہی دیتی ہیں۔
’’حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ خَلِيلٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ـ وَهْوَ الشَّيْبَانِيُّ ـ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، فَقَالَ عُمَرُ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ "إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَىِّ‏"‘‘۔ ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مردے کو اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب کیا جاتا ہے‘‘۔
’’حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضى الله عنهما فَلَمَّا مَاتَ عُمَرُرضى الله عنه۔ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَائِشَةَرضى الله عنها۔ فَقَالَتْ رَحِمَ اللَّهُ عُمَرَ، وَاللَّهِ مَا حَدَّثَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِنَّ اللَّهَ لَيُعَذِّبُ الْمُؤْمِنَ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ۔‏ وَلَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏إِنَّ اللَّهَ لَيَزِيدُ الْكَافِرَ عَذَابًا بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ‏"۔ وَقَالَتْ حَسْبُكُمُ الْقُرْآنُ ‏{‏وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى‏}‘‘۔ ’’ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ جب عمر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا تو میں نے اس حدیث کا ذکر عائشہ رضی اللہ عنہا سے کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ رحمت عمر رضی اللہ عنہ پر ہو۔ بخدا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ اللہ مومن پر اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب کرے گا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کافر کا عذاب اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے اور زیادہ کر دیتا ہے۔ اس کے بعد کہنے لگیں کہ قرآن کی یہ آیت تم کو بس کرتی ہے کہ }کوئی کسی کے گناہ کا ذمہ دار اور اس کا بوجھ اٹھانے والا نہیں{‘‘۔ (صحيح البخاری: كِتَاب الْجَنَائِزِ، باب قَوْلِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم: «يُعَذَّبُ الْمَيِّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ»إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهِ، رقم الحديث: ۱۲۹۰، ۱۲۸۸)
اس مسئلہ پر ابن عمررضی اﷲعنہ اور امی عائشہ رضی اﷲعنہاکا ایک مشہوراختلاف تھا کہ میت پر اس کے گھروالوں کے نوحہ کرنے کی وجہ سے عذاب ہوگا یا نہیں؟ امی عائشہ رضی اﷲعنہا کا خیال یہ تھا کہ میت پر اس کے گھروالوں کے نوحہ کرنے سے عذاب نہیں ہوتا کیونکہ ہر شخص صرف اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے۔ امی عائشہ رضی اﷲعنہا کی دلیل قرآن کی اس آیت سے ہے کہ ’’‏وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى۔ [سورۃ الانعام: ۱۶۴]‏‘‘کسی پردوسرے کی کوئی ذمہ داری نہیں اس لئے نوحہ کی وجہ سے جس گناہ کے مرتکب مردہ کے گھروالے ہوتے ہیں اس کی ذمہ داری مردے پرکیسے ڈالی جاسکتی ہے؟ لیکن اس کے برعکس حضرت ابن عمررضی اﷲعنہ کی دلیل یہ حدیث تھی کہ ’’کہ مردے کو اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب کیا جاتا ہے‘‘۔ حدیث واضح اور خاص میت کے لئے تھی اور قرآن میں ایک عام حکم بیان ہوا ہے۔ عائشہ رضی اﷲعنہا کا جواب یہ تھا کہ ابن عمررضی ا ﷲعنہ سے حدیث سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔ رسول اﷲﷺکا ارشاد ایک خاص واقعہ سے متعلق تھا، کسی یہودی عورت کے انتقال پر۔ اس پر اصل عذاب کفر کی وجہ سے ہورہا تھالیکن مزید اضافہ گھروالوں کے نوحہ کرنے کی وجہ سے کردیا گیا۔ لہٰذا حضوراکرمﷺ نے اس موقع پر جو کچھ فرمایاوہ مسلمانوں کے بارے میں نہیں تھا۔ اس کے باوجود بھی ائمہ کرام نے حضرت ابن عمررضی اﷲعنہ کے خلاف امی عائشہ رضی اﷲعنہاکے اس استدلال کو تسلیم نہیں کیا۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جس طرح قرآن و حدیث کو سمجھنے میں صحابہ کرامؓ میں اختلافات ہوئے بالکل اسی طرح آئمہ مجتہدین میں بھی قرآن و حدیث کو سمجھنے میں اختلافات ہوئے۔ جس مجتہد کی نظرمیں جو دلیل بہترتھی اس نے اسی سے استدلال کیا اوربعدمیں ان کے پیروکاروں نے اس مجتہد کے استدلال پر اعتماد کرتے ہوئے اسی پر عمل کیا۔ اسی اعتماد کا دوسرا نام تقلید ہے۔
جس شخص کو قوت اجتہادیہ حاصل نہ ہو اور مجتہد نہ ہو اس کو اجتہاد کرنے کی اجازت نہیں، اور ممکن ہے کہ ایک شخص حافظ حدیث (محدث) ہو اور مجتہد نہ ہو اس لئے صرف جمع روایات (احادیث) سے قابل تقلید ہونا ضروری نہیں۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى الِلَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَضَّرَ اللَّهُ عَبْدًا سَمِعَ مَقَالَتِي فَحَفِظَهَا وَوَعَاهَا وَأَدَّاهَا، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى غَيْرِ فَقِيهٍ وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ"۔ ’’حضرت ابن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلے الله علیہ وسلم نے فرمایا: تروتازہ فرماویں الله تعالیٰ اس بندے کو جو میری حدیث سنے اور اس کو یاد رکھے اور دوسرے کو پہنچاوے کیونکہ بعضے پہنچانے والے علم کے خود فقیہ (سمجھ رکھنےوالے) نہیں ہوتے اور بعضے ایسوں کو پہنچاتے ہیں جو اس پہنچانے والے سے زیادہ فقیہ (سمجھ رکھنےوالے) ہوتے ہیں‘‘۔ (جامع الترمذيكِتَاب الْجُمُعَةِأَبْوَابُ السَّفَرِ، رقم الحديث: ٢٦٥٧، ٢٦٥٨)
اس حدیث میں صاف تصریح ہے کہ بعض محدث، حافظ الحدیث صاحبِ فہم نہیں ہوتے یا قلیل الفہم ہوتے ہیں۔حافظ القرآن اور حافظ الحدیث ہونا اور بات ہے اور قرآن و حدیث کا فہم حاصل ہونا اوربات ہے۔یہی وجہ ہے کہ محدثین تو بہت سے گزرے ہیں لیکن تمام محدث فقیہ نہیں تھے۔
اس حدیث میں صاف تصریح ہے کہ بعض حافظ الحدیث صاحبِ فہم نہیں ہوتے یا قلیل الفہم ہوتے ہیں۔ حافظ الحدیث ہونا اور بات ہے اور حدیث کا فہم حاصل ہونا اوربات ہے۔
’’عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّهُ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ يَسْأَلُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَمَسَّهَا، قَالَ عَطَاءٌ: فَقُلْتُ: إِنَّمَا طَلَاقُ الْبِكْرِ وَاحِدَةٌ، فَقَالَ لِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ: "إِنَّمَا أَنْتَ قَاصٌّ، الْوَاحِدَةُ تُبِينُهَا، وَالثَّلَاثَةُ تُحَرِّمُهَا حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ"‘‘۔
’’عطا بن یسار سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت عبدللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہ سے مسئلہ پوچھا کہ کسی شخص نے اپنی بیوی کو قبل صحبت تین طلاق دیں، تو عطا (رحمہ الله) نے فرمایا کہ باکرہ کو ایک ہی طلاق پڑتی ہے۔ تو حضرت عبداللہ رضی الله عنہ بولے کہ تم تو نرے واعظ آدمی ہو (یعنی فتویٰ دینا کیا جانو)، ایک طلاق سے تو وہ بائن ہوجاتی ہے اور تین طلاق سے حلالہ کرانے تک حرام ہوجاتی ہے‘‘۔ (موطأ مالك رواية يحيى الليثيكِتَاب الطَّلَاقِ:بَابُ طَلَاقِ الْبِكْرِ، رقم الحديث: ١١٧١)(تیسیرکلکتہ: صفحہنمبر٣١٤)
حضرت عطا (رح) کے فتویٰ کو، باوجود ان کے اتنے بڑے محدث و عالم ہونے کے، حضرت عبداللہ ؓنے محض ان کی قوت اجتہادیہ کی کمی سے معتبر و معتدبہ نہیں سمجھا، اور "إنما أنت قاص" سے ان کے مجتہد نہ ہونے کی طرف اشارہ فرمایا، جس کا حاصل یہ ہے کہ نقل روایت اور بات ہے اور افتاء و اجتہاد اور بات ہے۔ آگے اس کی دلیل سنے کے باوجود حافظ الحدیث ہونے کے مجتہد نہ ہونا ممکن ہے۔
مجتہد اگر اجتہاد میں غلطی کرجائے توبھی اُسے ایک اجرملتاہےجبکہ غیرمجتہد غلطی کرجائے تو اسے گناہ ہوگا۔
’’حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ، مَوْلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ "‏إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ‏"۔ قَالَ فَحَدَّثْتُ بِهَذَا الْحَدِيثِ أَبَا بَكْرِ بْنَ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ فَقَالَ هَكَذَا حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ‏، وَقَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُطَّلِبِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مِثْلَهُ‘‘‏۔ ’’نبی ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے کہ جب حاکم (مجتہد)کوئی فیصلہ اپنے اجتہاد سے کرے اور فیصلہ صحیح ہو تو اسے دہرا ثواب ملتا ہے اور جب کسی فیصلہ میں اجتہاد کرے اور غلطی کر جائے تو اسے اکہرا ثواب ملتا ہے‘‘۔ (صحيح بخاری، کتاب الاعتصام، باب أَجْرِ الْحَاكِمِ إِذَا اجْتَهَدَ فَأَصَابَ أَوْ أَخْطَأَ، رقم الحدیث ۷۳۵۲)
’’حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، -يَعْنِي ابْنَ أَبِي أَيُّوبَ- عَنْ بَكْرِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏"‏مَنْ أَفْتَى"۔‏ح وَحَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ عَنْ بَكْرِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي نُعَيْمَةَ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ الطُّنْبُذِيِّ -رَضِيعِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ- قَالَ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم"‏مَنْ أُفْتِيَ بِغَيْرِ عِلْمٍ كَانَ إِثْمُهُ عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ‏"‏‏‘‘۔ ’’حضرت ابو ہریرہ ﷜ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی فتویٰ بغیر علم کے دیا گیا تو اس فتویٰ کا گناہ اس مفتی پر ہو گاجس نے اس کو فتویٰ دیا‘‘۔ (رواۃ ابو داؤد، جلد نمبر ۳، صفحہ نمبر ۸۵۴،  رقم الحدیث۳۶۵۷)
مندرجہ بالاپہلی حدیث کے مطابق مجتہد یعنی امام شافعی ؒ یا امام ابو حنیفہ ؒ میں سے کسی کا اجتہاد غلطی پر بھی ہواتو بھی ان کو ایک اجر ملے گا لہٰذا ان کے اس اجتہادکی پیروی(تقلید) کرنے والے کو بھی ایک اجر ملےگا جبکہ دوسری حدیث کے مطابق بغیر علم کے فتویٰ دینے والا گناہ گار ہوگا لہٰذا بغیر علم کے اجتہاد کرنےوالا تو بطریق اولیٰ گناہ گار ہوگاکیونکہ اجتہاد کرنا فتویٰ دینے سے زیادہ بڑاعمل ہےاور اس غیر عالم کے فتویٰ یا اجتہادکی پیروی (تقلید) کرنے والا بھی گناہ گار ہوگا۔ اس لئے تمام مسلمان بھائیوں سے گزارش ہے کہ یا تو خود علم دین پر مکمل دسترس حاصل کرکےمجتہد بن جائیں یا پھر کسی ایسے مجتہد کی پیروی (تقلید) کریں جس کے مجتہد ہونے پر امت مسلمہ پچھلے ۱۴۰۰ سالوں سے متفق ہے۔ کیونکہ تقلید کرنے میں خطاء کا امکان کم ہےجبکہ غیرمجتہدکے لئے خطاءکے امکانات بہت زیادہ ہیں۔
باب نبی کریم ﷺ کاارشاد! ’’میری امت کی ایک جماعت حق پرغالب رہے گی اور جنگ کرتی رہے گی‘‘۔ (صحیح البخاری)
’’حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسٍ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ"‏لاَ يَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ ظَاهِرُونَ"‘‘۔ ’’مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ غالب رہے گا ( اس میں علمی و دینی غلبہ بھی داخل ہے ) یہاں تک کہ قیامت آجائے گی اور وہ غالب ہی رہیں گے‘‘۔ (صحيح البخاری:كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ’’لاَ تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ يُقَاتِلُونَ‘‘۔وَهُمْ أَهْلُ الْعِلْمِ، رقم الحديث۷۳۱۱)
مندرجہ بالا حدیث کی روشنی میں  یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ ہر دور میں مسلمانوں کی ایک جماعت حق پر غالب رہے گی اور جنگ کرتی رہے گی۔اب سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وہ کونسی جماعت ہے  جو پچھلے ۱۴۰۰ سالوں سے حق پر غالب رہی ہے اور ساتھ میں جنگ بھی کرتی رہی ہے۔
اسلامی تاریخ  اس بات کی گواہ ہے کہ مسلمانوں میں فقہ حنفی کے ماننے والوں کی تعداد ہمیشہ سب سے زیادہ رہی ہے اور علمی اور دینی لحاظ سے بھی اسی فقہ کے ماننے والوں کا غلبہ رہا ہے اور جہاد کے میدانوں میں بھی سب سے زیادہ خدمات وفتوحات اِنھی کے ماننے والوں کی ہیں اور الحمدﷲآج بھی دنیا بھر میں سب سے زیادہ مجاہدین اسی فقہ سے تعلق رکھنے والے ہیں۔غیر مقلدین حضرات سے گزارش ہے کہ وہ ان ۱۴۰۰سالہ تاریخ میں اپنی کوئی ایک علمی وجہادی جماعت اور اس کی کوئی ایک دینی خدمت پیش کردیں جس سے وہ اس حدیث کا مصداق بن سکیں۔
آج ہرغیر مقلدعامی اور جاہل شخص تقلید کا انکار کرتے ہوئے دعویٰ کرتا ہے کہ میں کسی امام کی تقلید نہیں کرتا۔ جبکہ اﷲ تعالیٰ عالم اور جاہل میں خود ہی فرق بیان فرماتےہیں کہ: ’’اس کو عالموں کے سواکوئی نہیں سمجھتا۔ کیا علم والے اور جاہل برابرہیں؟‘‘
’’بَابُ الْعِلْمُ قَبْلَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ‘‘۔ ’’اس بیان میں کہ علم (کا درجہ) قول و عمل سے پہلے ہے‘‘۔
وَأَنَّ الْعُلَمَاءَ هُمْ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ- وَرَّثُوا الْعِلْمَ-
لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَمَا يَعْقِلُهَا إِلاَّ الْعَالِمُونَ}، {وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ}
وَقَالَ: {هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ}
وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ‏"مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ‏"۔
وَقَالَ أَبُو ذَرٍّ لَوْ وَضَعْتُمُ الصَّمْصَامَةَ عَلَى هَذِهِ وَأَشَارَ إِلَى قَفَاهُ- ثُمَّ ظَنَنْتُ أَنِّي أُنْفِذُ كَلِمَةً سَمِعْتُهَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ تُجِيزُوا عَلَيَّ لأَنْفَذْتُهَا۔
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: {كُونُوا رَبَّانِيِّينَ} حُكَمَاءَ فُقَهَاءَ۔ وَيُقَالُ الرَّبَّانِيُّ الَّذِي يُرَبِّي النَّاسَ بِصِغَارِ الْعِلْمِ قَبْلَ كِبَارِهِ۔
(حدیث میں ہے) کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ (اور) پیغمبروں نے علم (ہی) کا ورثہ چھوڑا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔ اور (دوسری جگہ) فرمایا اور اس کو عالموں کے سوا کوئی نہیں سمجھتا۔اور فرمایا، کیا علم والے اور جاہل برابر ہیں؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس شخص کے ساتھ اللہ بھلائی کرنا چاہتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ حاضر کو چاہیے کہ (میری بات) غائب کو پہنچا دے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ہے کہ آیت ’’كونوا ربانيين‘‘ سے مراد حکماء، فقہاء، علماء ہیں۔ اور ’’رباني‘‘ اس شخص کو کہا جاتا ہے جو بڑے مسائل سے پہلے چھوٹے مسائل سمجھا کر لوگوں کی (علمی) تربیت کرے۔ (صحيح البخاری:كتاب العلم، بَابُ الْعِلْمُ قَبْلَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ، رقم الحديث ۶۷)
مندرجہ بالا ارشادات سے علماء و فقہاء کی اہمیت اور ان کے مقام کی افضلیت کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے، اور یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ غیر مقلدین کا علماء کی تقلید سے انکار کرتے ہوئے ہر جاہل شخص کے ہاتھوں میں قرآن و حدیث تھما کر تحقیق کا حق دیدینا ایک بہت بڑی حماقت اور جہالت ہے۔کیونکہ عالم اور جاہل کبھی برابرنہیں ہوسکتےاور علم کی باتین عالموں کے سواکوئی نہیں سمجھتا۔
تقلید پر صحابہ کرامؓ کے اقوال اور غیر مقلدین کا دھوکہ
غیرمقلدین حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ؓکا صرف اتنا قول پیش کرتے ہیں اورعام مسلمانوں کو بیوقوف بناتےہیں: ’’لا یقلدن رجل رجلاً دینہ‘‘۔ ’’کوئی شخص اپنے دین میں کسی دوسرے کی تقلید نہ کرے‘‘۔
قارئینِ کرام! مکمل عبارت کچھ اس طرح سے ہے:
’’وعن عبدالله بن مسعود قال لا يقلدن أحدكم دينه رجلا فإن آمن آمن وإن كفر كفر وإن كنتم لا بد مقتدين فاقتدوا بالميت فإن الحي لا يؤمن عليه الفتنة رواه الطبراني في الكبير ورجاله رجال الصحيح‘‘۔
’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تم میں سے کوئي دین میں کسی آدمی کی تقلید نہ کرے کہ اگر وہ ایمان لائے تو یہ بھی ایمان لائے اور اگر وہ کفر کرے تو یہ بھی کفر کرے ، اور اگر اقتداء کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو تو مردوں (فوت شدہ ) کی کرو زندوں کی نہیں کیوں کہ زندہ افراد پر فتنہ سے بچنے کی کوئی گارنٹی نہیں‘‘۔(مجمع الزوائد: ج۱، ص۱۸۰)
جواب دینیات اور ایمانیات میں اہلسنت والجماعت میں سے تقلید کا کوئی بھی قائل نہیں، سوائے ضروریات ِ احکام شرعیہ معلوم کرنے کیلئے۔اُمید ہے کہ مکمل عبارت پڑھ کر تمام قارئینِ کرام کو غیر مقلدین کے دھوکے اور فریب کا بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگاکہ حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ نے ایمان اور کفر کے معاملےمیں کسی کی تقلید سے منع فرمایا ہے ناکہ فروعی مسائل میں کسی امام یا مجتہد کی تقلید سے بلکہ اگلے ہی جملے میں آپؓ نے زندوں کے مقابلے میں فوت شدہ لوگوں کی تقلیدکرنے کی نصیحت بھی فرمائی کیونکہ زندہ لوگوں پرفتنہ کا اندیشہ ہوتاہے۔
غیرمقلدین حضرت معاذ بن جبل  ؓکا صرف اتنا قول پیش کرتے ہیں اورعام مسلمانوں کو بیوقوف بناتےہیں:
’’
حاما العالم فان اهتدي فلا تقلدوه دينكم‘‘۔ ’’اگر عالم ہدایت پر بھی ہو تو اس کی دین میں تقلید نہ کرو‘‘۔
قارئینِ کرام! مکمل عبارت کچھ اس طرح سے ہے:
’’قال معاذ بن جبل یا معشر العرب کیف تصنعوں بثلاث دنیا تقطع اعناقکم وزلۃ عالم و جدال منافق بالقرآن فسکتوا فقال اما العالم فان اھتدی فلا تقلدوہ دینکم و ان افتتن فلا تقطعوا منہ اناتکم فان المومن یفتتن ثم یتوب‘‘۔
’’حضرت معاذ نے تین امور کے متعلق لوگوں سے پوچھا جن میں ایک عالم کی غلطی کے متعلق تھا۔حضرت معاذؓ فرماتے ہیں عالم کی پھلسن سے اپنے آپ کو بچانے کا یہ طریقہ ہے کہ تم بس دینیات کے اندر اس کی تقلید نہ کرو چاہئے وہ ہدایت یافتہ ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ اگر وہ خود کسی فتنے میں پڑجاتا ہے تو بعد میں توبہ بھی کر سکتا ہے‘‘۔(جامع بیان العلم و فضلہ: ج۲،ص ۱۱۱)
جواب :تقلید اجتہاد میں ہوتی ہے اور آئمہ اربعہؒ میں سے کوئی ایک بھی دینیات و ایمانیات میں اجتہاد کا قائل نہیں، یہ سب ضروریات ِاحکام شرعیہ معلوم کر نے کیلئے مسائل میں استنباط کے اہل ہیں، وہ بھی سب سے پہلے کتاب اللہ، سنت رسول اللہ، اجماع و اجتہاد صحابہ کے بعد پھر اپنا اجتہاد، لہذا آئمہ اربعہؒ کے مدون مذہب سے ایمان کو کسی قسم کا خطرہ نہیں البتہ ان کے علاوہ اوروں سےجو بعد والے ہیں ایمان محفوظ نہیں۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area