Ads Area

پاکستان کا روس یوکرین تنازع پر مؤقف روس نے یوکرین پر حملہ

 اب جب روس نے تین اطراف سے یوکرین پر حملہ کیا ہوا ہے، یوکرین کے لیے اپنا دفاع کرنا کتنا مشکل ہو گا؟





روس نے یوکرین پر حملہ کردیا ہے جس کے بعد یوکرین کے مختلف شہروں میں جنگ جاری ہے۔


دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف کامیابی کے دعوے کیے گئے ہیں تاہم ان کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔


بیلاروس کے صدر کے بیان کے برعکس جمعرات کو جاری ہونے والی ایک فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ روسی فوج کے دستے بیلاروس کی سرحد سے یوکرین میں داخل ہوئے ہیں۔


اُدھر مشترکہ فوجی مشقوں میں حصے لینے والے 30 ہزار روسی فوج بھی بیلا روس میں موجود ہیں جن کی میزبانی بھی بیلاروس کررہا ہے۔


چین

روس اور چین کے آپس میں گہرے تعلقات ہیں اور یوکرین کے حوالے سے چینی وزارت خارجہ نے بیان جاری کیا تھا۔


چینی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ یوکرین کی صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور یوکرین پرروسی فوج نے اس انداز میں حملہ نہیں کیا، جیسا غیرملکی میڈیا پر بیان کیا جارہا ہے۔


اس کے علاوہ چینی وزارت خارجہ کے بیان سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ اس کا جھکاؤ روس کی جانب ہے۔


پاکستان کا روس یوکرین تنازع پر مؤقف

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستان نے واضح کیا ہے کہ کسی کیمپ کی سیاست کا حصہ نہیں بننا۔


وزیراعظم کے دورے سے متعلق ان کا کہنا تھاکہ روس کے دورے کا فوکس یوکرین کی صورتحال سامنے رکھ کرنہیں کیا گیا بلکہ ہمارا دورہ دوطرفہ تعلقات کے تناظر میں تھا۔


شاہ محمود کا کہنا تھاکہ روس جانے سے  پہلے وزیراعظم ہاؤس میں روس یوکرین صورتحال کا جائزہ لیاگیا، مجموعی سوچ کے تحت فیصلہ کیا کہ پروگرام جوں کا توں رہے گا۔


انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم نے اعتماد کے ساتھ پاکستان کا مؤقف پیش کیا۔


یوکرین کے ساتھ کون ہے؟

امریکا، برطانیہ اور یورپ روس کے یوکرین پر حملے کی مخالفت کررہے ہیں اور ساتھ ہی جوابی اقدام سے متعلق بڑے بڑے دعوے بھی کررہے ہیں لیکن اس کے برعکس کسی بھی ملک نے یوکرین کی فوجی امداد نہیں کی اور صرف زبانی جمع خرچ پر اکتفا کیا۔


امریکا، برطانیہ اور یورپ سمیت کئی ممالک نے یوکرین پر روسی حملے کی شدید مذمت کی  اور مالی پابندیاں عائد کردی ہیں لیکن بعض ایسے ممالک بھی ہیں جنہوں نے اس معاملے پر واضح مؤقف نہیں دیا اور بعض تو روس کی کھل کر حمایت کررہے ہیں۔


بیلاروس

بیلا روس جنگ کی زد میں آنے والے یوکرین کا پڑوسی ملک ہے اور رپورٹس کے مطابق بیلا روس کے صدر الیگزینڈر نے کہا ہے کہ بیلا روس یوکرین اور روس کی جنگ میں حصہ نہیں لے گا۔


اس کے ساتھ ہی بیلا روس کے صدر نے سرحدوں پر سکیورٹی سخت کرنے کے احکامات دیے تھے۔


یوکرینی فوج اسلحے اور تعداد کے لحاظ سے روس سے بہت پیچھے ہے۔ صدر پوتن کے دور میں فوج کو جدید بنانے کے لیے جتنی سرمایہ کاری کی گئی ہے اس کے بعد یوکرین اور روس کی فوجی طاقت کا کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔


رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹوٹ کے ڈاکٹر جیک واٹلنگ کا کہنا ہے: ’میرے خیال میں یوکرین بہت مشکل صورتحال میں ہے اور اس کے فوجی سربراہوں کو بہت مشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔‘


مغربی سکیورٹی حکام کے اندازوں کے مطابق روس نے ایک لاکھ 90 ہزار فوج کو یوکرین کی سرحد پر اکٹھا کر رکھا ہے جبکہ یوکرین کی پوری فوج ایک لاکھ 25 ہزار فوجیوں پر مشتمل ہے۔


روسی افواج کئی سمتوں سے یوکرین میں داخل ہو رہی ہیں۔


یوکرین کے لیے روس اور بیلاروس کے ساتھ ہزاروں میل لمبی سرحد کا دفاع کرنا مشکل ہو گا۔ شمال میں بیلاروس سے جنوب میں کریمیا تک ہزاروں میل لمبی سرحد کا دفاع بھی آسان نہیں۔


اگر آپ یوکرین کے نقشے کو گھڑیال کا سامنے والا حصہ تصور کر لیں تو اسے 10 بجے سے 7 بجے تک اپنی سرحد کا دفاع کرنا ہو گا۔


انٹرنیشنل انسٹیٹوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز سے منسلک اور برطانوی فوج کے سابق برگیڈیئر بین بیری سمجھتے ہیں کہ اس کا دفاع بہت مشکل ہو گا۔


اس سے بڑھ کر یہ کہ یوکرین کو کئی اطراف سے خطرات لاحق ہیں اور اس کی افواج ساری جگہوں پر پھیلی ہوئی ہیں۔.


روس کی فضائی برتری

لیکن سب سے زیادہ فرق یوکرین اور روس کی فضائی طاقت میں ہے۔


یوکرین کے پاس 105 جنگی طیارے ہیں جبکہ روس کے پاس سرحد پر 300 طیارے موجود ہیں۔ ڈاکٹر جیک واٹلنگ سمجھتے ہیں کہ روس بہت جلد یوکرین پر ہوائی برتری حاصل کر لے گا۔


روس کا جدید دفاعی نظام ایس 400 میزائل بھی روسی ایئر فورس کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ اس کے مقابلے میں یوکرین کا ایئر ڈیفنس کا نظام بہت پرانا ہے۔


ڈاکٹر واٹلنگ اسرائیل کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسرائیل کئی اطراف سے اپنی سرحد کا اس لیے دفاع کر لیتا ہے کیونکہ اس کی ہوائی طاقت بہت زیادہ ہے۔ جبکہ یوکرین کے پاس یہ سب کچھ نہیں ہے۔


برگیڈیئر بین بیری کہتے ہیں کہ روس نے ابتدائی حملے میں ہی اپنے حریف کو مغلوب کرنے کا طریقہ وضح کر رکھا ہے جس میں ہوائی، میزائل اور توپ خانے کا مربوط نظام تیار ہے۔ اس کے تحت وہ یوکرین کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر، اسلحہ ڈپو، ایئر فورس اور ایئر ڈیفنس کے نظام کو دور سے ایک ہی وقت میں نشانہ بنا سکتا ہے۔


روس یوکرین کے دارالحکومت کیئو کے نزدیک ٹھکانوں پر کروز میزائلیوں سے حملہ کر کے اس کا عملی مظاہرہ کر چکا ہے۔


مسٹر واٹلنگ کا کہنا ہے کہ روس کے پاس ایسے جدید ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ ہے جس کا یوکرین کے پاس جواب نہیں ہے۔


یوکرین کو حال ہی میں امریکہ اور برطانیہ سے فوجی امداد کی صورت میں کم فاصلے تک فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں کے علاوہ اینٹی ٹینک ہتھیار شامل ملے تھے۔


مختصراً یہ کہ یوکرین اور روس کی فوجی طاقت کا کوئی موازنہ ہی نہیں ہے۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area