بسم الله الرحمن الرحیم
صدقہ جاریہ کے معنیٰ:
ہروہ نیک عمل جوانسان اپنی زندگی میں کرتاہے اوراسکا سلسلہ اس انسان کی زندگی میں بھی اورمرنے کے بعدبھی جاری رہتاہے، اس کے لئے صدقہ جاریہ بن جاتاہے، جس سےاسےاس کی زندگی میں بھی اوراس کے مرنے کے بعدبھی ثواب ملتارہتاہے۔
صدقہ جاریہ کا ایک بہترین اور آسان طریقہ یہ بھی ہوسکتاہےکہ جولوگ درج ذیل احادیث کوخودبھی پڑھ کرعمل کریں گے اورانہیں سوشل میڈیاکےذریعہ دوسرےمسلمانوں تک پہنچائیں گےتوان لوگوں کے ذریعہ جتنے لوگوں تک یہ احادیث پہنچیں گی اور جتنے لوگ ان احادیث پر عمل کریں گے، انشاءاﷲان سب عمل کرنیوالوں اورآگے پہنچانے والوں کوان کے اس عمل کااجروثواب پہنچتارہے گااورجب تک یہ سلسلہ جاری رہے گاتب تک ان تمام لوگوں کے لئے ان کایہ عمل صدقہ جاریہ بن جائےگا۔
اﷲتعالیٰ سے دعاہے کہ اﷲپاک ہمیں خود بھی ان احادیث پرعمل کرنے کی توفیق عطافرمائے اوردوسروں تک ان احادیث کوپہنچانے کاذریعہ بنائے۔ آمین
صدقہ جاریہ کے بیان میں رسول اﷲﷺکےواضح ارشادات:
۱۔ ’’حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، وَقُتَيْبَةُ يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ، وَابْنُ حُجْرٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ هُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ، عَنِ الْعَلَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ‘‘۔ ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جب انسان فوت ہو جائے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین اعمال کے (وہ منقطع نہیں ہوتے): ۱۔صدقہ جاریہ، ۲۔ یا ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے، ۳۔ یا نیک بیٹا جو اس کے لیے دعا کرے۔ (صحيح مسلم: كِتَابُ الْوَصِيَّةِ، بَابُ مَايَلْحَقُ الْإِنْسَانَ مِنَ الثَّوَابِ بَعْدَ وَفَاتِهِ، رقم الحدیث۴۲۲۳)
۲۔ ’’حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ "مَا مِنْ مُسْلِمٍ غَرَسَ غَرْسًا فَأَكَلَ مِنْهُ إِنْسَانٌ أَوْ دَابَّةٌ إِلاَّ كَانَ لَهُ صَدَقَةً"‘‘۔ ’’سیدنا حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: جس مسلمان نے کوئی درخت لگایا اور اس کا پھل آدمیوں اور جانوروں نے کھایا تو اس لگانے والے کے لیے صدقہ کا ثواب ہے(گویا کہ یہ صدقہ جاریہ ہے)‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۸، کتاب الآداب، باب رَحْمَةِ النَّاسِ وَالْبَهَائِمِ، رقم الحدیث۶۰۱۲)
۳۔ ’’حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَهْبِ بْنِ عَطِيَّةَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا مَرْزُوقُ بْنُ أَبِي الْهُذَيْلِ، حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، حَدَّثَنِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الأَغَرُّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم۔ "إِنَّ مِمَّا يَلْحَقُ الْمُؤْمِنَ مِنْ عَمَلِهِ وَحَسَنَاتِهِ بَعْدَ مَوْتِهِ عِلْمًا عَلَّمَهُ وَنَشَرَهُ وَوَلَدًا صَالِحًا تَرَكَهُ وَمُصْحَفًا وَرَّثَهُ أَوْ مَسْجِدًا بَنَاهُ أَوْ بَيْتًا لاِبْنِ السَّبِيلِ بَنَاهُ أَوْ نَهْرًا أَجْرَاهُ أَوْ صَدَقَةً أَخْرَجَهَا مِنْ مَالِهِ فِي صِحَّتِهِ وَحَيَاتِهِ يَلْحَقُهُ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهِ"۔ حسنه الألباني في صحيح ابن ماجه‘‘۔ ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺنے فرمایا: مومن کو اس کے اعمال اور نیکیوں میں سے اس کے مرنے کے بعد جن چیزوں کا ثواب پہنچتا رہتا ہے وہ یہ ہیں: ۱۔علم جو اس نے سکھایا اور پھیلایا، ۲۔ نیک اور صالح اولاد جو چھوڑ گیا، ۳۔ وراثت میں قرآن مجید چھوڑ گیا، ۴۔ کوئی مسجد بنا گیا، ۵۔یا مسافروں کے لیے کوئی مسافر خانہ بنوا دیا ہو، ۶۔ یا کوئی نہر جاری کر گیا، ۷۔یا زندگی اورصحت و تندرستی کی حالت میں اپنے مال سے کوئی صدقہ نکالا ہو، تو اس کا ثواب اس کے مرنے کے بعد بھی اسے ملتا رہے گا‘‘۔ (سنن ابن ماجہ: ج۱، كتاب المقدمة،باب ثَوْابِ مُعَلِّمِ النَّاسِ الْخَيْرَ، رقم الحدیث ۲۴۲، حکم المحدث البانیؒ: حسن)
۴۔ ’’حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَهْبِ بْنِ عَطِيَّةَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا مَرْزُوقُ بْنُ أَبِي الْهُذَيْلِ، حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، حَدَّثَنِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الأَغَرُّ، وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم: إِنَّ مِمَّا يَلْحَقُ الْمُؤْمِنَ مِنْ عَمَلِهِ وَ حَسَنَاتِهِ بَعْدَ مَوْتِهِ عِلْمًا عَلَّمَهُ وَنَشَرَهُ وَوَلَدًا صَالِحًا تَرَکَهُ وَمُصْحَفًا وَرَّثَهُ أَوْ مَسْجِدًا بَنَاهُ أَوْ بَيْتًا لِابْنِ السَّبِيْلِ بَنَاهُ أَوْ نَهَرًا أَجْرَاهُ أَوْ صَدَقَةً أَخْرَجَهَا مِنْ مَالِهِ فِي صِحَّتِهِ وَحَيَاتِهِ يَلْحَقُهُ مِنْ بَعْدِ مَوتِهِ‘‘۔ ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: بے شک مومن کے وہ اعمال اور نیکیاں جن کا ثواب اسے موت کے بعد پہنچتا رہتا ہے ان میں سے (ایک) وہ علم ہے جو اس نے سکھایا اور پھیلایا۔ (دوسرا) نیک بیٹا ہے جو ا س نے پیچھے چھوڑا۔ (تیسرا) قرآنِ مجیدہے جو اس نے ورثہ میں چھوڑا۔ (چوتھا) مسجد جو اس نے تعمیر کی۔ (پانچواں) مسافر خانہ جو اس نے تعمیر کرایا۔ (چھٹا) نہر جو اس نے جاری کرائی۔ (ساتواں) صدقہ ہے جو اس نے اپنی زندگی اور صحت کی حالت میں اپنے مال سے نکالا۔ ان تمام اعمال کا ثواب اسے موت کے بعد بھی پہنچتا رہتا ہے‘‘۔ (صحیح ابن خزيمة :ج۴، ص ۲۸۲، الرقم الحدیث ۲۴۹۰؛ شعب الإيمان: ج۳، ص۲۰۳، رقم الحدیث۳۴۴۸)
اس حدیث کو امام ابن ماجہؒ، ابن خزیمہؒ اور امام بیہقیؒ نے روایت کیا ہے۔ امام منذریؒ نے فرمایا: اس کی سند حسن ہے۔
۵۔ ’’وَفِي رِوَايَةِ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم: سَبْعٌ يَجْرِي لِلْعَبْدِ أَجْرُهُنَّ وَهُوَ فِي قَبْرِهِ بَعْدَ مَوْتِهِ: مَنْ عَلَّمَ عِلْمًا، أَوْ کَرَی نَهَرًا، أَوْ حَفَرَ بِئْرًا، أَوْ غَرَسَ نَخْلًا، أَوْ بَنٰی مَسْجِدًا، أَوْ وَرَّثَ مُصْحَفًا، أَوْ تَرَکَ وَلَدًا يَسْتَغْفِرُ لَهُ بَعْدَ مَوْتِهِ‘‘۔ ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: سات اعمال ایسے ہیں جن کا اجر و ثواب بندے کو مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے، حالاں کہ وہ قبر میں ہوتاہے: ۱۔ جس نے علم سکھایا،۲۔یا نہر کھدوائی، ۳۔یا کنواں کھودا (یا کھدوایا)، ۴۔یا کوئی درخت لگایا، ۴۔یا کوئی مسجد تعمیر کی، ۶۔یا قرآن شریف ترکے میں چھوڑا، ۷۔یا ایسی اولاد چھوڑ کر دنیا سے گیا جو مرنے کے بعد اس کے لیے دعائے مغفرت کرے‘‘۔ ( مجمع الزوائد و منبع الفوائد ، ج۱، کتاب العلم ، ص۴۵۷، رقم الحدیث ۷۶۹؛ شعب الإيمان: ج۳، ص۲۰۳، رقم الحدیث۳۴۴۹)
حضرت انسؓ سے مروی حدیث کی سند اگرچہ ضعیف ہےلیکن اس کی تائیدحضرت ابوہریرہؓ کی روایت سے ہوتی ہے لہٰذا یہ حدیث بھی صحیح قرارپاتی ہے۔
مندرجہ بالااحادیث کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان مر جاتا ہے تو مرنے کے بعد وہ بذات خود کوئی نیک عمل نہیں کر سکتا کہ جو اس کو فائدہ پہنچاسکے۔ لیکن اگر وہ اپنی زندگی میں کوئی ایسا نیک کام کر جائے مثلاً: مسجد بنوا دی، مدرسہ بنا دیا، یا بچے کوقرآن حفظ کروادیا، یاعالم دین بنا دیا، یا کسی فلاحی کام میں مکان تعمیر کر گیا ہو، تو جب تک یہ چیزیں باقی رہیں گی ان کا ثواب اس کو بھی ملتا رہے گا اور اس طرح اگر کوئی بندہ کسی میت کے لیے اعمال بدنیہ یا مالیہ کا ثواب پہنچائے تو یہ جائز ہے اور اس کا ثواب بھی میت کو پہنچتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی کی زندگی میں اس کو ایصال ثواب کرنا۔ جس طرح زندگی میں اس کا ثواب اس کو پہنچتا ہے ایسے ہی مرنے کے بعد بھی پہنچتا رہے گا۔ انشاءاﷲ
’’حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَمَّتِهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم "إِنَّ أَطْيَبَ مَا أَكَلْتُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ وَإِنَّ أَوْلاَدَكُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ"‘‘۔ ’’ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲعنہافرماتی ہیں کہ رسول اﷲﷺنے ارشاد فرمایا: بے شک تمہاری اولاد تمہاری سب سے پاکیزہ کمائی میں سے ہے، سو تم اپنی اولاد کی کمائی میں سے کھاؤ‘‘۔ (جامع الترمذی: ج۱، كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب مَا جَاءَ أَنَّ الْوَالِدَ يَأْخُذُ مِنْ مَالِ وَلَدِهِ، رقم الحدیث ۱۳۵۸)
مندرجہ بالا احادیث کی تشریح میں شارح مسلم امام نووی رحمہ اﷲفرماتے ہیں:
’’قَالَ الْعُلَمَائُ: مَعْنَی الْحَدِیْثِ، أَنَّ عَمَلَ الْمَیِّتِ یَنْقَطِعُ بِمَوْتِہٖ وَیَنْقَطِعُ تَجَدُّدُ الثَّوَابِ لَہٗ إِلاَّ فِیْ ھٰذِہِ الْأَشْیَائِ الثَّلاَثَۃِ لِکَوْنِہٖ کَانَ سَبَبُھَا فَاِنَّ الْوَلَدَ مِنْ کَسَبِہٖ وَکَذٰلِکَ الْعِلْمُ الَّذِیْ خَلَفَہٗ مِنْ تَعْلِیْمٍ أَوْ تَصْنِیْفٍ وَکَذٰلِکَ الصَّدَقَۃُ الْجَارِیَۃُ وَھِیَ الْوَقْفُ‘‘۔ ’’علماء کرام اس حدیث کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ میت کا عمل اس کی وفات کے ساتھ منقطع ہوجاتا ہے اور اس کے لیے ثواب کا سلسلہ بھی منقطع ہوجاتاہے، مگر ان تین چیزوں کے علاوہ اس لیے کہ میت ان امور کی سبب تھی۔ اولاد اس کی کمائی ہے۔ اسی طرح علم جو اس نے پیچھے چھوڑا، خواہ وہ کسی کو تعلیم دے کر گیا یا کوئی عملی تصنیف چھوڑ گیا۔ اسی طرح صدقہ جاریہ بھی اس کا کسب ہے اور یہ وقف ہے‘‘۔ (شرح مسلم للنووی: ج۱۱، ص۷۲)
مندرجہ بالاحدیث اورامام نوویؒ کی پیش کردہ تشریح سےیہ بات معلوم ہوئی کہ اولاد آدمی کی اپنی کمائی ہے، لہٰذا اولاد والدین کےلئے بہترین صدقہ جاریہ ہےکیونکہ اولادجو بھی نیک اعمال کرے گی، والدین کو بھی اس پراجر وثواب ملے گا۔ اورماں باپ پرعائد ہرقرض کی ذمہ داری ان کے مرنے کے بعد اولاد پرعائدہوتی ہے۔ لہٰذا اولاد کافرض ہے کہ وہ اپنے والدین کی طرف سے ان کے فرائض کی ادائیگی کرتے رہیں۔ اس بات کی وضاحت درج ذیل احادیث مبارکہ میں ملتی ہے۔
میت کی طرف سے قضااورنذرکے روزوں کی ادائیگی
۱۔ ’’وَحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الأَيْلِيُّ، وَأَحْمَدُ بْنُ عِيسَى، قَالاَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، - رضى الله عنها - أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ "مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ"‘‘۔ ‘‘ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: جو مر جائے اور اس کے ذمہ روزے ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۳، کتاب الصوم، باب مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صَوْمٌ ، رقم الحدیث ۱۹۵۲؛ صحیح مسلم: ج۶، كتاب الصيام، باب قَضَاءِ الصِّيَامِ عَنِ الْمَيِّتِ، رقم الحدیث۲۶۹۲)
۲۔ ’’حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ، وَعَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ، أَفَأَقْضِيهِ عَنْهَا قَالَ "نَعَمْ ـ قَالَ ـ فَدَيْنُ اللَّهِ أَحَقُّ أَنْ يُقْضَى"‘‘۔ ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ! میری ماں کا انتقال ہو گیا اور ان کے ذمے ایک مہینے کے روزے باقی رہ گئے ہیں۔ کیا میں ان کی طرف سے قضاء رکھ سکتا ہوں؟ آپ ﷺنے فرمایا ہاں ضرور، اللہ تعالیٰ کا قرض اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اسے ادا کر دیا جائے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۳، کتاب الصوم، باب مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صَوْمٌ ، رقم الحدیث ۱۹۵۳؛صحیح مسلم: ج۶، كتاب الصيام، باب قَضَاءِ الصِّيَامِ عَنِ الْمَيِّتِ، رقم الحدیث۲۶۹۴)
۳۔ ’’وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، وَابْنُ أَبِي خَلَفٍ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، جَمِيعًا عَنْ زَكَرِيَّاءَ، بْنِ عَدِيٍّ - قَالَ عَبْدٌ حَدَّثَنِي زَكَرِيَّاءُ بْنُ عَدِيٍّ، - أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ زَيْدِ، بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ عُتَيْبَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، - رضى الله عنهما - قَالَ جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ نَذْرٍ أَفَأَصُومُ عَنْهَا قَالَ "أَرَأَيْتِ لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّكِ دَيْنٌ فَقَضَيْتِيهِ أَكَانَ يُؤَدِّي ذَلِكِ عَنْهَا"۔ قَالَتْ نَعَمْ۔ قَالَ "فَصُومِي عَنْ أُمِّكِ"‘‘۔ ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتےہیں کہ ایک عورت نبی کریم ﷺکی خدمت میں آئی اور عرض کرنے لگی اے اللہ کے رسولﷺمیری ماں کا انتقال ہوگیا ہے، اس پر منت کا روزہ لازم تھا تو کیا میں اس کی طرف سے روزہ رکھوں؟آپ ﷺنے فرمایا تیرا کیا خیال ہے؟کہ اگر تیری ماں پر کوئی قرض ہوتا تو کیا تو اس کی طرف سے ادا کرتی؟اس نے عرض کیا ہاں!آپﷺنے فرمایا کہ اللہ کا قرض اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اسے ادا کیا جائے، آپﷺ نے فرمایاکہ تو اپنی ماں کی طرف سے روزہ رکھ‘‘۔ (صحیح مسلم: ج۳، كتاب الصيام، باب قَضَاءِ الصِّيَامِ عَنِ الْمَيِّتِ، رقم الحدیث۲۶۹۶)
مندرجہ بالاتمام احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ میت کی طرف سے اس کا ولی قضااورنذر کے روزےرکھ سکتا ہے۔
میت کی طرف سے حج وعمرہ کی ادائیگی
۱۔ ’’حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ امْرَأَةً، مِنْ جُهَيْنَةَ جَاءَتْ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَتْ إِنَّ أُمِّي نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ، فَلَمْ تَحُجَّ حَتَّى مَاتَتْ أَفَأَحُجُّ عَنْهَا قَالَ "نَعَمْ۔ حُجِّي عَنْهَا، أَرَأَيْتِ لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّكِ دَيْنٌ أَكُنْتِ قَاضِيَةً اقْضُوا اللَّهَ، فَاللَّهُ أَحَقُّ بِالْوَفَاءِ"‘‘۔ ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ میری والدہ نے حج کی منت مانی تھی لیکن وہ حج نہ کر سکیں اور ان کا انتقال ہو گیا تو کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ ہاں ان کی طرف سے تو حج کر۔ کیا تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو تم اسے ادا نہ کرتیں؟ اللہ تعالیٰ کا قرضہ تو اس کا سب سے زیادہ مستحق ہے کہ اسے پورا کیا جائے۔ پس اللہ تعالیٰ کا قرض ادا کرنا بہت ضروری ہے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۳، کتاب جزاء الصيد، باب الْحَجِّ وَالنُّذُورِ عَنِ الْمَيِّتِ وَالرَّجُلُ يَحُجُّ عَنِ الْمَرْأَةِ، رقم الحدیث ۱۸۵۲)
۲۔ ’’حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، قَالَ سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ أَتَى رَجُلٌ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ لَهُ إِنَّ أُخْتِي نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ وَإِنَّهَا مَاتَتْ۔ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم "لَوْ كَانَ عَلَيْهَا دَيْنٌ أَكُنْتَ قَاضِيَهُ"۔ قَالَ نَعَمْ۔ قَالَ "فَاقْضِ اللَّهَ، فَهْوَ أَحَقُّ بِالْقَضَاءِ"‘‘۔ ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک صاحب رسول اللہ ﷺکی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ میری بہن نے نذر مانی تھی کہ حج کریں گی لیکن اب ان کا انتقال ہو چکا ہے؟ آنحضرت ﷺنے فرمایا اگر ان پر کوئی قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتے؟ انہوں نے عرض کی ضرور ادا کرتے۔ آنحضرت ﷺنے فرمایا پھر اللہ کا قرض بھی ادا کرو کیونکہ وہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کا قرض پورا ادا کیا جائے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۸، کتاب الأيمان والنذور، باب مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ نَذْرٌ، رقم الحدیث ۶۶۹۹)
۳۔ ’’حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، وَمُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، - بِمَعْنَاهُ - قَالاَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ، عَنْ أَبِي رَزِينٍ، قَالَ حَفْصٌ فِي حَدِيثِهِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَامِرٍ - أَنَّهُ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ لاَ يَسْتَطِيعُ الْحَجَّ وَلاَ الْعُمْرَةَ وَلاَ الظَّعْنَ۔ قَالَ "احْجُجْ عَنْ أَبِيكَ وَاعْتَمِرْ"‘‘۔ ’’حضرت ابورزین رضی اللہ عنہ بنی عامر کے ایک فرد کہتے ہیں میں نے عرض کیا: اللہ کے رسولﷺ! میرے والد بہت بوڑھے ہیں جو نہ حج کی طاقت رکھتے ہیں نہ عمرہ کرنے کی اور نہ سواری پر سوار ہونے کی، آپ ﷺنے فرمایا: "اپنے والد کی جانب سے حج اور عمرہ کرو"‘‘۔ (صحیح ابی داؤد: ج۲، كتاب المناسك، باب الرَّجُلِ يَحُجُّ عَنْ غَيْرِهِ، رقم الحدیث ۱۸۱۰)
۴۔ ’’حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الطَّالْقَانِيُّ، وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، - الْمَعْنَى وَاحِدٌ - قَالَ إِسْحَاقُ - حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَزْرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم سَمِعَ رَجُلاً يَقُولُ لَبَّيْكَ عَنْ شُبْرُمَةَ۔ قَالَ "مَنْ شُبْرُمَةَ"۔ قَالَ أَخٌ لِي أَوْ قَرِيبٌ لِي۔ قَالَ "حَجَجْتَ عَنْ نَفْسِكَ"۔ قَالَ لاَ۔ قَالَ "حُجَّ عَنْ نَفْسِكَ ثُمَّ حُجَّ عَنْ شُبْرُمَةَ"‘‘۔ ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے ایک شخص کو کہتے سنا: «لبيك عن شبرمة» «حاضر ہوں شبرمہ کی طرف سے» آپ ﷺ نے دریافت کیا: شبرمہ کون ہے؟، اس نے کہا: میرا بھائی یا میرا رشتے دار ہے، آپ ﷺنے پوچھا: تم نے اپنا حج کر لیا ہے؟، اس نے جواب دیا: نہیں، آپ ﷺنے فرمایا: پہلے اپنا حج کرو پھر (آئندہ) شبرمہ کی طرف سے کرنا‘‘۔ (سنن ابی داؤد: ج۲، كتاب المناسك، باب الرَّجُلِ يَحُجُّ عَنْ غَيْرِهِ، رقم الحدیث۱۸۱۱)
مندرجہ بالاتمام احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جب فوت شدہ باپ، بھائی، بہن اور رشتہ دارکی طرف سے حج کیاجاسکتا ہے اوربیمار باپ کی طرف سے حج وعمرہ دونوں کیئے جاسکتے ہیں تو پھرفوت شدہ والدین، بھائی بہنوں اوررشتہ داروں کی طرف سے حج وعمرہ دونوں کرنا جائزہوا۔
میت کی طرف سے صدقہ خیرات کرنا
۱۔ ’’أَخْبَرَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ عَنْ وَکِيعٍ عَنْ هِشَامٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ قَالَ سَقْيُ الْمَائِ‘‘۔ ’’حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺمیری والدہ کی وفات ہوگئی ہے۔ کیا میں ان کی جانب سے صدقہ کر سکتا ہوں؟ آپ ﷺنے فرمایا جی ہاں۔ میں نے عرض کیا کہ پھر کونساصدقہ افضل ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا کہ پانی پلانے والا‘‘۔ (سنن نسائی: ج۲، کتاب الوصیہ، وصیتوں سے متعلقہ احادیث، رقم الحدیث ۱۶۰۶)
۲۔ ’’حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، أَنَّهُ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمَّ سَعْدٍ مَاتَتْ فَأَىُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ قَالَ "الْمَاءُ"۔ قَالَ فَحَفَرَ بِئْرًا وَقَالَ هَذِهِ لأُمِّ سَعْدٍ‘‘۔ ’’سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ام سعد ( میری ماں ) انتقال کر گئیں ہیں تو کون سا صدقہ افضل ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا : " پانی " ۔ راوی کہتے ہیں : چنانچہ سعد نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا : یہ ام سعد کا ہے‘‘۔ (سنن ابی داؤد: ج۲، کتاب الزكاة، باب فِي فَضْلِ سَقْىِ الْمَاءِ، رقم الحدیث ۱۶۸۱)
۳۔ ’’حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ أَنَّ رَجُلاً، قَالَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا، وَأَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا قَالَ "نَعَمْ"‘‘۔ ’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺسے پوچھا کہ میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا اور میرا خیال ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ کچھ نہ کچھ خیرات کرتیں۔ اگر میں ان کی طرف سے کچھ خیرات کر دوں تو کیا انہیں اس کا ثواب ملے گا؟ آپﷺنے فرمایا ہاں ملے گا‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۲، کتاب الجنائز، باب مَوْتِ الْفَجْأَةِ الْبَغْتَةِ، رقم الحدیث ۱۳۸۸)
۴۔ ’’حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ يَزِيدَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي يَعْلَى، أَنَّهُ سَمِعَ عِكْرِمَةَ، يَقُولُ أَنْبَأَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ ـ رضى الله عنه ـ تُوُفِّيَتْ أُمُّهُ وَهْوَ غَائِبٌ عَنْهَا، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي تُوُفِّيَتْ وَأَنَا غَائِبٌ عَنْهَا، أَيَنْفَعُهَا شَىْءٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَنْهَا قَالَ "نَعَمْ"۔ قَالَ فَإِنِّي أُشْهِدُكَ أَنَّ حَائِطِي الْمِخْرَافَ صَدَقَةٌ عَلَيْهَا‘‘۔ ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی ماں عمرہ بنت مسعود کا انتقال ہوا تو وہ ان کی خدمت میں موجود نہیں تھے۔ انہوں نے آ کر رسول اللہ ﷺسے پوچھا یا رسول اللہ! میری والدہ کا جب انتقال ہوا تو میں ان کی خدمت میں حاضر نہیں تھا۔ کیا اگر میں کوئی چیز صدقہ کروں تو اس سے انہیں فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ آپﷺنے اثبات میں جواب دیا تو انہوں نے کہا کہ میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میرا مخراف نامی باغ ان کی طرف سے صدقہ ہے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۴، کتاب الوصايا، بَابُ إِذَا قَالَ أَرْضِي أَوْ بُسْتَانِي صَدَقَةٌ عَنْ أُمِّي. فَهُوَ جَائِزٌ، وَإِنْ لَمْ يُبَيِّنْ لِمَنْ ذَلِكَ، رقم الحدیث ۲۷۵۶)
۵۔ ’’حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ مَزْيَدٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ الْعَاصَ بْنَ وَائِلٍ، أَوْصَى أَنْ يُعْتَقَ، عَنْهُ مِائَةُ رَقَبَةٍ فَأَعْتَقَ ابْنُهُ هِشَامٌ خَمْسِينَ رَقَبَةً فَأَرَادَ ابْنُهُ عَمْرٌو أَنْ يَعْتِقَ عَنْهُ الْخَمْسِينَ الْبَاقِيَةَ فَقَالَ حَتَّى أَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَتَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبِي أَوْصَى بِعِتْقِ مِائَةِ رَقَبَةٍ وَإِنَّ هِشَامًا أَعْتَقَ عَنْهُ خَمْسِينَ وَبَقِيَتْ عَلَيْهِ خَمْسُونَ رَقَبَةً أَفَأُعْتِقُ عَنْهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم "إِنَّهُ لَوْ كَانَ مُسْلِمًا فَأَعْتَقْتُمْ عَنْهُ أَوْ تَصَدَّقْتُمْ عَنْهُ أَوْ حَجَجْتُمْ عَنْهُ بَلَغَهُ ذَلِكَ"‘‘۔ ’’حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عاص بن وائل نے سو غلام آزاد کرنے کی وصیت کی تو اس کے بیٹے ہشام نے پچاس غلام آزاد کئے، اس کے بعد اس کے (دوسرے) بیٹے عمرو نے ارادہ کیا کہ باقی پچاس وہ اس کی طرف سے آزاد کر دیں، پھر انہوں نے کہا: (ہم رکے رہے) یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺسے پوچھ لیں، چنانچہ وہ نبی اکرم ﷺکے پاس آئے اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے باپ نے سو غلام آزاد کرنے کی وصیت کی تھی تو ہشام نے اس کی طرف سے پچاس غلام آزاد کر دیئے ہیں، اور پچاس غلام ابھی آزاد کرنے باقی ہیں تو کیا میں انہیں اس کی طرف سے آزاد کر دوں؟ تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اگر وہ (باپ) مسلمان ہوتا اور تم اس کی طرف سے آزاد کرتے یا صدقہ دیتے یا حج کرتے تو اسے ان کا ثواب پہنچتا‘‘۔ (سنن ابی داؤد: ج۲، کتاب الوصایا، باب مَا جَاءَ فِي وَصِيَّةِ الْحَرْبِيِّ يُسْلِمُ وَلِيُّهُ أَيَلْزَمُهُ أَنْ يُنْفِذَهَا ، رقم الحدیث ۲۸۸۳)
۶۔ ’’أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَرِ قَالَ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ قَالَ حَدَّثَنَا زَکَرِيَّا بْنُ إِسْحَقَ قَالَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلًا قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمَّهُ تُوُفِّيَتْ أَفَيَنْفَعُهَا إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا قَالَ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّ لِي مَخْرَفًا فَأُشْهِدُکَ أَنِّي قَدْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَنْهَا‘‘۔ ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! میری والدہ صاحبہ کی وفات ہوگئی ہے اگر میں ان کی جانب سے وصیت کر دوں تو کیا ان کو اس کا اجر ملے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا جی ہاں۔ وہ کہنے لگا کہ میں آپ ﷺ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے اپنا باغ ان کی جانب سے صدقہ کر دیا ہے‘‘۔(سنن نسائی: ج۲، کتاب الوصیہ، وصیتوں سے متعلقہ احادیث، رقم الحدیث ۳۶۸۵)
میت کی طرف سےقرض کی ادائیگی
’’أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مُغِيرَةَ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ جَابِرٍ قَالَ تُوُفِّيَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ قَالَ وَتَرَکَ دَيْنًا فَاسْتَشْفَعْتُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی غُرَمَائِهِ أَنْ يَضَعُوا مِنْ دَيْنِهِ شَيْئًا فَطَلَبَ إِلَيْهِمْ فَأَبَوْا فَقَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اذْهَبْ فَصَنِّفْ تَمْرَکَ أَصْنَافًا الْعَجْوَةَ عَلَی حِدَةٍ وَعِذْقَ ابْنِ زَيْدٍ عَلَی حِدَةٍ وَأَصْنَافَهُ ثُمَّ ابْعَثْ إِلَيَّ قَالَ فَفَعَلْتُ فَجَائَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَلَسَ فِي أَعْلَاهُ أَوْ فِي أَوْسَطِهِ ثُمَّ قَالَ کِلْ لِلْقَوْمِ قَالَ فَکِلْتُ لَهُمْ حَتَّی أَوْفَيْتُهُمْ ثُمَّ بَقِيَ تَمْرِي کَأَنْ لَمْ يَنْقُصْ مِنْهُ شَيْئٌ‘‘۔ ’’حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن عمرو بن حرام (میرے والد) لوگوں کا قرضہ چھوڑ کر شہیدہو گئے تھے تو میں نے رسول کریم ﷺ سے درخواست کی کہ آپ ﷺان کے قرض خواہوں سے میری سفارش کر کے قرض میں کمی کرا دیں۔ آپ ﷺ نے ان سے گفتگو فرمائی تو انہوں نے انکار کر دیا۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ نے مجھ کو حکم فرمایا کہ تم جاؤ اور تم اپنی ہر ایک قسم کی کھجوروں یعنی عجوہ عذق بن زید اور اسی طریقہ سے ہر قسم کی کھجوروں کا علیحدہ علیحدہ ڈھیر لگا کر تم مجھ کو بلا لینا۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اسی طریقہ سے کیا تو رسول کریم ﷺ تشریف لائے اور ان میں سب سے اونچے ڈھیر یا درمیان والے ڈھیر پر بیٹھ گئے پھر مجھ کو حکم فرمایا کہ تم لوگوں کو ناپ دینا شروع کر دو میں ناپ ناپ کر دینے لگا۔ یہاں تک کہ میں نے تمام کا قرض ادا کر دیا اور اب بھی میرے پاس میری کھجوریں باقی رہ گئیں گویا کہ ان میں بالکل کمی نہیں ہوئی‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۳، کتاب البيوع، باب الْكَيْلِ عَلَى الْبَائِعِ وَالْمُعْطِي، رقم الحدیث ۲۱۲۷؛ سنن نسائی: ج۲، کتاب الوصايا ، باب قَضَاءِ الدَّيْنِ قَبْلَ الْمِيرَاثِ وَذِكْرِ اخْتِلاَفِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ جَابِرٍ فِيهِ، رقم الحدیث ۱۵۷۹)
میت کی طرف سےنذر کی ادائیگی
۱۔ ’’حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ الأَنْصَارِيَّ اسْتَفْتَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فِي نَذْرٍ كَانَ عَلَى أُمِّهِ، فَتُوُفِّيَتْ قَبْلَ أَنْ تَقْضِيَهُ۔ فَأَفْتَاهُ أَنْ يَقْضِيَهُ عَنْهَا، فَكَانَتْ سُنَّةً بَعْدُ‘‘۔ ’’حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انہوں نے نبی کریم ﷺسے ایک نذر کے بارے میں پوچھا جو ان کی والدہ کے ذمہ باقی تھی اور ان کی موت نذر پوری کرنے سے پہلے ہو گئی تھی۔ آنحضرتﷺنے انہیں فتویٰ اس کا دیا کہ نذر وہ اپنی ماں کی طرف سے پوری کر دیں۔ چنانچہ بعد میں یہی طریقہ مسنونہ قرار پایا‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۸، کتاب الأيمان والنذور، باب مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ نَذْرٌ، رقم الحدیث ۶۶۹۸)
۲۔ ’’قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، اسْتَفْتَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فِي نَذْرٍ كَانَ عَلَى أُمِّهِ فَتُوُفِّيَتْ قَبْلَ أَنْ تَقْضِيَهُ فَقَالَ "اقْضِهِ عَنْهَا"‘‘۔ ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ سے فرماتے ہیں کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺسے پوچھا: میری والدہ فوت ہوگئی ہیں، ان کے ذمے نذر ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اس کی طرف سے نذر کو پورا کر‘‘۔ (سنن نسائی: ج۲، کتاب الوصايا، باب ذِكْرِ الاِخْتِلاَفِ عَلَى سُفْيَانَ، رقم الحدیث ۳۶۹۰-۳۶۹۲)
۳۔ ’’أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحَمَدَ أَبُو يُوسُفَ الصَّيْدَلَانِيُّ عَنْ عِيسَی وَهُوَ ابْنُ يُونُسَ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَهُ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ أَنَّهُ اسْتَفْتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَذْرٍ کَانَ عَلَی أُمِّهِ فَتُوُفِّيَتْ قَبْلَ أَنْ تَقْضِيَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اقْضِهِ عَنْهَا‘‘۔ ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم ﷺسے دریافت کیا کہ ان کی والدہ نے ایک نذر مانی تھی جس کے پورا کرنے سے قبل ہی ان کی وفات ہو گئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا تم اپنی والدہ کی نذر پوری کرو‘‘۔ (سنن نسائی: ج۲، کتاب الوصايا، باب فَضْلِ الصَّدَقَةِ عَنِ الْمَيِّتِ، رقم الحدیث ۳۶۸۷-۳۶۸۸)
۴۔ ’’أَخْبَرَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ کَثِيرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ أَنَّهُ أَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا نَذْرٌ أَفَيُجْزِئُ عَنْهَا أَنْ أُعْتِقَ عَنْهَا قَالَ أَعْتِقْ عَنْ أُمِّکَ‘‘۔ ’’حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول کریم ﷺکی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺمیری والدہ نے ایک نذر مان لی تھیں جس کو پورا کئے بغیر ان کی وفات ہوگئی اب اگر میں ان کی جانب سے کوئی غلام یا باندی آزاد کر دوں تو کیا یہ کافی ہوگا؟ آپ ﷺنے فرمایا جی ہاں۔ (سنن نسائی: ج۲، کتاب الوصايا، باب فَضْلِ الصَّدَقَةِ عَنِ الْمَيِّتِ، رقم الحدیث ۳۶۸۶)
۵۔ ’’دَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا حَجَّاجٌ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ الْعَاصَ بْنَ وَائِلٍ نَذَرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَنْ يَنْحَرَ مِائَةَ بَدَنَةٍ وَأَنَّ هِشَامَ بْنَ الْعَاصِ نَحَرَ حِصَّتَهُ خَمْسِينَ بَدَنَةً وَأَنَّ عَمْرًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ أَمَّا أَبُوكَ فَلَوْ كَانَ أَقَرَّ بِالتَّوْحِيدِ فَصُمْتَ وَتَصَدَّقْتَ عَنْهُ نَفَعَهُ ذَالِكَ‘‘۔ ’’حضر ت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عاص بن وا ئل نے زمانہ جاہلیت میں سو اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی۔ اس کے بیٹے ہشام نے باپ کی طر ف سے۵۵اونٹ ذبح کیے،عمرو رضی اللہ عنہ نے حضورﷺسے پو چھا ان کا کیا ہوگا؟ آپﷺنےفرمایا، تیرا باپ توحید کااقرار کرتا اور تو روزہ رکھ کریا صدقہ کرکے ثواب پہنچاتا تو اس کو اس سے فا ئدہ ہوتا‘‘۔ (مسند الإمام أحمد: مسند المكثرين من الصحابة، مسند عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله تعالى عنهما، ص ۱۸۲، رقم الحدیث ۶۷۰۴)
رشتہ داروں اوروالدین کے دوستوں سےحسن سلوک
’’حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَهْدِيٍّ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، - الْمَعْنَى - قَالُوا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَسِيدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ عُبَيْدٍ، مَوْلَى بَنِي سَاعِدَةَ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي أُسَيْدٍ، مَالِكِ بْنِ رَبِيعَةَ السَّاعِدِيِّ قَالَ بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا جَاءَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَلِمَةَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ بَقِيَ مِنْ بِرِّ أَبَوَىَّ شَىْءٌ أَبَرُّهُمَا بِهِ بَعْدَ مَوْتِهِمَا قَالَ "نَعَمِ الصَّلاَةُ عَلَيْهِمَا وَالاِسْتِغْفَارُ لَهُمَا وَإِنْفَاذُ عَهْدِهِمَا مِنْ بَعْدِهِمَا وَصِلَةُ الرَّحِمِ الَّتِي لاَ تُوصَلُ إِلاَّ بِهِمَا وَإِكْرَامُ صَدِيقِهِمَا"‘‘۔ ’’حضرت مالک بن ربیعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! ماں باپ کے انتقال کے بعد بھی ان کی کوئی خدمت اولاد کے ذمہ ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہاں نماز پڑھنا اور ماں باپ کے لیے استغفار کرنا۔ اگر انھوں نے کسی سے کوئی وعدہ کیا ہو، تو اس کو پورا کرنا۔ ماں باپ کے واسطے سے جن لوگوں کی رشتہ داری ہوتی ہو، ان لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، ماں باپ کے دوستوں کی عزت کرنا، یہ سب باتیں ماں باپ کے مرنے کے بعد ان کی خدمت میں شامل ہیں۔ (سنن ابی داؤد: ج۳، كتاب الجنائز، باب كَيْفَ يُكْتَبُ إِلَى الذِّمِّيِّ، رقم الحدیث ۵۱۴۲)
میت کے لئے دعائے مغفرت
اﷲرَبّ العزت نےخودقرآن کریم میں ہمیں والدین کے لیے مغفرت ورحمت طلب کرنےکی دعا سکھائی ہے:
{رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیرًا}۔ ’’اے اللہ ان پر اس طرح رحمت فرما، جیسے بچپن میں انہوں نے مجھے شفقت سے پالا‘‘۔ [سورۂ بنی اسرائیل:۱۷: ۲۴]
یہ دعا صرف والدین کی زندگی ہی میں نہیں بلکہ ان کے دنیاسے رخصت ہونے کے بعدبھی مانگی جاسکتی ہیں بلکہ ان کے دنیاسے جانے کے بعدانہیں ہماری دعاؤں کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
اسی طرح اﷲرَبّ العزت نےخودقرآن کریم میں ہمیں تمام مومنین کے لیے مغفرت کی دعا سکھائی ہے:
{رَبَّنَآ اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ}۔ ’’اے اللہ ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو جنہوں نے ایمان لانے میں ہم سے سبقت کی‘‘۔ [سورۃالحشر:۵۹:۱۰]
۱۔ ’’حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَابْنُ الْمُسَيَّبِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ أَخْبَرَهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَعَى لَهُمُ النَّجَاشِيَّ صَاحِبَ الْحَبَشَةِ فِي الْيَوْمِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، وَقَالَ "اسْتَغْفِرُوا لأَخِيكُمْ"‘‘۔ ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہﷺ نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی موت کی خبر اسی دن دے دی تھی جس دن ان کا انتقال ہوا تھا اور آپﷺنے فرمایا تھا کہ اپنے بھائی کی مغفرت کے لئے دعا کرو‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۵، کتاب مناقب الأنصار، باب مَوْتُ النَّجَاشِيِّ، رقم الحدیث ۳۸۸۰)
۲۔ ’’حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَحِيرٍ، عَنْ هَانِئٍ، مَوْلَى عُثْمَانَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم إِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَيِّتِ وَقَفَ عَلَيْهِ فَقَالَ "اسْتَغْفِرُوا لأَخِيكُمْ وَسَلُوا لَهُ التَّثْبِيتَ فَإِنَّهُ الآنَ يُسْأَلُ"۔ قَالَ أَبُو دَاوُدَ بَحِيرُ بْنُ رَيْسَانَ‘‘۔ ’’حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو وہاں کچھ دیر رکتے اور فرماتے: اپنے بھائی کی مغفرت کی دعا مانگو، اور اس کے لیے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو، کیونکہ ابھی اس سے سوال کیا جائے گا‘‘۔ (سنن ابی داؤد: ج۳، کتاب الجنائز، باب الاِسْتِغْفَارِ عِنْدَ الْقَبْرِ لِلْمَيِّتِ فِي وَقْتِ الاِنْصِرَافِ، رقم الحدیث ۳۲۲۱)
۳۔ ’’حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ـ صلى الله عليه وسلم ـ قَالَ "الْقِنْطَارُ اثْنَا عَشَرَ أَلْفَ أُوقِيَّةٍ كُلُّ أُوقِيَّةٍ خَيْرٌ مِمَّا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ"۔ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ "إِنَّ الرَّجُلَ لَتُرْفَعُ دَرَجَتُهُ فِي الْجَنَّةِ فَيَقُولُ أَنَّى هَذَا فَيُقَالُ بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِكَ لَكَ"‘‘۔ ’’ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کا درجہ جنت میں بلند کیا جائے گا، پھر وہ کہتا ہے کہ میرا درجہ کیسے بلند ہو گیا (حالانکہ ہمیں عمل کا کوئی موقع نہیں رہا) اس کو جواب دیا جائے گا: تیرے لیے تیری اولاد کے دعا و استغفار کرنے کے سبب سے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ: ج۵، کتاب الأدب، باب بِرِّ الْوَالِدَيْنِ، رقم الحدیث ۳۶۶۰)
۴۔ ’’وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا الْمَيِّتُ فِي الْقَبْرِ إِلَّا كَالْغَرِيقِ الْمُتَغَوِّثِ يَنْتَظِرُ دَعْوَةً تَلْحَقُهُ مِنْ أَبٍ أَوْ أُمٍّ أَوْ أَخٍ أَوْ صَدِيقٍ فَإِذَا لَحِقَتْهُ كَانَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَيُدْخِلُ عَلَى أَهْلِ الْقُبُورِ مِنْ دُعَاءِ أَهْلِ الْأَرْضِ أَمْثَالَ الْجِبَالِ وَإِنَّ هَدِيَّةَ الْأَحْيَاءِ إِلَى الْأَمْوَاتِ الِاسْتِغْفَارُ لَهُمْ»۔ رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي شعب الْإِيمَان‘‘۔ ’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲعنہابیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میت قبر میں ڈوبنے والے غوطہ کھانے والے کے مثل ہوتے ہیں۔ وہ دعا کا انتظار کرتے ہیں کہ اس کا باپ یا ماں یا بھائی یا دوست کی طرف سے پہنچے۔ پھر جب اس کو کوئی دعا پہنچتی ہے، تو وہ اس کے لیے دنیا اور دنیا کی ساری چیزوں سے زیادہ محبوب ہوتی ہے۔ اور بے شک اللہ تعالیٰ قبر والوں کو زمین والوں کی دعا کی وجہ سے پہاڑ کے مانند ثواب پہنچاتا ہے۔ اور بے شک مردوں کے لیے زندوں کا تحفہ ان کے لیے استغفار کی دعا مانگنا ہے‘‘۔ (مشکوۃ المصابیح للالبانی: ج۲، كتاب الدعوات، باب الاستغفار والتوبة - الفصل الثالث، رقم الحدیث ۲۳۵۵؛ أخرجه البيهقي في "شعب الإيمان": ج۶، ص۲۰۳، رقم الحدیث٧٩٠٥)
میت کی طرف سےقرآن پاک کی تلاوت کرنا
بعض لوگوں کاکہنا ہے کہ میت کی طرف سے قرآن مجید کی تلاوت کرناثابت نہیں ہے لہٰذا میت کی طرف سے قرآن پڑھناجائز نہیں بلکہ بدعت عمل ہے۔ اوراپنے اس مؤقف کی دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ:
’’نبی ﷺکی زندگی میں آپﷺ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ، آپ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، اور آپ کی تین بیٹیاں رضی اللہ عنہا فوت ہوئیں، لیکن یہ کہیں بھی وارد نہیں ہے کہ آپ ﷺنے ان میں سے کسی کی طرف سے قرآن پڑھا ہو، یا خاص انکی طرف سے قربانی، روزہ، یا نماز پڑھی ہو، ایسے ہی صحابہ کرامؓ کی طرف سے بھی کوئی ایسا عمل منقول نہیں ہے، اور اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو صحابہ کرامؓ ہم سے پہلے یہ کام کر چکے ہوتے۔ اور جن اعمال کے بارے میں میت تک ثواب پہنچنے کا استثناء دلائل میں موجود ہے ان میں حج، عمرہ، واجب روزہ، صدقہ، اور دعا شامل ہیں‘‘۔
رسول اﷲﷺ نے اپنی آل اوراپنی امت کے لئے مینڈھے کی قربانی کی ہے:
’’حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي حَيْوَةُ، حَدَّثَنِي أَبُو صَخْرٍ، عَنِ ابْنِ قُسَيْطٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَمَرَ بِكَبْشٍ أَقْرَنَ يَطَأُ فِي سَوَادٍ وَيَنْظُرُ فِي سَوَادٍ وَيَبْرُكُ فِي سَوَادٍ فَأُتِيَ بِهِ فَضَحَّى بِهِ فَقَالَ "يَا عَائِشَةُ هَلُمِّي الْمُدْيَةَ"۔ ثُمَّ قَالَ "اشْحَذِيهَا بِحَجَرٍ"۔ فَفَعَلَتْ فَأَخَذَهَا وَأَخَذَ الْكَبْشَ فَأَضْجَعَهُ وَذَبَحَهُ وَقَالَ "بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ"۔ ثُمَّ ضَحَّى بِهِ صلى الله عليه وسلم‘‘۔ ’’ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺنے سینگ دار مینڈھا لانے کا حکم دیا جس کی آنکھ سیاہ ہو، سینہ، پیٹ اور پاؤں بھی سیاہ ہوں، پھر اس کی قربانی کی، آپ ﷺنے فرمایا: عائشہ چھری لاؤ، پھر فرمایا: اسے پتھر پر تیز کرو، تو میں نے چھری تیز کی، آپ ﷺنے اسے ہاتھ میں لیا اور مینڈھے کو پکڑ کر لٹایا اور ذبح کرنے کا ارادہ کیا اور کہا : «بسم الله اللهم تقبل من محمد وآل محمد ومن أمة محمد»، «اللہ کے نام سے ذبح کرتا ہوں، اے اللہ! محمد ، آل محمد اور امت محمد کی جانب سے اسے قبول فرما»پھر آپﷺنے اس کی قربانی کی‘‘۔ (صحیح مسلم: ج۲، كتاب الأضاحى ، باب اسْتِحْبَابِ الضَّحِيَّةِ وَذَبْحِهَا مُبَاشَرَةً بِلاَ تَوْكِيلٍ وَالتَّسْمِيَةِ وَالتَّكْبِيرِ ، رقم الحدیث ۱۹۶۷؛ سنن ابی داؤد: ج۲، كتاب الضحايا، باب مَا يُسْتَحَبُّ مِنَ الضَّحَايَا، رقم الحدیث ۲۷۹۲)
مندرجہ بالاحدیث سے معلوم ہواکہ رسول اﷲﷺنے اپنی پوری امت کو ایصال ثواب کرنے کے لیے قربانی فرمائی تھی۔
سب سے پہلےمیں ان حضرات سے یہ سوال کرتاہوں کہ جن اعمال سےمیت تک ثواب پہنچنے کااستثناءاحادیث میں موجودہے جیسےکہ حج، عمرہ، واجب روزہ، صدقات وخیرات اوردعائے مغفرت وغیرہ، توکیاآپ ﷺسےان اعمال کےذریعہ اپنی زوجہ محترمہ رضی اللہ عنہا اورصاحبزادیوں رضی اللہ عنہا تک ثواب پہنچانے کی کوئی دلیل ملتی ہے؟ حالانکہ رسول اﷲﷺ نے صحابہ کرامؓ کو خود ان اعمال کو میت کی طرف سے کرنے کاحکم فرمایا؟ جب رسول اﷲﷺکاخودمیت کی طرف سے ان اعمال کوکرنے کی دلیل نہیں ملتی تو پھرمیت کےلئےقرآن مجیدپڑھنےپرہم سے حدیث سےاستثناءکامطالبہ کرناہی بالکل بے بنیاد ہے۔
دوسری بات یہ کہ یہ اصول ہی بالکل غلط اوربے بنیاد ہے کہ ہرعمل کے جائزہونےکےلئے حدیث میں اس عمل کانام دکھانے کامطالبہ کیاجائے۔ اس کی مثال کچھ اس طرح سے دی جاسکتی ہے کہ ہم ایسے بہت سے جانوروں اورپرندوں کوحلال قراردیکر ان کا گوشت استعمال کرتےہیں جن کی حلت کاذکرقرآن وحدیث میں ان جانوروں کے نام کے ساتھ موجودنہیں ہے، جیساکہ بھینس، بارہ سینگا، تیتر، یابٹیروغیرہ۔ اب اگرکوئی ہم سے یہ تقاضہ کرے کہ ان جانوروں یاپرندوں کے نام قرآن وحدیث میں دکھاؤ، تب یہ جانورحلال قرارپائیں گےتوہم ان سے کہیں گے کہ قرآن وحدیث ہمیں ہرعمل کےلئےاصول وضابطہ بیان کرتےہیں، ہرعمل اورشئے کانام بیان نہیں کرتے۔ جیساکہ شریعت نےیہ قائدہ کلیہ بیان کردیاکہ ہرنشہ آور چیزحرام ہے، جبکہ قرآن وحدیث میں صرف شراب کی حرمت کانام لےکربیان ملتاہے، ہرنشہ آورشئے کانام نہیں بیان کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ہراس شئے کوحرام قراردیتے ہیں جس میں نشہ پایاجاتاہے۔
بالکل اسی طرح سےایصال ثواب کی تمام احادیث سے ہمیں اس اصول کاپتہ چلتاہے کہ میت کی طرف سےاس کے لواحقین وہ تمام اعمال کرسکتے ہیں جوکہ اس کی زندگی میں اس پرفرض یاواجب تھےلیکن مرنے والاانہیں اپنی زندگی میں ادانہ کرسکاہو، لہٰذا میت کے لواحقین اس کی طرف سے ان فرائض وواجبات کی ادائیگی کرسکتےہیں۔ جیساکہ رسول اﷲﷺکافرمان ہےکہ: ’’اللہ تعالیٰ کا قرض اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اسے ادا کر دیا جائے‘‘۔ اب ضروری نہیں کہ احادیث میں جن اعمال کانام لیاگیاہے، میت کی طرف سے صرف وہی اعمال کیئے جاسکتے ہیں بلکہ ہروہ عمل کیاجاسکتاہے جوکہ میت کی زندگی میں اس پرقرض رہ گیاہو۔
اسی طرح سے احادیث میں میت کی طرف سے نفلی عبادات کرنے کابھی ذکرموجود ہے، جیساکہ صدقات وخیرات۔ تلاوت قرآن پاک بھی نفلی عبادت ہےجس کا مقصد میت کےلئے ایصال ثواب کرناہے، لہٰذا میت کے لئے تلاوت قرآن پاک کوصدقات وخیرات پرقیاس کیاجاسکتاہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ کسی عمل کو فرض وواجب قراردینے کیلئے تو نص صریح اورنص جدید کا مطالبہ کیاجاسکتاہے لیکن کسی چیز کے جواز کیلئے نص صریح کا مطالبہ نہیں کیاجاسکتابلکہ اگراس سلسلے میں یہ کہاجائے کہ ممانعت کا نہ ہوناہی جواز کی وجہ ہے تو وہ درست ہے۔ اگرمانعین کا استدلال اس سے ہے کہ حضورپاک ﷺاورصحابہ کرامؓ سے اس عمل کا کرناثابت نہیں ہے توہمارابھی استدلال اسی سے ہے کہ حضورپاک ﷺاور صحابہ کرامؓ سے اس کی ممانعت بھی ثابت نہیں ہے۔
میت کے ایصال ثواب کے لیے قرآن مجیدکاپڑھنا قیاس کی روسے بھی ثابت ہوتاہے جبکہ اس عمل کے جائزقرارپانے کے لئے ہمیں قیاس کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ احادیث مبارکہ میں ہمیں اس کی دلیل ملتی ہےجنہیں ہم نے ذیل میں تفصیل سےبیان کردیاہے۔
’’حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ "قَالَ اللَّهُ أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي"‘‘۔ ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں جو وہ میر ے متعلق رکھتا ہے‘‘۔ (صحیح بخاری: كتاب التوحيد، باب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى [يُرِيدُونَ أَنْ يُبَدِّلُوا كَلاَمَ اللَّهِ]، رقم الحدیث ۷۵۰۵)
’’عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: قَالَ اللهُ تَبَارَکَ وَتَعَالیَ: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، فَلْیَظُنَّ بِي مَا شَاء۔ رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالدَّارِمِيُّ وَأَحْمَدُ، وَقَالَ الْحَاکِمُ: ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ‘‘۔ ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتاہےکہ میرا بندہ میرے بارے میں جیسا گمان رکھتا ہے میں اسکے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں، اگروہ میرے بارے میں اچھا گمان رکھتا ہے تو میرا معاملہ اسکے ساتھ ویسا ہی ہے اور اگروہ میرے بارے برا گمان رکھتا تو معاملہ اسکے ساتھ ویسے ہی ہے‘‘۔ (صحیح ابن حبان: ج۲، ص۷۰۸، رقم الحدیث۶۳۹)
مندرجہ بالا احادیث سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہم اﷲتبارک وتعالیٰ سے جس طرح کی امیت رکھیں گے، اﷲتعالیٰ ہمیں ویسے ہی عطافرمائیں گے۔ اب جولوگ اﷲتعالیٰ سے اس بات کاگمان رکھتے ہیں کہ ان کا اپنے مرحومین کےلئے قرآن مجیدکی تلاوت کرکے انہیں بخشنے پراﷲتعالیٰ ان مرحومین کوتلاوت کلام پاک کااجروثواب عطافرمائیں گےتوانشاءاﷲ! اﷲپاک کی رحمت سے ہمیں امیدہےکہ ہماراربّ ہمیں کبھی مایوس نہیں کریگا۔ اورجولوگ اﷲتعالیٰ سے ایسی امیدنہیں رکھتے گویاکہ وہ حدیث کے مطابق اﷲتعالیٰ ان کے ساتھ ویساہی معاملہ رکھیں گے۔ اب یہ آپ پرمنحصر ہے کہ آپ اﷲتعالیٰ سے کیساگمان رکھتے ہیں۔
۱۔ ’’وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِذَا مَاتَ أَحَدُكُمْ فَلَا تَحْبِسُوهُ وَأَسْرِعُوا بِهِ إِلَى قَبْرِهِ وَلْيُقْرَأْ عِنْدَ رَأْسِهِ فَاتِحَةُ الْبَقَرَةِ وَعِنْدَ رِجْلَيْهِ بِخَاتِمَةِ الْبَقَرَةِ»۔ رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الْإِيمَان۔ وَقَالَ: وَالصَّحِيح أَنه مَوْقُوف عَلَيْهِ‘‘۔ ’’حضرت عبداﷲبن عمررضی اﷲعنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریمﷺسے سناہے، فرماتے ہیں جس وقت کوئی آدمی تم میں سے فوت ہوجائے پس اس کوروکے نہ رکھواوراس کواس کی قبرکی طرف جلدی پہنچاؤ اوراس کے سر کے قریب یعنی سرہانے کھڑے ہوکرسورۃ بقرہ کاابتدائی حصہ " مفلحون" تک تلاوت کرواوراس کے پاؤں کے پاس کھڑے ہوکرسورۃ بقرہ کاآخری حصہ یعنی "امَنَ الرَّسُولُ" آخرتک پڑھو۔ امام بیہقیؒ نے شعب الایمان میں روایت کی ہےاورصحیح یہ ہے کہ یہ عبداﷲبن عمررضی اﷲعنہ پرموقوف ہے‘‘۔ (مشكاة المصابيح: ج۲، كتاب الجنائز، باب دفن الميت - الفصل الثالث، رقم الحدیث ۱۷۱۷)
مندرجہ بالا روایت امام بیہقیؒ نے شعب الایمان میں نقل کی ہےجس پرصرف اتنا اعتراض کیاجاسکتاہے کہ یہ روایت حضرت عبداﷲ بن عمررضی اﷲعنہ پرموقوف ہے۔ اگرہم اس روایت کوابن عمررضی اﷲعنہ پرہی موقوف تسلیم کرلیں بت بھی ہمارے لئے ابن عمررضی اﷲعنہ کاقول وعمل حجت ہےجیساکہ ایک مشت داڑھی رکھنے کے مسئلے پرہمارے نزدیک ابن عمررضی اﷲعنہ کا عمل حجت ہے۔
۲۔ ’’عَبْد الرَّحْمَنِ بْن الْعَلَاءِ بْنِ اللَّجْلَاجِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ لِي أَبِي: یَا بُنَیَّ اذَا أنَا مِتُّ فَالْحِدْنِیْ، فَاِذَا وَضَعْتَنِیْ فِیْ لَحْدِی فَقُلْ: بِسْمِ الْلّٰہِ وَ عَلَیٰ مِلَّۃِ رَسُوْلِ الْلّٰہِ، ثُمَّ سَنَّ عَلَیَّ التُّرابَ سَنَّاً ثُمَّ اقْرَأ عِنْدَ رَأسِی بِفَاتِحَۃِ الْبَقْرَۃِ وَ خَاتِمِھَا، فَانِّیْ سَمِعْتُ رَسُولَ الْلّٰہِ ﷺ یَقُوْلُ ذٰالِکَ‘‘۔ ’’حضرت عبدالرحمٰن اپنے باپ علاء سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے میرے باپ لجلاج نے فرمایا۔ ائے میرے بیٹے! جب میں مرجاؤں، تو میرے لیے بغلی قبر کھودو۔ پھر جب مجھے قبر میں رکھو تو کہو "بِسْمِ الْلّٰہِ وَ عَلیٰ مِلَّۃِ رَسُوْلِ الْلّٰہ"۔ پھرمجھ پر آہستہ سے مٹی ڈالنا۔ پھر میرے سرہانے سورہ بقرہ کا شروع اور اس کا آخری حصہ پڑھنا، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح کہتے ہوئے سنا ہے‘‘۔ (المعجم الکبیرللطبرانی: ج۱۲، ص۴۴۴، رقم الحدیث ۱۳۶۱۴)
اس روایت کی سند کے متعلق بحث کرتے ہوئے حافظ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’أخرجه الطبراني بإسناد حسن‘‘۔ ’’امام طبرانیؒ نے اس کو سند حسن کے ساتھ روایت کیا ہے‘‘۔ (فتح الباری: باب السرعۃ بالجنازۃ)
اس روایت کی سند کے بارےمیں علامہ ہیثمیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’رواہ الطبرانی فی الکبیر ورجالہ موثقون‘‘۔ ’’اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے اوراس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں‘‘۔ (مجمع الزوائد: ج۳، باب ما یقول عند ادخال المیت القبر، ص۴۴)
یہی روایت امام أبو بكر أحمد بن محمد الخَلَّال البغدادی الحنبلیؒ (المتوفى: ۳۱۱ھ) نے اپنی کتاب ’’القراءة عند القبور‘‘میں ان الفاظ میں نقل کی ہے:
۳۔ ’’وأخبرني العباس بن محمد بن أحمد بن عبد الكريم، قال: حدثني أبو شعيب عبد الله بن الحسين بن أحمد بن شعيب الحراني من كتابه قال: حدثني يحيى بن عبد الله الضحاك البابلتي، حدثنا أيوب بن نهيك الحلبي الزهري، مولى آل سعد بن أبي وقاص قال: سمعت عطاء بن أبي رباح المكي، قال: سمعت ابن عمر، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: "إذا مات أحدكم فلا تجلسوا، وأسرعوا به إلى قبره، وليقرأ عند رأسه بفاتحة البقرة، وعند رجليه بخاتمتها في قبره"‘‘۔ ’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲﷺکو فرماتے ہوئے سنا: جب تم میں سے کوئی مر جائے تو اسے روکے نہ رکھو بلکہ اسے قبر کی طرف جلدی لے جاؤ اور اس کی قبر پر اس کے سر کی جانب سورۃ فاتحہ اور اس کے پاؤں کی جانب سورۃبقرہ کی آخری آیات پڑھی جائیں‘‘۔ (القراۃٔ عند القبورلابی بکرالخلال: ص۲۹)
’’امام احمد ابن حنبل رحمہ اﷲکوجب تک اس میں کوئی روایت نہیں ملی، آپؒ اس کے قائل نہیں تھے لیکن جب آپ کوحضرت سیدنا عبداﷲبن عمررضی اﷲعنہ اور سیدنا عبدالرحمٰن بن علاءبن لجلاج رضی اﷲعنہ کی وہ مرفوع روایات پہنچیں جوہم نے «وقت دفن کی جانے والی تلقین کے بیان» میں ذکرکی ہیں توآپؒ نے رجوع فرمالیا‘‘۔ (القراءة عند القبورلابی بکرالخلال: ص۸۹؛ بحوالہ شرح الصدور للسیوطی: ص۵۳۰)
۴۔ ’’روی الامام الحافظ المحدث ابن ابی شَیْبَۃَ قَالَ: حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنِ الْمُجَالِدِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: كَانَتِ الْأَنْصَارُ يَقْرَؤُونَ عِنْدَ الْمَيِّتِ بِسُورَةِ الْبَقَرَةِ‘‘۔ ’’امام شعبی رحمہ اﷲفرماتے ہیں کہ انصار فوت شدہ شخص کے قریب سورۃ البقرۃ کی تلاوت کرتے تھے‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ: ج۳، كتاب الجنائز، باب ما يقال عند المريض إذا حضر، ص۵۴۲، رقم الحديث ۱۰۹۵۳)
۵۔ ’’روی الامام الحافظ المحدث ابن ابی شَیْبَۃَ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أُمَيَّةَ الْأَزْدِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، «أَنَّهُ كَانَ يَقْرَأُ عِنْدَ الْمَيِّتِ سُورَةَ الرَّعْدِ»‘‘۔ ’’حضرت امیہ ازدی رحمہ اﷲفرماتے ہیں کہ حضرت جابربن زیدرضی اﷲعنہ میت کے پاس سورۃ الرعدکی تلاوت فرماتے تھے‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ: ج۳، كتاب الجنائز، باب ما يقال عند المريض إذا حضر، ص۵۴۳، رقم الحديث ۱۰۹۵۷)
مصنف ابن ابی شیبۃ کی دونوں روایات کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
۶۔ ’’حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، - وَلَيْسَ بِالنَّهْدِيِّ - عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ "اقْرَءُوهَا عِنْدَ مَوْتَاكُمْ"۔ يَعْنِي {يسٓ}‘‘۔ ’’حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اپنے مردوں کے پاس اسے یعنی سورۃ يسٓ پڑھو‘‘۔ (سنن ابن ماجہ: ج۱، کتاب الجنائز، باب مَا جَاءَ فِيمَا يُقَالُ عِنْدَ الْمَرِيضِ إِذَا حُضِرَ، رقم الحدیث ۱۴۴۸)
۷۔ ’’حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مَكِّيٍّ الْمَرْوَزِيُّ، - الْمَعْنَى - قَالاَ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، - وَلَيْسَ بِالنَّهْدِيِّ - عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم: «اقرؤوا سُورَةَ { يس }عَلَى مَوْتَاكُمْ»۔ وَهَذَا لَفْظُ ابْنِ الْعَلاَءِ‘‘۔ ’’حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: تم اپنے مردوں پر سورۃ يسٓ پڑھو‘‘۔ (سنن ابی داؤد: ج۲، كتاب الجنائز، باب الْقِرَاءَةِ عِنْدَ الْمَيِّتِ، رقم الحدیث ۳۱۲۱)
امام قرطبیؒ نے اپنی سند سے حضرت انس کی روایت بیان کی ہے:
۸۔ ’’مَنْ دَخَلَ الْمَقَابِرَ فَقَرَأ سُوْرَۃَ یٰسٓ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ کَانَ لَہُ بِعَدَدِ مَنْ فِیْھَا حَسَنَاتٌ‘‘۔ ’’جو شخص قبرستان میں آئے ، پھر سورہ یٰسٓ پڑھے، تو اللہ تعالیٰ قبرستان والوں کےعذاب میں تخفیف فرمادیگا۔ اور اس کو اس قبرستان کے مردوں کی گنتی کے مطابق ثواب ملے گا‘‘۔ (تذکرۃ للقرطبی: باب ماجاءفی قراۃٔ القرآن عندالقبر، ص۸۰؛ بحوالہ شرح الصدور للسیوطی: ص۵۳۱)
۹۔ ’’حضرت سیدناامام شعبی رحمہ اﷲفرماتے ہیں کہ انصار کا قاعدہ تھا کہ جب ان میں سے کسی کا انتقال ہوتا،تو وہ لوگ قبروں کی طرف سے متفرق ہوجاتے اور ان کے لیے قرآن پڑھتے‘‘۔ (القراءة عند القبورلابی بکرالخلال: ص۸۹؛ بحوالہ شرح الصدور للسیوطی: ص۵۳۰)
امام ابو محمد سمرقندی رحمہ اﷲنے سورۃ الاخلاص کے فضائل میں امیرالمومنین حضرت علی رضی اﷲعنہ سے مرفوعاً روایت بیان کی ہے:
۱۰۔ ’’عن علي بن أبي طالب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من مر على المقابر وقرأ قل هو الله أحد إحدى عشرة مرة، ثم وهب أجره للأموات أعطي من الأجر بعدد الأموات‘‘۔ ’’حضرت علی بن ابی طالب فرماتے ہیں کہ جو شخص قبرستان سے گذرے اور گیارہ مرتبہ قل ھو اللہ احد پڑھے، پھر اس کا ثواب مردوں کو بخشے، تو مردوں کی گنتی کے برابر اس کو ثواب عطا ہوگا‘‘۔ (فضائل سورۃ الاخلاص للحسن الخلال: ص۱۰۱، رقم الحدیث ۵۴؛ بحوالہ شرح الصدور للسیوطی: ص۵۳۰)
ابوالقاسم سعید بن علی زنجانی نے اپنے فوائد میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مرفوعاً روایت لائے ہیں کہ:
۱۱۔ ’’مَنْ دَخَلَ الْمَقَابِرَ، ثُمَّ قَرَأَ فَاتِحَۃَ الْکِتابِ، وَ قُلْ ھُوَاللّٰہُ أحَدٌ، وَ ألْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ، ثُمَّ قَالَ: ألْلّٰھُمَّ انِّیْ جَعَلْتُ ثَوَابَ مَا قَرَأتُ مِنْ کَلَامِکَ لَأھْلِ الْمَقابِرِ مِنَ الْمُؤمِنِیْنَ وَالْمُؤمِنَاتِ، کَانُوْا شُفَعَاءَ لَہُ الَیٰ الْلّٰہِ تَعَالیٰ‘‘۔ ’’جو شخص قبرستان میں داخل ہو۔ پھر سورہ فاتحہ اور قل ھو اللہ احد اور الھٰکم التکاثر پڑھے اور کہے کہ ائے اللہ! جو کچھ میں نے تیرے کلام میں سے پڑھا، اس کا ثواب قبرستان کے مسلمان مردوں اور عورتوں کے بخش دے، تو وہ تمام مردے اللہ کے حضور سفارشی ہوں گے‘‘۔ (أحاديث الشيوخ الثقات [الشهير بالمشيخة الكبرى قاضي المارستان]: ج۳، ص۱۳۶۳، رقم الحدیث ۷۰۷؛ بحوالہ شرح الصدور للسیوطی: ص۵۳۰)
۱۲۔ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اﷲلکھتے ہیں: ’’ہمارے متاخرین علماء سے سیدنا محب طبریؒ، "احیاالعلوم" میں حضرت امام غزالیؒ اور "العاقبہ" میں حضرت سیدنا عبدالحقؒ حضرت سیدناامام احمد ابن حنبل رحمہ اﷲسے نقل کرتے ہیں کہ:«جب تم قبرستان جاؤتو سورۂ فاتحہ، سورۂ اخلاص اورمعوذتین (یعنی سورۂ الفلق اورسورۂ الناس) پڑھ کراس کاثواب قبرستان والوں کو بخش دیا کروکیونکہ یہ انہیں پہنچتاہے»‘‘۔ (القراءة عند القبورلابی بکرالخلال: ص۸۹؛ بحوالہ شرح الصدور للسیوطی: ص۵۳۰)
’’امام زعفرانی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ: میں حضرت امام شافعیؒ سے قبرکے پاس تلاوت قرآن کرنےکے متعلق پوچھاتوانہوں نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں ہے‘‘۔ (القراۃٔ عند القبورلابی بکرالخلال: ص۸۹؛ بحوالہ شرح الصدور للسیوطی: ص۵۳۰)
’’امام شرف الدین النووی رحمہ اﷲ شرح المہذب میں فرماتے ہیں کہ: قبرستان جانے والے کےلئے مستحب ہے کہ جتناہوسکے تلاوت قرآن کرےاورپھردعاکرے۔ حضرت امام شافعیؒ سے اس کی تصریح موجودہے اوران کے اصحاب کابھی اس پراتفاق ہے۔‘‘۔ (المجموع شرح المہذب: ج۵، یستجب للرجال زیارۃ القبور، ص۳۱۱؛ بحوالہ شرح الصدور للسیوطی: ص۵۳۰)
امام نوویؒ ایک اورجگہ لکھتے ہیں: ’’امام شافعیؒ ایک مقام پرفرماتے ہیں: اگرقبرکے پاس پوراقرآن پاک پڑھ لیاجائے توزیادہ بہترہے‘‘۔ (المجموع شرح المہذب: ج۵، یستجب ان یضع راس المیت عندرجل القبر، ص۲۹۴؛ بحوالہ شرح الصدور للسیوطی: ص۵۳۰)
مندرجہ بالاتمام احادیث کواگرضعیف مان لیاجائے توبھی میت کے ایصال ثواب کے لئے قرآن پاک کی تلاوت کرنے کاجواز ثابت ہوتا ہے کیونکہ تمام ائمہ کرامؒ کا اس بات پراجماع ہے کہ ضعیف احادیث کثرت ترک کی وجہ سے حسن درجہ کوپہنچ جاتی ہیں اورفضائل کے باب میں توویسے بھی ضعیف احادیث پرعمل کرناتمام ائمہ کرامؒ کے نزدیک جائزہے۔
میت کے ایصال ثواب کےلئے تلاوت قرآن پرائمہ اربعہ اوردوسرے مذاہب کامؤقف
مسلک احناف
۱۔ مشہورحنفی عالم عبد الله بن محمود بن مودود الموصلی ابوالفضل حنفی رحمہ اﷲ (المتوفی: ۶۸۳ھ) لکھتے ہیں: ’’مَذْهَبُ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ أَنَّ لِلْإِنْسَانِ أَنْ يَجْعَلَ ثَوَابَ عَمَلِهِ لِغَيْرِهِ وَيَصِلُ‘‘۔ ’’اہل سنت والجماعت کا مسلک یہ ہے کہ انسان اپنے کسی بھی عمل کا ثواب دوسرے کو بخش سکتاہے اوردوسرے کو اس کا ثواب پہنچتاہے‘‘۔ (الاختیار لتعلیل المختار: ج۴، ص۱۷۹)
۲۔ صاحب الدر المختار علاؤ الدین محمد بن علی حصکفی حنفی رحمہ اﷲ(المتوفی: ۱۰۸۸ھ) لکھتے ہیں: ’’الْأَصْلُ أَنَّ كُلَّ مَنْ أَتَى بِعِبَادَةٍ مَا، لَهُ جَعْلُ ثَوَابِهَا لِغَيْرِهِ وَإِنْ نَوَاهَا عِنْد الْفِعْلِ لِنَفْسِهِ لِظَاهِرِ الْأَدِلَّةِ۔ وَأَمَّا قَوْله تَعَالَى - {وَأَنْ لَيْسَ لِلإِنْسَانِ إِلا مَا سَعَى}[النجم: ۳۹]- أَيْ إلَّا إذَا وَهَبَهُ لَهُ كَمَا حَقَّقَهُ الْكَمَالُ‘‘۔ ’’اصولی بات یہ ہے کہ ہرشخص نے جس قسم کی بھی عبادت کی ہے اس کا ثواب دوسروں کو پہنچاسکتاہے۔ اگرچہ وہ اسکی نیت عبادت کی ادائیگی کے وقت ہی کیوں نہ کرلے۔کیونکہ اس کے دلائل(ایصال ثواب) ظاہر ہیں۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کا ارشاد {لیس للانسان الاماسعی}کا ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کو اپنی ہی عبادت نفع دیتی ہے۔ لیکن اگرکوئی ثواب ہبہ کرے تواس سے یہ آیت خاموش ہے اوراحادیث کی وجہ سے اس کا بھی ثواب ملے گا‘‘۔ (رد المحتار على الدر المختارشرح تنویرالأبصار: ج۴، ص۱۰-۱۱)
۳۔ علامہ حصکفی رحمہ اﷲکی عبارت کی شرح میں مشہورحنفی عالم علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اﷲ(المتوفی: ۱۲۵۲ھ) لکھتے ہیں: ’’(قَوْلُهُ بِعِبَادَةٍ مَا) أَيْ سَوَاءٌ كَانَتْ صَلَاةً أَوْ صَوْمًا أَوْ صَدَقَةً أَوْ قِرَاءَةً أَوْ ذِكْرًا أَوْ طَوَافًا أَوْ حَجًّا أَوْ عُمْرَةً، أَوْ غَيْرَ ذَلِكَ مِنْ زِيَارَةِ قُبُورِ الْأَنْبِيَاءِ - عَلَيْهِمْ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - وَالشُّهَدَاءِ وَالْأَوْلِيَاءِ وَالصَّالِحِينَ، وَتَكْفِينِ الْمَوْتَى، وَجَمِيعِ أَنْوَاعِ الْبِرِّ كَمَا فِي الْهِنْدِيَّةِ ط وَقَدَّمْنَا فِي الزَّكَاةِ عَنْ التَّتَارْخَانِيَّة عَنْ الْمُحِيطِ الْأَفْضَلُ لِمَنْ يَتَصَدَّقُ نَفْلًا أَنْ يَنْوِيَ لِجَمِيعِ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ لِأَنَّهَا تَصِلُ إلَيْهِمْ وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ‘‘۔ ’’مصنف کا (قول بعبادۃ ما) سے عام مراد ہے کہ خواہ وہ نمازہو روزہ ہو، صدقہ ہو، تلاوت ہو ذکر ہو، طواف ہو حج ہوعمرہ یااس کے علاوہ اورکچھ انبیاء علیہ السلام، شہداء اولیاء اورصالحین کی قبروں کی زیارت اورمردگان کی تکفین اورنیکی کی تمام اقسام ہو (اس کا ایصال ثواب کیاجاسکتاہے) جیساکہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے زکوٰۃ کے بارے میں ہم نے ماقبل میں فتاویٰ تاتارخانیہ کی عبارت محیط کے حوالہ سے نقل کی تھی کہ جوشخص نفل صدقہ کرتاہے اس کیلئے بہتر یہ ہے کہ تمام مومنین ومومنات کی جانب سے ایصال ثواب کی نیت کرلے کیونکہ ثواب سبھی کو پہنچے گااورصدقہ کرنے والے کے اجر میں سے بھی کچھ کمی نہ ہوگی‘‘۔ (رد المحتار على الدر المختارشرح تنویرالأبصار: ج۴، ص۱۰)
مسلک شافعیہ
شارح مسلم امام شرف الدین النووی رحمہ اﷲ (المتوفی: ۶۷۶ھ) لکھتے ہیں: ’’وَأَمَّا قِرَاءَةُ الْقُرْآنِ فَالْمَشْهُورُ مِنْ مَذْهَبِ الشَّافِعِيِّ أَنَّهُ لَا يَصِلُ ثَوَابُهَا إِلَى الْمَيِّتِ وَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِهِ يَصِلُ ثَوَابُهَا إِلَى الْمَيِّتِ‘‘۔ ’’بہرحال قرآن کریم کی تلاوت تو امام شافعی کا مشہور مسلک یہی ہے کہ اس کا ثواب میت کو نہیں پہنچے گا لیکن ان کے بعض اصحاب نے کہاہے کہ تلاوت قرآن کریم کا ثواب میت کوپہنچتاہے‘‘۔ (شرح النووی علی مسلم: ج۱، ص۶۰؛ بحوالہ صحیح ریاض الصالحین: ص۳۹۱)
امام شرف الدین النووی رحمہ اﷲ شرح المہذب میں فرماتے ہیں کہ: ’’قبرستان جانے والے کےلئے مستحب ہے کہ جتناہوسکے تلاوت قرآن کرےاورپھردعاکرے۔ حضرت امام شافعیؒ سے اس کی تصریح موجودہے اوران کے اصحاب کابھی اس پراتفاق ہے‘‘۔ (المجموع شرح المہذب: ج۵، یستجب للرجال زیارۃ القبور، ص۳۱۱؛ بحوالہ شرح الصدور للسیوطی: ص۵۳۰)
مسلک مالکیہ
فقہ مالکی کے مشہورامام ابن رشدالمالکی رحمہ اﷲ(المتوفی: ۵۹۲ھ)لکھتے ہیں کہ: ’’ابْنُ رُشْدٍ فِي نَوَازِلِهِ ضَابِطُهُ: إنْ قَرَأَ الرَّجُلُ وَوَهَبَ ثَوَابَ قِرَاءَتِهِ لِمَيِّتٍ جَازَ ذَلِكَ وَحَصَلَ لِلْمَيِّتِ أَجْرُهُ إنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى وَبِاَللَّهِ التَّوْفِيقُ‘‘۔ ’’میت کو ثواب پہنچانے کا طریقہ کار یہ ہے کہ کوئی شخص تلاوت قرآن کرے اوراس کا ثواب میت کو ہدیہ کردے تویہ جائز ہے اورمیت کو اجر حاصل ہوگا انشاء اللہ تعالیٰ‘‘۔ (منح الجلیل شرح مختصرالخلیل: ج۱، ص۳۴۳)
آپؒ اسی کتاب میں آگے چل کر لکھتے ہیں: ’’بِالْجُمْلَةِ فَيَنْبَغِي أَنْ لَا يُهْمَلُ أَمْرُ الْمَوْتَى مِنْ الْقِرَاءَةِ فَلَعَلَّ الْوَاقِعَ فِي ذَلِكَ هُوَ الْوُصُولُ لَهُمْ وَلَيْسَ هَذَا حُكْمًا شَرْعِيًّا، وَكَذَا التَّهْلِيلُ يَنْبَغِي أَنْ يُعْمَلَ وَيَعْتَمِدَ عَلَى فَضْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَسَعَةِ رَحْمَتِهِ‘‘۔ ’’خلاصہ کلام یہ ہے کہ مردوں کیلئے تلاوت کلام اللہ کو بالکل ترک نہ کیاجائے شاید کہ حقیقت اورواقعیت میں ان کو ثواب پہنچتاہے اوریہ کوئی شرعی حکم نہیں ہے۔ اسی طرح لاالہ الااللہ بھی کہناچاہئے اوراس سلسلے میں اللہ کے فضل اوراس کی وسیع رحمت پر بھروسہ کرناچاہئے‘‘۔(منح الجلیل شرح مختصرالخلیل: ج۱، ص۳۴۳)
مسلک حنابلہ
مشہور حنبلی عالم عبداﷲابن قدامہ مقدسی حنبلی رحمہ اﷲ(المتوفی: ۶۲۰ھ) لکھتے ہیں: ’’فَصْلٌ: وَأَيُّ قُرْبَةٍ فَعَلَهَا، وَجَعَلَ ثَوَابَهَا لِلْمَيِّتِ الْمُسْلِمِ، نَفَعَهُ ذَلِكَ، إنْ شَاءَ اللَّهُ‘‘۔ ’’اورایک مسلمان کوئی سی بھی عبادت کرے اورا سکا ثواب دوسرے فوت شدہ مسلم کو بخش دے تواس سے میت کو نفع پہنچے گا اگراللہ نے چاہا‘‘۔ ( المغنی: ج۲، كتاب الجنائز، مسألة لا بأس أن يزور الرجل المقابر، فصل أي قربة فعلها وجعل ثوابها للميت نفعه ذلك، ص۵۱۹)
یہی بات مشہور حنبلی فقیہہ شمس الدین محمد بن مفلح المقدسی رحمہ اﷲ(المتوفی: ۸۸۴ھ) نے بھی لکھی ہے: ’’(وَأَيُّ قُرْبَةٍ فَعَلَهَا) مِنْ دُعَاءٍ، وَاسْتِغْفَارٍ، وَصَلَاةٍ، وَصَوْمٍ، وَحَجٍّ، وَقِرَاءَةٍ، وَغَيْرِ ذَلِكَ (وَجَعَلَ ثَوَابَ ذَلِكَ لِلْمَيِّتِ الْمُسْلِمِ، نَفَعَهُ ذَلِكَ)‘‘۔ ’’اورکوئی بھی نیکی چاہے وہ دعا، استغفار، نماز، روزہ، حج، قرآن کی تلاوت یااورکچھ کرے اوراس کا ثواب مسلمان فوت شدہ کے نام کرے تواس کا نفع اس میت کو ہوگا‘‘۔ (المبدع فی شرح المقنع:ج۲، كتاب الجنائز، ما ينفع الميت بعد موته، ص۲۵۴)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اﷲ اوران کے شاگرد ابن القیم رحمہ اﷲ کاشمار اگرچہ فقہائے حنابلہ میں ہی ہوتاہے اورہونابھی چاہئے لیکن چونکہ بعض لوگوں نے انہیں الگ طرح کی حیثیت دے دی ہےاوربعض لوگوں کے خیال میں یہ لوگ ائمہ اربعہ سے بھی بڑے مجتہدتھےلہٰذاان کےاقوال الگ سے ذکرکردیئے جاتے ہیں تاکہ ان کے مقلدین کواگرکوئی غلط فہمی ہوتووہ بھی دورہوجائے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اﷲ(المتوفی: ۷۲۸ھ)تلاوت کلام پاک سے ایصال ثواب کے تعلق سےایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں: ’’أَمَّا الصِّيَامُ عَنْهُ وَصَلَاةُ التَّطَوُّعِ عَنْهُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ عَنْهُ فَهَذَا فِيهِ قَوْلَانِ لِلْعُلَمَاءِ: أَحَدُهُمَا: يَنْتَفِعُ بِهِ وَهُوَ مَذْهَبُ أَحْمَد وَأَبِي حَنِيفَةَ وَغَيْرِهِمَا، وَبَعْضِ أَصْحَابِ الشَّافِعِيِّ وَغَيْرِهِمْ۔ وَالثَّانِي: لَا تَصِلُ إلَيْهِ وَهُوَ الْمَشْهُورُ فِي مَذْهَبِ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ‘‘۔ ’’بہرحال میت کی جانب سے روزہ،نفل نماز اورقران کی تلاوت تواس سلسلے میں علماء کے دوقول ہیں۔ ایک قولیہ ہے کہ میت کواس سے فائدہ ہوتاہے اوریہ امام احمد امام ابوحنیفہ، دیگر اوربعض شافعیہ اوردیگر کا مسلک ہے۔دوسراقول یہ ہے کہ ان اعمال کا ثواب میت کو نہیں پہچتاہے اوریہی امام مالک اورامام شافعی کا مشہور مذہب ہے‘‘۔ (مجموع الفتاوی: ج۲۴، كتاب الجنائز، ما ينفع الميت وما لا ينفعه، مسألة القراءة للميت هل تصل إليه، ص۳۱۵)
ایک دوسرے مقام پر تلاوت کلام پاک سے میت کو ایصال ثواب کے مقبول ہونے پرجواب دیتےہوئے لکھتے ہیں: ’’لَيْسَ فِي الْآيَةِ وَلَا فِي الْحَدِيثِ أَنَّ الْمَيِّتَ لَا يَنْتَفِعُ بِدُعَاءِ الْخَلْقِ لَهُ وَبِمَا يُعْمَلُ عَنْهُ مِنْ الْبِرِّ بَلْ أَئِمَّةُ الْإِسْلَامِ مُتَّفِقُونَ عَلَى انْتِفَاعِ الْمَيِّتِ‘‘۔ ’’آیت میں یاحدیث میں اس کا کوئی ذکرنہیں ہے کہ میت کو مخلوق کی دعاسے فائدہ نہیں ہوگا۔ یااس کی جانب سے جونیک کام کئے جاتے ہیں اس کا ثواب اس کو نہیں پہنچتاہے بلکہ ائمہ اسلام اس پر متفق ہے کہ نیک کام سے میت کو فائدہ ہوتاہے‘‘۔ (مجموع الفتاوی: ج۲۴، كتاب الجنائز، ما ينفع الميت وما لا ينفعه، مسألة القراءة للميت هل تصل إليه، ص۳۰۶)
ابن تیمیہ رحمہ اﷲ اپنے موقف کوان الفاظ میں واضح کرتے ہوئےآگے لکھتے ہیں: ’’وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: {انْقَطَعَ عَمَلُهُ إلَّا مِنْ ثَلَاثٍ..} لَمْ يَقُلْ: إنَّهُ لَمْ يَنْتَفِعْ بِعَمَلِ غَيْرِهِ۔ فَإِذَا دَعَا لَهُ وَلَدُهُ كَانَ هَذَا مِنْ عَمَلِهِ الَّذِي لَمْ يَنْقَطِعْ وَإِذَا دَعَا لَهُ غَيْرُهُ لَمْ يَكُنْ مِنْ عَمَلِهِ لَكِنَّهُ يَنْتَفِعُ بِهِ‘‘۔ ’’خلاصہ کلام یہ ہے کہ صحیح بات یہ ہے کہ انسان اپنے عمال خیر کا ثواب میت کواللہ سے دعاکرکے میت کو بخش سکتاہے اورمیت کواس سے نفع ہوگااس کی قوی اورپوری امید ہے۔ بقیہ تمام معاملات تو اللہ کے ہی ہاتھ میں ہیں۔ چاہے تووہ کسی بھی عمل کوقبول کرلے اورچاہے توکسی کو رد کردے‘‘۔ (مجموع الفتاوی: ج۲۴، كتاب الجنائز، ما ينفع الميت وما لا ينفعه، مسألة القراءة للميت هل تصل إليه، ص۳۱۲)
علامہ ابن القیم رحمہ (المتوفی: ۷۵۱ھ)بھی اپنے استاد کی تائید میں لکھتے ہیں: ’’وسر المسألة: أن الثواب ملك العامل، فإذا تبرع به وأهداه إلى أخيه المسلم أوصله الله إليه فما الذي خص من هذا ثواب قراءة القرآن وحجر على العبد أن يوصله إلى أخيه وهذا عمل سائر الناس حتى المنكرين في سائر الإعصار والأمصار من غير نكير من العلماء‘‘۔ ’’اس مسئلہ کا راز یہ ہے کہ ثواب عمل کرنے والے کی ملکیت ہے۔ لہٰذا جب وہ اس کو اپنے مسلمان بھائی کے لیے تبرع اور ہدیہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ وہ ثواب اس کو پہنچا دیتے ہیں۔ تو وہ کون سی چیز ہے کہ قرآن مجید کی قراءت کے ثواب کو اس اصول و قاعدہ سے خاص کیا جائے اور مومن بندہ پر اس چیز کی رکاوٹ ڈالی جائے کہ وہ اس کے ذریعے سے اپنے مسلمان بھائی کو ایصال ثواب نہیں کر سکتا۔ اس پر تو تمام لوگوں کا حتیٰ کہ خود منکرین کا بھی ہر زمانہ، علاقہ اور شہر میں علماء کی نکیر کے بغیر عمل ہوتا رہا ہے‘‘۔ (جامع الفقہ: ج۲، کتاب الجنائز، ص۵۴۸)
علماءِاہلحدیث (غیرمقلدین)
۱۔ غیرمقلدین حضرات کے یہاں ایک بڑانام قاضی شوکانی رحمہ اﷲ(المتوفی: ۱۲۵۰ھ، ۱۸۳۹ء)کاہے۔ امام شوکانی رحمہ اﷲاپنی کتاب نیل الاوطار میں لکھتے ہیں: ’’وَقَدْ اُخْتُلِفَ فِي غَيْرِ الصَّدَقَةِ مِنْ أَعْمَالِ الْبِرِّ هَلْ يَصِلُ إلَى الْمَيِّتِ؟ فَذَهَبَتْ الْمُعْتَزِلَةُ إلَى أَنَّهُ لَا يَصِلُ إلَيْهِ شَيْءٌ وَاسْتَدَلُّوا بِعُمُومِ الْآيَةِ وَقَالَ فِي شَرْحِ الْكَنْزِ: إنَّ لِلْإِنْسَانِ أَنْ يَجْعَلَ ثَوَابَ عَمَلِهِ لِغَيْرِهِ صَلَاةً كَانَ أَوْ صَوْمًا أَوْ حَجًّا أَوْ صَدَقَةً أَوْ قِرَاءَةَ قُرْآنٍ أَوْ غَيْرَ ذَلِكَ مِنْ جَمِيعِ أَنْوَاعِ الْبِرِّ، وَيَصِلُ ذَلِكَ إلَى الْمَيِّتِ وَيَنْفَعُهُ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ انْتَهَى وَالْمَشْهُورُ مِنْ مَذْهَبِ الشَّافِعِيِّ وَجَمَاعَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ أَنَّهُ لَا يَصِلُ إلَى الْمَيِّتِ ثَوَابُ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَذَهَبَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَجَمَاعَةٌ مِنْ الْعُلَمَاءِ وَجَمَاعَةٌ مِنْ أَصْحَابِ الشَّافِعِيِّ إلَى أَنَّهُ يَصِلُ، كَذَا ذَكَرَهُ النَّوَوِيُّ فِي الْأَذْكَارِ وَفِي شَرْحِ الْمِنْهَاجِ لِابْنِ النَّحْوِيِّ: لَا يَصِلُ إلَى الْمَيِّتِ عِنْدَنَا ثَوَابُ الْقِرَاءَةِ عَلَى الْمَشْهُورِ، وَالْمُخْتَارُ الْوُصُولُ إذَا سَأَلَ اللَّهَ إيصَالَ ثَوَابِ قِرَاءَتِهِ، وَيَنْبَغِي الْجَزْمُ بِهِ؛ لِأَنَّهُ دُعَاءٌ، فَإِذَا جَازَ الدُّعَاءُ لِلْمَيِّتِ بِمَا لَيْسَ لَلدَّاعِي، فَلَأَنْ يَجُوزَ بِمَا هُوَ لَهُ أَوْلَى‘‘۔ ’’صدقہ کے علاوہ دیگر اعمال کے بارے میں اختلاف ہے کہ اس کا ثواب میت کو پہنچتاہے یانہیں معتزلہ کاخیال ہے کہ میت کو کسی قسم کا ثواب نہیں پہنچتاہے اوراس سلسلے میں انہوں نے آیت کے عموم سے استدلال کیاہے (لیس للانسان الاماسعی)اورکنزکی شرح میں مصنف نے کہاہے انسان کو اس بات کااختیار ہے کہ وہ اپنے عمل کا ثواب دوسروں کو بخش دے چاہے وہ نماز ہویاروزہ یاحض یاصدقہ یاتلاوت قران یااس کے علاوہ نیکی کے دیگر اقسام وانواع۔ ان تمام کاثواب میت کو پہنچتاہے اوراس کو فائدہ ہوتاہے اہل سنت کا مذہب یہی ہے۔ امام شافعیؒ اوران کے اصحاب کا مشہور مسلک یہ ہے کہ میت کو تلاوت قرآن کا ثواب نہیں پہنچتاہے۔ جب کہ امام احمد بن حنبلؒ اورعلماءکی ایک جماعت اورامام شافعیؒ کے اصحاب کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ میت کو تلاوت قرآن کا ثواب پہنچتاہے۔ امام نوویؒ نے اذکار میں ایساہی ذکر کیاہے اورمنہاج کی شرح میں ابن نحویؒ نے لکھاہے کہ مشہور را ئے کے مطابق ہمارے نزدیک میت کو تلاوت قرآن کا ثواب نہیں پہنچتاہے لیکن مختار مسلک یہ ہے کہ تلاوت قرآن کا ثواب پہنچتاہے جب وہ اللہ سے سوال کرے کہ وہ اس عمل کا ثواب فلانے کو پہنچادے۔ (میت کو ثواب پہنچنے کے سلسلے میں) اعتقاد جازم ہوناچاہئے۔ کیونکہ وہ دعاہے۔ توجب میت کیلئے ایسی دعاکی جاسکتی ہے جس میں دعاکرنے والے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے توایسی دعاکرنابدرجہ اولیٰ مناسب ہوگاجس میں دعاکرنے والے کے عمل کادخل ہے۔ (نیل الاوطار: ج۴، بَابُ وُصُولِ ثَوَابِ الْقُرَبِ الْمُهْدَاةِ إلَى الْمَوْتَى، ص۱۰۵)
امام محمد بن علی شوکانی رحمہ اﷲیہ بھی لکھتے ہیں کہ: ’’الحديث: (اقرؤوا على موتاكم يس) وقد تقدم وبالدعاء من الولد لحديث: (أو ولد صالح يدعو له) ومن غيره لحديث: (استغفروا لأخيكم وسلوا له التثبيت فإنه الآن يسئل) وقد تقدم۔ ولحديث: (فضل الدعاء للأخ بظهر الغيب) ولقوله تعالى {والذين جاؤوا من بعدهم يقولون ربنا اغفر لنا ولإخواننا الذين سبقونا بالإيمان} ولما ثبت من الدعاء للميت عند الزيارة كحديث بريدة عند مسلم وأحمد وابن ماجه قال: (كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يعلمهم إذا خرجوا إلى المقابر أن يقولوا قائلهم السلام عليكم أهل الديار من المؤمنين والمسلمين وإنا إن شاء الله بكم لاحقون نسأل الله لنا ولكم العافية) وبجميع ما يفعله الولد لوالديه من أعمال البر لحديث: (ولد الإنسان من سعيه)‘‘۔ ’’سورۃ یٰسٓ کا ثواب بھی میت کو ملتا ہے اولاد کی طرف سے بھی اور غیر اولاد کی طرف سے بھی، اس واسطے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ تم اپنے مردوں پر سورۃ یٰسٓ پڑھا کرو، اور دعا کا نفع بھی میت کو پہنچتا ہے اولاد کرےیا کوئی اور، یہ بھی حدیث سے ثابت ہے حضور اکرمﷺنے فرمایا اپنے بھائی کےلیے مغفرت طلب کر و اور ثبات قدمی کی دعا کرو، اور باری تعالیٰ کے اس قول کی بنا پر (والذین جاؤ وامن بعد ھم) اور جو کارِ خیر اپنے والدین کےلیے کرے سب کا ثواب والدین کو پہنچتا ہے۔ اس واسطے کہ حدیث میں آیا ہے کہ انسان کی اولاد اس کی سعی (محنت) سے ہے۔ (نیل الاوطار: ج۴، بَابُ وُصُولِ ثَوَابِ الْقُرَبِ الْمُهْدَاةِ إلَى الْمَوْتَى، ص۱۰۶)
۲۔ مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امر تسری رحمہ اﷲ لکھتے ہیں: ’’ھو الموفق: متاخرین علمائے اہل حدیث میں سے محمد بن اسماعیل نے سبل السلام میں مسلک حنفیہ کو ارجح بتایا ہے یعنی یہ کہا ہے کہ قرأت ِ قرآن اور تمام عبادات ِ بدنیہ کا ثواب میت کو پہنچنا ازروئے دلیل کے زیادہ قوی ہے اور علامہ شوکانی نے بھی نیل الاوطارمیں اسی کو حق کہا ہے مگر اولاد کے ساتھ خاص کیا یعنی یہ کہا ہے کہ اولاد اپنے والدین کےلیے قرأت ِقرآن یا کسی عبادت بد نی کا ثواب پہنچانا چاہے تو جائز ہے کیونکہ اولاد کا تمام عمل خیر مالی ہو یا بدنی او ر بدنی میں قرات قرآن ہو یا نماز یا روزہ یا کچھ ا ور سب والدین کو پہنچتا ہے‘‘۔ (فتاویٰ ثنائیہ: ج۱، ص۵۳۳)
مولانا امر تسری رحمہ اﷲاس کے آخر میں اپنی تحقیق پیش یوں پیش کرتے ہیں: ’’قرأت ِقرآن سے ایصال ثواب کے متعلق بعد تحقیق یہی فتویٰ ہے کہ اگر کوئی شخص قرآن مجید کی تلاوت کر کے ثواب میت کو بخشے تو اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے بشرطیکہ پڑھنے والا خود بغرضِ ثواب بغیر کسی رسم ورواج کی پابندی کے پڑھے‘‘۔ (فتاویٰ ثنائیہ: ج۱، ص۵۳۶)
۳۔ علامہ ابن النحوی رحمہ اﷲ شرح المنہاج میں لکھتے ہیں: ’’ہمارے نزدیک مشہور قول پر قرأت قرآن کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا اور مختار یہ ہے کہ پہنچتا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ سے قرأت ِقرآن کے ثواب پہنچنے کا سوال کرے، (یعنی یہ کہے یا اللہ اس قرأت کا ثواب فلاں میت کو تو پہنچا دے) اور اس طرح پر قرأت کا ثواب پہنچنے کا جزم (یقین) کرنا لائق ہے اس واسطے کو یہ دعا ہے پس جب کہ میت کےلیے ایسی چیز کی دعا کرنا جائز ہے جو داعی کے اختیار میں نہیں ہے تو اس کےلیے ایسی چیز کی دعا کرنا بدرجہ اولیٰ جائز ہوگا جو آدمی کے اختیار میں ہے اوریہ بات ظاہر ہے دعا کانفع میت کو بالاتفاق پہنچتا ہے اور زندہ کو بھی پہنچتاہے، نزدیک ہو خواہ دور اور اس بارے میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں بلکہ افضل یہ ہے کہ آدمی اپنے بھائی کےلیے غائبانہ دعا کرے‘‘۔ (فتاویٰ نذیریہ: ج۱، ص۷۲۲؛ فتاویٰ ثنائیہ: ج۱، ص۵۳۵)
مندرجہ بالاتفصیلی دلائل سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جمہور علماء کی رائے اس بارے میں کیاہےامام ابوحنیفہؒ اورامام احمد بن حنبلؒ اوران کے اصحاب کے موافق ہے۔ امام شافعیؒ اورامام مالک عدم جواز کے قائل ہیں لیکن امام شافعیؒ سے ایک قول جواز کابھی ملتاہےاور ان کے مسلک سے وابستہ علماء جواز کے قائل ہیں۔ اسی طرح ظاہریہ بھی جواز کے قائل ہیں۔ ظاہریہ سے گزرکر غیرمقلدین حضرات کے یہاں وقعت رکھنے والے، امام ابن تیمیہؒ،ابن القیمؒ اورامام شوکانیؒ بھی جواز کے قائل ہیں۔ فرقہ غیرمقلدین (اہلحدیث) کے وہ علماء جن پر ان کے مذہب کی بنیاد ہے جیسےقاضی شوکانیؒ، ابن النحویؒ، ثناء اللہ امر تسریؒ وغیرہ سب اس مسئلہ پر متفق ہیں کہ ایصال ثواب بالقرآن جائز اور درست ہے اور اس کا انکار کرنا شریعت کے مقصد کے خلاف ہے۔