Ads Area

کیا رسول اﷲ ﷺ کی قبرکی مٹی عرش، کعبہ اور کرسی سے افضل ہے؟







بسم الله الرحمن الرحیم

انجنیئرعلی مرزاصاحب کامفتی طارق مسعود دیوبندی اورعلماءِاھل سنت پرلگائے گئے الزام کاعلمی وتحقیقی رد

انجنیئرعلی مرزاصاحب نے  دیوبندی کتاب میں المہندعلی المفندکے ایک مسئلے پراعتراض کرتے ہوئے کہاکہ دیوبند ی مسلک کا یہ عقیدہ ہے کہ: ’’وہ حصہ زمین جو جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کے اعضاء مبارکہ کومَس کیے ہوئے ہے علی الاطلاق افضل ہے۔ یہاں تک کہ کعبہ اور عرش وکرسی سے بھی افضل ہے‘‘۔ (عقائد علمائے دیوبند اور حسام الحرمین: صفحہ؀ ۲۱۹)
اس تحریر کی ابتداء میں انجنیئرعلی مرزا صاحب کے اس کھوکھلےنعرے کوبےنقاب کرتےہوئے کرنا چاہوں گاجس سے موصوف لاعلم مسلمانوں کوبیوقوف بناکراپنی چُورن پھکی کی دکان چمکانے میں مصروف ہیں وہ یہ کہ ’’نہ میں بابی، نہ میں وہابی، میں ہوں مسلم علمی کتابی‘‘۔
قارئین کرام ذراغورفرمائیں کہ انجنیئرصاحب کےاس نعرے میں اگرذرابھی صداقت ہوتی اورموصوف حقیقتاً علمی کتابی ہوتےتو "المہندعلی المفند" میں درج اس مسئلے کوبنیادبناکرمفتی طارق مسعوددیوبندی اورعلماءِ اھل سنت پرالزام لگانے کی ہرگزجرئت نہ کرتے، لیکن چونکہ موصوف کاعلماءِدین اورکتابوں سے دور کابھی کوئی واسطہ نہیں رہا،لہٰذا محترم کو اس بات کی خبرہی نہ ہوئی کہ یہ مسئلہ آج سےتقریباً ۱۳۰۰ سال قبل امام مالکؒ نے مدینہ کی افضلیت کےبیان میں فرمایاتھااوراس کے بعدتمام مکاتب فکرکے بڑے بڑے ائمہ محدثین ومفسرین نے اپنی اپنی کتابوں میں درج کرتے ہوئےاس کی تائیدفرمائی، جن میں بڑی تعدادمالکی، شافعی اورحنبلی ائمہ دین کی ہے، اورچوتھی صدی ہجری کے آغاز سے لے کرآج تک کے بڑے بڑے ائمہ محدثین ومفسرین نے اس مسئلےپرامت مسلمہ کااجماع بھی نقل کیاہے جس کی مکمل تفصیل میں قارئیں کے سامنے آگے پیش کرونگا۔
انجنیئرصاحب عوام کوبیوقوف بنانے کےلیے ایک اورنعرہ یہ بھی لگاتے ہیں کہ’’ہم توحق بات بیان کرتے ہیں اورلوگوں تک حق بات پہنچاتے ہیں‘‘۔ انجنیئرصاحب کاعلماءِ اھل سنت پرلگائےگئے الزام سے ان کایہ جھوٹ بھی واضح ہوگیاکہ موصوف حق بات بیان کرنے والے نہیں ہیں کیونکہ اگریہ واقعی حق بات بیان کرنے والے ہوتے توعلماءِد اھل سنت پرکیچڑاچھالنے سے پہلے"المہندعلی المفند" میں درج مسئلے کی مکمل تحقیق کرتے، لیکن انجنیئرصاحب علماءِ اھل سنت  سے بغض وعداوت اور تعصب کے نشے میں اتنے مدہوش ہوچکے ہیں کہ انہیں اس بات کی خبرہی نہ ہوئی کہ چوتھی صدی ہجری سے لے کرآج تک گزرےتمام دیوبند بریلوی اھل سنت  ائمہ محدثین ومفسریں نے اس مسئلے کواپنی کتابوں میں رقم کیاہےاوراس پرامت کااجماع بھی نقل کیاہے لہٰذااگرانجنیئرصاحب کویہ مسئلہ اتناہی غلط اوربدعقیدہ لگاتھاتوپہلےان تمام محدثین ومفسرین پراعتراض کرتے جنہوں نے اس مسئلے کوسب سے پہلےبیان کیااوران کے بعدآنے والوں نے ان کی تائیدفرمائی، صرف علماءِ اھل سنت احمد رضا خان یا طارق مسعود کوہی نشانہ نہ بناتے۔
انجنیئرصاحب کہتےہیں: ’’اس عقیدے میں اﷲتعالیٰ کی عظمت و کبریائی کی تنقیص کرتے ہوئے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کو فوقیت دی گئی ہے۔ عبد کو معبود سے، مخلوق کو خالق سے بڑھاکر پیش کیا گیا ہے‘‘۔
الجواب: انجنیئرعلی مرزاصاحب کااعتراض جناب کی کم علمی وکم عقلی کی دلیل ہے۔ سب سےپہلےتومیں انجنیئرصاحب اوران کے حواریوں سے گزارش کرتاہوں کہ وہ اس بات کی واضح نشاندہی کریں کہ "المھندعلی المفند" کے اس مسئلے’’وہ حصہ زمین جو جناب رسول اﷲصلی اللہ علیہ و سلم کے اعضاء مبارکہ کومَس کیئے ہوئے ہے علی الاطلاق افضل ہے۔ یہاں تک کہ کعبہ اور عرش وکرسی سے بھی افضل ہے‘‘کے کس لفظ میں اللہ تعالیٰ کی "کبریائی کی تنقیص" اور "عبد" یعنی حضرت محمد ﷺکو "معبود"یعنی اللہ تعالیٰ سے بڑھا کر پیش کیا گیا ہے؟ قیاس ہر گز نہ کریں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ مذکورہ بالا مسئلہ بطور عقیدہ "المہند علی المفند"میں نقل نہیں ہوا ہے بلکہ یہ پہلے اور دوسرے سوال کی توضیح کرتے ہوئے لکھا گیا ہے تاکہ "حسام الحرمین" میں جو علماءِ دیوبند پرفتوی لگایا گیاتھاکہ ’’علماءِدیوبندگستاخ رسول ﷺہیں‘‘،۔ دوسری بات یہ کہ "المھندعلی المفند"میں جہاں عقیدہ کو نقل کیاگیاہےوہاں یوں لکھاہےکہ"ہمارا اور ہمارے مشائخ کا عقیدہ یہ ہے"لہٰذااسے علماءِدیوبندکاعقیدہ سمجھنااورکہناہی غلط ہےکیونکہ اس مسئلے کاعقیدہ سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔
تیسری بات یہ یاد رکھیں کہ "المھند علی المفند"میں صرف عقائد ہی درج نہیں ہیں بلکہ اس میں عقائد و مسائل دونوں ہی درج ہیں اس لئےاسے صرف عقائد کی کتاب کہنا اس کے مصنف کی اپنی توضیح کے خلاف ہے۔ بعد کے کسی عالم کے کہنے سے "المھند علی المفند"عقائد کی کتاب یا اس میں درج مسائل عقائد کا درجہ اختیار نہیں کرسکتےکیونکہ یہ صاحبِ المھند فضیلۃ الشیخ ، محمد خلیل احمد سہارنپوری  کی توضیح کے خلاف ہے۔ علماءِ دیوبندکی اگرعقائد پرکوئی کتاب ہے تووہ ’’عقیدۃالطحاویۃ ‘‘ہے۔
پھربھی اگرکوئی اس بات پربضدہے کہ اس مسئلے کاتعلق عقیدہ سےہےتوہم کہنے پرحق بجانب ہونگےکہ یہ عقیدہ صرف علمائے دیوبند کاہی نہیں بلکہ 

ان سے پہلےکے جلیل القدرمحدثین ومفسرین میں سے

 ابن عبدالبرالمالكی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفی: ۴۶۳ھ)،
 امام ابن عقیل حنبلی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفی: ۵۱۳ھ)،
 قاضی عیاض المالکی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفی: ۵۴۴ھ)، 
امام ابن عساکرالشافعی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفی: ۵۷۱ھ)،
 الإمام النووی الشافعی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفی: ۶۷۶ھ)،
 امام بالقرافی المالكی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفى: ۶۸۴ھ)،
 شیخ تاج الدین الفاکھی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفى: ۷۳۴ھ)،
 امام الفاسی المالكی الشہير بابن الحاج رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفى: ۷۳۷ھ)،
 امام ابن القیم الجوزی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفی: ۷۵۱ھ)، 
امام تقی الدين السبكی الشافعی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفى: ۷۵۶ھ)،
 امام بدرالدین الزرکشی الشافعی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفى: ۷۹۴ھ)، 
امام زين الدين أبو بكر العثمانی المراغی الشافعی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفى: ۸۱۶ھ)،
 إمام الكاملية الشافعی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفى: ۸۷۴ھ)،
 شیخ محمد البرنسی الفاسی بزروق المالکی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفى: ۸۹۹ھ)، 
امام شمس الدین سخاوی الشافعی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفی: ۹۰۲ھ)،
 امام جلال الدین سیوطی الشافعی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفی: ۹۱۱ھ)،
 امام السمهودی الشافعی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفى: ۹۱۱ھ)،
 امام أبى بكر بن عبد الملك القسطلانی المصری رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفى: ۹۲۳ھ)، 
امام شمس الدين الشامی الشافعی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفی: ۹۴۲ھ)، 
إمام الحطاب الرُّعينی المالكی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفی: ۹۵۴ھ)،
 علامہ ابن حجر ہیتمی الشافعی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفی:۹۷۳ھ)،
 قطب الدين النهروانی حنفی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفی: ۹۸۸ھ)،
 شيخ شمس الدین الرملی المصری الشافعی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفی: ۱۰۰۴ھ)،
 ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفی: ۱۰۱۴ھ)،
 امام زين العابدين الحدادی المناوی القاهری الشافعی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفی: ۱۰۳۱ھ)،
 نور الدین حلبی الشافعی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفی: ۱۰۴۳ھ)،
 امام منصوربن ادریس بہوتی حنبلی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفی: ۱۰۵۱ھ)،
 امام عبد الرحمٰن بن سليمان أفندی المالكی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفی: ۱۰۷۸ھ)،
 علامہ حصفکی حنفی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفی: ۱۰۸۸ھ)، 
امام عبد الله الخرشی المالكی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفى: ۱۱۰۱ھ)،
 امام محمدالمھدی الفاسی المالکی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفى: ۱۱۰۹ھ)،
 امام محمد الزرقانی المالكی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفى: ۱۱۲۲ھ)،
 الإمام النفراوی الأزهری المالكی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفی: ۱۱۲۶ھ)، 
شیخ سليمان البجيرمی المصری الشافعی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفی: ۱۲۲۱
ھ)، امام سيوطی الرحيبانى الدمشقی الحنبلی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفى: ۱۲۴۳ھ)،
 غیرمقلدعالم امام شوکانی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفی:۱۲۵۰ھ)، 
شیخ عمربن عبدالعزیزابن عابدین الشامی الدمشقی حنفی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفی:۱۲۵۲ھ)،
 امام آلوسی البغدادی الشافعی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفی: ۱۲۷۰ھ)،
 شیخ محمد بن احمدعلیش مالکی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفی: ۱۲۹۹ھ)،
 مشہور غیر مقلد عالم مترجم صحاح ستہ علامہ وحید الزمان صدیقی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفی: ۱۳۳۸ھ)، 
سعودی عرب کے معروف مفتی جناب الشيخ عبد الكريم بن عبد الله الخضير رحمہ اللہ تعالیٰ(پیدائش:۱۳۷۴ھ) 
اوراستادالحرمین علوی بن عباس المالکی رحمہ اللہ تعالیٰ کے بیٹے سید محمد علوی المالکی رحمہ اللہ تعالیٰ(المتوفی: ۱۴۲۵ھ) وغیرسمیت اہلسنت والجماعت کااتفاقی عقیدہ رہاہے۔ لہٰذا اگر یہ واقعی ایسا غلط عقیدہ ہے تو پھر اس کی نسبت علماءِ  اھل سنت سے پہلےان ائمہ کی جانب کرنی چاہیئےتھی جنہوں نے اس عقیدہ کواپنی کتابوں میں لکھتے ہوئے اس کاصحیح ہوناتسلیم کیااورساتھ میں اس پرمسلمانوں کااجماع بھی نقل کیا۔
مندرجہ بالامسئلہ غالباً اسلام کےان عقائد میں سے ہے جن میں ہر دو جانب دلائل نقلیہ موجود نہیں۔ یعنی جس طرح کسی صریح دلیل قطعی سے یہ ثابت نہیں ہوتاکہ رسول اﷲﷺ کے جسمِ اطہرسے مس زمین کا حصہ عرش، کعبہ وکرسی سے افضل ہے، اسی طرح یہ بھی کسی صریح دلیل قطعی سے ثابت نہیں ہوتا کہ اللہ پاک کا عرش، کعبہ وکرسی زمین کے اس حصے سے افضل ہےجورسول اﷲﷺ کے جسم ِاطہرسے مس ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ امام الانبیاءوخاتم النبیین حضرت محمدمصطفیٰﷺ کی ذات مبارکہ ربِّ کائنات کے بعد سب سے افضل ہے لہٰذا زمین کا وہ حصہ جوآپﷺ کے جسمِ اطہرسے مس ہےوہ بھی افضل ہوا۔ اس کے برعکس نہ تو عرش اللہ تبارک وتعالیٰ سے مس ہے اور نہ ہی کرسی و کعبہ۔ بلکہ یہ عقیدہ رکھنا کہ عرش اللہ پاک کے جسم سے مس ہے اور اللہ پاک اس پر اس طرح بیٹھےہیں جس طرح ہم بیٹھتے ہیں یا اللہ کا ایسا کوئی جسم ہے، ہر مسلمان کے نزدیک غلط اورگمراہیت ہے۔ دوسری 
اہم بات یہ کہ قرآن کی کسی آیت سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ کعبہ یا عرش وکرسی ہر چیز سے افضل ہے؟



’’أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو إِسْمَاعِيلُ بْنُ نُجَيْدٍ السُّلَمِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَوَارٍ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا شِبْلُ بْنُ عَبَّادٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا نَظَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْكَعْبَةَ، فَقَالَ: "مَرْحَبًا بِكِ مِنْ بَيْتٍ مَا أَعْظَمَكِ، وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ، وَلَلْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللهِ حُرْمَةً مِنْكِ"‘‘۔ ’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما فرماتےہیں کہ رسول اﷲﷺ نے خانہ کعبہ کی طرف دیکھ کرفرمایااﷲ تعالیٰ کے نزدیک مومن کی حرمت وعظمت تجھ سے زیادہ ہے‘‘۔ (شعب الإيمان للبیہقی: ج۵، ص۴۶۵، رقم الحدیث ۳۷۲۵)







’’حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ بْنُ أَبِي ضَمْرَةَ، نَصْرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ الْحِمْصِيُّ حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي قَيْسٍ النَّصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ يَطُوفُ بِالْكَعْبَةِ وَيَقُولُ "‏مَا أَطْيَبَكِ وَأَطْيَبَ رِيحَكِ مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ حُرْمَةً مِنْكِ مَالِهِ وَدَمِهِ وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلاَّ خَيْرًا"‘‘۔ ’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا: " (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اﷲ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے"‘‘۔ (سنن ابن ماجه: کتاب الفتن، باب حُرْمَةِ دَمِ الْمُؤْمِنِ وَمَالِهِ، ج۵، رقم الحدیث ۳۹۳۱)










’’حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَكْثَمَ، وَالْجَارُودُ بْنُ مُعَاذٍ، قَالاَ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ أَوْفَى بْنِ دَلْهَمٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ صَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْمِنْبَرَ فَنَادَى بِصَوْتٍ رَفِيعٍ فَقَالَ‏ "يَا مَعْشَرَ مَنْ قَدْ أَسْلَمَ بِلِسَانِهِ وَلَمْ يُفْضِ الإِيمَانُ إِلَى قَلْبِهِ لاَ تُؤْذُوا الْمُسْلِمِينَ وَلاَ تُعَيِّرُوهُمْ وَلاَ تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِهِمْ فَإِنَّهُ مَنْ تَتَبَّعَ عَوْرَةَ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ تَتَبَّعَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ وَمَنْ تَتَبَّعَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ يَفْضَحْهُ وَلَوْ فِي جَوْفِ رَحْلِهِ‏"‏ قَالَ وَنَظَرَ ابْنُ عُمَرَ يَوْمًا إِلَى الْبَيْتِ أَوْ إِلَى الْكَعْبَةِ فَقَالَ مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ وَالْمُؤْمِنُ أَعْظَمُ حُرْمَةً عِنْدَ اللَّهِ مِنْكِ۔‏ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ۔‏ وَرَوَى إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ السَّمَرْقَنْدِيُّ عَنْ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ نَحْوَهُ وَرُوِيَ عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الأَسْلَمِيِّ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم نَحْوُ هَذَا‘‘۔ ’’ عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما فرماتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے، بلند آواز سے پکارا اور فرمایا: "اے اسلام لانے والے زبانی لوگوں کی جماعت ان کے دلوں تک ایمان نہیں پہنچا ہے! مسلمانوں کو تکلیف مت دو، ان کو عار مت دلاؤ اور ان کے عیب نہ تلاش کرو، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب ڈھونڈتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کا عیب ڈھونڈتا ہے، اور اللہ تعالیٰ جس کے عیب ڈھونڈتا ہے، اسے رسوا و ذلیل کر دیتا ہے، اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہو"۔ (راوی نافع)کہتےہیں: "ایک دن ابن عمر رضی الله عنہما نے خانہ کعبہ کی طرف دیکھ کر کہا: کعبہ! تم کتنی عظمت والے ہو! اور تمہاری حرمت کتنی عظیم ہے، لیکن اللہ کی نظر میں مومن (کامل)کی حرمت تجھ سے زیادہ عظیم ہے"۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف حسین بن واقد کی روایت سے جانتے ہیں۔ اسحاق بن ابراہیم سمر قندی نے بھی حسین بن واقد سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔ ابوبرزہ اسلمی رضی الله عنہ کے واسطہ سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی حدیث مروی ہے ‘‘۔ (سنن الترمذی: كتاب البر والصلة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب مَا جَاءَ فِي تَعْظِيمِ الْمُؤْمِنِ، ج۳، ص ۵۵۴-۵۵۵، رقم الحدیث ۲۰۳۲)









مندرجہ بالااحادیث سے یہ بات سورج کی روشنی کی طرح واضح ہوگئی ہے کہ اﷲتبارک وتعالیٰ کے نزدیک مومن مسلمان کی حرمت خانہ کعبہ کی حرمت سے زیادہ ہے۔ جب ایک عام مومن مسلما ن کی حرمت خانہ کعبہ سے زیادہ ہےتوپھرسرورِکائنات محمدمصطفیٰﷺکی ذات مبارکہ جوکہ اس کائنات میں سب سے افضل ترین ذات ہے، آپﷺکےجسدِاطہرسے مس مٹی خانہ کعبہ سے زیادہ افضل کیسے نہ ہوئی؟

’’عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ عَطَاءِ بْنِ وَرَازٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ: «يُدْفَنُ كُلُّ إِنْسَانٍ فِي التُّرْبَةِ الَّتِي خُلِقَ مِنْهَا»‘‘۔ ’’عبدالرزاق ابن جریج سے، وہ فرماتے ہیں کہ مجھے خبر دی عمر بن عطاء بن وراز نے، ان سے عکرمہ ابن عباس کے غلام نے کہ انہوں حضرت ابن عباس رضی اﷲعنہ کافرماتےسنا: دفن کیا جاتا ہے ہر انسان اسی مٹی میں جس سے وہ پیدا کیا گیا‘‘۔ (مصنف عبد الرزاق: باب يدفن فی التربة التی منها خلق، ج۳، ص۵۱۵، رقم الحدیث ۶۵۳۱)
بالکل یہی بات (بمضمون و معنیٰ) رسول اﷲﷺسے بھی منقول ہے: ’’أَخْبَرَنَا أَبُو النَّضْرِ الْفَقِيهُ، وَأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنَزِيُّ، قَالا: ثنا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، ثنا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ الْوُحَاظِيُّ، ثنا عَبْدُ الْعَزِيرِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ أَبِي يَحْيَى مَوْلَى الأَسْلَمِيِّينَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجِنَازَةٍ عِنْدَ قَبْرٍ فَقَالَ: "قَبْرُ مَنْ هَذَا؟"، فَقَالُوا: فُلانٌ الْحَبَشِيُّ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ سِيقَ مِنْ أَرْضِهِ وَسَمَائِهِ إِلَى تُرْبَتِهِ الَّتِي مِنْهَا خُلِقَ"۔ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ‘‘۔ ’’حضرت ابوسعیدخدری رضی اﷲعنہ فرماتے ہیں: نبی اکرمﷺقبرکے پاس (رکھی ہوئی) ایک میت کے پاس سے گزرے، آپﷺنےپوچھا، یہ کس کی قبرہے؟ صحابہ رضی اﷲعنہم نےجواب دیا: یارسول اﷲﷺ! یہ فلاں حبشی کی قبرہے۔ تورسول اﷲﷺ نے فرمایا: اﷲکے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اﷲکے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اﷲکی زمین اورآسمان سے اس کواس مٹی کی طرف بھیج دیاگیاہے، جس سے اس کوپیداکیاگیاہے‘‘۔ (المستدرك على الصحيحين، للحاکم : کتاب الجنائز، ج۱، ص۵۱۶، رقم الحدیث ۱۳۵۶)


مندرجہ بالاصحیح الاسناداحادیث سے یہ بات سورج کی روشنی کی طرح واضح ہوگئی کہ امام الانبیاءوخاتم النبیین حضرت محمدﷺکاجسدمبارک اسی مٹی سےمس ہےجس مٹی سےاﷲربّ العزت نےآپ ﷺکوپیدافرمایا۔ لہٰذاوہ مٹی کیسے نہ افضل ہوئی جس مٹی سے اﷲتبارک وتعالیٰ نے آپ ﷺکوتخلیق فرمایا۔
یہاں میں اپنی بات کوحضرت عمررضی اﷲعنہ کے اس تاریخی قول سے ثابت کرتاہوں جوآپؓ نے حجراسودکوبوسہ دیتے ہوئے فرمائے: ’’حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ عُمَرَ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّهُ جَاءَ إِلَى الْحَجَرِ الأَسْوَدِ فَقَبَّلَهُ، فَقَالَ إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لاَ تَضُرُّ وَلاَ تَنْفَعُ، وَلَوْلاَ أَنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ‘‘۔ ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ حجراسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دیا اور فرمایا "میں خوب جانتا ہوں کہ تو صرف ایک پتھر ہے، نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے میں نہ دیکھتا تو میں بھی کبھی تجھے بوسہ نہ دیتا‘‘۔ (صحیح البخاری: کتاب الحج، باب مَا ذُكِرَ فِي الْحَجَرِ الأَسْوَدِ، ج۲، رقم الحدیث ۱۵۹۷)
قارئین کرام سے گزارش ہے کہ حضرت عمررضی اﷲعنہ کے اس تاریخی جملے پرغورفرمائیں۔ ہم سب یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ حجراسودکعبہ کے اندرنسب ہے، اس کامطلب حجراسودکعبہ میں نسب باقی اینٹوں اوردرودیوارکی طرح کعبہ کاحصہ ہے۔ اوربقول انجنیئرصاحب اوران کے حواریوں کےکعبہ اﷲکاگھرہے۔ اس کےباوجودبھی حضرت عمررضی اﷲعنہ نےحجراسود(یعنی کعبہ کےحصہ کو)صرف اس لیے بوسہ دیاکہ ہمارے پیارے نبیﷺنے اسےبوسہ دیاتھا۔

کیاحضرت عمررضی اﷲعنہ کویہ بات معلوم نہیں تھی کہ حجراسودکعبہ کاحصہ ہے اورکعبہ اﷲتبارک وتعالیٰ کاگھرہے؟ لہٰذا اﷲتبارک وتعالیٰ کاگھرتورسول اﷲﷺسے بھی افضل ہوا۔ حضرت عمررضی اﷲعنہ حجراسودکوبوسہ دیتے ہوئےیہ بھی توکہہ سکتے تھے کہ’’ کیونکہ تواﷲکےگھرمیں نسب ہے اس لئے میں تجھے بوسہ دیتاہوں‘‘، لیکن آپؓ نے ایسانہیں فرمایابلکہ آپؓ نے بوسہ دینے کی وجہ رسول اﷲﷺ کابوسہ دینابتائی کیونکہ آپؓ یہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اﷲتعالیٰ جہت ومکان کی قیدسے منزہ ومبرہ ہے۔ اوراﷲتبارک وتعالیٰ نے کعبۃ اﷲکومجازاًاپناگھرنتایاہے۔ اس کے برعکس رسول اﷲﷺکی ذات مبارکہ اس کائنات میں سب سے افضل ہے۔
قارئین کرام ذراغورفرمائیں کہ حضرت عمررضی اﷲعنہ نے حجراسودکوبوسہ دینے کاسبب رسول اﷲﷺکابوسہ دیناہی بتایا حالانکہ آپﷺنے حجراسودکابوسہ غالباًصرف ایک ہی بارلیاتھا، لہٰذا حجراسودقیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لیے افضل ترین پتھربن گیاتوپھروہ مٹی جورسول اﷲﷺکے جسدِاطہرسے قیامت تک کے لیے مس ہےبھلا وہ کعبہ سے افضل کیسےنہ ہوئی؟
اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ یہ علم کی باتیں عالموں کے سمجھنے کی ہیں، انجنیئرصاحب جیسے ہرایرے غیرے نتھوخیرے کے سمجھنے کی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریمﷺکاارشادپاک ہےکہ: ’’حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ قَالَ حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ، خَطِيبًا يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ "مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي، وَلَنْ تَزَالَ هَذِهِ الأُمَّةُ قَائِمَةً عَلَى أَمْرِ اللَّهِ لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ"‘‘۔ ’’حمیدبن عبدالرحمٰن نے کہا کہ میں نے معاویہؓ سے سنا۔ وہ خطبہ میں فرما رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرے اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے اور میں تو محض تقسیم کرنے والا ہوں، دینے والا تو اللہ ہی ہے اور یہ امت ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گی اور جو شخص ان کی مخالفت کرے گا، انہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ اللہ کا حکم ( قیامت ) آ جائے ( اور یہ عالم فنا ہو جائے )‘‘۔ (صحيح البخاری :كتاب العلم،باب مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، رقم الحديث:۷۱)
انجنیئرصاحب کی عقل وفہم کی داددینی پڑے گی اورساتھ میں ان کے حواریوں کی سمجھ کوبھی جوکہ انجنیئرصاحب جیسے کم علم وکم عقل لوگوں کی باتوں میں آکرائمہ دین پرطعن وتشن کرتے ہیں۔ قارئین کرام اب مجھے یہ بتائیں کیا اللہ تعالیٰ اپنے گھر سے متصل ہیں؟ کیا اللہ تعالیٰ عرش سے آپ کے نزدیک مس ہیں(نعوذ باللہ)؟ کیا اللہ تعالیٰ اپنی کرسی سےمس حالت میں ہیں(معاذاللہ)؟ کہیں انجنیئر صاحب فرقہ مشبہہ میں سے تو نہیں ہیں؟ یہ بتائیے اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے محترم اور عظیم ہستی کون ہے؟ نبی ﷺ ہیں یا نہیں؟ تو جس چیز سے اللہ تعالیٰ کا تعلق صرف ملکیت کا ہے وہ زیادہ افضل ہوگی یا جس چیز سے محمد مصطفیٰ ﷺکاتعلق صرف ملکیت کاہی نہیں بلکہ آپ ﷺکا جسدِ اطہراس چیزسےقیامت تک کےلئے مس ہے وہ افضل ہوئی؟ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے عرش کو عظیم کہا ہے، کرسی کو بڑا کہا ہے، کعبہ کو حرمت والا کہا ہے لیکن یہ کہاں کہا ہے کہ یہ سب کائنات کی باقی تمام چیز وں سے بھی افضل ہیں؟ اس کے برعکس قرآن مجید میں اﷲتبارک وتعالیٰ نے یہ بھی توفرمایاہے کہ:

’’وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰهُمْ عَلٰي كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلً‘‘۔ ’’اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو جنگل اور دریا میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی اوراپنی بہت سی مخلوقات(بڑی مخلوق) پر فضیلت دی‘‘۔ [سورۃ الاسرا: ۷۰]
انجنیئرصاحب نے عرش کے بارے میں عام اورلاعلم مسلمانوں کے سامنے کچھ اس طرح بیان کیاہے، گویاکہ عرش اﷲتبارک وتعالیٰ سے ملاہواہےحالانکہ ایساعقیدہ رکھناتودرکنارایساسوچنابھی گمراہی ہے، کیونکہ اﷲتبارک وتعالیٰ عرش پرکس طرح جلوہ افروز ہیں اس کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں۔ جبکہ رسول اﷲﷺکاجسدِاطہرقبرکی مٹی سے کس طرح ملاہواہے اس کی کیفیت ہمیں اچھی طرح معلوم ہےاورساتھ میں یہ بھی معلوم ہے کہ اﷲتعالیٰ نے اسی مٹی سے آپﷺکوتخلیق کیا۔ اب دیکھاجائے توعرش بھی اﷲتبارک وتعالیٰ کی مخلوق ہےجسےاﷲربُّ العزت نے تخلیق کیااورسرورِکائنات امام الانبیاءوخاتم النبیین حضرت محمدمصطفیٰﷺبھی اﷲتعالیٰ کی مخلوق ہیں جن کواﷲربُّ العزت نے تخلیق کیا۔ جب دونوں ہی اﷲتعالیٰ کی مخلوق ہیں توپھردونوں کی افضلیت برابربھی ہوسکتی ہےاورکسی کودوسرے پرفوقیت بھی ہوسکتی ہے۔ توپھراس مسئلے میں بدعقیدگی اورگمراہیت کی بات کہاں سے آگئی؟ اگرکسی مسلمان کے نزدیک اﷲتعالیٰ کی ایک مخلوق (عرش) افضل ہےتوبھی اس میں کسی قسم کے اعتراض کی بات نہیں اورکسی مسلمان کے نزدیک اﷲتبارک وتعالیٰ کی دوسری مخلوق (رسول اﷲﷺ) افضل ہیں توبھی اس میں کسی قسم کے اعتراض کی بات نہیں۔ انجنیئرصاحب جہاں دل چاہے قیاس کے گھوڑے دوڑا لیتےہیں، کوئی قاعدہ بھی ہے ان کےقیاس کا؟
ہوسکتاہےاس پرانجنیئرصاحب اوران کے حواری یہ کہیں کہ عرش، کعبہ اورکرسی تواﷲتعالیٰ کے نام کے ساتھ خاص طورپرمنصوب ہیں اوراﷲتعالیٰ نے انہیں اپنے لیے تخلیق دیاہےتوہم کہیں گے کہ امام الانبیاءوخاتم النبیین حضرت محمدﷺکوبھی اﷲتعالیٰ نے خاص طورپراپنے دین کی ترویج و اشاعت اورتکمیل کے لئے پیدافرمایااورتمام مخلوقات اِنس وجن میں سب سے افضل قراردیا۔
’’حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ جُدْعَانَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم "أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ فَخْرَ وَبِيَدِي لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلاَ فَخْرَ وَمَا مِنْ نَبِيٍّ يَوْمَئِذٍ آدَمُ فَمَنْ سِوَاهُ إِلاَّ تَحْتَ لِوَائِي وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الأَرْضُ وَلاَ فَخْرَ‏"۔‏ قَالَ أَبُو عِيسَى وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ۔‏ وَقَدْ رُوِيَ بِهَذَا الإِسْنَادِ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم‘‘۔ ’’نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں تمام اولاد آدم کا سردار ہوں،لیکن مجھے اس پر فخر نہیں ہے‘‘۔ (جامع الترمذی: کتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ج۱، رقم الحدیث ۳۶۱۵)
ان دلائل کےبعدبھی اگرکوئی اس بات پربضدہے کہ یہ ایک غلط اورگمراہ عقیدہ ہےتوپھرہم اس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جوالزام آپ نے علماءِدیوبندپرلگایاہےاورجوزبان آپ نے علماءِدیوبنداورمفتی طارق مسعودصاحب کے لئے استعمال کی ہے وہی الزام والفاظ ان محدثین ومفسرین کے خلاف بھی استعمال کریں جنہوں نے اس عقیدہ کواپنی کتابوں میں رقم کیا۔

ان محدثین ومفسرین کے خلاف زبان کھولنے کے بعدآپ ہمیں ان اشکالات کے بھی جوابات دینے کے پابندہونگے کہ جب ۱۰۰۰ سال تک آنے والے تمام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) محدثین ومفسرین کاعقیدہ غلط تھا اوروہ گمراہ تھے اورموجودہ دورکے انجنیئرصاحب اوران کے حواریوں کاعقیدہ صحیح ہےتوپھرسوال یہ پیداہوتاہےکہ انجنیئرصاحب تک صحیح دین کیسے پہنچا؟ کیونکہ دین اسلام توآپ تک ان ہی محدثین ومفسرین کی کتابوں کے ذریعہ سےہی پہنچاہے۔ پھرآپ نے ان گمراہ اورغلط عقیدہ رکھنے والوں کی لکھی ہوئی کتابوں پرکیسے اعتماد کرلیا؟ اس طرح توپھررسول اﷲﷺکی اس حدیث کوبھی نعوذباﷲغلط قراردیناپڑےگا، کیونکہ آپﷺنے فرمایا: ’’حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ، ثنا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مَرْزُوقٍ مَوْلَى آلِ طَلْحَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَنْ تَجْتَمِعَ أُمَّتِي عَلَى الضَّلَالَةِ أَبَدًا، فَعَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ فَإِنَّ يَدَ اللهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ»‘‘۔ ’’میری امت کبهی گمراہی پرجمع نہیں ہوگی پس تمہارے لئے جماعت ہے کیونکہ اﷲکاہاتھ جماعت پرہے‘‘۔ (المعجم الكبير للطبرانی: ج۱۲، ص۴۴۷، رقم الحدیث ۱۳۶۲۳)
’’حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ وَمَنْدَلٌ عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ أَبِي جَهْمٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ وَهْبَانَ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏: "‏مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الإِسْلاَمِ مِنْ عُنُقِهِ"‘‘۔ ’’ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جس نے جماعت سے ایک بالشت بھی علیحدگی اختیار کی تو اس نے اسلام کا قلادہ اپنی گردن سے اتار پھینکا‘‘۔ (صحیح سنن ابی داؤد: کتاب السنۃ، باب فِي قَتْلِ الْخَوَارِجِج، ج۳، ص۱۶۷، رقم الحدیث ۴۷۵۸)

مندرجہ بالاصحیح الاسناداحادیث کی روشنی میں ہم یہ کہنے پرحق بجانب ہونگےکہ موجودہ دورکےانجینئرصاحب اوران کےحواری توگمراہ ہوسکتے ہیں لیکن یہ امت ۱۰۰۰ سال سےگمراہیت پرہرگزجمع نہیں ہوسکتی۔

مکمن ہے اب انجنیئرصاحب اوران کے حواری یہ دعویٰ کریں کہ پوری امت مسلمہ گمراہ نہیں ہوئی تھی، صرف وہی (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) محدثین ومفسرین اوران کے پیروکارگمراہ ہوئے تھےجن کایہ غلط عقیدہ تھا۔ تواس پرہم انجنیئرصاحب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ پچھلے ۱۰۰۰ سالوں میں گزرے ہوئے ان صحیح العقائدمسلمان اوران کے دورکے صحیح العقائدعلماءِدین ومحدثین ومفسرین کی فہرست پیش کردیجئے جن کاایسا غلط عقیدہ نہیں تھا۔ اورساتھ میں اس سوال کابھی جواب دیدیجئے کہ ان صحیح عقیدہ رکھنے والے علماء نےان غلط عقائدرکھنے والے علماءکے خلاف آپ کی طرح اعتراض کیوں نہیں کیا؟ انہیں گمراہ قراردے کراسلام سے خارج کیوں نہ کیا ؟ اوران کے خلاف کتابیں کیوں نہ لکھیں؟ یاپھرکم سے کم انہیں بدعتی کے القابات سے کیوں نہ نوازہ؟ بلکہ ہم تودیکھتے ہیں کہ ہردورکے محدثین وائمہ دین نے اس مسئلے میں ان کی ہمایت میں ہی کتابیں لکھیں، اختلاف یااعتراض توکسی نے بھی نہیں کیا۔ اس کامطلب نہ یہ عقیدہ غلط ہے اورنہ ہی وہ تمام ائمہ دین غلط ہیں جنہوں نے اس مسئلے کواپنی اپنی کتابوں میں رقم کیا، بلکہ انجنیئرصاحب جیسے کم علم وکم عقل لوگوں کی سوچ غلط ہے جنہوں نے علماءِدیوبندسے بغض وحسد کے نتیجے میں عام ولاعلم مسلمانوں کے سامنے ایسے مسائل بیان کرکےانہیں ائمہ کرام سے بدگمان کرنے کی ناکام کوششیں کی تاکہ ان کی اپنی دکانیں چل سکیں۔
اگرچندلمحوں کے لئےمان بھی لیاجائے کہ یہ عقیدہ غلط وگمراہ کن ہے توپھر انجنیئرصاحب سے گزارش ہے کہ پہلے ان لوگوں پراعتراضات کریں اورحکم لگائیں جنہوں نے اس عقیدہ کی بنیاد رکھی، ان لوگوں کوگمراہ قراردیں جن ائمہ کرام نے اس عقیدہ کواپنی کتابوں میں رقم کیاہے اورساتھ میں اس پراجماع بھی نقل کیاجیساکہ:
۱۔ ’’وَكَانَ مَالِكٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ مَنْ فَضَّلَ الْمَدِينَةَ عَلَى مَكَّةَ إِنِّي لَا أَعْلَمُ بُقْعَةً فِيهَا قَبْرُ نَبِيٍّ مَعْرُوفٍ غَيْرَهَا‘‘۔ ’’امام مالک رضی اﷲعنہ(المتوفی: ۱۷۹ھ) فرماتے ہیں کہ جومدینہ کومکہ پرافضلیت کاقائل ہےاس کی اصل وجہ یہ ہے کہ میں کسی ایسی جگہ کونہیں جانتاجہاں کسی معروف نبی کی قبرہوسوائے مدینہ کے۔ لیکن مدینہ ایسی جگہ ہے جہاں معروف نبی کی قبرہےتویہ وجہ ہے مدینہ کے مکہ پرافضل ہونے کی‘‘۔ (التمهيد لما فی الموطأ من المعانی والأسانيد: ج۲، ص۲۸۹)
۲۔ ’’قاله ابن عبد البر وغيره، وأفضل بقاعها الكعبة المشرفة ثم بيت خديجة بعد المسجد الحرام، نعم التربة التي ضمت أعضاء سيدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أفضل من جميع ما مر حتى من العرش‘‘۔ ’’ابن عبدالبر القرطبی المالكی حمتللہعلیہ(المتوفی: ۴۶۳ھ) فرماتے ہیں کہ: مکہ میں تمام جگہوں سے افضل کعبۃ اﷲہےاوراس کے بعدحضرت حدیجہ رضی اﷲعنہا کاگھرہے۔ البتہ اِن تمام جگہوں سے افضل وہ مٹی ہے جونبی کریمﷺکے جسداطہرسے مس ہے، حتیٰ کہ عرش سے بھی افضل ہے‘‘۔ (البجيرمی على الخطيب: ج۱، ص۱۰۱)

۳۔ ’’ الْكَعْبَةُ أَفْضَلُ مِنْ مُجَرَّدِ الْحُجْرَةِ، فَأَمَّا وَالنَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِيهَا؛ فَلَا وَاَللَّهِ وَلَا الْعَرْشُ وَحَمَلَتُهُ وَالْجَنَّةُ، لِأَنَّ بِالْحُجْرَةِ جَسَدًا لَوْ وُزِنَ بِهِ لَرَجَحَ‘‘۔ ’’ابو وفاء علی بن عقیل حنبلی حمتللہعلیہ (المتوفی: ۵۱۳ھ)لکھتے ہیں: مجرد حجرہ مبارک سے کعبہ شریف افضل ہے لیکن چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاجسم مبارک اس میں ہے تو اللہ کی قسم اب نہ کعبہ نہ عرش نہ اس کو اٹھانے والے فرشتے اور نہ ہی جنت اس سے افضل ہو سکتی ہے اور اگر ساری مخلوق کو حجرہ شریف کے ساتھ تولہ جائے تو بھی وزنی ہو گا‘‘۔ (كتاب الفنون لابن عقيل بحوالہ؛ بدائع الفوائدلابن القیم :ج۳، ص۶۵۵؛ الروض المربع شرح زاد المستقنع: ص۲۶۹؛ الإنصاف فی معرفة الراجح من الخلاف: ج۳، ص۵۶۲)


۴۔ ’’قال الشيخ الخفَّاجي ينقل عن الإمام السبكي وسلطان العلماء العز ابن عبد السلامويقرهم على قولهم۔ قال القاضي عياض اليحصبي في كتابه الشفا: ولا خلاف أن موضع قبره صلى الله عليه وسلم أفضل بقاع الأرض۔ فعلَّق عليه الشيخ الخفَّاجي۔ بل أفضل من السموات والعرش والكعبة كما نقله السبكي رحمة الله‘‘۔ ’’قاضی عیاض المالکی حمتللہعلیہ (المتوفی: ۵۴۴ھ) فرماتے ہیں: اور اس کے خلاف کوئی نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک تمام زمین سے افضل ہے۔ اس پرعلامہ خفاجی حمتللہعلیہ (المتوفی: ۱۰۶۹ھ) نے تعلیق لکھی کہ بلکہ [آپ کی قبر مبارک کی جگہ یا مٹی] آسمان، عرش، کعبہ سے بھی افضل ہے اور اس کے مثل امام سبکی حمتللہعلیہ(المتوفی: ۷۵۶ھ) نے بھی نقل کیا‘‘۔ (الشفا بتعريف حقوق المصطفىٰ للقاضی عياض: ج۱، ص۶۸۳؛ نسيم الرياض فی شرح شفاء القاضی عياض: ج۳، ص۵۳۱؛ الضياء الشمسی على الفتح القدسی شرح ورد السحر للبكری: ج۲، ۲۴۱؛ سلسلة المحاضرات العلمية والتربوية: ج۱، ص۸۵)


۵۔ ’’قال الإمام النووي رحمه الله في حديث مسلم: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَأَوَّلُ مَنْ يَنْشَقُّ عَنْهُ الْقَبْرُ، وَأَوَّلُ شَافِعٍ، وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ"۔ وهذا الحديث دليل لتفضيله صلى الله عليه وسلم على الخلق كلهم، لأن مذهب أهل السنة أن الآدميين أفضل من الملائكة، وهو صلى الله عليه وسلم أفضل الآدميين وغيرهم‘‘۔ ’’الإمام النووی حمتللہعلیہ (المتوفی: ۶۷۶ھ)صحیح مسلم کی حدیث "رسول اﷲﷺ نے فرمایا: میں اولادآدم کاسردارہوں گا، قیامت کے دن اورسب سے پہلے میری قبرپھٹے گی اورسب سے پہلے میں شفاعت کروں گااورسب سے پہلے میری شفاعت قبول ہوگی"کے بارے میں فرماتے ہیں: اس حدیث سے یہ نکلاکہ آپﷺتمام مخلوقات سے افضل ہیں کیونکہ اہلسنت کے نزدیک آدمی ملائکہ سے افضل ہیں اوردوسری حدیث میں جوآتاہے پیغمبروں میں ایک دوسرے پربزرگی نہ دواس کاجواب یہ ہےکہ شایدیہ حدیث اس سے پہلے کی ہے، بعداس کےآپﷺ کومعلوم ہواکہ آپﷺ سب سے افضل ہیں‘‘۔ (صحیح مسلم: کتاب الفضائل، باب تَفْضِيلِ نَبِيِّنَا صلى الله عليه وسلم عَلَى جَمِيعِ الْخَلاَئِقِ، ج۶، حاشیہ رقم الحدیث ۲۲۷۸)
۶۔ ’’امام نووی الشافعی حمتللہعلیہ دوسرے مقام پرقاضی عیاض حمتللہعلیہ سےنقل کرتےہیں: ’’قال القاضي عياض: أجمعوا على أن موضع قبره صلى الله عليه وسلم أفضل بقاع الأرض، وأن مكة والمدينة أفضل بقاع الأرض، واختلفوا في أفضلهما - ماعدا موضع قبره صلى الله عليه وسلم، فقال عمر وبعض الصحابة ومالك وأكثر المدنيين: المدينة أفضل، وقال أهل مكة والكوفة والشافعي وبعض المالكية: مكة أفضل‘‘۔ ’’رسول اﷲﷺکے جسد ِاطہر سے ملی ہوئی جگہ بالاجماع افضل ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ باقی مدینہ اور مکہ میں کون افضل ہے تو اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم اور امام مالک حمتللہعلیہ اور اکثر مدینہ والوں کے نزدیک مدینہ افضل ہے اور مکہ والوں اورامام شافعی حمتللہعلیہ اوربعض مالکیوں کے نزدیک مکہ افضل ہے‘‘۔ (فتح المنعم شرح صحيح مسلم: ج۵، ص ۴۶۸)

۷۔ ’’لَكِنْ قَالَ النَّوَوِيُّ: الْجُمْهُورُ عَلَى تَفْضِيلِ السَّمَاءِ عَلَى الْأَرْضِ أَيْ مَا عَدَا مَا ضَمَّ الْأَعْضَاءَ الشَّرِيفَةَ، وَأَجْمَعُوا بَعْدُ عَلَى تَفْضِيلِ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ عَلَى سَائِرِ الْبِلَادِ، وَاخْتَلَفُوا فِيهِمَا، وَالْخِلَافُ فِيمَا عَدَا الْكَعْبَةَ فَهِيَ أَفْضَلُ مِنْ بَقِيَّةِ الْمَدِينَةِ اتِّفَاقًا، انْتَهَى‘‘۔ ’’امام نووی حمتللہعلیہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ: یہ بات واضح ہوگئی کہ جمہورعلماءکے نزدیک آپ علیہ الصلاۃالسلام کے اعضاء ِ مقدسہ کے ساتھ جو جگہ ملی ہوئی ہےوہ تمام زمین وآسمان سے افضل ہے، جیساکہ مکہ اورمدینہ تمام زمین سے افضل ہیں۔ اس پرعلماء کرام کااجماع ہے، اس میں سے کسی کو بھی اختلا ف نہیں ہے۔ مکہ ومدینہ کی افضلیت کے بارے میں جواختلاف ہےوہ کعبہ کوچھوڑکرہےکہ کعبہ مدینہ سے افضل ہےسوائے مدینہ کی اس جگہ کےجونبی کریمﷺاعضاءمبارکہ کومس ہورہی ہے‘‘۔ (مواهب الجليل فی شرح مختصر خليل: کتاب الأیمان، فَرْعٌ فِي نَاذِرِ زِيَارَتِهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْمَدِينَةُ أَفْضَلُ، ثُمَّ مَكَّةُ، ج۴، ص۵۳۳)

۸۔ ’’قال القرافي: ولما خفي هذا المعنى على بعض الفضلاء أنكر حكاية الإجماع على تفضيل ما ضم الأعضاء الشريفة، وقال: التفضيل إنما هو بكثرة الثواب على الأعمال، والعمل على قبر رسول الله صلّى الله عليه وسلّم محرم، قال: ولم يعلم أن أسباب التفضيل أعم من الثواب، والإجماع منعقد على التفضيل بهذا الوجه لا بكثرة الثواب، ويلزمه ألايكون جلد المصحف- بل ولا المصحف نفسه- أفضل من غيره لتعذر العمل فيه، وهو خرق للإجماع۔ قلت: وما ذكره من التفضيل بالمجاورة مسلّم، لكن ما اقتضاه من عدم التفضيل لكثرة الثواب في ذلك ممنوع لما سنحققه‘‘۔ ’’عبد الرحمٰن بالقرافی المالكی حمتللہعلیہ (المتوفى: ۶۸۴ھ) فرماتے ہیں: یہ بات بعض علماء پرمخفی رہی ہےکہ انہوں نے اعضاءِ مقدسہ کے ساتھ جو جگہ ملی ہوئی ہےاس کی افضلیت پرجواجماع نقل ہوتاچلاآرہاہے اس کاانکارکیا۔ اورجولوگ اس بات کاانکارکرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ جگہ کی فضیلت اس وجہ سےہےکیونکہ یہاں پراعمال (عبادات)کرنےسےثواب زیادہ حاصل ہوتاہے۔ اورجہاں تک بات نبی کریمﷺکی قبرمبارک کی ہے تووہاں پرتوعمل (عبادت) کرناحرام ہے اورنبی کریمﷺکی قبرپرعمل (عبادت) کرناتوبُت پرستی ہے‘‘۔ آگے فرماتے ہیں: ’’اصل میں یہ بات ان لوگوں کومعلوم نہیں ہے کہ کسی جگہ کی فضیلت کامدار صرف کثرت ثواب پرنہیں ہوتابلکہ کسی جگہ کی فضیلت کثرت ثواب پربھی منحصر ہوسکتاہے اوراس کی کوئی دوسری وجہ بھی ہوسکتی ہے۔ جہاں تک بات نبی کریمﷺ کی قبرمبارک کوفضیلت دینے کی ہے، تواس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہاں کثرت ثواب ہےبلکہ اس کی وجہ دوسری ہے۔ کیونکہ اگرکسی جگہ کی فضیلت کی وجہ کثرت ثواب لی جائے توپھرقرآن کریم کے مصحف کی جوجلدہوتی ہے وہ بھی افضل نہ ہوئی اورنہ ہی قرآن کریم کانسخہ افضل ہواکیونکہ قرآن کریم کی جلداورنسخہ پرتوعمل محال ہےلہٰذااس پرتوعمل کامدارنہیں ہے، اوریہ اجماع کے بھی مخالف ہے۔ البتہ کسی چیزکوفضیلت دینا کسی کےقرب وجوادکی بناپرتویہ بات مسلم ہے۔ البتہ فضیلت کثرت ثواب کی بناپرنہیں ہوسکتی یہ بھی ممنوع ہے، جیساکہ ہم پیچھے بیان کرچکے ہیں‘‘۔ (وفاء الوفا باخبار دار المصطفی: الباب الثانی، الفصل الأول فی تفضيلها على غيرها من البلاد، مكة أفضل أم المدينة، ج۱، ص۲۹-۳۰)

۹۔ ’’وقال التاج الفاكهي: قالوا: لا خلاف أن البقعة التي ضمت الأعضاء الشريفة أفضل بقاع الأرض على الإطلاق حتى موضع الكعبة‘‘۔ ’’شیخ تاج الدین الفاکھی حمتللہعلیہ (المتوفى: ۷۳۴ھ) فرماتے ہیں کہ علماء کا اس بات پراتفاق ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعضاءِ مقدسہ کے ساتھ جو جگہ ملی ہوئی ہے وہ ہر شئے سے افضل ہے یہاں تک کہ کعبہ شریف سے بھی افضل ہے‘‘۔ (وفاء الوفا باخبار دار المصطفی: الباب الثانی، الفصل الأول فی تفضيلها على غيرها من البلاد، مكة أفضل أم المدينة، ج۱، ص۲۸)

۱۰۔ ’’أَلَا تَرَى إلَى مَا وَقَعَ مِنْ الْإِجْمَاعِ عَلَى أَنَّ أَفْضَلَ الْبِقَاعِ الْمَوْضِعُ الَّذِي ضَمَّ أَعْضَاءَهُ الْكَرِيمَةِ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَامُهُ، وَقَدْ تَقَدَّمَ أَنَّهُ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - أَفْضَلُ مِنْ الْكَعْبَةِ وَغَيْرِهَا‘‘۔ ’’امام محمد العبدری الفاسی المالكی الشہير بابن الحاج حمتللہعلیہ (المتوفى: ۷۳۷ھ) لکھتےہیں: کیا تو نہیں جانتا کہ اجماع واقع ہوا ہے کہ جس جگہ آپﷺ کا جسد ِاقدس مس ہے وہ تمام کائنات کی جگہوں سے افضل ہے، حتیٰ کہ کعبہ وغیرہ سے بھی افضل ہے‘‘۔ (المدخل لابن الحاج: ص۲۵۷)

۱۱۔ امام ابن القیم حنبلی حمتللہعلیہ (المتوفی: ۷۵۱ھ)فرماتے ہیں: ’’قال ابن عقيل: سألني سائل أيما أفضل حجرة النبي أم الكعبة؟ فقلت: إن أردت مجرد الحجرة فالكعبة أفضل، وإن أردت وهو فيها فلا والله ولا العرش وحملته ولا جنه عدن ولا الأفلاك الدائرة لأن بالحجرة جسدا لو وزن بالكونين لرجح‘‘۔ ’’ابن عقیل حنبلی حمتللہعلیہ نے کہا کہ سائل نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حجرہ افضل ہے یا کعبہ؟ جواب دیا اگر تمہارا ارادہ خالی حجرہ ہے تو تو پھر کعبہ افضل ہےاور اگر تمہاری مراد وہ ہے جو اس میں ہے [یعنی روضۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم جہاں پر مدفون ہیں] تو پھر اللہ کی قسم نہ عرش افضل ہے نہ اس کے تھامنے والے فرشتے نہ جنت عدن اور نہ ہی پوری دنیا۔ اگر حجرے کا وزن جسد کے ساتھ کیا جائے تو وہ تمام کائنات اور جو کچھ اس میں ہے اس سے بھی افضل ہوگا‘‘۔ (بدائع الفوائد :ج۱، ص۱۰۶۵)

۱۲۔ ’’كَمَا حَكَى الْقَاضِي عِيَاضٌ الْإِجْمَاعَ عَلَى ذَلِكَ أَنَّ الْمَوْضِعَ الَّذِي ضَمَّ أَعْضَاءَ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - لَا خِلَافَ فِي كَوْنِهِ أَفْضَلَ وَأَنَّهُ مُسْتَثْنًى مِنْ قَوْلِ الشَّافِعِيَّةِ وَالْحَنَفِيَّةِ وَالْحَنَابِلَةِ وَغَيْرِهِمْ أَنَّ مَكَّةَ أَفْضَلُ مِنْ الْمَدِينَةِ وَنَظَمَ بَعْضُهُمْ فِي ذَلِكَ: وَرَأَيْت جَمَاعَةً يَسْتَشْكِلُونَ نَقْلَ هَذَا الْإِجْمَاعِ‘‘۔ ’’امام تقی الدين السبكی الشافعی حمتللہعلیہ (المتوفى: ۷۵۶ھ) لکھتےہیں: قاضی عیاض حمتللہعلیہ نے اس پراجماع نقل کیاہےکہ رسول اﷲﷺکے جسد ِاطہر سےجوجگہ ملی ہوئی ہے وہ تمام زمین سےافضل ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ شافعیہ، حنفیہ اورحنابلہ مکہ کوافضل قراردیتے ہیں البتہ مالکیہ مدینہ کوافضل قراردیتے ہیں، یہ اختلاف قبرمبارک کو چھوڑکرہےجس پرتمام جماعتوں کااجماع ہے‘‘۔ (فتاوى السبكی: ج۱، ص۲۷۹)

۱۳۔ ’’قال الزركشي: وتفضيل ما ضم الأعضاء الشريفة للمجاورة، ولهذا يحرم للمحدث مس جلد المصحف‘‘۔ ’’امام بدرالدین الزرکشی الشافعی حمتللہعلیہ (المتوفى: ۷۹۴ھ) فرماتے ہیں: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعضاءِ مقدسہ کے ساتھ جو جگہ ملی ہوئی ہے وہ "مجاورت" کی وجہ سے افضل ہے اسی وجہ سے محدث کا قرآن پاک کی جلد کو چھونا جائز نہیں ہے‘‘۔ (وفاء الوفا باخبار دار المصطفی: الباب الثانی، الفصل الأول فی تفضيلها على غيرها من البلاد، مكة أفضل أم المدينة، ج۱، ص۲۹)

۱۴۔ ’’واجمعوا علی ان الموضع الذی ضم اعضاء الرسول المصطفیٰﷺ المشرفۃ افضل بقاع الارض حتی موضع الکعبۃ کما قالہ القاضی عیاض وابن عساکر‘‘۔ ’’امام زين الدين أبو بكر بن الحسين بن عمر العثمانی المراغی الشافعی حمتللہعلیہ (المتوفى: ۸۱۶ھ) فرماتے ہیں: اس پراجماع ہے کہ وہ جگہ جو نبی اکرم ﷺکے اعضا ءِ مبارکہ کے ساتھ مس ہے وہ تمام زمین سے افضل ہے حتیٰ کہ کعبہ سے بھی جیسا کہ امام قاضی عیاض حمتللہعلیہ اورابن عسا حمتللہعلیہ کر نے کہاہے‘‘۔ (تحقيق النصرة بتلخيص معالم دار الهجرة: ص۱۰۴)

۱۵۔ ’’وقد احتج أبو بكر الأبهري المالكي بأن المدينة أفضل من مكة بأن النبي صلى الله عليه وسلم مخلوق من تربة المدينة وهو أفضل البشر، فكانت تربته أفضل الترب انتهى وكون تربته أفضل الترب لا نزاع فيه‘‘۔ ’’حافظ ابن حجرعسقلانی الشافعی حمتللہعلیہ (المتوفی: ۸۵۲ھ)لکھتےہیں: شيخ أبی بكر ابهری البغدادی المالكی حمتللہعلیہ (المتوفی: ۳۷۵ھ)فرماتے ہیں کہ مدینہ مکہ سے افضل ہے اور دلیل اس کی یہ دیتےہیں کہ نبی کریمﷺکی پیدائش مدینہ کی مٹی سے ہوئی ہے، کیونکہ آپﷺتمام مخلوقات میں سب سےافضل ہیں لہٰذاوہ مٹی بھی تمام مٹی سےافضل ہوئی، اس میں کسی کااختلاف نہیں‘‘۔ (فتح الباری شرح صحيح البخاری: ج۱۳، ص۳۲۰)

۱۶۔ ’’وقال شيخنا المحقق ابن إمام الكاملية في تفسير سورة الصف: والحق أن مواضع الأنبياء وأرواحهم أشرف من كل ما سواها من الأرض والسماء، ومحل الخلاف في غير ذلك كما كان يقرره شيخ الإسلام البلقيني‘‘۔ ’’شیخ المحقق كَمَال الدين ابن إمام الكاملية الشافعی حمتللہعلیہ (المتوفى: ۸۷۴ھ) سورۃ الصف کی تفسیرمیں فرماتے ہیں کہ: صحیح بات یہ ہے کہ انبیاءؑ کی جگہیں اوران کی روحیں ماسواء تمام زمین وآسمان سے اشرف ہیں اورجواختلاف ہے وہ ان جگہوں کے علاوہ میں ہےجیساکہ شیخ الاسلام بلقینیؒ نے فرمایاہے‘‘۔ (وفاء الوفا باخبار دار المصطفی: الباب الثانی، الفصل الأول فی تفضيلها على غيرها من البلاد، مكة أفضل أم المدينة، ج۱، ص۲۹)

۱۷۔ ’’فَوَائِدُ الْأُولَى: مَكَّةُ أَفْضَلُ مِنْ الْمَدِينَةِ عَلَى الصَّحِيحِ مِنْ الْمَذْهَبِ، وَعَلَيْهِ الْأَصْحَابُ وَنَصَرَهُ الْقَاضِي وَأَصْحَابُهُ وَغَيْرُهُمْ، وَأَخَذَهُ مِنْ رِوَايَةِ أَبِي طَالِبٍ وَقَدْ سُئِلَ عَنْ الْجِوَارِ بِمَكَّةَ؟ فَقَالَ: كَيْفَ لَنَا بِهِ؟ وَقَدْ قَالَ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «إنَّك لَأَحَبُّ الْبِقَاعِ إلَى اللَّهِ، وَإِنَّك لَأَحَبُّ الْبِقَاعِ إلَيَّ» وَعَنْهُ: الْمَدِينَةُ أَفْضَلُ، اخْتَارَهُ ابْنُ حَامِدٍ وَغَيْرُهُ۔ وَقَالَ ابْنُ عَقِيلٍ فِي الْفُنُونِ: الْكَعْبَةُ أَفْضَلُ مِنْ مُجَرَّدِ الْحُجْرَةِ، فَأَمَّا وَهُوَ فِيهَا: فَلَا وَاَللَّهِ وَلَا الْعَرْشُ وَحَمَلَتُهُ وَالْجَنَّةُ؛ لِأَنَّ فِي الْحُجْرَةِ جَسَدًا لَوْ وُزِنَ بِهِ لَرَجَحَ قَالَ فِي الْفُرُوعِ: فَدَلَّ كَلَامُ الْأَصْحَابِ أَنَّ التُّرْبَةَ عَلَى الْخِلَافِ، وَقَالَ الشَّيْخُ تَقِيُّ الدِّينِ: لَا أَعْلَمُ أَحَدًا فَضَّلَ التُّرْبَةَ عَلَى الْكَعْبَةِ إلَّا الْقَاضِي عِيَاضٌ، وَلَمْ يَسْبِقْهُ أَحَدٌ، وَقَالَ فِي الْإِرْشَادِ وَغَيْرِهِ: مَحَلُّ الْخِلَافِ فِي الْمُجَاوَرَةِ، وَجَزَمُوا بِأَفْضَلِيَّةِ الصَّلَاةِ‘‘۔ ’’علاء الدين أبو الحسن علی بن سليمان المرداوی الدمشقی الصالحی الحنبلی حمتللہعلیہ (المتوفى: ۸۸۵ھ)فرماتے ہیں: صحیح مذہب کے مطابق مدینہ مکہ سے افضل ہے اورزیادہ تراصحاب اور قاضی عیاض اوران کے شاگردوں نے اسی کی تائید فرمائی ہےاوراس کوابوطالب کی روایت سے لیاگیاہےکہ ان سے مکہ کاپڑوس اختیارکرنے کےمتعلق پوچھاگیاتو انہوں نے کہاکہ نبی کریمﷺنے تومدینہ کے بارے میں فرمایاہےکہ تومجھے سب سے زیادہ پسندہے۔ ابن حامد وغیرہ نے اسی کواختیارکیاہے کہ مدینہ افضل ہے۔ اورابن عقیل حنبلی حمتللہعلیہ کتاب الفنون میں فرماتےہیں: مجرد حجرہ مبارک سے کعبہ شریف افضل ہے لیکن چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاجسم مبارک اس میں ہے تو اللہ کی قسم اب نہ کعبہ نہ عرش نہ اس کو اٹھانے والے فرشتے اور نہ ہی جنت اس سے افضل ہو سکتی ہے اور اگر ساری مخلوق کو حجرہ شریف کے ساتھ تولہ جائے تو بھی وزنی ہو گا۔ قبرکی مٹی پرعلماءکاجوکلام ہے اس میں بھی اختلافی ہے، بعض اس کو افضل قراردیتے ہیں اوربعض نہیں۔ شیخ تقی الدین فرماتے ہیں: میں نہیں جانتاکہ کسی نے قبرکی مٹی کوکعبہ سے افضل قراردیاہوسوائے قاضی عیاض کے، ان سے پہلے اس معاملے میں کسی نے پہل نہیں کی۔ الارشاداوردوسری کتابوں میں کہاگیاہےکہ اختلاف کی وجہ وہاں سکونت اختیارکرنےمیں ہے، البتہ قبرکی مٹی کی افضلیت کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔ اورنمازوں کی افضلیت کے بارےمیں تومکہ افضل ہے‘‘۔ (الإنصاف فی معرفة الراجح من الخلاف للمرداوی: ج۳، ص۵۶۲)

۱۸۔ ’’قال الشيخ مُحَمَّد البرنسي الفاسي الْمَعْرُوف بزرُّوق المالكي في شرح الرسالة: وقال ابن وهب وابن حبيب بالعكس بعد إجماعهم على أن موضع قبره عليه الصلاة والسلام أفضل بقاع الأرض قُلْتُ وَيَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ مَوْضِعُ الْبَيْتِ بَعْدَهُ كَذَلِكَ، وَلَكِنْ لَمْ أَقِفْ عَلَيْهِ لِأَحَدٍ مِنْ الْعُلَمَاءِ فَانْظُرْهُ‘‘۔ ’’شیخ محمد البرنسی الفاسی بزروق المالکی حمتللہعلیہ (المتوفى: ۸۹۹ھ) فرماتے ہیں: ابن وہب حمتللہعلیہ (المتوفى: ۲۶۱ھ) اورابن حبیب حمتللہعلیہ (المتوفى: ۲۳۸ھ)فرماتے ہیں کہ مکہ اورمدینہ کی افضلیت میں لوگوں کااختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک مکہ افضل ہے اوربعض مدینہ کی افضلیت کے قائل ہیں۔ اس کے برعکس اس بات پر اجماع امت ہے کہ رسول اﷲصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعضاء ِمقدسہ کے ساتھ جو جگہ ملی ہوئی ہے وہ ہر شئےسے افضل ہے۔ شیخ البرنسی فرماتے ہیں: اس بات کاتقاضہ یہ ہے کہ جس طرح حضورﷺکی قبرمبارک افضل ہے بالکل اسی طرح مکہ اورمدینہ میں جوآپﷺکاگھرہے اس کابھی یہی حکم ہوناچاہیئے کہ وہ بھی کعبہ سے افضل ہو، لیکن اس بارے میں علماء کرام نے تصریح نہیں فرمائی ہے، البتہ قبرمبارک کی افضلیت کے بارے میں توتمام علماءنے صراحتاًفرمایاہےلیکن گھرکے بارے میں نہیں‘‘۔ (شرح زروق على متن الرسالة: ص ۹۹۲)

۱۹۔ ’’قال الإمام السخاوي في التحفة اللطيفة: مع الإجماع على أفضلية البقعة التي ضمته صلى الله عليه وسلم، حتى على الكعبة المفضلة على أصل المدينة، بل على العرش، فيما صرح به ابن عقيل من الحنابلة۔ ولا شك أن مواضع الأنبياء وأرواحهم أشرف مما سواها من الأرض والسماء، والقبر الشريف أفضلها، لما تتنزل عليه من الرحمة والرضوان والملائكة، التي لا يعملها إلا مانحها، ولساكنه عند الله من المحبة والاصطفاء ما تقصر العقول عن إدراكه‘‘۔ ’’فقہ شافعی کےعظیم مفسر، محدث ومورخ علامہ شمس الدین سخاوی حمتللہعلیہ (المتوفی: ۹۰۲ھ) فرماتےہیں: وہ ٹکڑا جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد اطہر کے ساتھ ضم ہے اس کی افضلیت پر اجماع ہے حتیٰ کہ کعبہ سے بھی افضل ہے جو اصل شہر مدینہ [سوائے اس حصے کے جہاں آنحضرت صلیللہعلیہسلم مدفون ہیں اس ] سے فضیلت میں زیادہ ہے۔ بلکہ عرش سے بھی زیادہ۔ اس کی تصریح علمائے حنابلہ میں سے ابن عقیلؒ نے کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیاء کی مقیم گاہیں اور روح اشرف ہیں زمین و آسمان کی تمام چیزوں سے۔اور ان کی قبریں بھی افضل ہیں‘‘۔ ( التحفة اللطيفة فی تاريخ المدينة الشريفة السخاوی: ج۱، ص۴۲)

۲۰۔ ’’قال جلال الدین سیوطی رحمه الله: قَالَ الْعلمَاء مَحل الْخلاف فِي التَّفْضِيل بَين مَكَّة وَالْمَدينَة فِي غير قَبره صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أما هُوَ وَأفضل الْبِقَاع بِالْإِجْمَاع بلة أفضل من الْكَعْبَة بل ذكر ابْن عقيل الْحَنْبَلِيّ أَنه أفضل من الْعَرْش‘‘۔ ’’فقہ شافعی کےعظیم مفسر، محدث، فقیہ ومورخ امام جلال الدین سیوطی حمتللہعلیہ(المتوفی: ۹۱۱ھ)"وَبِأَن الْبقْعَة الَّتِي دفن فِيهَا أفضل من الْكَعْبَة وَالْعرش" کاباب رقم کرنے کے بعدفرماتے ہیں: آپﷺ کی قبراطہرسب روئے زمین سے افضل ہے اوراس بات پرامت کااجماع ہے، بلکہ کعبہ سے بھی افضل ہے۔ امام ابن عقیل حنبلیؒ فرماتے ہیں کہ قبرِاطہرعرش معلیٰ سے بھی افضل ہے‘‘۔ (الخصائص الكبرى للإمام السيوطی: ج۲، ص۳۵۱)

۲۱۔ ’’وأحسن بعضهم فقال: محل الخلاف في غير الكعبة الشريفة، فهي أفضل من المدينة ما عدا ما ضم الأعضاء الشريفة إجماعا، وحكاية الإجماع على تفضيل ما ضم الأعضاء الشريفة نقله القاضي عياض، وكذا القاضي أبو الوليد الباجي قبله كما قال الخطيب ابن جملة، وكذا نقله أبو اليمن ابن عساكر وغيرهم، مع التصريح بالتفضيل على الكعبة الشريفة، بل نقل التاج السبكي عن ابن عقيل الحنبلي أن تلك البقعة أفضل من العرش‘‘۔ ’’نور الدين أبو الحسن السمهودی الشافعی حمتللہعلیہ (المتوفى: ۹۱۱ھ)" وفاء الوفا باخبار دار المصطفی" میں طویل بحث میں فرماتے ہیں: اس بات پر اجماع امت ہے کہ رسول اﷲصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعضاء ِمقدسہ کے ساتھ جو جگہ ملی ہوئی ہے وہ ہر شئےسے افضل ہے یہاں تک کہ عرش سے بھی افضل ہے۔ اس اجماع کو قاضی عیاض حمتللہعلیہ، قاضی ابو الولید الباجی حمتللہعلیہ، خطیب ابن جملہ حمتللہعلیہ، ابو یمن ابن عساکر حمتللہعلیہ اور دیگر علماء نے نقل کیا ہے اوراس مقدس مکان کی کعبہ شریف پر افضل ہونے کی صراحت کی ہے بلکہ امام تاج الدین سبکی حمتللہعلیہ نے ابن عقیل حنبلی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ یہ جگہ عرش سے بھی افضل ہے‘‘۔ (وفاء الوفا باخبار دار المصطفی: الباب الثانی، الفصل الأول فی تفضيلها على غيرها من البلاد، مكة أفضل أم المدينة، ج۱، ص۲۸)

۲۲۔ ’’وأجمعوا على أن الموضع الذي ضمَّ أعضاءه الشريفة -صلى الله عليه وسلم- أفضل بقاع الأرض، حتى موضع الكعبة، كما قاله ابن عساكر والباجي والقاضي عياض، بل نقل التاج السبكي كما ذكره السيد السمهودي في "فضائل المدينة"، عن ابن عقيل الحنبلي: إنها أفضل من العرش، وصرَّح الفاكهاني بتفضيلها على السماوات, ولفظه: وأقول أنا: وأفضل من بقاع السماوات أيضًا۔ ولم أر من تعرض لذلك، والذي أعتقده لو أن ذلك عرض على علماء الأمة لم يختلفوا فيه، وقد جاء أن السماوات شرفت‘‘۔ ’’امام أبى بكر بن عبد الملك القسطلانی القتيبی المصری الشافعی حمتللہعلیہ (المتوفى: ۹۲۳ھ)فرماتے ہیں: اور اس پر اجماع ہے کہ وہ مقام جوأعضاءِالشريفة سے ملے ہوئے ہیں صلی الله علیہ وسلم کے وہ افضل ہیں باقی زمین سے حتیٰ کہ کعبه سے بھی جیسا کہ ابن عساکر حمتللہعلیہ، الباجی حمتللہعلیہ اور قاضی عیاض حمتللہعلیہ نے کہا بلکہ التاج السبکی حمتللہعلیہ کہتے ہیں کہ السيد السمهودی حمتللہعلیہ نے کتاب میں ابن عقیل حنبلی حمتللہعلیہ سے نقل کیا ہے کہ یہ تو عرش سے بھی افضل ہے اورالفاكهانی حمتللہعلیہ نے صراحت کی ہے کہ سات آسمانوں سے بھی افضل ہے‘‘۔ (المواهب اللدنية بالمنح المحمدية: ج۴، ص۶۰۲)

۲۳۔ ’’قال شمس الدين الشامي الشافعي في سبل الهدى والرشاد: قال القاضي عياض بعد حكاية الخلاف: ولا خلاف أن موضع قبره- صلى الله عليه وسلم- أفضل بقاع الأرض انتهى۔ ولا ريب أن نبينا- صلى الله عليه وسلم- أفضل المخلوقات، فليس في المخلوقات على الله تعالى أكرم منه، لا في العالم العلويّ ولا في العالم السفليّ كما تقدم في الباب الأول من الخصائص‘‘۔ ’’ امام شمس الدين الشامی الشافعی حمتللہعلیہ (المتوفی: ۹۴۲ھ) فرماتے ہیں: امام سبکی اورقاضی عیاض کےقول کے مطابق اس کے خلاف کوئی نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک تمام زمین سے افضل ہے۔ اوراس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے نبیﷺتمام مخلوقات میں سب سے افضل ہیں اورمخلوقات میں اﷲتعالیٰ کے نزدیک آپﷺسے زیادہ عزت دارکوئی نہیں ہے، نہ ہی آسمانوں میں اورنہ ہی زمین میں، اوریہ بات میں نے باب اوّل میں خصائص میں بھی فرمائی ہے‘‘۔ (سبل الهدى والرشاد فی سيرة خير العباد: ج۱۲، ۳۵۳)

۲۴۔ ’’قال الإمام الحطاب الرُّعيني المالكي في "مواهب الجليل": هَذَا هُوَ الْمَشْهُورُ، وَقِيلَ: مَكَّةُ أَفْضَلُ مِنْ الْمَدِينَةِ بَعْدَ إجْمَاعِ الْكُلِّ عَلَى أَنَّ مَوْضِعَ قَبْرِهِ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - أَفْضَلُ بِقَاعِ الْأَرْضِ۔ قَالَ الشَّيْخُ زَرُّوقٌ فِي شَرْحِ الرِّسَالَةِ: قُلْتُ وَيَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ مَوْضِعُ الْبَيْتِ بَعْدَهُ كَذَلِكَ، وَلَكِنْ لَمْ أَقِفْ عَلَيْهِ لِأَحَدٍ مِنْ الْعُلَمَاءِ فَانْظُرْهُ، انْتَهَى۔ وَقَالَ الشَّيْخُ السَّمْهُودِيُّ فِي تَارِيخِ الْمَدِينَةِ: نَقَلَ عِيَاضٌ وَقَبْلَهُ أَبُو الْوَلِيدِ وَالْبَاجِيُّ وَغَيْرُهُمَا الْإِجْمَاعَ عَلَى تَفْضِيلِ مَا ضَمَّ الْأَعْضَاءَ الشَّرِيفَةَ عَلَى الْكَعْبَةِ بَلْ نَقَلَ التَّاجُ السُّبْكِيُّ عَنْ ابْنِ عَقِيلٍ الْحَنْبَلِيِّ أَنَّهَا أَفْضَلُ مِنْ الْعَرْشِ، وَصَرَّحَ التَّاجُ الْفَاكِهِيُّ بِتَفْضِيلِهَا عَلَى السَّمَوَاتِ، قَالَ: بَلْ الظَّاهِرُ الْمُتَعَيَّنُ جَمِيعُ الْأَرْضِ عَلَى السَّمَوَاتِ لِحُلُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَا، وَحَكَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ الْأَكْثَرِ بِخَلْقِ الْأَنْبِيَاءِ مِنْهَا وَدَفْنِهِمْ فِيهَا، لَكِنْ قَالَ النَّوَوِيُّ: الْجُمْهُورُ عَلَى تَفْضِيلِ السَّمَاءِ عَلَى الْأَرْضِ أَيْ مَا عَدَا مَا ضَمَّ الْأَعْضَاءَ الشَّرِيفَةَ، وَأَجْمَعُوا بَعْدُ عَلَى تَفْضِيلِ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ عَلَى سَائِرِ الْبِلَادِ، وَاخْتَلَفُوا فِيهِمَا، وَالْخِلَافُ فِيمَا عَدَا الْكَعْبَةَ فَهِيَ أَفْضَلُ مِنْ بَقِيَّةِ الْمَدِينَةِ اتِّفَاقًا، انْتَهَى‘‘۔ ’’إمام الحطاب الرُّعينی المالكی حمتللہعلیہ (المتوفی: ۹۵۴ھ) فرماتے ہیں: مشہوریہ ہے کہ مکہ مدینہ سے افضل ہے۔ اجماع کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک تمام زمین سے افضل ہے۔ شیخ زروق حمتللہعلیہ شرح رسالہ میں فرماتے ہیں: اس بات کاتقاضہ یہ ہے کہ جس طرح نبی کریمﷺکی قبرمبارک افضل ہے بالکل اسی طرح مکہ اورمدینہ میں جوآپﷺکاگھرہےوہ بھی کعبہ سے افضل ہوناچاہیئے، لیکن اس بارے میں علماء کرام نے تصریح نہیں فرمائی ہے، البتہ قبرمبارک کی افضلیت کے بارے میں توتمام علماءنے صراحتاًفرمایاہےلیکن گھرکے بارے میں نہیں۔ شیخ السمهودی حمتللہعلیہ تاریخ مدینہ میں فرماتے ہیں: اس بات پر اجماع امت ہے کہ رسول اﷲصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعضاء ِمقدسہ کے ساتھ جو جگہ ملی ہوئی ہے وہ ہر شئےسے افضل ہے یہاں تک کہ عرش سے بھی افضل ہے۔ اس اجماع کو قاضی عیاض حمتللہعلیہ ، قاضی ابو الولید الباجی حمتللہعلیہ اور دیگر علماء نے نقل کیا ہے اوراس مقدس مکان کی کعبہ شریف پر افضل ہونے کی صراحت کی ہے بلکہ امام تاج الدین سبکی حمتللہعلیہ نے ابن عقیل حنبلی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ یہ جگہ عرش سے بھی افضل ہے۔ شیخ تاج الدین الفاکھی حمتللہعلیہ فرماتے ہیں کہ علماء کا اس بات پراتفاق ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعضاءِ مقدسہ کے ساتھ جو جگہ ملی ہوئی ہے وہ ہر شئےسے افضل ہے یہاں تک کہ کعبہ شریف سےبھی افضل ہے۔ امام نووی حمتللہعلیہ فرماتے ہیں: یہ بات واضح ہوگئی کہ جمہورعلماءکے نزدیک آپ علیہ الصلاۃالسلام کے اعضاء ِمقدسہ کے ساتھ جو جگہ ملی ہوئی ہےوہ تمام زمین وآسمان سے افضل ہے، جیساکہ مکہ اورمدینہ تمام زمین سے افضل ہیں۔ اس پرعلماء کرام کااجماع ہے، اس میں سے کسی کو بھی اختلا ف نہیں ہے۔ مکہ ومدینہ کی افضلیت کے بارے میں جواختلاف ہےوہ کعبہ کوچھوڑکرہےکہ کعبہ مدینہ سے افضل ہےسوائے مدینہ کی اس جگہ کےجونبی کریمﷺاعضاءمبارکہ کومس ہورہی ہے‘‘۔ (مواهب الجليل فی شرح مختصر خليل: کتاب الأیمان، فَرْعٌ فِي نَاذِرِ زِيَارَتِهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْمَدِينَةُ أَفْضَلُ، ثُمَّ مَكَّةُ، ج۴، ص۵۳۳)

۲۵۔ ’’قال الإمام ابن حجر الهيتمي في تحفة المحتاج: وهي كبقية الحرم أفضل الأرض عندنا وعند جمهور العلماء للأخبار الصحيحة المصرحة بذلك وما عارضها بعضه ضعيف وبعضه موضوع كما بينته في الحاشية ومنه خبر "إنها أي المدينة أحب البلاد إلى الله تعالى" فهو موضوع اتفاقا، وإنما صح ذلك منغير نزاع فيه في مكة إلا التربة التي ضمت أعضاءه الكريمة صلى الله عليه وسلم فهي أفضل إجماعا حتى من العرش‘‘۔ ’’ علامہ ابن حجر ہیتمی الشافعی حمتللہعلیہ (المتوفی:۹۷۳ھ)لکھتے ہیں کہ: اور یہ کہ حرم کعبہ میرے اور اخبار صحیحہ صریحہ سے جمہور کے نزدیک تمام زمین سے افضل ہے اور جو چند دلیلیں اس کے معارض ہیں ان میں سے بعض ضعیف ہیں اور بعض موضوع مثلاً حاشیہ میں جو دلیل ہے "إنها أي المدينة أحب البلاد إلى الله تعالى"یہ بالاتفاق موضوع ہے ۔ لیکن اس طرح کی خبریں مکہ [کی فضیلت] کے بارے میں بلااختلاف درست ہیں سوائے اس مٹی کی فضیلت کے جو نبی کریم صلیللہعلیہسلم کے اعضائے مقدسہ کے ساتھ مس ہے حتیٰ کہ عرش سے بھی۔ یہ فضیلت اجماع سے ثابت ہے‘‘۔ (تحفة المحتاج: ج۵، ص۱۱۲)

۲۶۔ ’’أن موضع قبره الشريف ﷺ أفضل بقاع الأرض، وهو أفضل الخلق وأكرمهم على الله تعالى ۔۔۔ فاذا تقرر أنه أفضل المخلوقين وأن تربته أفضل بقاع الأرض‘‘۔ ’’قطب الدين محمد بن علاء الدين علی بن أحمد النهروانی حنفی حمتللہعلیہ (المتوفی: ۹۸۸ھ)لکھتے ہیں: آپﷺ کی قبرشریف روئےزمین میں سب سے افضل ہے اور اﷲتعالیٰ کے نزدیک آپﷺ تمام مخلوقات میں سب سے افضل واکرم ہیں۔ کیونکہ آپﷺتمام مخلوقات میں سب سےافضل ہیں لہٰذاوہ مٹی بھی تمام مٹی سےافضل ہوئی‘‘۔ (تاريخ المدينة لقطب الدين النهروانی: ص۱۸۶)

۲۷۔ ’’وقال الشيخ شمس الدین الرملي المصري الشافعي نقله الشوبري في حاشيته على أسنى المطالب: وَمَحَلُّ التَّفَاضُلِ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فِي غَيْرِ مَوْضِعِ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَّا هُوَ فَأَفْضَلُ بِالْإِجْمَاعِ كَمَا نَقَلَهُ الْقَاضِي عِيَاضٌ قَالَ ابْنُ قَاضِي شُهْبَةَ قَالَ شَيْخِي وَوَالِدِي وَقِيَاسُهُ أَنْ يُقَالَ إنَّ الْكَعْبَةَ الْمُشَرَّفَةَ أَفْضَلُ مِنْ سَائِرِ بِقَاعِ الْمَدِينَةِ قَطْعًا مَا عَدَا مَوْضِعَ قَبْرِهِ الشَّرِيفِ وَبَيْتَ خَدِيجَةَ الَّذِي بِمَكَّةَ أَفْضَلُ مَوْضِعٍ مِنْهَا بَعْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ قَالَهُ الْمُحِبُّ الطَّبَرِيُّ وَقَالَ النَّوَوِيُّ فِي إيضَاحِهِ الْمُخْتَارِ اسْتِحْبَابُ الْمُجَاوَرَةِ بِمَكَّةَ إلَّا أَنْ يَغْلِبَ عَلَى ظَنِّهِ الْوُقُوعُ فِي الْأُمُورِ الْمَحْذُورَةِ وَقَوْلُهُ، وَأَمَّا هُوَ فَأَفْضَلُ بِالْإِجْمَاعِ قَالَ شَيْخُنَا وَأَفْضَلُ مِنْ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَمِنْ الْعَرْشِ وَالْكُرْسِيِّ وَمِنْ الْجَنَّةِ‘‘۔ ’’ شيخ شمس الدین الرملی المصری الشافعی حمتللہعلیہ (المتوفی: ۱۰۰۴ھ) أسنى المطالب کےحاشیہ میں نقل کرتے ہیں کہ: مکہ ومدینہ کی افضلیت کے بارے میں بعض لوگوں نے مکہ کوافضل قراردیااوربعض نے مدینہ کوتویہ جواختلاف ہے یہ نبی کریمﷺکی قبرمبارک کوچھوڑکرہے۔ البتہ جہاں تک نبی کریمﷺ کی قبرمبارک کی بات ہے تووہ بالاجماع افضل ہے۔قاضی عیاض نے اس کونقل کیاہے اورابن قاضی شہبہ کہتے ہیں کہ میرےشیخ اوروالدفرماتے ہیں کہ اس کی دلیل یہ ہے کہ کعبہ شریف یقینی طورپرتمام مدینہ سے افضل ہے سوائے مدینہ شریف کی وہ جگہ جہاں نبیﷺکی قبرشریف ہے اورحضرت خدیجہ رضی اﷲعنہاکاگھرمکہ میں مسجدحرام کے بعدسب سے افضل ہے۔ محب طبری فرماتے ہیں کہ امام نوویؒ نے اسی کواختیارکیاہےاورفرمایاہے کہ مکہ کاپڑوس اختیارکرناافضل ہے سوائے اس کے کہ کسی ناجائزاورگناہ کے کام میں پڑنے کااندیشہ نہ ہو۔ جہاں تک یہ بات ہے کہ نبی کریمﷺکی قبرمبارک اجماعی طورپر افضل ہےتواس کے بارے میں ہمارے شیخ فرماتے ہیں کہ وہ تمام آسمانوں سے عرش، کرسی اورجنت سے افضل ہے‘‘۔ (أسنى المطالب فی شرح روض الطالب وبهامشه حاشية الرملی تجريد الشوبری: ج۵، ص۴۳۵)

۲۸۔ ’’قال ملا علي القاري الحنفي في المسلك المتقسط في المنسك المتوسط: أجمعوا على أنّ أفضل البلاد مكّة والمدينة زادهما الله شرفًا وتعظيمًا، ثم اختلفوا بينهما أي في الفضل بينهما، فقيل: مكة أفضل من المدينة، وهو مذهب الأئمة الثلاثة وهو المرويُّ عن بعض الصحابة، وقيل: المدينة أفضل من مكة، وهو قول بعض المالكية ومن تبعهم من الشافعية، وقيل بالتسوية بينهم۔ إلى أن قال والخلاف أي الاختلاف المذكور محصورٌ فيما عدا موضع القبر المقدس، قال الجمهور: فما ضمّ أعضاءه الشريفة فهو أفضل بقاع الأرض بالإجماع حتى من الكعبة ومن العرش انتهى‘‘۔ ’’ملا علی قاری حنفی حمتللہعلیہ (المتوفی: ۱۰۱۴ھ) فرماتے ہیں: یہ اس بات پر تو اتفاق اور اجماع ہے کہ اللہ نے مکہ اور مدینہ کوافضل بنایا اور شرف و تعظیم سے مالا مال کیا ہے۔ لیکن پھر اس میں اختلاف ہے کہ ان دونوں میں زیادہ افضل کون ہے۔ بعض نے کہا مکہ مدینے سے افضل ہے اور یہ آئمہ ثلاثہ کا مذہب ہے اور بعض صحابہ سے مروی ہے۔ اور بعض نے کہا مدینہ مکے سے افضل ہے اور یہ قول ہے بعض مالکی اور شافعی علماء کا اور بعض نے کہا دونوں کے درمیان توازن ہے۔ پھر فرمایا لیکن یہ اختلاف قبر مبارک کو خارج بحث کرکے ہے کیونکہ جمہور نے فرمایا جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعضاءِ شریفہ ضم زمین ہیں وہ ٹکڑا اجماع کے مطابق تمام زمین سے افضل ہے حتیٰ کہ کعبہ اور عرش سے بھی‘‘۔ (المسلك المتقسط فی المنسك المتوسط: ص۲۸۷-۲۸۸)


۲۹۔ ’’وقال زين العابدين الحدادي ثم المناوي القاهري في شرحه المسمَّى فيض القدير: والخلاف فيما عدا الكعبة فهي أفضل من المدينة اتفاقا خلا البقعة التي ضمت أعضاء الرسول صلى الله عليه وسلم فهي أفضل حتى من الكعبة كما حكى عياض الإجماع عليه‘‘۔ ’’امام زين العابدين الحدادی المناوی القاهری الشافعی حمتللہعلیہ (المتوفی: ۱۰۳۱ھ)فرماتے ہیں کہ: مکہ ومدینہ کی افضلیت کے بارے میں جواختلاف ہےوہ کعبہ کوچھوڑکرہےکہ کعبہ مدینہ سے افضل ہےسوائے مدینہ کی اس جگہ کوچھوڑکرجونبی کریمﷺاعضاءمبارکہ کومس ہورہی ہے، کیونکہ وہ کعبہ سے افضل ہے۔ قاضی عیاض نے اس پراجماع نقل کیاہے‘‘۔ (فيض القدير شرح الجامع الصغير: ج ۶ ص ۲۶۴)
۳۰۔ ’’قام الاجماع ان ھٰذا الموضع الذی ضم اعضاء الشریفۃﷺ افضل بقاع الارض حتی موضع الکعبۃ الشریفۃ قال بعضھم وافضل من بقاع السمٰوٰت حتی من العرش‘‘۔ ’’ نور الدین بن برہان الدین حلبی الشافعی حمتللہعلیہ (المتوفی: ۱۰۴۳ھ) فرماتے ہیں: جہاں تک مدینہ کے مقابلے میں مکہ کی افضلیت کی بحث ہے تواس سے مراداس جگہ کے علاوہ مدینہ کے دوسرے حصے ہیں جہاں آنحضرتﷺآرام فرمارہے ہیں کیونکہ جہاں تک مزارمبارک کی جگہ کاتعلق ہے تواس پرعلماءکااتفاق ہے کہ وہ روئے زمین کاسب سے افضل حصہ ہے بلکہ یہاں تک کہ عرش اورکرسی سے بھی زیادہ افضل جگہ ہے‘‘۔ (سیرۃ حلبیہ [اردو]: ج ۲ ص ۸۵)

۳۱۔ ’’قال الإمام منصور بن يونس بن إدريس البهوتي الحنبلي في شرح منتهى الإرادات: قَالَ فِي الْفُنُونِ: الْكَعْبَةُ أَفْضَلُ مِنْ مُجَرَّدِ الْحُجْرَةِ فَأَمَّا وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا فَلَا وَاَللَّهِ وَلَا الْعَرْشُ وَحَمَلَتُهُ وَالْجَنَّةُ؛ لِأَنَّ بِالْحُجْرَةِ جَسَدًا لَوْ وُزِنَ بِهِ لَرَجَحَ‘‘۔ ’’امام منصوربن ادریس بہوتی حنبلی حمتللہعلیہ (المتوفی: ۱۰۵۱ھ)لکھتے ہیں: مجرد حجرہ مبارک سے کعبہ شریف افضل ہے لیکن چونکہ نبی کریم ﷺکاجسم مبارک اس میں ہے تو اللہ کی قسم اب نہ کعبہ نہ عرش نہ اس کو اٹھانے والے فرشتے اور نہ ہی جنت اس سے افضل ہو سکتی ہے اور اگر ساری مخلوق کو حجرہ شریف کے ساتھ تولہ جائے تو بھی وزنی ہو گا‘‘۔ (شرح منتهى الإرادات: ج۱، ص۵۲۷-۵۶۸)

۳۲۔ ’’وَقَعَ الْإِجْمَاعُ عَلَى أَنَّ مَوْضِعَ قَبْرِهِ - صَلَّى اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَشْرَفُ بِقَاعِ الْأَرْضِ۔۔۔ زیارۃ قبرہ علیہ الصلاۃ والسلام من أفضل المندوبات، بل قیل: من الواجبات لمن لہ سعۃ ویبدؤ بالحج إن کان فرضاً ویخیر إن کان ناقلۃ وما ضم أعضاؤہ الشریفۃ أفضل البقاع علی الإطلاق حتی من الکعبۃ، ومن الکرسی وعرش الرحمن رزقنا ﷲ تعالیٰ العود، والقبول بجاء الرسول ﷺ‘‘۔ ’’اس بات پرامت کااجماع ہے کہ آپﷺ کی قبرشریف روئےزمین میں سب سے افضل ہے‘‘۔ اس کے حاشیہ میں امام عبد الرحمٰن بن محمد بن سليمان أفندی المالكی حمتللہعلیہ (المتوفی: ۱۰۷۸ھ) لکھتے ہیں: ’’نبی کریمﷺکی قبرمبارک کی زیارت تمام مستحبات میں سب سے زیادہ افضل ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ قبرِمبارک کی زیارت واجبات میں سے ہے۔ حج کے موقع پرابتداء کہاں سے کی جائے تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگرحج فرض ہوتو پہلے حج کیاجائےپھربعد میں جاکر زیارتِ روضۂ رسولﷺ کی جائے اوراگرحج نفل ہوتواس میں (حاجی کو) اختیار ہے کہ چاہے توپہلے جاکر زیارت کرے پھرحج کرلےیاپھرپہلے حج کرلے بعدمیں زیارت کرے۔ اور وہ جگہ جونبی کریم ﷺکے اعضاءِ شریفہ سےمس ہےوہ کعبہ، کرسی اوراﷲکےعرش سے بھی افضل ہے‘‘۔ (مجمع الأنهر فی شرح ملتقى الأبحر: ج۱، ص۳۱۲)

۳۳۔ ’’قال الإمام الحصفكي الحنفي في الدر المختار: وهذا الكتاب من أشهر كتب الحنفية يقول صاحبه۔ لا حرم للمدينة عندنا ومكة أفضل منها على الراجح إلا ما ضم أعضاءه عليه الصلاة والسلام فإنه أفضل مطلقا حتى من الكعبة والعرش والكرسي۔ وزيارة قبره مندوبة، بل قيل واجبة لمن له سعة‘‘۔ ’’علامہ حصفکی حنفی حمتللہعلیہ (المتوفی: ۱۰۸۸ھ)فرماتے ہیں کہ: ہمارے نزدیک مدینہ سے بڑھ کر کوئی مقدس جگہ نہیں البتہ مکہ مدینے سے افضل ہے الا یہ کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعضاء[ اس مٹی سے] مس ہوں تو مدینہ [کی مٹی ] بلکل افضل ہے حتیٰ کہ کعبہ، عرش اور کرسی سے بھی اور ہمارے نزدیک روضۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم مندوب ہے۔ بلکہ واجب ہے جس کی استطاعت ہو‘‘۔ (الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار: ص ۱۷۵)

۳۴۔ ’’فَقَدْ وَقَعَ الْخِلَافُ فِيهِمَا بَيْنَ الْأَئِمَّةِ فِي الْفَاضِلِ مِنْهُمَا فَذَهَبَ مَالِكٌ إلَى أَنَّ الْمَدِينَةَ أَفْضَلُ مِنْ مَكَّةَ وَبِهِ قَالَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ وَقَالَ الشَّافِعِيُّ وَأَبُو حَنِيفَةَ وَأَحْمَدُ فِي أَشْهَرِ الرِّوَايَتَيْنِ عَنْهُ أَنَّ مَكَّةَ أَفْضَلُ مِنْ الْمَدِينَةِ وَمَحِلُّ الْخِلَافِ الْمَذْكُورِ فِي غَيْرِ الْبُقْعَةِ الَّتِي ضَمَّتْ أَعْضَاءَ الْمُصْطَفَى - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - فَإِنَّهَا أَفْضَلُ بِقَاعِ الْأَرْضِ وَالسَّمَاءِ‘‘۔ ’’امام محمد بن عبد الله الخرشی المالكی حمتللہعلیہ (المتوفى: ۱۱۰۱ھ)فرماتے ہیں: ائمہ کرام کے درمیان جوافضلیت کامعاملہ ہے، اس میں امام مالک اوراکثراہل مدینہ کے نزدیک مدینہ مکہ سےافضل ہے۔ امام شافعی، امام ابوحنیفہ، امام احمدکے بارے میں مشہورہے کہ ان سب کے نزدیک مکہ مدینہ سے افضل ہے۔ یہ جواختلاف ہے یہ قبرمبارک کو چھوڑکرہے کیونکہ حضورمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعضاءِ شریفہ سےضم زمین تمام زمین وآسمان سے افضل ہے‘‘۔ (شرح مختصر خليل للخرشی: ج۳، ص۱۰۷)

۳۵۔ ’’(قَوْلُهُ الَّتِي ضَمَّتْ أَعْضَاءَ الْمُصْطَفَى - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -) أَيْ ضَمَّتْ جَسَدَهُ الشَّرِيفَ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَيْ مَسَّتْ أَعْضَاءَهُ لَا كُلُّ الْقَبْرِ فَمَا مَسَّ أَعْضَاءَهُ أَفْضَلُ مِنْ جَمِيعِ بِقَاعِ الْأَرْضِ حَتَّى الْكَعْبَةِ وَالسَّمَوَاتِ وَالْعَرْشِ وَالْكُرْسِيِّ وَاللَّوْحِ وَالْقَلَمِ وَالْبَيْتِ الْمَعْمُورِ وَيَلِيهِ الرَّوْضَةُ وَيَلِيهَا الْكَعْبَةُ؛ فَالْكَعْبَةُ أَفْضَلُ مِنْ بَقِيَّةِ الْمَدِينَةِ اتِّفَاقًا وَأَمَّا الْمَسْجِدَانِ بِقَطْعِ النَّظَرِ عَنْ الْكَعْبَةِ وَالْقَبْرِ الشَّرِيفِ فَمَسْجِدُ الْمَدِينَةِ أَفْضَلُ وَلَمَّا زِيدَ مِنْ مَسْجِدِهِ الشَّرِيفِ حُكْمُ مَسْجِدِهِ عِنْدَ الْجُمْهُورِ خِلَافًا لِلنَّوَوِيِّ‘‘۔ ’’امام محمد بن عبد الله الخرشی المالكی حمتللہعلیہ (المتوفى: ۱۱۰۱ھ)فرماتے ہیں: صرف وہ جگہ جو رسول اﷲﷺکےاعضاءِ شریفہ سے مس ہے، وہ تمام زمین میں ہر چیز سے افضل ہے، یہاں تک کہ کعبہ، آسمان، عرش، کرسی، لوح و قلم اور بیت المعمور سے بھی افضل ہے، اس میں پوری قبرمرادنہیں۔ اس کے علاوہ کعبہ تمام مدینہ سے افضل ہے، اس پراتفاق ہے۔ اورجمہورنےمسجدحرام اورمسجدنبویﷺ کوکعبہ کے بعدافضل قراردیاہےاورپھرحضورﷺکی قبرکابقیہ حصہ افضل ہےپھرمدینہ افضل ہے‘‘۔ (شرح مختصر خليل للخرشی: ج۳، ص۱۰۷)
۳۶۔ امام محمدالمھدی الفاسی المالکی حمتللہعلیہ (المتوفى: ۱۱۰۹ھ)لکھتے ہیں: ’’آسمان زمین سے افضل ہے،لیکن زمین کاوہ ٹکڑاجس کے ساتھ نبی کریم ﷺکے اعضاءِ شریفہ مس ہیں وہ آسمانوں پرعرش، کرسی، جنت، لوح وقلم، بیت المعموراورمعصوم ومکرم فرشتوں کی قیام گاہوں سے بھی افضل ہے‘‘۔ (مطالع المسرات شرح دلائل الخیرات[اردو]: ص۶۹۷)

۳۷۔ ’’وأجمعوا على أن الموضع الذي ضمَّ أعضاءه الشريفة -صلى الله عليه وسلم- أفضل بقاع الأرض، حتى موضع الكعبة، كما قاله ابن عساكر والباجي والقاضي عياض، بل نقل التاج السبكي كما ذكره السيد السمهودي في "فضائل المدينة", عن ابن عقيل الحنبلي: إنها أفضل من العرش، وصرَّح الفاكهاني بتفضيلها على السماوات, ولفظه: وأقول أنا: وأفضل من بقاع السماوات أيضًا. ولم أر من تعرض لذلك، والذي أعتقده لو أن ذلك عرض على علماء الأمة لم يختلفوا فيه، وقد جاء أن السماوات شرفت‘‘۔ ’’امام محمد الزرقانی المالكی حمتللہعلیہ (المتوفى: ۱۱۲۲ھ)لکھتے ہیں: اور اس پر اجماع ہے کہ وہ مقام جوأعضاءِالشريفة سے ملے ہوئے ہیں صلی الله علیہ وسلم کے وہ افضل ہیں باقی زمین سے حتیٰ کہ کعبه سے بھی جیسا کہ ابن عساکر اور الباجی اور قاضی عیاض نے کہا بلکہ التاج السبکی کہتے ہیں کہ السيد السمهودی نے کتاب میں ابن عقیل حنبلی سے نقل کیا ہے کہ یہ تو عرش سے بھی افضل ہے اورالفاكهانی نے صراحت کی ہے کہ سات آسمانوں سے بھی افضل ہے‘‘۔ (شرح الزرقانی على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية: الفصل الثانی فی زيارة قبره الشريف ومسجده المنيف، ج۱۲، ص۲۳۴)

۳۸۔ ’’وقال الإمام النفراوي الأزهري المالكي في الفواكه الدواني: قَالَ ابْنُ عَبْدِ السَّلَامِ: وَالتَّفْضِيلُ مَبْنِيٌّ عَلَى كَثْرَةِ الثَّوَابِ الْمُتَرَتِّبِ عَلَى الْعَمَلِ فِيهِمَا، وَالْخِلَافُ الْمَذْكُورُ بَيْنَ الْأَئِمَّةِ فِي غَيْرِ قَبْرِ الْمُصْطَفَى - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - لِقِيَامِ الْإِجْمَاعِ عَلَى أَفْضَلِيَّتِهِ عَلَى سَائِرِ بِقَاعِ الْأَرْضِ وَالسَّمَوَاتِ وَعَلَى الْكَعْبَةِ وَعَلَى الْعَرْشِ كَمَا نَقَلَهُ السُّبْكِيُّ لِضَمِّهِ أَجْزَاءِ الْمُصْطَفَى الَّذِي هُوَ أَفْضَلُ الْخَلْقِ عَلَى الْإِطْلَاقِ، وَلَعَلَّ مَعْنَى فَضْلِ الْقَبْرِ عَلَى غَيْرِهِ أَنَّهُ أَعْظَمُ حُرْمَةً مِنْ غَيْرِهِ، لَا لِمَا قَالَهُ ابْنُ عَبْدِ السَّلَامِ فِي تَفْضِيلِ الْمَسَاجِدِ عَلَى بَعْضِهَا فَافْهَمْ‘‘۔ ’’إمام النفراوی الأزهری المالكی حمتللہعلیہ (المتوفی: ۱۱۲۶ھ) فرماتے ہیں کہ: ابن عبدالسلام فرماتے ہیں کسی چیزکوفضیلت دینااس بات پرمبنی ہے کہ کہاں پرعمل کرنے سے ثواب زیادہ ملتاہے، اورجواختلاف ہے مکہ ومدینہ کے بارے میں ہے وہ یہ ہے کہ کہاں پرثواب زیادہ ملتاہے، وہ اختلاف نبی کریمﷺکی قبرمبارک کوچھوڑکرہےاس لیے کہ اس کی افضلیت پراجماع نقل ہوتاآیاہے۔ اس کی افضلیت پراجماع قائم ہے کہ وہ تمام زمین وآسمان وعرش اورکعبہ سے افضل ہے جیساکہ امام سبکی نے اس کونقل کیاہےاوراس کی دلیل یہ ہے کہ چونکہ وہ نبی کریمﷺکے اعضاءِ مبارکہ جوکہ تمام مخلوقات میں سب سے افضل ہے اس کومس ہورہی ہے، اوریہاں پرفضیلت کامعنیٰ یہ ہوسکتاہے کہ حرمت کے اعتبارسے قبرمبارک عظیم ہے۔ اس کی وہ وجہ نہیں ہے جوابن عبدالسلام نے بیان فرمائی ہے کہ کہاں پرثواب زیادہ ملتاہے اورکہاں پرکم، اس اعتبارسے اس کی افضلیت نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ دوسری ہے‘‘۔ (الفواكه الدوانی على رسالة ابن أبی زيد القيروانی: ج۱، ص۴۲۲)

۳۹۔ ’’وفي حاشية سليمان البجيرمي المصري الشافعي على الخطيب: قال الرملي في شرحه: ومكة أي وكذا بقية الحرم أفضل الأرض للأحاديث الصحيحة التي لا تقبل النزاع كما قاله ابن عبد البر وغيره، وأفضل بقاعها الكعبة المشرفة ثم بيت خديجة بعد المسجد الحرام، نعم التربة التي ضمت أعضاء سيدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أفضل من جميع ما مر حتى من العرش‘‘۔ ’’ امام سليمان البجيرمی المصری الشافعی حمتللہعلیہ (المتوفی: ۱۲۲۱ھ) لکھتےہیں کہ: امام الرملی حاشیہ میں فرماتے ہیں: حرم کی جتنی بھی زمین ہے وہ مکہ کی تمام سرزمین سے افضل ہے ان احادیث صحیحہ کی بنیادپرجس میں کسی قسم کاکوئی شک نہیں ہے۔ اورابن عبدالبروغیرہ نے بھی یہی فرمایاہےکہ مکہ میں تمام جگہوں سے افضل کعبۃ اﷲہےاوراس کے بعدحضرت حدیجہ رضی اﷲعنہاکاگھرہے۔ البتہ اِن تمام جگہوں سے افضل وہ مٹی ہے جونبی کریمﷺکے جسداطہرسے مس ہے، حتیٰ کہ عرش سے بھی افضل ہے‘‘۔ (البجيرمی على الخطيب: ج۱، ص۱۰۱)

۴۰۔ ’’(فَرْعٌ: مَوْضِعُ قَبْرِهِ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ -) (أَفْضَلُ بِقَاعِ الْأَرْضِ)، لِأَنَّهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - خُلِقَ مِنْ تُرْبَتِهِ، وَهُوَ خَيْرُ الْبَشَرِ، فَتُرْبَتُهُ خَيْرُ التُّرَبِ، وَأَمَّا نَفْسُ تُرَابِ التُّرْبَةِ؛ فَلَيْسَ هُوَ أَفْضَلُ مِنْ الْكَعْبَةِ، بَلْ الْكَعْبَةُ أَفْضَلُ مِنْهُ إذَا تَجَرَّدَ عَنْ الْجَسَدِ الشَّرِيفِ۔ (وَقَالَ) أَبُو الْوَفَاءِ عَلِيُّ (بْنُ عَقِيلٍ فِي) كِتَابِهِ (" الْفُنُونِ ") الَّذِي لَمْ يُؤَلَّفْ مِثْلُهُ فِي الدُّنْيَا، وَلَا مِقْدَارُهُ فَقَدْ قِيلَ: إنَّهُ مُجَلَّدٌ لَكِنْ لَمَّا اسْتَوْلَى التَّتَارُ عَلَى بَغْدَادَ طَرَحُوا مُعْظَمَ كُتُبِهَا فِي الدِّجْلَةِ، وَمِنْ جُمْلَتِهَا هَذَا الْكِتَابُ: (الْكَعْبَةُ أَفْضَلُ مِنْ مُجَرَّدِ الْحُجْرَةِ، فَأَمَّا وَالنَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِيهَا؛ فَلَا وَاَللَّهِ وَلَا الْعَرْشُ وَحَمَلَتُهُ) وَالْجَنَّةُ، (لِأَنَّ بِالْحُجْرَةِ جَسَدًا لَوْ وُزِنَ بِهِ) سَائِرُ الْمَخْلُوقَاتِ (لَرَجَحَ)‘‘۔ ’’شیخ مصطفىٰ بن سعد بن عبده السيوطی الرحيبانى الدمشقی الحنبلی حمتللہعلیہ (المتوفى: ۱۲۴۳ھ) فرماتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کی جگہ ساری زمین سے افضل ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسد ِمبارک اسی جگہ کی مٹی سے بنا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساری بشریت سے افضل ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے وہ مٹی بھی سب سے افضل ہو گی اور اگر یہ نسبت نہ ہو تو کعبہ شریف اس مٹی سےافضل ہے‘‘۔ آگےفرماتے ہیں: ’’ابو وفاء علی بن عقیل رحمہ اللہ لکھتے ہیں مجرد حجرہ مبارک سے کعبہ شریف افضل ہے لیکن چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاجسم مبارک اس میں ہے تو اللہ کی قسم اب نہ کعبہ نہ عرش نہ اس کو اٹھانے والے فرشتے اور نہ ہی جنت اس سے افضل ہو سکتی ہے اور اگر ساری مخلوق کو حجرہ شریف کے ساتھ تولہ جائے تو بھی وزنی ہو گا‘‘۔ (مطالب أولی النهى فی شرح غاية المنتهى: فَرْعٌ مَوْضِعُ قَبْرِهِ أَفْضَلُ بِقَاعِ الْأَرْضِ، ج۲، ص۳۸۴)

۴۱۔ ’’قَالَ الْقَاضِي عِيَاضٌ: إنَّ مَوْضِعَ قَبْرِهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَفْضَلُ بِقَاعِ الْأَرْضِ وَإِنَّ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةَ أَفْضَلُ بِقَاعِ الْأَرْضِ۔ وَقَدْ ادَّعَى الْقَاضِي عِيَاضٌ الِاتِّفَاقَ عَلَى اسْتِثْنَاءِ الْبُقْعَةِ الَّتِي قُبِرَ فِيهَا - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَعَلَى أَنَّهَا أَفْضَلُ الْبِقَاعِ‘‘۔ ’’غیرمقلدعالم امام شوکانی حمتللہعلیہ (المتوفی:۱۲۵۰ھ)لکھتے ہیں: قاضی عیاض المالکی حمتللہعلیہ فرماتے ہیں: کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک تمام زمین سے افضل ہے، جیساکہ مکہ اورمدینہ تمام زمین سے افضل ہیں۔ اورقاضی عیاض حمتللہعلیہ نے اس پرپوری امت کے اتفاق کادعویٰ کیاہے کہ کیونکہ نبیﷺکواسی مٹی سے بنایاگیااس لیے وہ سب سے افضل ہے‘‘۔ (نيل الأوطار شرح منتقى الأخبار: ج۵، ص۳۳)

۴۲۔ ’’قال الإمام ابن عابدين الحَنَفِي في رد المحتار علي الدر المختار: وكذا أي الخلاف في غير البيت: فإن الكعبة أفضل من المدينة ما عدا الضريح الأقدس وكذا الضريح أفضل من المسجد الحرام۔ وقد نقل القاضي عياض وغيره الإجماع على تفضيله حتى على الكعبة، وأن الخلاف فيما عداه۔ ونقل عن ابن عقيل الحنبلي أن تلك البقعة أفضل من العرش، وقد وافقه السادة البكريون على ذلك۔ وقد صرح التاج الفاكهي بتفضيل الأرض على السموات لحلوله صلى الله عليه وسلم بها، وحكاه بعضهم على الأكثرين لخلق الأنبياء منها ودفنهم فيها وقال النووي: الجمهور على تفضيل السماء على الأرض، فينبغي أن يستثنى منها مواضع ضم أعضاء الأنبياء للجمع بين أقوال العلماء‘‘۔ ’’ فقہ حنفی کے عظیم فقیہ النفس محدث وقت علامہ محمدامین عمربن عبدالعزیزابن عابدین الشامی الدمشقی حمتللہعلیہ (المتوفی:۱۲۵۲ھ)فرماتے ہیں: اس بات میں کسی کااختلاف نہیں کرقبرمقدس اوروہ جگہ جس سے آپ ﷺ کے اعضاء مبارکہ مس کیے ہوئے ہیں یہ روئے زمین کے سب مقامات سے افضل ہے اوراس پر امت مسلمہ کااجماع ہے۔ حضرت قاضی عیاضؒ نے قبرمبارک کے کعبۃ اللہ پرافضل ہونے میں امت کااجماع نقل فرمایاہے۔ امام ابن عقیل حنبلیؒ سے نقل کیاگیاہے کہ یہ جگہ عرش معلیٰ سے بھی افضل ہے اوررؤسأبکریون نے بھی اس بات پرامام ابن عقیلؒ کی موافقت کی ہے۔ امام تاج الفاکھی ؒ نے بھی اس بات کی تصریح کی ہے کہ قبرمبارک کی جگہ آسمان زمین کے سب مقامات سے زیادہ مقدس ومطہرہے کیونکہ یہ جگہ خودنبی کریمﷺ کومس کیے ہوئے ہے اس طرح علمائے کرام کی جماعت انبیاء کرام ؑ کے خمیرکی جگہ اورمدفن کواعلیٰ و اشرف بتاتی ہے‘‘۔ (ردالمختار علیٰ الدر المختارشرح تنویرالأبصار: ج ۴، ص ۵۳)

۴۳۔ ’’قال السیدمحمودآلوسی البغدادی: ان الامکنۃ والازمنۃ کلہامتساویۃ فی حدذاتہالایفضل بعضہابعضاالاَّ بمایقع فیہامن الاعمال ونحوھاوزادبعضھم اویحل لتدخل البقعۃ التی ضمتہ ﷺ فانھاافضل البقاع الارضیۃ والسماویۃ حتی قیل وبہٖ اقول انھاافضل من العرش‘‘۔ ’’عظیم مفسر، محدث، فقیہ اورمشہور عربی تفسیر روح المعانی کے مؤلف امام شہاب الدین محمود آلوسی بغدادی الشافی حمتللہعلیہ (المتوفی: ۱۲۷۰ھ)فرماتے ہیں: بےشک تمام زمانےاورمقامات میں اپنی ذات کے اعتبارسے کسی کوکسی پرفضیلت حاصل نہیں ہے، مگروہ مقام الگ ہےجس میں اچھے اعمال وغیرہ کیے جائیں یازمین کی وہ جگہ جوآپﷺ کواپنے اندرلئے ہوئے ہے۔ یہ قبراطہرزمین وآسمان کے سب خطوں سے افضل ہے یہاں تک بھی کہاگیاہے اورمیں(علامہ آلوسیؒ) بھی اسکاقائل ہوں کہ قبراطہرعرش معلیٰ سے بھی افضل ہے‘‘۔ (تفسیر روح المعانی: ج، سورۃمومنوں،آیت ، ص)

۴۴۔ ’’وَیَکْفِیکَ فِی مَعْرِفَۃِ الْحَقِّ تَتَّبِع مَاصَنَعَ اَصْحَابِ رَسُولُ اللّٰہﷺ فِی قَبرِہِ علیہ الصلوۃ والسلام وَہُوَ اَفضَلْ قَبر عَلَی وَجْہِ الأَرض بَل اَفْضَلْ مِنَ الْعَرش‘‘۔ ’’ امام محمود آلوسی بغدادی الشافی حمتللہعلیہ لکھتے ہیں: اور حق جاننے کیلئے تجھے اس بات کا تجسس و تتبع کافی ہے جو اصحابِ رسول اللہ ﷺنے رسول کریم ﷺ کی قبر کے بارے میں کیا اور وہ روئے زمین پر سب سے افضل قبر ہے بلکہ عرش سے بھی افضل ہے‘‘۔ (تفسیر روح المعانی: ج۱۵، سورۃکہف،آیت ۱۲، ص۲۳۹)
۴۵۔ ’’قال الشيخ محمد بن أحمد عليش المالكي في شرحه على مختصر الخليل۔ وَنَقَلَ عِيَاضٌ عَنْ ابْنِ حَبِيبٍ مَعَ ابْنِ وَهْبٍ قَالَ وَوَقَفَ الْبَاجِيَّ فِي ذَلِكَ، وَمَحَلُّ الْخِلَافِ فِي غَيْرِ الْمَوْضِعِ الَّذِي ضَمَّهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَإِنَّهُ أَفْضَلُ مِنْ الْكَعْبَةِ وَالسَّمَاءِ وَالْعَرْشِ وَالْكُرْسِيِّ وَاللَّوْحِ وَالْقَلَمِ وَالْبَيْتِ الْمَعْمُورِ وَيَلِيهِ الْكَعْبَةُ‘‘۔ ’’شیخ محمد بن احمدعلیش مالکی حمتللہعلیہ (المتوفی: ۱۲۹۹ھ) قاضی عیاضؒ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے ابن حبیب سے ابن وھب کے ذریعہ سے نقل کیاہےکہ وہ فرماتے ہیں کہ امام الباجی نے اس مسئلے میں توقف کیاہےجوکہ اشارہ ہےکہ اعضاء ِمقدسہ سے جو جگہ ملی ہوئی ہے اس کے علاوہ باقی جگہوں کی تفضیل میں اختلاف ہے، لیکن حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعضاءِ مقدسہ کے ساتھ جو جگہ ملی ہوئی ہے وہ ہر چیز سے افضل ہے، یہاں تک کہ عرش، کرسی، لوح و قلم اور بیت المعمور سے بھی افضل ہے‘‘۔ (منح الجليل شرح مختصر الخليل: ج۳، ص۱۳۳)

۴۶۔ ’’قال الشیخ أحمد بن محمد الحضراوي في نفحات الرضي والقبول ما نصہ: نقل القاضي عياض رحمہ ﷲ، وقبلہ أبو الوليد الباجي وغیرھما الإجماع على تفضيل ما ضم الأعضاء الشريفة، حتي علی الكعبة۔ کما قال ابن عساکر فی تحفۃ وغیرہ: بل نقل التاج الدین السبکی عن ابن عقیل الحنبلی: انھا أفضل من العرش‘‘۔ ’’شیخ احمد بن محمد الحضراوی حمتللہعلیہ(المتوفی: ۱۳۲۷ھ)فرماتے ہیں: اس بات پر اجماع امت ہے کہ رسول اﷲصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعضاء ِمقدسہ کے ساتھ جو جگہ ملی ہوئی ہے وہ ہر شئےسے افضل ہے یہاں تک کہ عرش سے بھی افضل ہے۔ اس اجماع کو قاضی عیاض المالکی حمتللہعلیہ (المتوفی: ۵۴۴ھ)، قاضی ابوالولیدالباجی المالکی حمتللہعلیہ (المتوفی: ۴۷۴ھ)، امام ابوالقاسم ابن عساکرالشافعی حمتللہعلیہ(المتوفی: ۵۷۱ھ) اور دیگر علماء نے نقل کیا ہےاوراس مقدس مکان کی کعبہ شریف پر افضل ہونے کی صراحت کی ہے بلکہ امام تاج الدین سبکی حمتللہعلیہ(المتوفی: ۷۵۶ھ)نے ابن عقیل حنبلی حمتللہعلیہ (المتوفی: ۵۱۳ھ)سے نقل کیا ہے کہ یہ جگہ عرش سے بھی افضل ہے۔ اورالفاكهانی نے صراحت کی ہے کہ سات آسمانوں سے بھی افضل ہے‘‘۔ (إزالة الدهش والوله عن المتحير فی صحة حديث ماء زمزم لما شرب له للمحمد بن إدريس القادری، تخريج : محمد ناصر الدين الألبانی: ص۴۳)


۴۷۔ مشہور غیر مقلد عالم مترجم صحاح ستہ علامہ وحید الزمان صدیقی حمتللہعلیہ (المتوفی: ۱۳۳۸ھ)لکھتے ہیں: ’’سلف نے اختلاف کیاہے کہ دونوں شہروں میں کون سا افضل ہے، جمہور علماء اس طرف گئے ہیں کہ مکہ افضل ہے اور یہی قول ہے شافعی حمتللہعلیہ ، ابن وہب حمتللہعلیہ ، مطرف اور ابن حبیب حمتللہعلیہ کا اور یہی مذہب ہے ابو حنیفہ حمتللہعلیہ اور اصحابِ ابو حنیفہ حمتللہعلیہ کا اور اسی کو اختیار کیاہے ابن عبد البر حمتللہعلیہ اور ابن رشد حمتللہعلیہ اورابن عرفہ حمتللہعلیہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ایک جماعت صحابہ رضی اللہ عنہم نے اوراکثر اہل مدینہ اور امام مالک حمتللہعلیہ اور ان کے اصحاب کا قول یہ ہے کہ مدینہ افضل ہے بعض شوافع نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے اور جانبین کی طرف دلائل بہت ہیں یہاں تک کہ ابن ابی حمزہ حمتللہعلیہ نے کہاکہ دونوں شہر برابر ہیں اور سیوطی حمتللہعلیہ نے کہاکہ صحیح یہ ہے کہ اس مسئلے میں توقف کرے کیونکہ دلائل ایک دوسرے کے معارض ہیں اور نفس مائل ہوتاہے مدینہ منورہ کی تفضیل کی طرف۔ پھر کیاہے جب صاحب عقل اور صاحب علم تامل کرے تو معلوم ہوتاہے کہ مکہ کو جو فضیلت ملی ہے اس قدر یا اس سے بہتر مدینہ کو بھی ملی ہے۔بلکہ سیوطی حمتللہعلیہ نے خصائص میں جزم کیاہے مدینہ کے افضل ہونے کا اورمحل خلاف اس مقام کے سوا ہے جہاں پر آنحضرت ﷺ کا جسد مبارک مدفون ہے اتنا ٹکڑا توزمین اور آسمان سے بھی افضل ہے، اسی طرح جس مقام پر کعبہ ہے وہ مدینہ سے افضل ہے۔ (زرقانی)‘‘۔ (مؤطاامام مالکؒ مترجم: کتاب الجامع، مدنیہ کی فضیلت کابیان، ص۵۹۹)

۴۸۔ ’’أن موضع قبره الشريف ﷺ أفضل بقاع الأرض، وهو أفضل الخلق وأكرمهم على الله تعالى ۔۔۔ فاذا تقرر أنه أفضل المخلوقين وأن تربته أفضل بقاع الأرض‘‘۔ ’’مشہورسعودی عالم اوراستادِحرم علوی بن عباس المالکی حمتللہعلیہ کے بیٹے سید محمد علوی المالکی حمتللہعلیہ (المتوفی: ۱۴۲۵ھ)لکھتے ہیں: آپﷺ کی قبرشریف روئےزمین میں سب سے افضل ہے اور اﷲتعالیٰ کے نزدیک آپﷺ تمام مخلوقات میں سب سے افضل اوراکرم ہیں۔ کیونکہ آپﷺتمام مخلوقات میں سب سےافضل ہیں لہٰذاوہ مٹی بھی تمام مٹی سےافضل ہوئی‘‘۔ (منهج السلف فی فهم النصوص بين النظرية والتطبيق: ص۶۴)

اجماع کی حجیت کے بارے میں امام بخاریحمتللہعلیہ صحیح بخاری میں پوراباب نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’بَابُ مَا ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَضَّ عَلَى اتِّفَاقِ أَهْلِ العِلْمِ، وَمَا أَجْمَعَ عَلَيْهِ الحَرَمَانِ مَكَّةُ، وَالمَدِينَةُ، وَمَا كَانَ بِهَا مِنْ مَشَاهِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالمُهَاجِرِينَ، وَالأَنْصَارِ، وَمُصَلَّى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالمِنْبَرِ وَالقَبْرِ‘‘۔ ’’باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالموں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان، اورمدینہ میں جوآنحضرت ﷺاورمہاجرین انصارکے متبرک مقامات ہیں اورآنحضرت ﷺکے نمازگاہ اورمنبراورقبرکابیان‘‘۔ (صحیح البخاری: كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، ج۹، ص۲۷۹)

حافظ ابن حجرعسقلانی حمتللہعلیہ فتح الباری میں عالموں کے اجماع کے باب میں لکھتے ہیں: ’’وَقَالَ مَالِكٌ إِجْمَاعُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ حُجَّةٌ قَالَ وَعِبَارَةُ الْبُخَارِيِّ مُشْعِرَةٌ بِأَنَّ اتِّفَاقَ أَهْلِ الْحَرَمَيْنِ كِلَيْهِمَا إِجْمَاعٌ قُلْتُ لَعَلَّهُ أَرَادَ التَّرْجِيحَ بِهِ لَا دَعْوَى الْإِجْمَاعِ‘‘۔ ’’امام مالکؒ نے اہل مدینہ کااجماع بھی حجت قراردیاہے۔ امام بخاریؒ کے کلام سے یہ نکلتاہے کہ اہل مکہ اوراہل مدینہ دونوں کااجماع بھی حجت ہے، امام بخاریؒ کایہ مطلب نہیں ہے کہ اہل مدینہ اوراہل مکہ کااجماع حجت ہے بلکہ ان کامطلب یہ ہے کہ اختلاف کے وقت اس جانب کوترجیح ہوگی جس پراہل مکہ اورمدینہ اتفاق کریں‘‘۔ (فتح الباری شرح صحيح البخاری: كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، قَوْلُهُ بَابُ مَا ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَضَّ،ج۱۲، ص۳۰۶)

انجنیئرعلی مرزاصاحب اوران کے حواریوں سے گزارش ہے کہ مندرجہ بالاحوالاجات کوغورسے پڑھ کراس اجماع کی مخالفت کرنے کی ہمیت کریں، کیونکہ اس اجماع میں امت مسلمہ کے ہرطبقے کے ائمہ دین موجودہیں، خاص طور پر مالکی، شافعی اورحنبلی ائمہ کرام کی کثیرتعداد موجودہےاورساتھ میں غیرمقلدعالم امام شوکانیؒ اورسعودی عرب کے موجودہ دورکےنامورمفتیان کرام بھی موجودہیں۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ یہ اجماع بھی آپ کوحنفی دیوبندی اجماع اورحنفی بریلوی اجماع کی طرح بے بنیادلگےجن پرآپ نے تبصرہ کرتے ہوئے کافی جھوٹ بولے ہیں۔

آج انجنیئرصاحب اوران جیسے تمام غیرمقلدین حضرات قرآن کے بعد بخاری کوصحیح ترین کتاب کادرجہ دیتے ہیں، آخیرکیوں؟ آپ نے یہ درجہ صحیح مسلم، ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ یا نسائی شریف کوکیوں نہیں دیا؟ اسی لئے ناکہ پوری امت مسلمہ نے مل کربخاری کویہ درجہ دیاہے، اورحافظ ابن صلاحؒ نے اس پرپوری امت کا اجماع نقل کیاہے، جس کوتمام مکاتب فکرسے تعلق رکھنے والے علماء نے قبول کیاہے۔ جب حافظ ابن صلاحؒ بخاری کے اصح الکتب بعدکتاب اﷲہونے پر اجماع کا دعویٰ کریں توآپ نےفوراًقبول کر لیااوراب بغیراسنادکی تحقیق کیئے صرف بخاری کانام لےکراحادیث بیان کیئے جاتے ہواورعوام بھی بخاری کانام سنتے ہی آنکھیں بند کرکےاحادیث قبول کرلیتی ہے، آخرکیوں؟ جس طرح آپ کوبخاری پرہونے والااجماع قبول ہےجسےصرف حافظ ابن صلاحؒ نے بیان کیاتواب اس اجماع کو بھی قبول کریں جس کوہردورمیں ہرطبقہ کے ائمہ کرام نے بیان کیاہے۔
اس کے بعدبھی آپ نزدیک یہ اجماع معتبرنہیں توپھراب یہ کہنے کی جرئت کریں کہ چونکہ تمام محدثین ومفسرین کا بھی یہی عقیدہ تھا اس لیے یہ سب بھی گمراہ تھے۔ جب علماءِدیوبند کی بات ہوتی ہے تو آپ فوراً فتوے صادر کرناشروع کردیتے ہیں اور جب محدثین ومفسرین کی بات آتی ہے تو آواز حلق میں اٹک جاتی ہے۔ ان سب محدثین کے بارے میں تو آپ منہ میں گھنگھنیاں ڈالےبیٹھے ہواورعلماءِدیوبند کے خلاف اسی عقیدہ پرگمراہ اوربدعتی ہونے کے فتوے صادرکرتے ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انجنیئرعلی مرزا اوران جیسے لوگ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگرانہوں نے ان محدثین ومفسرین کے بارے میں لب کشائی کی تو ان کی چُورن پھکی کی دکانیں بند ہوجائیں گی لیکن انہیں اس بات کابھی ڈرہےکہ اگرعلماءِ دیوبند کے جلیل القدرعلماءومحققین کے خلاف انہوں نے عام اورلاعلم مسلمانوں کونہ بہکایااوران سے بدگمان نہ کیا، توبھی ان کی چُورن پھکی کی دکانیں نہیں چلنے والی۔ لہٰذا انجینئرصاحب نے ایک ایسے مسئلے کوبنیادبنانے کی کوشش کی جوکہ عقلاً نہایت حساس اورپیچیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ لاعلم مسلمانوں کےلئے بظاہرایمان وکفر کاعقیدہ معلوم ہوتاہے۔

ہم انجینئرصاحب اور ان کے حواریوں سے گزارش کرتے ہیں کہ پہلےان محدثین ومفسرین پرفتویٰ لگائیں جنہوں نے سب سے پہلے یہ مسئلہ اپنی کتابوں میں لکھاپھران پرجنہوں نے اس کی تائیدوتوثیق فرمائی اورساتھ میں اجماع بھی نقل کیا۔ اس کے بعدمفتی طارق مسعودصاحب دامت برکاتہم اورعلماءِ دیوبند کے خلاف زبان کھولنے کی جرئت کریئے گا۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کتناحق بیان کرنے والے ہویاپھراپنی چُورن پھکی کی دکان چمکانے والےہو۔
چلیں اب انجنیئرصاحب یہ بھی بتا دیں کہ یہ عقیدہ رکھنا کفر ہے؟ یا فسق؟ یاصرف ناجائز ہے؟ جوبھی فتویٰ دیں ساتھ میں قرآن وحدیث سے اس کی دلیل بھی پیش کردیں۔ اوریہ یاد رکھیں کہ مولاناخلیل احمدسہارنپوریؒ نے اپنی کتاب میں جولکھا ہے وہی عقیدہ محدثین ومفسرین نے بھی اپنی کتابوں میں لکھاہے، اس لیے جو فتویٰ آپ علماءِ دیوبندپرلگائیں گے وہی فتویٰ علامہ ابن عبدالبرؒ، قاضی عیاضؒ، ابن عقیلؒ، ابن القیمؒ، امام ابن عساکرؒ، ابن حجر ہیثمیؒ، امام سبکیؒ، شارح مسلم علامہ نوویؒ، جلال الدین سیوطیؒ، امام شوکانیؒ، اوران جیسے دیگرجلیل القدرائمہ دین پربھی لگےگا۔

اشکال نمبر۱: ممکن ہے انجنیئرصاحب لاجواب ہوکریہ پوچھ بیٹھیں کہ، اس مسئلےکی شرعی دلیل کیا ہے؟
پھر ہم انہیں بتائیں گے کہ دین اسلام میں دلیل شرعی کی چاراقسام ہیں، قرآن، حدیث، اجماع اورقیاس۔ شاید آپ کویہ بھی معلوم نہ ہو۔

جیساکہ ہم سب اس بات پرمتفق ہیں کہ اجماع خودایک مستقل دلیل شرعی ہےاوراجماع کا دعویٰ ہرطبقہ کے تقریباًتمام ائمہ دین نے کیا ہےاورتمام مکاتب فکر(یعنی حنفی، شافعی، مالکی اورحنبلی) علماءنے اسے قبول بھی کیاہےاور کسی نے بھی اس پراعتراض یااختلاف نہیں کیابلکہ سب نے ان کی تائیدکرتے ہوئے اسے اپنی اپنی کتابوں میں بیان کیااوراس کے صحیح ہونے کااقرارکیاہے۔ لہٰذا تمام ائمہ کرام کااس مسئلے پرمتفق ہونااجماع کی دلیل ہے اوراجماع ایک مستقل دلیل شرعی ہے۔
اگر اکیلےابن صلاحؒ کا بخاری کے بارے میں اجماع کا دعویٰ قبول ہو سکتا ہے تو ان تمام نے کیا قصور کیا ہے؟ لہٰذااس مسئلے پر اجماع ثابت ہے۔ اور قیاس یعنی عقل بھی اس پر دلالت کرتی ہے کیوں کہ زمین کا وہ حصہ رسوال اﷲﷺ کے جسدِ اطہر سے مس ہے جبکہ عرش، کعبہ اورکرسی اللہ تعالی سے مس نہیں۔

اشکال نمبر۲: اب انجنیئرصاحب اوران کے حواریوں کے کمزورذہن میں یہ اشکال بھی آسکتاہےکہ کفن بھی تو دیا گیا تھالہٰذا کفن مٹی سے مس ہے، آپﷺکاجسدِاطہرنہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ لباس کو عموما ًو عقلاً انسان کے تابع مانا جاتا ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ میرے جسم پر ہوا لگ رہی ہے تو آپ میں سے کتنے عاقل یہ فرض کریں گے کہ میں برہنہ کھڑاہوں؟ لباس سمیت ہی ہوا لگنا مانیں گے نا؟ تو لباس تابع ہوتا ہے۔ اس لیے کفن سے مس مٹی کو جسم سے مس مٹی ہی کہا جاتا ہے۔ اسی طرح کسی کو قتل کر دیا جائے اور وہ مٹی میں گرا ہو تو یہی کہا جاتا ہے کہ "مٹی میں پڑا ہے"۔ یہ نہیں کہا جاتا کہ "لباس میں پڑا ہے اور لباس مٹی میں ہے"۔

اشکال نمبر۳: انجنیئرصاحب یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ: ’’ایک جانب کعبہ، عرش و کرسی کی فضیلت پرڈھیروں آیات و احادیث ہیں اور دوسری جانب فقط یہ کہ فلاں نے یہ کہا اور فلاں نے یہ کہا‘‘۔
انجنیئرصاحب قرآن کی جن آیات سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ عرش، کعبہ اورکرسی کی "افضلیت" ان آیات میں صراحتا ًمذکور ہے۔ اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ ان آیات میں جن الفاظ سے آپ نے فضیلت کا استدلال کیا ہے وہ بھی قیاسی ہے۔ میں ایک ایک لفظ پر آیات پیش کر تاہوں، توپھرکیا یہ چیزیں بھی فضیلت والی ہیں؟

جہاں قرآن مجید میں عرش کےساتھ لفظ ’’عظیم‘‘ آیاہے وہیں دوسرےمقامات پربھی لفظ ’’عظیم‘‘آیاہےتوکیایہ تمام جیزیں بھی افضل ہوگئیں؟
۱۔ ’’خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ‘‘۔ [سورۃ البقرۃ: ۷]

۲۔ ’’وَإِذْ نَجَّيْنَاكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ وَفِي ذَلِكُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ‘‘۔ [سورۃ البقرۃ: ۴۹]
۳۔ ’’وَاللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْكُمْ وَيُرِيدُ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الشَّهَوَاتِ أَنْ تَمِيلُوا مَيْلًا عَظِيمًا‘‘۔ [سورۃ النساء: ۲۷]

۴۔ ’’إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا‘‘۔ [سورۃ النساء: ۴۸]
۵۔ ’’وَبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَى مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيمًا‘‘۔ [سورۃ النساء: ۱۵۶]

۶۔ ’’قَالَ أَلْقُوا فَلَمَّا أَلْقَوْا سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ وَجَاءُوا بِسِحْرٍ عَظِيمٍ‘‘۔ [سورۃ الاعراف: ۱۱۶]
۷۔ ’’أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّهُ مَنْ يُحَادِدِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَأَنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِيهَا ذَلِكَ الْخِزْيُ الْعَظِيمُ‘‘۔ [سورۃ التوبة: ۶۳]

۸۔ ’’أَفَأَصْفَاكُمْ رَبُّكُمْ بِالْبَنِينَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلَائِكَةِ إِنَاثًا إِنَّكُمْ لَتَقُولُونَ قَوْلًا عَظِيمًا‘‘۔ [سورة الإسراء: ۴۰]
کیا انجنیئرصاحب کے نزدیک عذاب، بلاء، میلان، گناہ، بہتان، جادو، رسوائی، اللہ کے لیے بیٹیوں کا قول اور ان کے علاوہ بے شمار آیات میں موجود چیزیں بھی فضیلت والی ہیں؟ ان کے لیے بھی تو عظیم کا لفظ استعمال ہوا ہے۔

۱۔ ’’فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً وَآتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ سِكِّينًا وَقَالَتِ اخْرُجْ عَلَيْهِنَّ فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا هَذَا بَشَرًا إِنْ هَذَا إِلَّا مَلَكٌ كَرِيمٌ‘‘۔ [سورۃ يوسف: ۳۱]
۲۔ ’’وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا‘‘۔ [سورة الإسراء: ۲۳]

۳۔ ’’أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى الْأَرْضِ كَمْ أَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ‘‘۔ [سورۃ الشعراء: ۷]
۴۔ ’’قَالَتْ يَاأَيُّهَا الْمَلَأُ إِنِّي أُلْقِيَ إِلَيَّ كِتَابٌ كَرِيمٌ وَزُرُوعٍ وَمَقَامٍ كَرِيمٍ‘‘۔ [سورۃ الدرخان: ۷]

اسی طرح زمین سے اگنے والے توری ٹنڈے، حضرت سلیمانؑ کا خط اورفرعونیوں کی رہائش گاہیں بھی عرش کی طرح فضیلت والی ہیں؟
۱۔ ’’الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ‘‘۔ [سورۃ البقرۃ: ۱۹۴]

۲۔ ’’حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ‘‘۔ [سورۃ النساء: ۲۳]
۳۔ ’’يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ أُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ إِلَّا مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ‘‘۔ [سورۃ المائدة: ۱]

۴۔ ’’وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُمَا‘‘۔ [سورۃ الانعام: ۱۴۶]
۵۔ ’’فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ‘‘۔ [سورۃ التوبة: ۵]

۶۔ ’’إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ‘‘۔ [سورۃ التوبة: ۳۶]
۷۔ ’’أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ‘‘۔ [سورۃ العنكبوت: ۶۷]

یہ قصاص، رجب کا مہینہ، حرمت والے مہینے، مائیں بہنیں، حتیٰ کہ ہم خود حالت احرام میں۔ سب کے لیے حرم کے مادے کا اطلاق ہوا ہے۔ توکیا یہ سب بھی کعبہ، عرش و کرسی کے برابر ہیں؟
انجنیئرصاحب پہلے جاکرکسی حنفی مدرسے علم دین حاصل کیجئےیاپھر پلمبری میں اپنی صلاحیتوں کوصرف کیجئے، یہ دین اتنا سستانہیں کہ ہرانجینئرپلمبراُٹھ کراپنے مطلب کادین پیش کرےاورہم خاموشی سے تماشہ دیکھتے رہیں۔ علماءِدیوبند سے بغض آپ کو کہاں لے جا رہا ہے؟ انی تؤفکون؟

ہمارے نزدیک یقینا ًعرش فضیلت والا ہے، کرسی اور کعبہ بھی فضیلت والے ہیں لیکن اگر آپ ان الفاظ سے ان کی افضلیت ثابت کرنے پر بضد ہیں تو پھر انہی الفاظ کا اطلاق دوسری چیزوں پر بھی ہوا ہے۔ پھران کی فضیلت اور افضلیت بھی قبول کریں۔ قبررسول اﷲﷺکی مٹی کی بات تو بعد کی ہے، آپ کے استدلال سے توپہلےیہ عام چیزیں ہی فضیلت پا جاتی ہیں۔
ساتھ ہی آپ عقل سے ثابت کر رہے ہیں، اسی کو قیاس کہتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں میں آپ کواجماع دکھا رہا ہوں۔ اور اجماع قیاس سےاوّل ہوتا ہے، شاید آپ کو یہ بھی معلوم نہیں۔

اشکال نمبر۴: انجنیئرصاحب یہاں یہ اعتراض بھی کرسکتے ہیں کہ کیا یہ اجماع ہے یا فقط دعویٰ اجماع ہے؟
ہم یہ پہلے ہی ثابت کرچکے ہیں کہ یہ صرف حنفی دیوبندی یاحنفی بریلوی اجماع نہیں ہےجسے انجنیئرصاحب بآسانی نظرانداز کرلیں گےکیونکہ اس اجماع کے دعویدارصرف حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی ائمہ دین ہی نہیں بلکہ غیرمقلدعالم امام شوکانیؒ اوروحیدالزمان صدیقی صاحب بھی ان میں شامل ہیں اورامت مسلمہ کی ۱۰۰۰ سالہ تاریخ میں سوائےابن تیمیہؒ کے کسی اورسےاس اجماع کی مخالفت ثابت نہیں۔ اجماع کے اس دعوے کو علماءِ امت نے قبول بھی کیا ہے اور اجماع قرار دیا ہے۔ انہوں نے اسے یہ نہیں کہا کہ یہ زور بیان میں اجماع قرار دیا گیا ہے، نہ ہی انہوں نے اس کاانکارکیاہے۔

پھرسوال وہیں آجاتاہےکہ جب ابن صلاحؒ بخاری کے "اصح الکتب بعد کتاب اللہ" ہونے پر اجماع کا دعویٰ کرتے ہیں جب کہ ان سے پہلے کسی ایک شخص سے بھی یہ اجماع بلکہ دعوائے اجماع بھی ثابت نہیں ہوتا تو اہل حدیث ودیگر حضرات کو یہ ابن صلاحؒ کا دعویٰ قبول کیوں ہوتا ہے؟ وہاں وہ یہ مین میخیں کیوں نہیں نکالتے ؟
آخر وہاں اس دعویٰ کو قبول کیوں کر لیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس اجماع کے دعویٰ سے پہلے ایسے علماء نظر آتے ہیں جو مسلم کو بخاری پر ترجیح دیتےہیں۔یہاں ایسا کوئی عالم نظر نہیں آتا جو اس کے خلاف کہے اور ایک بڑا عالم اس پر اجماع کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس کے بعدہرطبقہ کے تمام علماء اس کو قبول کرتے چلے جاتے ہیں پھر بھی یہ انجنیئرصاحب کو قبول نہیں۔

شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ(المتوفی: ۷۲۸ھ) کا مؤقف:
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں: ’’أَمَّا نَفْسُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا خَلَقَ اللَّهُ خَلْقًا أَكْرَمَ عَلَيْهِ مِنْهُ۔ وَأَمَّا نَفْسُ التُّرَابِ فَلَيْسَ هُوَ أَفْضَلَ مِنْ الْكَعْبَةِ البيت الْحَرَامِ بَلْ الْكَعْبَةُ أَفْضَلُ مِنْهُ وَلَا يُعْرَفُ أَحَدٌ مِنْ الْعُلَمَاءِ فَضَّلَ تُرَابَ الْقَبْرِ عَلَى الْكَعْبَةِ إلَّا الْقَاضِي عِيَاضٌ وَلَمْ يَسْبِقْهُ أَحَدٌ إلَيْهِ وَلَا وَافَقَهُ أَحَدٌ عَلَيْهِ۔ وَاَللَّهُ أَعْلَمُ‘‘۔ ’’محمد ﷺکی ذات مبارکہ تمام مخلوقات میں معززواکرم ہے۔ لیکن آپﷺکے جسداطہرسے مس مٹی کعبہ اورمسجدالحرام سے افضل نہیں ہےبلکہ کعبہ افضل ہے۔ علماء میں کوئی بھی ایسا نہیں جس نے قبرکی مٹی کوکعبہ سے افضل قراردیاہوسوائے قاضی عیاض کے، آپ سے پہلے کسی نےبھی اس بات کوبیان نہیں کیااورناہی کسی نے اس معاملے میں قاضی عیاض کی موافقت کی ہے‘‘۔ (مجموع الفتاوى: ج۲۷، ص۳۸)

شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ کامقام ومرتبہ اوردینی خدمات کے ہم سب معترف ہیں، خاص طورپرآپؒ نے شیعوں اورتاتاریوں کے خلاف دین کی بہت خدمت کی ہے۔ لیکن ہم سب اس بات سے بھی اچھی طرح باخبرہیں کہ ابن تیمیہؒ نے بہت سے اجماعی مسائل میں پوری امت مسلمہ سے اختلاف کیاہے جس میں تین طلاقوں کامسئلہ قابل ذکرہے۔
الجواب: ہم یہ نہیں گہیں گے کہ ابن تیمیہؒ کا مؤقف ۱۰۰ فیصدغلط ہے، کیونکہ انہوں نے اپنے علم کے مطابق بات کی ہے۔ ابن تیمیہؒ کایہ کہناکہ قاضی عیاضؒ سے پہلے کسی نے یہ بات بیان نہیں کی اوراس معاملے میں کسی نے ان کی موافقت نہیں کی، ٹھیک نہیں ہےکیونکہ قاضی عیاضؒ سے پہلے ابن عبدالبرالمالكی ؒاورامام ابن عقیل حنبلی نے بھی بالکل یہی بات بیان کی ہے جن کے حوالے ہم اوپرپیش کرچکے ہیں۔ اورقاضی عیاضؒ بھی کوئی عام سی شخصیت نہیں ہیں کہ کسی ایک شخص نے کہا ہواور انہوں نے اسے ’’لاخلاف‘‘کے الفاظ سے بطور اجماع نقل کر دیا ہواورعلماء امت نےبھی اسے اجماع مان لیاہو۔ ہاں اگر اس مسئلےکے خلاف علماءکےاقوال موجود ہوتے تو ہم یہ کہہ سکتے تھے کہ قاضی عیاضؒ کو اجماع کے دعویٰ میں غلطی ہوئی ہے لیکن ہمیں ایسا کہیں نظرنہیں آتابلکہ علماء نےہردورمیں اس مسئلے اوردعویٰ اجماع کومن عن تسلیم کیاہے۔ لہٰذا یہاں یہ تسلیم کیئے بغیرچارہ ہی نہیں کہ ابن تیمیہؒ سےاس مسئلے کوبیان کرنےمیں غلطی ہوئی ہے۔

’’وَقَدْ ثَبَتَ فِي الصَّحِيحِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: {أَحَبُّ الْبِقَاعِ إلَى اللَّهِ الْمَسَاجِدُ} فَلَيْسَ فِي الْبِقَاعِ أَفْضَلُ مِنْهَا وَلَيْسَتْ مَسَاكِنُ الْأَنْبِيَاءِ لَا أَحْيَاءً وَلَا أَمْوَاتًا بِأَفْضَلَ مِنْ الْمَسَاجِدِ۔ هَذَا هُوَ الثَّابِتُ بِنَصِّ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاتِّفَاقِ عُلَمَاءِ أُمَّتِهِ۔ وَمَا ذَكَرَهُ بَعْضُهُمْ مِنْ أَنَّ قُبُورَ الْأَنْبِيَاءِ وَالصَّالِحِينَ أَفْضَلُ مِنْ الْمَسَاجِدِ وَأَنَّ الدُّعَاءَ عِنْدَهَا أَفْضَلُ مِنْ الدُّعَاءِ فِي الْمَسَاجِدِ حَتَّى فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْمَسْجِدِ النَّبَوِيِّ۔ فَقَوْلٌ يُعْلَمُ بُطْلَانُهُ بِالِاضْطِرَارِ مِنْ دِينِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُعْلَمُ إجْمَاعُ عُلَمَاءِ الْأُمَّةِ عَلَى بُطْلَانِهِ إجْمَاعًا ضَرُورِيًّا كَإِجْمَاعِهِمْ عَلَى أَنَّ الِاعْتِكَافَ فِي الْمَسَاجِدِ أَفْضَلُ مِنْهُ عِنْدَ الْقُبُورِ‘‘۔ ’’اورصحیح حدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ نبیﷺنے فرمایا"اﷲ کو مسجدیں بہت زیادہ محبوب ہیں"توپھرکوئی اورجگہ مسجد سے افضل نہیں ہوسکتی، اوراس میں انبیاءؑکی جگہیں بھی شامل ہیں اس وقت بھی جب انبیاءؑ دنیامیں موجود تھی اور اب بھی جب وہ دنیاسے جاچکے ہیں۔ اوریہ بات نص رسولﷺسے ثابت ہے اورعلماءکے اتفاق سے بھی ثابت ہے۔ جوبعض حضرات نے ذکرکیاہے کہ انبیاءؑاورنیک لوگوں کی قبریں مسجدوں سے افضل ہوتی ہیں اوران کے پاس دعاکرنامسجدوں میں دعاکرنے سے افضل ہے، یہاں تک کہ مسجد حرام اورمسجدنبوی میں دعاکرنےسے بھی افضل ہے۔ اگران کی اس بات کولے لیاجائے تواس سے دین میں بگاڑپیداہوجائےگا، اوران کی اس بات کے باطل ہونے پرتوعلماءکااجماع ہے کہ مسجدوں میں دعامانگنے سے قبرکے پاس دعامانگلناافضل ہے۔ اسی طرح علماءکااس بات پربھی اجماع ہے کہ مسجدمیں اعتکاف کرناقبروں کےپاس اعتکاف کرنے سے افضل ہے‘‘۔ (مجموع الفتاوى: ج۲۷، ص ۲۶۰)
الجواب: یہاں بھی ابن تیمیہؒ نے اصل مسئلے کےمطابق بات نہیں کی کیونکہ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ انبیاءؑکی قبروں کومساجد پرافضلیت حاصل ہےیاانبیاءؑکی قبروں پراعتکاف کرنااوردعائیں مانگنامساجدمیں اعتکاف کرنے اوردعائیں مانگنے سے زیادہ افضل ہے۔ کیونکہ قبروں پراعتکاف کرنے اوردعائیں مانگنےکے عمل کوتوسب ہی غلط سمجھتےہیں توپھراس میں افضلیت والی بات کہاں سے آگئی۔ یہاں بات صرف اس مٹی کی ہےجورسول اﷲﷺکے جسد اطہرسے مس ہے، جس مٹی سے اﷲتبارک وتعالیٰ نے آپ کوتخلیق دیاہے۔ ہمارے نزدیک جب آپﷺکی ذات مبارکہ تمام مخلوقات سے افضل ہے توپھروہ مٹی بھی افضل ہوئی جس سے آپﷺکی تخلیق ہوئی۔

’’أَخْبَرَنَا أَبُو النَّضْرِ الْفَقِيهُ، وَأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنَزِيُّ، قَالا: ثنا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، ثنا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ الْوُحَاظِيُّ، ثنا عَبْدُ الْعَزِيرِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ أَبِي يَحْيَى مَوْلَى الأَسْلَمِيِّينَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجِنَازَةٍ عِنْدَ قَبْرٍ فَقَالَ: "قَبْرُ مَنْ هَذَا؟"، فَقَالُوا: فُلانٌ الْحَبَشِيُّ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ سِيقَ مِنْ أَرْضِهِ وَسَمَائِهِ إِلَى تُرْبَتِهِ الَّتِي مِنْهَا خُلِقَ"۔ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ‘‘۔ ’’حضرت ابوسعیدخدری رضی اﷲعنہ فرماتے ہیں: نبی اکرمﷺقبرکے پاس (رکھی ہوئی) ایک میت کے پاس سے گزرے، آپﷺنےپوچھا، یہ کس کی قبرہے؟ صحابہ رضی اﷲعنہم نےجواب دیا: یارسول اﷲﷺ! یہ فلاں حبشی کی قبرہے۔ تورسول اﷲﷺ نے فرمایا: اﷲکے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اﷲکے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اﷲکی زمین اورآسمان سے اس کواس مٹی کی طرف بھیج دیاگیاہے، جس سے اس کوپیداکیاگیاہے‘‘۔ (المستدرك على الصحيحين، للحاکم : کتاب الجنائز، ج۱، ص۵۱۶، رقم الحدیث ۱۳۵۶)
دوسری بات یہ کہ اگرنص رسولﷺسے مساجدکامحبوب ہونا ثابت ہےتواس طرح توپھرنص قرآن سے تمام انسانوں کابہت سی مخلوقات سے افضل ہونا بھی ثابت ہے، نص رسولﷺسے نبی کریمﷺکاتمام انسانوں سے افضل ہونا بھی ثابت ہے، نص رسولﷺسے اﷲ تعالیٰ کے نزدیک مومن مسلمان کی حرمت وعظمت کعبہ سے زیادہ ہونا بھی ثابت ہے۔

جیساکہ قرآن مجیدمیں ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰهُمْ عَلٰي كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلً‘‘۔ ’’اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو جنگل اور دریا میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی اوراپنی بہت سی مخلوقات(بڑی مخلوق) پر فضیلت دی‘‘۔ [سورۃ الاسرا: ۷۰]
’’حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ جُدْعَانَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم "أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ فَخْرَ وَبِيَدِي لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلاَ فَخْرَ وَمَا مِنْ نَبِيٍّ يَوْمَئِذٍ آدَمُ فَمَنْ سِوَاهُ إِلاَّ تَحْتَ لِوَائِي وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الأَرْضُ وَلاَ فَخْرَ‏"۔‏ قَالَ أَبُو عِيسَى وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ۔‏ وَقَدْ رُوِيَ بِهَذَا الإِسْنَادِ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم‘‘۔ ’’نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں تمام اولاد آدم کا سردار ہوں،لیکن مجھے اس پر فخر نہیں ہے‘‘۔ (جامع الترمذی: کتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ج۱، رقم الحدیث ۳۶۱۵)

’’أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو إِسْمَاعِيلُ بْنُ نُجَيْدٍ السُّلَمِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَوَارٍ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا شِبْلُ بْنُ عَبَّادٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا نَظَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْكَعْبَةَ، فَقَالَ: "مَرْحَبًا بِكِ مِنْ بَيْتٍ مَا أَعْظَمَكِ، وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ، وَلَلْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللهِ حُرْمَةً مِنْكِ"‘‘۔ ’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما فرماتےہیں کہ رسول اﷲﷺ نے خانہ کعبہ کی طرف دیکھ کرفرمایااﷲ تعالیٰ کے نزدیک مومن کی حرمت وعظمت تجھ سے زیادہ ہے‘‘۔ (شعب الإيمان للبیہقی: ج۵، ص۴۶۵، رقم الحدیث ۳۷۲۵)
’’وَمَا ذَكَرَهُ بَعْضُهُمْ مِنْ الْإِجْمَاعِ عَلَى تَفْضِيلِ قَبْرٍ مِنْ الْقُبُورِ عَلَى الْمَسَاجِدِ كُلِّهَا۔ فَقَوْلٌ مُحْدَثٌ فِي الْإِسْلَامِ؛ لَمْ يُعْرَفْ عَنْ أَحَدٍ مِنْ السَّلَفِ وَلَكِنْ ذَكَرَهُ بَعْضُ الْمُتَأَخِّرِينَ فَأَخَذَهُ عَنْهُ آخَرُ وَظَنَّهُ إجْمَاعًا؛ لِكَوْنِ أَجْسَادِ الْأَنْبِيَاءِ أَنْفُسِهَا أَفْضَلَ مِنْ الْمَسَاجِدِ۔ فَقَوْلُهُمْ يَعُمُّ الْمُؤْمِنِينَ كُلَّهُمْ فَأَبْدَانُهُمْ أَفْضَلُ مَنْ كُلِّ تُرَابٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا يَلْزَمُ مَنْ كَوْنِ أَبْدَانِهِمْ أَفْضَلَ أَنْ تَكُونَ مَسَاكِنُهُمْ أَحْيَاءً وَأَمْوَاتًا أَفْضَلَ؛ بَلْ قَدْ عُلِمَ بِالِاضْطِرَارِ مِنْ دِينِهِمْ أَنَّ مَسَاجِدَهُمْ أَفْضَلُ مِنْ مَسَاكِنِهِمْ‘‘۔ ’’بعض لوگوں نےجوقبروں کومسجدوں پرفضیلت دینے پرجواجماع نقل کیاہے، یہ ایک ایسا قول ہے جواسلام میں ایجاد کیاگیاہے۔یہ سلف صالحین میں سے کسی سے منقول نہیں ہےلیکن اس کومتاخرین نے ذکرکردیااوران کے بعدوالے اسے نقل کرتے گئےاوراس طرح اس کوانہوں نے اجماع گمان کرلیا۔ جولوگ قبرکی مٹی افضل مانتے ہیں ان کی دلیل کے مطابق اگرانبیاءؑکے جسم مسجدوں سے افضل ہیں توپھروہ جس جگہ موجودرہے ہوں وہ بھی افضل قرارپائے گی اوریہ ایک ایسا قول ہے جومومنین وغیرہ سب کوشامل ہے کیونکہ بہرحال ہرمومن کاجسم خالی مٹی سے توافضل ہےلیکن اس سے یہ بات لازم نہیں ہوتی کہ کسی کااگرجسم افضل ہوتواس کامطلب یہ نہیں کہ وہ جس جگہ موجودہویادنیاسے چلاگیاہووہ جگہ بھی افضل قرارپائےگی بلکہ ان کے مذہب کی کمزوری سے تویہ نظرآتاہے کہ مساجد ہی بہرحال افضل ہیں‘‘۔(مجموع الفتاوى: ج۲۷، ص ۲۶۱)

الجواب: ابن تیمیہؒ کی یہ بات بالکل صحیح ہےکہ سلف صالحین سے اس اجماع کاکوئی ثبوت نہیں ملتاہےلیکن متاخرین کی ایک بڑی جماعت نے اس اجماع کونقل کیاہے اوربعدوالوں نے اسے قبول کرتے ہوئے اجماع ہی گمان کیاہے۔ اگربعدوالوں نے اس اجماع کی مخالفت کی ہوتی تب توابن تیمیہؒ کامؤقف بالکل صحیح ہوتالیکن بعدآنے والوں میں سے ہرطبقہ کے علماءنے اس اجماع کی ہمایت کی ہےاوراس عقیدہ کواپنی کتابوں میں نقل کرتے ہوئے اس کی مکمل تائیدکی ہے، جوکہ اس عقیدہ کے برحق ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ کیونکہ یہ پوری امت کسی بھی دورمیں ایک سیکنڈکے لئے بھی گمراہی پرجمع نہیں ہوسکتی۔
’’حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ، ثنا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مَرْزُوقٍ مَوْلَى آلِ طَلْحَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَنْ تَجْتَمِعَ أُمَّتِي عَلَى الضَّلَالَةِ أَبَدًا، فَعَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ فَإِنَّ يَدَ اللهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ»‘‘۔ ’’میری امت کبهی گمراہی پرجمع نہیں ہوگی پس تمہارے لئے جماعت ہے کیونکہ اﷲکاہاتھ جماعت پرہے‘‘۔ (المعجم الكبير للطبرانی: ج۱۲، ص۴۴۷، رقم الحدیث ۱۳۶۲۳)

اس اجماع کی مثال بالکل اسی طرح ہے جیسے ابن صلاحؒ نے بخاری کی اصح الکتب بعد کتاب اللہ پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔ یہی اشکال وہاں بھی توکیاجاسکتاہے لیکن وہاں دعویٰ قبول کیاجاتاہے۔ ہوسکتاہےابن تیمیہؒ نے اپنے زمانے تک ممکن ہے یہ بات درست کہی ہو لیكن عجیب بات ہے کہ جمہور علماءنے خود ان کی موافقت نہیں کی حتیٰ کہ ان کے معاصرعلامہ سبکیؒ نے بھی نہیں کی۔ جبکہ قاضی عیاض ؒکے اجماع کے دعویٰ کو علماء امت نے تواترکے ساتھ قبول کیا ہے اور خود بھی اس اجماع کواپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ امام سبکی، امام خفاجی، امام حصفکی، امام سخاوی، ابو عبد اللہ علیش المالکی، ملا علی القاری، علامہ ابن عابدین، رحمت اللہ سندی مکی، ابن حجر ہیثمی، شمس رملی، مناوی رحمہم اﷲتعالیٰ اوران جیسے لوگوں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے یہی بات نقل کی ہے اور ان میں سے بعض نے خود اجماع کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ ایسی صورت میں یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ابن تیمیہؒ سے اس سلسلے میں اجتہادی خطا ہوئی ہے۔ تیسری، چوتھی اور پانچویں شقیں اجماع کی موجودگی میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی اس عقیدہ پر اجماع کے وجود کے انکار کی وجہ سے یقین نہ رکھے تو وہ گمراہ نہیں ہوگا۔ لیکن یہ نتیجہ کیسے نکل آیا کہ جو یہ عقیدہ رکھے وہ گمراہ ہو جائے گا؟
اگرچندلمحوں کے لئے ابن تیمیہؒ کے مؤقف کوصحیح تسلیم کرلیاجائے تب بھی سوال یہ پیداہوتا ہے کہ ابن تیمیہؒ کے اس نظریہ سے کیا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جو یہ عقیدہ رکھے گا وہ گمراہ وبدعقیدہ ہوگا اور یہ عقیدہ اللہ تعالیٰ کی توہین (مکفر) ہے؟ اگرایساہی ہے پھرتوابن تیمیہؒ کوچاہیئے تھاکہ قاضی عیاضؒ اوران جیسے دیگرمحدثین کوگمراہ وبدعقیدہ قراردیتے۔ کیا ابن تیمیہؒ نے قاضی عیاض ؒاوردیگرائمہ کرام کوگمراہ وبدعقیدہ قراردیا؟ اگر نہیں تو کیا وجہ ہے کہ علماء دیوبند یہ عقیدہ رکھنے پر گمراہ وبدعقیدہ قرارپائیں گے؟ اسی کو میں نے یوں پوچھا تھا کہ یہ عقیدہ کیا ہے؟ کفر؟ فسق؟ یا ناجائز؟

سمير بن خليل المالكی کااشکال:
’’فإن قيل: إن التفضيل ليس للبقعة ذاتها، بل لمن حلَّ فيها، أما هي فكمثلها من البقاع‘‘۔ ’’اگریہ اعتراض کیاجائے کہ یہاں پرجوقبرکی جگہ ہے اس کوبذاتِ خودافضلیت حاصل نہیں ہے بلکہ اس وجہ سے حاصل ہے جوخوداس جگہ میں موجودہیں اوریہی حال ان تمام جگہوں کاہےجواس کے مشابہ ہیں‘‘۔

’’فالجواب: هذا باطل أيضاً، فإن تفضيل الأزمنة والأمكنة والأشخاص لا يخضع لقياس، بل هو أمر توقيفي، فالله تعالى فضل بعضها على بعض، ففضل رمضان على سائر الشهور، وفضل الجمعة ويوم عرفة على سائر الأيام، وفضل المساجد الثلاثة على سائر البقاع، ومنها بيوت الأنبياء ومساكنهم التي يأوون إليها۔ وقد كان النبي صلى الله عليه وسلم يتحنث في غار حراء، ولم يصيره ذلك أفضل من الكعبة ولا المساجد، لا في وقت تحنثه فيه ولا بعد ذلك۔ ويلزم من تفضيل القبر على الكرسي والعرش، تفضيل المخلوق على الخالق، فإن الأول إن كان قد ضمن جسد المصطفى، فالعرش الرحمن عليه استوى، وصح عن ابن عباس رضي الله عنهما أن الكرسي موضع القدمين‘‘۔ ’’الجواب: کسی زمانہ کوکسی مکان کواورشخص کوفضیلت بخشنااس میں قیاس کادخل نہیں ہے بلکہ یہ ایک توقیفی معاملہ ہےجواﷲتعالیٰ ہی کے سپردہے اوراﷲتعالیٰ جس چیزکوجب چاہے فضیلت دےاورجس چیزکوچاہے نہ دےاس میں قیاس کادخل نہیں ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے بعض کوبعض پرفضیلت دی، رمضان کو تمام مہینوں پرفضیلت دی، جمعہ اوریوم عرفہ کوبقیہ ایّام پرفضیلت دی، اسی طرح تین مسجدوں کا زمین کے تمام خطوں پرفضیلت دی اورزمین کے تمام خطوں میں انبیاءؑکے گھربھی شامل ہیں اوران کی قیام گاہیں سب شامل ہوگئیں جہاں پروہ موجودہیں۔ نبی کریمﷺتوغارحراء میں بھی عبادت کیاکرتے تھے لیکن غارحراءتوکعبہ سےافضل نہیں ہےاورنہ ہی کسی دوسری مسجد سےاورنہ ہی وہ وقت افضل ہوگاجس میں آپﷺ غارحراءمیں جاکرعبادت کیاکرتے تھےاورنہ ہی اس کے بعدوالاوقت۔ اگرقبرکوکرسی پراورعرش پرفضیلت دی جائے توپھراس صورت میں تومخلوق کوخالق پرفضیلت دینا لازم آتاہے۔ کیونکہ اگرنبی کریمﷺکی قبرکی مٹی آپﷺکے جسد اطہرسے مس ہے تواﷲتعالیٰا اپنےعرش پرمستوی ہےاورحضرت ابن عباس رضی اﷲعنہ سے ثابت ہے کہ کرسی اﷲتعالیٰ کے دوقدموں کی جگہ ہے‘‘۔ (الرد على من فضل قبر النبی على عرش الرحمن)
شیخ سمير بن خليل المالكی کے اشکال کاجواب ابن عقیل حنبلیؒ اورابن القیم حنبلیؒ نےنہایت خوبصورتی سے دیاہے: ’’قال ابن عقيل: سألني سائل أيما أفضل حجرة النبي أم الكعبة؟ فقلت: إن أردت مجرد الحجرة فالكعبة أفضل، وإن أردت وهو فيها فلا والله ولا العرش وحملته ولا جنه عدن ولا الأفلاك الدائرة لأن بالحجرة جسدا لو وزن بالكونين لرجح‘‘۔ ’’ابن عقیل حنبلی نے کہا کہ سائل نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حجرہ افضل ہے یا کعبہ؟ جواب دیا اگر تمہارا ارادہ خالی حجرہ ہے تو تو پھر کعبہ افضل ہےاور اگر تمہاری مراد وہ ہے جو اس میں ہے [یعنی روضۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم جہاں پر مدفون ہیں] تو پھر اللہ کی قسم نہ عرش افضل ہے نہ اس کے تھامنے والے فرشتے نہ جنت عدن اور نہ ہی پوری دنیا۔ اگر حجرے کا وزن جسد کے ساتھ کیا جائے تو وہ تمام کائنات اور جو کچھ اس میں ہے اس سے بھی افضل ہوگا‘‘۔ (بدائع الفوائد :ج۳، ص۶۵۵)

اس عبارت سے یہ بات صراحت سے ثابت ہے کہ اگر خالی حجرہ کی بات کی جائے تو پھر کعبہ افضل ہے لیکن اگر جسدِ اطہر کے ساتھ بات کی جائے تو پھر قبرکی مٹی افضل ہے، کیونکہ نبی کریمﷺ کونین سے افضل ہیں۔ جن حضرات نے اس موضوع پر لکھا ہے انہوں نے بھی نبی کریمﷺ کی فضیلت کی بات کی ہے نہ کہ صرف قبر مبارک کی۔ حالانکہ ان علماء کی مراد صرف مٹی کامس ہوناہرگز نہیں ہےبلکہ قبر کا وہ حصہ بمعہ جسدِ اطہر مراد ہے۔ اسی لئے امام سخاویؒ نے آخر میں اس بات کی وضاحت فرمادی کہ انبیاءؑ کی جگہیں اورارواح زمین وآسمان سے افضل ہیں۔ ابن عقیلؒ اور امام بہوتی حنبلیؒ نے حجرہ اور کعبہ میں تقابل کیا ہے اور یہ تقابل انہوں نے وزنا ًکیا ہے۔
یہی بات ابن عقیلؒ نے بھی کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ تو ہر ذی شعورجانتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ افضل المخلوقات ہیں اور کعبہ کے مقابلے میں آپ زیادہ افضل ہیں۔ آپ کے صرف جسد ِاطہرکو وزن کیا جائے تو کعبہ سے افضل ہوگا۔ تو جسد ِاطہرسمیت حجرہ کا افضل ہونا تو ظاہر سی بات ہے۔ تو جب یہ ایک عام بات ہے تو اسے ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی۔


غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ابن عقیلؒ اور امام بہوتی ؒنے بھی تمام علماء کی طرح تقابل حجرہ اور کعبہ میں ہی کیا ہے اور نبی ﷺ کی موجودگی کا ذکر کر کے آپ سے حجرہ کا تعلق ذکر کیا ہے۔ یعنی اگر نبیﷺ کو ہٹا دیا جائے تو کعبہ افضل ہے اور اگر نبی ﷺ موجود ہوں تو حجرہ افضل ہے۔ کیوں افضل ہے؟ آپ کے اس میں حلول یا وجود کی وجہ سے۔ اسی بات کو دیگرعلماء نے یوں کہا ہے: وہ قبر افضل ہے جو ملی ہوئی ہے آپ کے اعضاء سے۔یہاں بھی آپ سمیت فضیلت نہیں دی جا رہی بلکہ آپ کی موجودگی میں فضیلت دی جا رہی ہے۔ فرق دونوں میں باریک سا ہے۔ اور اگر بالفرض کوئی بضد ہی ہو کہ نہیں ابن عقیلؒ نے نبی ﷺ سمیت وزن کی ہی بات کی ہے تو پھر میں یہ کہوں گا کہ ابن عقیلؒ نے بات کی بھی مکمل حجرہ کی ہے اور ہماری بات قبر، بقعہ، تراب کے بارے میں چل رہی ہے اور دونوں میں عموم و خصوص مطلق کی نسبت ہے۔ لہٰذا موضوع مختلف ہونے سے اس بات کو زیادہ سے زیادہ باہر نکالا جا سکتا ہے اور کچھ نہیں۔ اصل بات وہی ہے جو میں نے پہلے کہی تھی اور یہی بات ’’المہند علی المفند‘‘ میں لکھی ہے جس کو مفتی طارق مسعود صاحب نے بیان فرمایاتھا۔ اب انجنیئرصاحب جیسےچاہیں اس بات کو توڑمڑوڑکرپیش کریں لیکن آپ ان تمام ائمہ دین کوایک ہی صف میں کھڑاپائیں گے۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area