ہمارا معاشرہ..!
ایک میاں، ایک بیوی اور ایک ننھا مُنا سا بیٹا۔ شادی کو تین سال گزرے تھے اور یہ خوشحال فیملی کراچی کے ایک مرکزی علاقے میں، ایک فلیٹ میں مقیم تھی۔ دن ہنسی خوشی گزر رہے تھے، مُنے کی کھلکھلاہٹیں ہر طرف مسکراہٹیں بکھیر دیتی تھیں۔ سامنے والے فلیٹ میں کچھ یونیورسٹی سٹوڈنٹس مقیم تھے۔ کراچی کے رہائشی پانی کی قلت کے معاملات سے تو آگہی رکھتے ہیں ...
یہ سٹوڈنٹس بعض اوقات ان لوگوں سے پانی لینے آجاتے، اور یہ فیملی بعض اوقات اُن سے پانی لے لیتی۔ ایک شام جب ایک سٹوڈنٹ پانی لینے آیا تو خاتونِ خانہ نے واپس بھیج دیا کہ شوہر گھر پر نہیں ہیں۔ شوہر کو جب یہ پتہ چلا تو انھوں نے کہا کہ پانی ایک بنیادی ضرورت ہے، مناسب نہیں لگتا کہ کسی کو واپس بھیجا جائے۔
" لیکن امتیاز! آپ کی غیر موجودگی میں ...! "
" ارے کچھ نہیں ہوتا، اتنے زیادہ فلیٹس ہیں اردگرد، کوئی تمھیں کھا تو نہیں جائے گا میری پیاری بیگم ... "
اور اس طرح شوہر کی غیر موجودگی میں بھی پانی بھرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ایک دن ایک سٹوڈنٹ آیا، مُنے نے ماں کے ہاتھ کا بنا ہوا کسٹرڈ اس کو کھلا دیا ...
" ارے واہ! آپ کی ماما تو بہت خوب بناتی ہیں، کیا کمال کا ذائقہ ہے، ایسی مہارت کبھی دیکھی نہیں ... "
فاروق کچھ ایسے انداز اور آواز میں بولا کہ اندر کچن میں کھڑی نادیہ بھی مرعوب ہو گئی ...
آج تک امتیاز نے اس طرح نادیہ کی تعریف نہیں کی تھی۔ پھر باقی سٹوڈنٹس کی جگہ صرف فاروق کی آمد شروع ہو گئی اور وہ بھی امتیاز کی غیر موجودگی میں۔ مُنے سے باتیں ہوتیں لیکن سُنائی نادیہ کو جاتیں، کبھی کپڑوں کے انتخاب کی تعریف، کبھی کُوکنگ کی تعریف، کبھی کسی بات کی اور کبھی کسی بات کی۔ نادیہ بھی اب اس کی آمد اور تعریف کی عادی ہوتی جارہی تھی، اور پھر ایک دن فاروق نے اس کی خوبصورتی کی ایسے تعریف کی وہ سحر زدہ ہوگئی ...
" امتیاز میری کیوں ایسے تعریف نہیں کرتا ...؟میں بھی لڑکی ہوں، میرا دل بھی چاہتا ہے کہ کوئی میری تعریف کرئے ... "
اور پھر ایک دن ایسا آیا کہ تعریف کے لئے مُنے کی آڑ بھی ختم ہوگئی۔ یہ سلسلہ شادی کے عہد و پیماں تک پہنچ گیا۔
امتیاز تک یہ خبر تب پہنچی جب پانی سر سے گزر چکا تھا۔دونوں خاندانوں نے لڑکی کو سنگین دھمکیاں دیں لیکن نادیہ طلاق سے کم پر راضی ہی نہ تھی، درپردہ فاروق کا مکمل تعاون اسے حاصل تھا۔ معاملہ عدالت میں چلا گیا اور آخر اس شرط پرطلاق ہوئی کہ مُنا باپ کے پاس رہے گا۔
نادیہ نے یہ پتھر بھی دل پر رکھنا گوارا کر لیا۔ اس کے گھر والوں نے اس کا ہمیشہ کے لئے مقاطعہ کر دیا۔ عدت پوری ہونے کے بعد نادیہ کی شادی فاروق سے ہو گئی۔ امتیاز نے دوبارہ شادی نہیں کی اور مُنے کے سہارے زندگی گزار رہا ہے جو اب تیرہ سال کا ہو چکا ہے ...
جی میرے نہایت ہی قابل قدر و باشعور قارئین کرام! آپ بتائیں کہ سب سے زیادہ قصوروار کون ہے ...؟
نادیہ! جس نے فاروق سے شادی کے لئے شوہر، بیٹے اور اپنے گھر والوں کو قربان کر دیا ...؟
فاروق! جس نے ایک شادی شدہ لڑکی کو یہ راستہ دکھایا ...؟
یا
امتیاز! جس نے اپنی بیوی کی رضامندی نہ ہونے کے باوجود ایک نامحرم کو اپنی غیر موجودگی میں اپنے گھر کا راستہ دکھایا ...؟
قارئین!
فیصلہ جذبات کو ایک طرف رکھ کر کیجیے گا ...